سعودی عرب میں فوج بھیجی جائے یا نہیں اس بارے میں قومی اسمبلی اور سینٹ کا مشترکہ اجلاس 6 اپریل سے شروع ہوا جو 10 دس اپریل تک پانچ روز جاری رہا۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یمن کی صورتحال پر مشترکہ قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔قرار دار وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پیش کی جس میں کہاگیا ہے کہ پاکستان یمن بحران میں غیر جانبدار ہے،اقوام متحدہ اور اوآئی سی کے ذریعے جنگ بندی کرائی جائے۔ سعودی عرب اور حرمین شریفین کی سلامتی کو خطرہ ہوا تو پاکستان ساتھ کھڑا ہوگا یہ مشترکہ قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اس بنیاد پر کہ یہ فیصلہ صرف حکومت کا نہیں ریاست اور قوم کا ہے اور یہی بات قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی کہی کہ مشترکہ اجلاس میں جو پالیسی بنے گی وہ حکومتی نہیں ریاست کی ہوگی۔

اس قرار داد میں سوا چند افراد کے باقی سب نے اپنے دل کی بھڑاس اور اندر میں چھپے نفاق اور آستین کے سانپوں نے خوب زہر اگلا۔

یقیناً ہر مشکل گھڑی میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے والے سعودی عرب کو ہماری پارلیمنٹ نے غیر جانبداری کا ایک ایسا تحفہ دیا کہ سعودی بھائی بھی تلملااٹھے۔

طرف تماشہ یہ کہ پوری قرار داد میں حوثی قبائل اور ان کے غیر قانونی اقدامات کا ذکر کرنے کی بجائے غیر جانبداری اور ثالثی پر زور دیاگیاتھا۔ ایک طرف یہ کہہ رہے ہیں کہ سعودی عرب اورحرمین شریفین کی سلامتی کو خطرہ ہوا تو پاکستان ساتھ کھڑا ہوگا اب جب انہوں نے ساتھ مانگ لیا کیونکہ باغی لوگ سعودی عرب کی سرحد پر تجاوز کر رہے ہیں تو ہم نے غیرجانبداری اور ثالثی کی قرار داد پیش کر دی تو یہ قرار داد ’’چے معنی دارد‘‘۔

محترم قارئین ! قطع نظر اس کے یہ قرار داد صحیح ہے یا غلط ہم یہ ذکر کرنا چاہتے ہیں کہ آیا واقعی یہ قرار داد پوری قوم کی ترجمانی اور فیصلہ ہے جیسا کہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا زعم باطل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں جماعت شرذمہ جو اغیار کی نوازشوں کے زیر سایہ پل رہی ہے تو اس فیصلہ سے راضی ہے لیکن پوری قوم پر یہ داغ لگانا گویا ان کے عقیدے اور منہج کا خون کرنے کے مترادف ہے کیونکہ ہر صاحب ایمان،عقیدہ صافی کا حامل کبھی بھی اس سے راضی نہیں۔ پاکستانی قوم نے اس قرار داد کو سرے سے ہی قبول نہیں کیا بلکہ ان کے دل تو سعودی عرب کےساتھ دھڑکتے ہیں جیسا کہ سعودی عرب ڈپٹی وزیر کے مشیر عبد العزیز العمار نے کہا کہ پاکستان سعودی عرب یک جان دوقالب ہیں۔پاکستان کے پارلیمان سے منظور ہونے والی قرار داد کے متن کا تو علم نہیں لیکن اتنا وہ جانتے ہیں اگر سعودی عرب اور پاکستان کے عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں ۔

اس قرار داد کو قوم کا فیصلہ کہنا کھلا تضاد ہے جس کا واضح ثبوت سعودی عرب کے حق میں ریلیاں، جلوس، کانفرنس، سیمینار، نداوات وغیرہ ہیں۔

مؤرخہ 12اپریل 2015 بروزاتوارکو جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی زیر صدارت ندوۃ لدفاع عن الحرمین الشریفین اور سعودی عرب سے اظہار یکجہتی کے لیے تقریب ہوئی جس میں مختلف مدارس اور جامعات اور دینی جماعتوں کے سربراہان نے شرکت کی جس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے سعودی عرب قابل احترام ملک کی حیثیت رکھتاہے اور ہر مسلمان خوا وہ کسی رنگ ونسل یا ملک سے تعلق رکھتا ہو سعودی عرب کی سالمیت پر آنچ نہیں آنے دے گا عرب ممالک اور سعودی حکمرانوں کی طرف سے یمن میں باغیوں کی سرکوبی کے حوالے سے آپریشن عاصفۃ الحزم کی بھرپور تائید کرتے ہیں۔

مقررین میں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے نائب مدیر الشیخ ضیاء الرحمن المدنی،جمعیت اہل حدیث سندھ کے امیر الشیخ عبد اللہ ناصر رحمانی،معہد القرآن کے مدیر الشیخ خلیل الرحمن لکھوی،جمعیت اہل حدیث کے مرکزی امیر الشیخ محمد یوسف قصوری اور مولانا قاری خلیل الرحمن،امیر انجمن دعوت اہل السنت والجماعۃ پاکستان مفتی نجیب اللہ عامر، جماعت غرباء اہل حدیث کے نائب امیر الشیخ محمد سلفی جماعۃ الدعوۃ کراچی کے مسؤول الشیخ مزمل اقبال ہاشمی، جامعہ دراسات الاسلامیہ کے مدیری الشیخ یوسف طیبی ،جماعت اسلامی کے نائب امیر اسد اللہ بھٹو، مرکزی چیئرمین علماء ومشائخ علامہ ہدایت اللہ ، اہل السنت والجماعت کے کارکن رب نواز شامل تھے۔ اسی طرح تحریک دفاع حرمین شریفین کی جانب سے لبیک حرمین ریلی کے سلسلے میں کمیٹیوں کی تشکیل بھی کر دی گئی ہے جبکہ مفتی تقی عثمانی ،ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر،مولانا سلیم اللہ خان، مولانا سمیع الحق ، مولانا احمد لدھیانوی، حافظ محمد سعید ،جنرل حمیدگل کے علاوہ تمام مذہبی وسیاسی جماعتوں کے قائدین ملاقاتیں کریںگے۔

واضح رہے کہ جامعہ بنوریہ عالمیہ میں گزشتہ روز مختلف مذہبی ،سیاسی اور مدارس منتظمین کی جانب سے تحریک دفاع حرمین کے پلیٹ فارم سے جامعہ بنوریہ کے شیخ الحدیث مفتی محمد نعیم کی سربراہی میں یمن کے مسئلہ میں حکومت پاکستان کے سعودی عرب کا ساتھ نہ دینے کے خلاف سعودی عرب کی حمایت میں باقاعدہ تحریک چلانے کا اعلان کردیاگیا۔

جس میں شہر قائد کے تمام منتظمین مدارس،اہل سنت والجماعت،جمعیت علماء اسلام(فضل الرحمن) جمعیت علماء اسلام (سمیع الحق) تحریک تحفظ ختم نبوت پاکستان ، جماعۃ الدعوۃ،مرکزی جمعیت اہل حدیث،انجمن دعوت اہل السنۃ والجماعۃ پاکستان، تحریک غلبۂ اسلام،تحریک خدام القرآن انصار الامۃ، الرحمت ٹرسٹ سمیت دیگر چھوٹی بڑی سیاسی ومذہبی تنظیموں کے قائدین اور نمائدے شامل تھے۔ علاوہ ازیں اجلاس میں جامعۃ العلوم الاسلامیہ،علامۃ بنوریہ ٹاؤن ،جامعہ دار العلوم کراچی ، جامعۃ الرشید ، جامعۃ ابی بکر الاسلامیہ ، جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی، جامعہ اشرف المدارس ، جامعہ دراسات الاسلامیہ، اسلامک یونیورسٹی، جامعہ احسن العلوم سمیت دیگر چھوٹی بڑی ،بڑے مدارس کے منتظمین بھی شریک تھے۔

گزشتہ ایام میں جماعۃ الدعوۃ کے زیر اہتمام اسلام آباد ، کراچی اور مختلف مقامات پر ریلیوں کا انعقاد ہوا جس میں ہر عام وخاصنے شر کت کی، اس کے علاوہ بھی ملک بھر میں ہونے والی یہ ریلیاں کانفرنس،جلوس وغیرہ اس پر واضح دلیل ہے کہ یہ عوام کا فیصلہ نہیں ہے بلکہ اغیار کے ٹکڑوں پر پلنے والی جماعت معدودۃ کا فیصلہ ہے اور اس کو پوری قوم پر تھوپنا سراسر ظلم اور کھلا تضاد ہے۔

شاید سعودیہ کی مخالفت کرنے والے سعودیہ کے ان گنت احسانات کو بھول گئے جو انہوں نے پاکستانی حکومتوں اور عوام پر کیے ہیں اور اگر آج اللہ ہمیں یہ شرف بخش رہا ہے کہ ہم حرمین شریفین کی حفاظت میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں تو کسی بھی صاحب ایمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس مقدس فریضہ سے پہلو تہی برتے اگر آج ہم یہ کام نہیں کریںگے تو اللہ یہ شرف کسی اور قوم کو دے دے گا اللہ اپنے گھر کی خود حفاظت کر سکتاہے لیکن وہ یہ کام آج ہم سے لینا چاہتا ہے جس سے ہمیں ہرگز روگردانی نہیں کرنی چاہیے ۔

اے اللہ! ہمیں اس شرف سے بہرہ مند فرما اور ہمارے ناسمجھ سیاستدانوں کو عقل سلیم عطا فرما۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے