تاریخ انسانیت میں ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ سے بڑھ کر کوئی سچا،امین،نیک وصالح ،افضل واعلیٰ،رحیم وکریم نہیں آیا ہے اور آپ ﷺ کا مقام ومرتبہ بھی بعثت سے قبل مشرکین مکہ ک
ے ہاں بلند وبالا تھا ہر دلعزیز تھے امین اور صادق کے نام سے پکارا جاتا تھا لیکن جب آپ ﷺ نے لوگوں کو توحید کی طرف دعوت اور شرک سے لوگوں کو بچانے کا مقدس فریضہ ادا کرنا شروع کیا تو اکثر مشرکین مکہ آپ ﷺ کے دشمن بن گئے اور آپ ﷺ کو طرح طرح کی اذیتیں دیناشروع کر دیں اور والعیاذ باللہ انتہائی برے القاب (پاگل، کاہن وغیرہ) سے پکارے گئے یہاں تک کہ مشرکین نےآ پﷺ کے قتل کے ناپاک اورمذموم عزائم اور ارادے کیئے تھے جس کی وجہ سے آپ ﷺ کو مکہ حیسا افضل ترین شہر چھوڑنا پڑا۔ اس کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل وکرم اور توفیق ومدد سے آپ ﷺ کو اپنے مشن میں کامیابی عطا فرمائی اورکفر وشرک کی ظلمات میں ڈوبی ہوئی ملت کو توحید اور اسلام کے نور سے منور فرمایا۔

پھر اس طرح وقت گزرتا گیا اور رفتہ رفتہ جزیرۂ عرب سمیت دنیا کا اکثر حصہ دوبارہ شرک کی دلدل میں پھنستا گیا، جہالت کا اندھیرا پھیلتا گیا اور لوگوں نے شرک وبدعت اور ضلالت وگمراہی کو عین اسلام سمجھنا شروع کر دیا اتنے میں اللہ تعالیٰ نے تجدید دین حق کیلئے ایک مجد کوجزیرۂ عرب کے عیینہ نامی گاؤں سے پیدا فرمایا جن کا نام نامی محمد رکھا گیا انہوں نے اپنے نام کی لاج رکھی اور اس جزیرہ نمائے عرب میں جلوہ آرا ہونے والے اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی سچی پیروی اوراتباع کی اور لوگوں کو جہالت اور شرک کی دلدل سے نکالنے کیلئے انتھک کوشش کی اللہ تعالیٰ نے بڑا کرم فرمایا اور وہ اپنے عزم مصمم میں کامیاب ہوئے ۔

آپ رحمہ اللہ نے قرآن وسنت کے دلائل کے ذریعے شرک وبدعات کا پردہ چاک کیا اور حقیقی دینی تعلیمات واضح کر دیں اور اصلاحی کتابیں لکھیں جن کی روشنی میں دین حق کی اصل تعلیمات اجاگر ہوکر سامنے آئیں اور شرک وبدعت کے غبارے سے ہوا نکلتی چلی گئی ، اللہ تعالیٰ نے آپ رحمہ اللہ کو اپنی اس بابرکت دعوت وجہاد کی بدولت ہر میدان میں فتح عطا فرمائی اور آپ رحمہ اللہ کی بابرکت دعوت کی روشنی وخوشبو کرۂ ارض پر بڑی تیزی سے پھیلتی گئی تو یہ صورت حال دیکھ کر بہت سے حلقے چونک پڑے۔

انہیں اپنے مفادات خطرے میں نظر آنے لگے خصوصاً شرک وبدعات کے ٹھیکیداروں اور توحید کے دشمنوں کی نیندیں حرام ہوگئی اور ساتھ ساتھ دیگر عالم کفر کی سامراجی طاقتیں بھی خوفزدہ ہوگئیں یہاں تک کہ کافروں ،مشرکوں اور توحید کے دشمنوں نے اپنے مذموم و باطل عقائد کی بقاء کے لیے مجدد اسلام شیخ الاسلام امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ پر الزامات اور اتہامات کی بارشیں شروع کر دی اور نبی کریم ﷺ کی بابرکت احادیث کی غلط تشریح وتأویل کرنا شروع کردی ابھی تک اس غلط مفہوم و غلط تشریح کو اخبارات،تالیفات اورمیڈیا کے ذریعے عام مسلمانوں کے صحیح عقیدے کو بگاڑنے میں ناکام اور لاحاصل ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ان الزامات میں سے سب سے بڑا الزام نبی ﷺ کی حدیث نجد ہےجس کو آپ رحمہ اللہ کی دعوت پر محمول کرنے کی مجرمانہ کوشش کی ۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَفِي نَجْدِنَا؟ قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَفِي نَجْدِنَا؟ فَأَظُنُّهُ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ: «هُنَاكَ الزَّلاَزِلُ وَالفِتَنُ، وَبِهَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ(رواہ احمد ،بخاری،ترمذی)

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یا اللہ ہمارے شام میں برکت عطا فرمایا اللہ ہمارے لیے ہمارے یمن میں برکت عطا فرما لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد میں آپ نے فرمایا: ’’یا اللہ ہمارے شام میں برکت عطا فرمایا اللہ ہمارے یمن میں برکت عطا فرما لوگوں نے کہا یا رسول اللہ اور ہمارے نجد میں میرا خیال ہے کہ شاید آپ نے تیسری بار فرمایا کہ یہاں زلزلے ہوں گے اور فتنے ہوں اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا۔

اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بہت سے جاہلوں اور علماء سوء نے لوگوںکو باور کرانے کی کوشش کی کہ اس نجد سے مراد وہ نجد ہے جہاں شیخ الاسلام مجدد امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ پیدا ہوئےان الزامات کے ذریعےدشمنوں نےسچ سے عاری دعوے کو بے بنیاد پروپیکنڈے کے ذریعے درست ثابت کرنے کی کوشش کی جو کہ بری طرح تمام میدانوں خصوصاً علمی میدان میں ناکام ہوئے اور علماء اہل السنۃ والجماعۃ نے ان اہل باطل اورعلماء سوء پر ایسی علمی ضرب کاری لگائی کہ وہ مبہوت ہوکر رہ گئے ۔ وللہ الحمد والمنۃ

اب میں آپ قارئین کرام کے سامنے علماء سوء اور دشمنان توحید کے اس بے بنیاد الزام اور شبہ کو احادیث رسول ﷺ اور علماء حق علماء اھل السنۃ والجماعۃ کے اقوال کی روشنی میں رد کرنا چاہتا ہوں یادرکھیں کہ کتاب اللہ یا رسول اللہ ﷺکی حدیث پاک کی تشریح میں اختلاف ہوجائے تو اس اختلاف کے حل کیلئے قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرنا لازمی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے ۔

فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ ([النساء: 59)

’’ اگر تم آپس میں کسی چیز کے بارے میں اختلاف کریں تو اس کو حل کرنے کے لیے اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف لوٹا دو۔‘‘

اب ہم دلائل کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ مذکورہ حدیث میں نجد سے مراد نجد عراق ہے یا نجد حجاز

حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، يَقُولُ: يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ مَا أَسْأَلَكُمْ عَنِ الصَّغِيرَةِ، وَأَرْكَبَكُمْ لِلْكَبِيرَةِ! سَمِعْتُ أَبِي عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ الْفِتْنَةَ تَجِيءُ مِنْ هَاهُنَا» وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ «مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنَا الشَّيْطَانِ» وَأَنْتُمْ يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ(كتاب الفتن، باب الفتنة من المشرق من حيث يطلع قرنا الشيطان، حديث نمبر : 7297)

ابن فضیل سے روایت ہے وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں ان کے باپ کہتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبد اللہ سے کہتے ہوئے سنا ہے ۔ اے عراق والو! تمہارا کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوتے ہوئے صغیرہ گناہ کے بارے میں سوال کرنا کتنا ہی تعجب خیز بات ہے میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے فرماتے ہوئے سنا ہے یقیناً فتنہ یہاں سے آئے گا اور آپ ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا جہاں سے شیطان کے دونوں سینگ طلوع ہونگے اور تم لوگ بعض بعض کی گردنیں اڑا دو گے۔

۲۔ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُشِيرُ بِيَدِهِ يَؤُمُّ الْعِرَاقَ: «هَا، إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، هَا، إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، – ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ»(مسنداحمد: 6302)

شیخ البانی نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے دیکھیے فضائل الشام ودمشق ، ص: 24

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:دَعَا نَبِيُّ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَقَالَ: “اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مَكَّتِنَا وَمَدِينَتِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا وَيَمَنِنَا “، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَعِرَاقِنَا؟ فَقَالَ: ” إِنَّ بِهَا قَرْنَ الشَّيْطَانِ، وَتَهَيُّجَ الْفِتَنِ، وَإِنَّ الْجَفَاءَ بِالْمَشْرِقِ.

قال الہیثمی فی المجمع، رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

يعني سيدنا عبد الله بن عباس رضي الله عنهما سے روایت ہے انہوں نے کہا اللہ کے رسول ﷺ نے دعا فرمائی اے اللہ ہمارے لیے برکت عطا فرما ہمارے صاع اور مدمیں(صاع اور مد دونوں ناپ کی چیز ہے) برکت عطا فرما اور ہمارے لیے ہمارے شام اور یمن میں برکت عطا فرما تو قوم میں سے ایک شخص نے کہا اے اللہ کے نبی ہمارے عراق کے لیے بھی برکت کی دعا فرما ئیںتو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہاں (عراق) میں شیطان کا سنگ ہے اور فتنہ بھڑک اٹھے گا اور مشرق والوں میں سنگ دلی ہے۔

۴۔عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا فَقَالَ: اللَّهمّ بَارِكْ لَنَا فِي مَكَّتِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا، اللَّهمّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا. فَقَالَ الرَّجُلُ: وَفِي عِرَاقِنَا. فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَرَدَّدَ هَذَا ثَلَاثًا كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ الرَّجُلُ وَفِي عِرَاقِنَا فَيُعْرِضُ عَنْهُ، فَقَالَ: بِهَا الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ وَمِنْهَا يَطْلُعُ قرن الشيطان

(ديكھیے: المعرفۃ والتاریخ للإمام یعقوب بن سفیان الفسوی 2/746۔ ابو نعیم الاصفھانی فی الحلیۃ 6/133)

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے وہ اپنے والد عبداللہ سے روایت بیان کرتے ہیںکہ اللہ کے نبی ﷺ نے دعا فرمائی: اےاللہ ہمارے لیے ہمارے مکہ میں برکت عطا فرمااور ہمارے لیے ہمارےمدینہ میں برکت عطا فرمااور ہمارےلیےہمارے شام میں برکت عطافرمااور ہمارے لیےہمارے یمن میں برکت عطا فرمااور ہمارے لیے ہمارے صاع میں برکت عطافرمااور ہمارے لیے ہمارے مُد میں برکت عطافرماتو ایک شخص نے کہا ہمارے عراق میں برکت عطا فرماتو آپ ﷺ نے اس سے منہ پھیر لیا اور آپ ﷺ نے تین بار مکہ ، مدینہ، شام، یمن، صاع، اور مُد میں برکت کی دعا کی اور ہر باراس آدمی نے اپنےعراق کے لیے برکت کی دعا کا مطالبہ کیااور ہر بار آپﷺ نے اس سے منہ پھیر لیا اور فرمایاکہ وہاں (عراق میں) زلزلے اور فتنے ہونگے اور وہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا‘‘

اہل علم کے اقوال کہ نجد سے مراد نجد عراق ہی ہے ۔

۱۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے امام خطابی رحمہ اللہ متوفی (388ھ) کا قول نقل کیا ہے۔

نَجْدٌ مِنْ جِهَةِ الْمَشْرِقِ وَمَنْ كَانَ بِالْمَدِينَةِ كَانَ نَجْدُهُ بَادِيَةَ الْعِرَاقِ وَنَوَاحِيهَا وَهِيَ مَشْرِقُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ (فتح الباري 13/47- عمدة القاري للعيني 24/200)

یعنی نجد مدینہ منورہ کے مشرق کی جانب واقع ہے اور اہل مدینہ کا نجد سے مراد عراق کے دیہات اور اس کے اطراف ہیں اورعراق مدینہ کے مشرق میں واقع ہے۔

۲۔ امام ابن حجر نبی ﷺ کی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

رَأْسُ الْكُفْرِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ فِي رِوَايَةِ الْكَشْمِيهَنِيِّ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَهُوَ بِكَسْرِ الْقَافِ وَفَتْحِ الْمُوَحَّدَةِ أَيْ مِنْ جِهَتِهِ وَفِي ذَلِكَ إِشَارَةٌ إِلَى شِدَّةِ كُفْرِ الْمَجُوسِ لِأَنَّ مَمْلَكَةَ الْفُرْسِ وَمَنْ أَطَاعَهُمْ مِنَ الْعَرَبِ كَانَتْ مِنْ جِهَةِ الْمَشْرِقِ بِالنِّسْبَةِ إِلَى الْمَدِينَةِ

یعنی کفر کا سراور اصل مشرق کی طرف ہے اس حدیث مبارکہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مجوسیت کا کفر سخت ترین کفر ہے کیونکہ فارس کی مملکت اور وہ عرب جنہوں نے فارس کی اطاعت کی وہ مدینہ منورہ کے حساب سے مشرق میںاہے۔ (فتح الباري )

۳۔ امام ابن حجر امام کرمانی رحمہ اللہ کاقول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وَمَنْ كَانَ بِالْمَدِينَةِ كَانَ نَجْدُهُ بَادِيَةَ الْعِرَاقِ وَهِيَ مَشْرِقُ اَهْلِهَا (فتح الباري 13/47)

یعنی اہل مدینہ کا نجد عراق کے دیہات ہیں اور وہ مدینہ منورہ کے مشرقی جانب ہے۔

۴۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

بعض المبتدعة المحاربين للسنة والمنحرفين عن التوحيد يطعنون في الإمام محمد بن عبد الوهاب مجدد دعوة التوحيد في الجزيرة العربية، ويحملون الحديث عليه باعتباره من بلاد (نجد) المعروفة اليوم بهذا الاسم، وجهلوا أو تجاهلوا أنها ليست هي المقصودة بهذا الحديث، وإنما هي (العراق) كما دل عليه أكثر طرق الحديث، وبذلك قال العلماء قديما كالإمام الخطابي وابن حجر العسقلاني وغيرهم.(سلسلة الاحاديث الصحيحة 5/305)

یعنی بعض بدعتی اور سنت کے مخالف اور توحید سے دور لوگ(یعنی توحید کے دشمن لوگ) شیخ الاسلام مجدد دعوت توحید امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ پرطعن وتشنیع کرتے ہیں اور وہ حدیث(جس میں نجد کی مذمت آئی ہے) کو امام محمد پر اس اعتبار سے لاگو کرتے ہیں کیونکہ آپ آج کل کے اسی نام کے معروف نجد سے تعلق رکھتے ہیں یہ لوگ یا حدیث کے صحیح مفہوم سے جاہل ہیںیا تجاہل عارفانہ کیے ہوئے ہیں، حالانکہ حدیث میں لفظ نجد سے مراد نجد ریاض نہیں بلکہ لفظ نجد سےمراد صرف اور صرف عراق مقصود ہے جس پر بہت احادیث کے طرق دلالت کرتے ہیں اور یہی قول پرانےعلماء کا ہے جیساکہ امام خطابی اور امام ابن حجر العسقلانی رحمہمااللہ وغیرھم کا موقف ہے۔

مذکورہ احادیث صحیحہ اور صریحہ اور اقوال علماء ومحدیثین سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حدیث پاک میں وارد شدہ لفظ نجد سے مراد نجد عراق ہی ہے اور اس سے مراد نجد ریاض نہیں اور اس سے یہ بات قطعاً لازم نہیں آتی کہ عراق کے رہنے والے لوگ بُرےہیںکیونکہ عراق میں بڑے بڑے ائمہ کرام ومحدثین عظام اور فقہاء اسلام بھی گزرے ہیں بلکہ وہاں رہنے والے لوگ فتنوں میں اپنا ایمان بچاتےہوئے صبر کریں تو ان کےلیے بڑا اجر و ثواب ہے ، ان شاء اللہ ۔

او ر جن فرق باطلہ نے مذکورہ حدیث نجد کو شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کو مطعون ٹھہرانےکی احمقانہ کوشش کی ہے وہ حقیقی دلائل اور براھین قاطع سے واضح ہوگئی ہے اب اگر کسی کلمہ گو کے دل میں ایمان کی رمق باقی ہے تو اسے فوراً اپنے غلط نظریے کی اصلاح کرنی چاہیے اور لوگوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ امام محمدبن عبدالوہاب رحمہ اللہ کا عقیدہ اور آپ رحمہ اللہ کی دعوت خالصتاً کتاب وسنت پر مبنی ہے اور جن لوگوں نے آپ رحمہ اللہ کی دعوت کو وھابی کہہ کر مطعون کرنے کی ناپاک کوشش کی انہیں یہ معلوم ہونا چاہیےکہ آپ رحمہ اللہ کا نام تو محمد ہے اس کے باوجود آپ کے والد کے نام کی طرف نسبت کر کے وھابی کیوں کہا گیا ہے؟ حالانکہ آپ کے نام کی نسبت سے آپ کی بابر کت دعوت کو قبول کرنے والوں کو محمدی کہنا چاہیےنہ کہ وھابی۔

لیکن یہ یہود ونصاریٰ اور ان کے حواریوں کی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت لفظ محمدی چھوڑ کر وھابی رکھا گیا وہ سازش یہ ہےکہ جب انہوں نے دیکھا کہ امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت بڑی کامیابی اور تیزی کےساتھ مسلمانوں میں پھیل رہی ہے تو یہود ونصاریٰ اور دشمنان توحید وسنت نے ’’وھابیت ‘‘ کے نام سے مشہور کردیا کیونکہ وھابی نام کا ایک خارجی فرقہ تھا جو دوسری صدی ہجری میںوجود میں آیا ، اس فرقے کے بانی کا نام عبدالوہاب بن عبدالرحمٰن بن رستم تھا اور اس نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کی اور اس نے اسلامی احکام معطل کردیے تھے حج منسوخ کردیا تھا اور یہ 197ھ میں شمالی افریقہ کے مشہور شہر تاہرت میں مرگیا اس خارجی وھابی تحریک کے بارے میں اس زمانے یا اس کے بعد آنےوالے مغرب اقصی اور اندلس کے بعض علماء نے کفر کے فتوے لگائے تھے۔

قارئین کرام!اب آپ خود عدل وانصاف سے فیصلہ کریں کہ ایک شخص کانام عبدالوہاب بن عبدالرحمٰن بن رستم ہےاور وہ شرعی احکام کو معطل کرتاہے اورحج منسوخ کرتا ہے اور وہ خود خوارج کے کفریہ عقائد کا حامل ہے ، جبکہ امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے نہ وہ شرعی احکام کو معطل کیا اور نہ حج کو منسوخ سمجھتے تھے نہ وہ خوارج کا عقیدہ رکھتے تھے۔

الغرض امام محمد رحمہ اللہ کا عبدالوہاب بن عبدالرحمٰن بن رستم سے نہ نام ملتا ہے اور نہ کام ، نہ زمان، اور نہ ہی مکان ملتا ہے ، اس کےباوجود بھی امام محمدبن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی خالص اور بابر کت دعوت توحید کو وھابی کہنا ایک بڑا الزام اور جھوٹا پروپگنڈہ ہے، جیسا کہ اس سے پہلے امام الانبیاء ولمرسلین رحمۃ للعالمین الصادق الامین جناب محمد ﷺ کے خلاف بے بنیاد الزامات اور پروپگنڈے کئے گئے تھے اور انتہائی برے القاب (مجنون ساحراور کاہن) سے پکارے گئے۔ والعیاذ باللہ

اور آج کل ایک خاص ملک اور اس کے پیروکار ایک خاص فرقہ سعودی عرب کے خلاف دن رات سازشیں کرنےمیںمصروف ہےاور صرف اور صرف سعودی عرب کے اندر صحیح اسلامی عقیدہ پائے جانے کی وجہ ہے جس کی احیاء جزیرہ عرب میں خصوصاً اور پوری دنیا میں عموماً امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے اللہ کی خصوصی مدد وتوفیق سےکی ہے۔

اور تمام مسلمانوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس قرقے کا یا اس ملک کا سعودی عرب اور امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت توحید سے بغض وعداوت رکھنا اس بات کی دلیل ہےکہ سعودی عرب کا نظام اورامام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت بر حق ہے ، اور اب تک اللہ مالک الملک نے امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی بابرکت دعوت کی حفاظت اوراس کی نشر واشاعت کی وجہ سے سعودی قیادت کو حرمین شریفین کی قیادت ، سیادت ، خطابت، امامت، وخدمت کا شرف حاصل ہے اور مسلمانوں کو یہ بھی اچھی طرح جان لینا چاہیےکہ اس فرقہ اور ایران نے آج تک ابو بکر ، عمر ، عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی حکومت وخلافت کو کبھی بھی برحق تسلیم نہیں کیا نیز بنی امیہ کے تمام دور خلافت کو ، اسی طرح بنی عباس کے تمام دور خلافت اور عثمانیہ کے تمام دور خلافت کو صحیح نہیں مانا ہےاور کبھی درست تسلیم نہیں کیا تو یہ فرقہ سعودی اسلامی مملکت کو کہاں مانےگا؟؟

لہٰذا مسلمان اپنی آنکھیں کھولیں اور ہر قسم کی سازشوں سےہوشیار رہیں، اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو صحیح عقیدہ اور صحیح منہج عطافرمائے اور ہر قسم کی سازشوں اور فتنوں سے محفوظ رکھے اور آپس میں اتفاق و اتحاد پیار ومحبت سے رہنےکی توفیق عطافرمائے ،اور اسلامی مملکتوں کو عموماً اور سعودی عرب کو خصوصاً ہر قسم کے فتنوں، اور برائیوں سے محفوظ رکھے اور تمام اسلامی حکومتوں کو اسلام اور مسلمانوں کی صحیح معنوں میں قیادت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین یارب العالمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے