ایمان کی اہمیت:

انسانی زندگی کے لیے غذا،لباس،مکان،علاج،معالجہ اور دیگر چیزیں بہت ضروری ہیں مگر ایمان ان سب سے زیادہ اہم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مادی اشیاء سے انسان کی حیات دنیاوی بہتر ہوتی ہے لیکن ایمان سے حیات دنیاوی اور حیات اُخروی دونوں بہتر بنتی ہیں اگر یوں کہہ دیا جائے تو قطعاً مبالغہ نہ ہوگا کہ انسان کی اپنی جان اتنی اہم نہیں جتنا ایمان اہم ہے ۔ اس لیے ایک مومن کو سب سے زیادہ اپنے ایمان کی فکر ہونی چاہیے اس لیے کہ اگر ایمان ہے تو سب کچھ ہے اگر ایمان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اسی حقیقت کو اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ذکر کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا : 

وَالْعَصْرِاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا

’’قسم ہے زمانے کی یقیناً تمام انسان خسارے میں ہیں سوائے اُن کے جو ایمان لائے۔‘‘

والعصر کی چونکا دینے والی صدا ایک حساس اور با شعور انسان کو جنجھوڑ کر خواب غفلت سے بیدار کر رہی ہے اور اسے یہ دعوت دے رہی ہے کہ وہ آفاق میں گم ہونے کی بجائے آفاق اور اس کی وسعتوں کا شعوری مشاہدہ کرے۔

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گُم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ  

سے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سیاسی قوت، یہ معاشرتی حیثیت ، یہ مال ودولت کی فراوانی،یہ وسائل واسباب کی ارزانی، یہ اونچی اونچی ملازمتیں، یہ مستحکم اور مضبوط کاروبار ، یہ لمبی لمبی اور چمکیلی کاریں ، یہ خوشنما محلات، یہ برادری اور لیڈری کا غرور، یہ سوسائٹی اور معاشرے میں سٹیٹس (Status)یہ محض سراب نظر ہی نہیں بلکہ عذاب الٰہی کے مقدمات میں سے ہیں۔ اس ابدی خسران سے نجات کا سب سے پہلا راستہ’’ایمان ‘‘ ہے۔

لیکن افسوس جتنا یہ اہم راستہ تھا اسے اتنا ہی کم تر سمجھا گیا۔

ذیل میں ہم کتاب وسنت کی روسے ایک ایسا معیار پیش کر رہے ہیں جس کی بناء پر ہر ایمان کا دعوے دار اپنے ایمان کو بخوبی جانچ اور پرکھ سکتاہے۔

ایمان کے درجات:

استاذِ مکرم حجۃ الاسلام حافظ عبد المنان محدث نور پوری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ایمان کے دل میں مختلف درجات ہیں جو صحیح بخاری میں بیان ہوئےہیں۔

يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ شَعِيرَةٍ مِنْ خَيْرٍ(صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه ، رقم:44)

جو شخص لا اله الا الله كهه دے اور اس کے دل میں جو کے دانے کے برابر خیر ہو وہ دوزخ سے نکال لیا جائے گا۔

ایک دوسری حدیث میں خیر کی جگہ ایمان کے لفظ ہیں۔

فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ شَعِيرَةٍ مِنْ إِيمَانٍ(صحيح البخاري، كتاب التوحيد، باب كلام رب عزوجل ، رقم:7510)

<’’جس کے دل میں جو کے دانے کے برابر ایمان ہو اس کو دوزخ سے نکال لو۔‘‘

وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ بُرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ(صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه ، رقم:44)

’’ جو شخص لا الہ الا اللہ کہہ دے اور اس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر خیر یعنی ایمان ہو وہ دوزخ سے نکال لیا جائے گا۔‘‘

وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ(صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه ، رقم:44)

’’جو شخص لا الہ الا اللہ کہہ دے اور اس کے دل میں ایک ذرہ برابر ایمان ہو اس کو دوزخ سے نکال لیا جائے گا۔‘‘

ایک دوسری حدیث میں لفظ ہیں :

فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ – أَوْ خَرْدَلَةٍ – مِنْ إِيمَانٍ (صحيح البخاري،كتاب التوحيد، باب كلام الرب عزوجل … ، رقم:7510)

فرشتوں کو حکم ہوگا کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو اس کو دوزخ سے نکال لو ۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرمائیں گے :

أَخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ(صحيح البخاري، كتاب الإيمان ، باب تفاضل أهل الإيمان في الاعمال، رقم:22)

اے میرے فرشتو! جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو اس کو دوزخ سے نکال لو۔‘‘

مولانا فاروق اصغر صارم رحمہ اللہ ’’ اسلامی اوزان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ

’’ خردل ایک پودا ہے جس کا دانہ سرسوں کی طرح ہوتا ہے ’’غایۃ البیان‘‘ میں ہے کہ خردل کا وزن نصف چاول کے برابر ہوتاہے ۔ اعشاری اوزان کے مطابق ایک خردل 7059 ملی گرام کا ہوگا جبکہ ہندی برطانوی اوزان کے مطابق خردل کا ایک دانہ 16/1 رتی کا ہوگا۔ (اسلامی اوزان،صفحہ:22)

فَأَخْرِجْ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ أَدْنَى أَدْنَى أَدْنَى مِثْقَالِ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ(صحيح البخاري، كتاب التوحيد، باب كلام الرب عزوجل ….. ، رقم:7510)

حکم ہوگا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی کم ایمان ہو ان کو بھی دوزخ سے نکال لو ۔

خردل (رائی کے دانے) کی مقدار آگے بیان ہوچکی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرمائیںگے :

اذْهَبُوا، فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِينَارٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجُوهُ(صحیح البخاری ، کتاب التوحید ، باب قول اللہ تعالیٰ :وجوہ یومئذ ناظرۃ ، رقم:7439)

’’جاؤ جس کے دل میں تم ایک دینار کے برابر ایمان پاؤ اسے جہنم سے نکال دو ۔‘‘

مولانا فاروق اصغر صارم رحمہ اللہ ’’اسلامی اوزان‘‘ میں دینار کی مقدار کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

اَلدِّيْنَارُ ضَرْبٌ مِنْ قَدِيْمِ النُّقُوْدِ الذَّهَبِيَّةِ

دینار سونے کا قدیم سکہ ہے۔(اسلامی اوزان، صفحہ:18)

دینار کا وزن ہندی اور برطانوی نظام میں 4 ماشے 4 رتی ہے اور اعشاری وزن کے مطابق 40374 گرام ہے۔ (اسلامی اوزان ، صفحہ :18)

اللہ تعالیٰ فرمائیں گے :

اذْهَبُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِينَارٍ فَأَخْرِجُوهُ(صحیح البخاری ، کتاب التوحید ، باب قول اللہ تعالیٰ :وجوہ یومئذ ناظرۃ ، رقم:7439)

جاؤ ! جس کے دل میں نصف دینار کے برابر ایمان پاؤ اسے بھی جہنم سے نکال دو ۔‘‘

دینار کا وزن ایمان کے چھٹے درجے کے ضمن میں بیان ہوچکاہے یہاں نصف دینار کا ذکر ہے دینار کے وزن کا نصف کرلیاجائے 2 ماشے 2 رتی بنے گا۔

ایمان کے سات درجات :

مندرجہ بالا مذکور ایمان کے سات درجات بنتے ہیں :

۱۔ جو کے دانے کے برابر ایمان

۲۔ گندم کے دانے کے برابر ایمان

۳۔ ذرہ برابر ایمان

۴۔ رائی کے دانے کے برابر ایمان

۵۔ رائی کے دانے سے بھی کم ایمان

۶۔ ایک دینار کے برابر ایمان

۷۔ نصف دینار کے برابر ایمان

ان سب درجات سے ایمان کا کم از کم درجہ ذرہ برابر ایمان ہے۔

میرے استاذ محترم جناب محدث نوری پوری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے دل میں کم از کم ذرہ برابر ایمان پیدا کرنے کے لیے (جو نجات کے لیے ضروری ولازمی ہے) گیارہ چیزوں کو اپنانا لازمی وضروی ہے جن سے پانچ اسلام کے بنیادی ارکان جبکہ چھ چیزیں ایک دوسرے حدیث میں ذکر ہوئیں ہیں جو صحیح مسلم شریف میں ہے ۔

۱۔ اللہ پر ایمان

۲۔ فرشتوں پر ایمان

۳۔آسمانی کتب پر ایمان

۴۔رسولوں پر ایمان

۵۔ آخرت کے دن پر ایمان

۶۔تقدیر کے اچھے یا برے ہونے پر ایمان

۷۔توحید ورسالت کا اقرار

۸۔ نماز قائم کرنا ۹۔زکوٰۃ ادا کرنا

۱۰۔رمضان المبارک کے روزے رکھنا

۱۱۔ بیت اللہ کا حج کرنا

نجات کے لیے ذرہ برابر ایمان ہونا لازمی وضروری ہے ان گیارہ میں سے ایک چیز بھی کم ہونے کی صورت میں بندہ کے دل میں ایک ذرہ برابر ایمان بھی نہیں رہتا جو نجات کے لیے لازمی وضروری ہے جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان نہیں وہ جتنا مرضی صاحب ایمان مومن ہونے کا دعویٰ کرتا رہے وہ مومن نہیں رہتا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ   (البقرة:8)

اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہمارا اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان ہے حالانکہ وہ مومن نہیں۔‘‘

روزہ اور ایمان

قارئین کرام! غور فرمائیں ان گیارہ چیزو ں میں سے ایک چیز روزہ بھی ہے اگر کوئی شخص باقی تمام چیزوں پر تو قائم ہے مگر وہ روزہ نہیں رکھتا وہ جتنا مرضی صاحب ایمان ہونے کا دعویٰ کرتا رہے درحقیقت وہ مومن نہیں نیز ایک روایت میں روزے کو ایمان باللہ میں شامل کیا گیا ہے ۔ وفد عبد القیس رضی اللہ عنہ رسول اللہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا آپ  نے انہیں حکم دیا :

بِالإِيمَانِ بِاللَّهِ وَحْدَهُ

اللہ پر ایمان لانے کا حکم پھر آپ  نے ان سے دریافت فرمایا : 

أَتَدْرُونَ مَا الإِيمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ

تم جانتے ہو ایمان باللہ کیا ہے؟ پھر آپ  نے فرمایا:

شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَإِقَامُ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصِيَامُ رَمَضَانَ، وَأَنْ تُعْطُوا مِنَ المَغْنَمِ الخُمُسَ (صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب ادا ء الخمس من الإيمان ….. ، رقم:57)

’’گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں محمد اللہ کے رسول ہیں نماز قائم کرنا ، زکوۃ ادا کرنا،رمضان کے روزے رکھنا ، مالِ غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنا۔

مندرجہ بالا حدیث مبارکہ میں غور فرمائیں تو مسئلہ کس قدر واضح ہے کہ روزہ،ایمان باللہ میں شامل ہے جو شخص روزہ نہیں رکھتا گویا وہ اللہ پر بھی ایمان نہیں رکھتا۔

اللہ ہمیں حقیقی ایمان نصیب فرمائے۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے