برادران اسلام!ایمان کےدوحصےہیں پہلا شکر اور دوسرا صبر ہے،ہمارا موضوع سخن ایمان کادوسرا حصہ یعنی \\\”صبر\\\”ہے ،عربی زبان میں \\\”صبر\\\”کا معنی ہے  روکنااور بند کرنا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْہَہٗ\\\”(الکہف : 28)

اور اپنے آپ کوان لوگوں میں بند رکھے جو صبح وشام اپنے رب کی رضا کو طلب کرتے ہوئے اسے پکارتے ہیں\\\”صبر کے لغوی معنی کو مد نظر رکھتےہوئے بعض اہل علم نے اس کی تعریف یوں کی ہے :

حَبْسُ النَّفْسِ عَنِ الجَزَعِ والتُّسَخُّطِ,وَحَبْسُ اللِّسَانِ عَنِ الشِّكوى,وَحَبْسُ الجَوَارِحِ عَنِ التَّشْوِيْشِ

اپنے آپ کو گھبراہٹ اور ناگواری سے روکنا،زبان پر حرف شکایت نہ لانا اور باقی اعضائےجسم کو الجھن اور پریشانی میں مبتلا ہونے سے بچانا\\\”امام ابن القیم رحمہ اللہ تعالی  کہتے ہیں :\\\”صبر کی تین قسمیں ہیں : اوامر الہی پر ہمیشہ عمل کرتے رہنا،اس کی نواہی سے ہمیشہ پرہیز کرنا اور قضاءوقدر پر ناراضگی کا اظہار نہ کرنا\\\”(مدارج السالکين:ج 1،ص 165)

اس سلسلے میں انبیاکرام علیہم السلام کی زندگی کوسامنے رکھنا چاہیے جومصائب وآلام میں صبر وتحمل کےپہاڑ بنے رہتے تھے حالانکہ ان پاکباز حضرات پر آزمائشیں بھی سب سے بڑی آتی تھی اس کے باوجود صبر کا مظاہرہ بھی سب سے زیادہ کرتے تھے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

أَشَدُّالنَّاسِ بَلاءً اَلأنْبِيَاءُ,ثُمَّ الأمْثَلُ فَاالأمْثَلُ، يُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسْبِ دِيْنِه رِقَّةً أُبْتُلِيَ عَلَى قَدْرِدِيْنِه,فَمَايَبْرَحُ الْبَلاَءُ بِالْعَبْدِ حَتّى يَسْرُكَهُ يَمْشِى عَلَى الأَرْضِ وَمَاعَلَيْهِ خَطِيْئَةٌ

(ترمذی:2398،ابن ماجہ:4023، وحسنه الألبانى)

انبیاء علیہم السلام لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائش میں مبتلا ہوئے تھے ،پھر وہ جو سب سے زیادہ اللہ کے قریب ہوتا ہے اور ہر شخص کو اس کی دینداری کے مطابق آزمایا جاتا ہے اگر وہ دینداری میں مظبوط ہوتو اس پر آزمائش بھی سخت آتی ہے اور اگر وہ اس میں کمزور ہو تو اس کے مطابق ہی اسے آزمائش میں ڈالا جاتا ہے اور آزمائش بندہ مومن کو پریشان کئے رکھتی ہیں حتی کہ وہ زمین پر اس حالت میں چلتا ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہو چکا ہوتا ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہواکہ سب سے بڑی آزمائشیں انبیاءعلیہم السلام پرآئیں جبکہ انہوں نے صبر وتحمل کے وہ اعلی نمونے پیش کئے جوآج بھی ہر مومن کیلئے لائق اتباع اور قابل تقلید ہیں ۔سیدہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کو بخار تھا میں نے کہا:اے الله کے رسول !آپ کو تو شدید بخار ہے ؟ آپ نے فرمایا:

أَجِلْ,إِنِّى أُوْعَكُ كَمَا يُوْعَكُ رَجُلاَنِ مِنْكُمْ

کیوں نہیں مجھے اتنا بخار ہوتا ہے جتنا تم میں سے دوآدمیوں کو ہوتا ہے \\\”میں نے کہا:اور آپ کو اجر بھی تو دوگنا ملتا ہے ؟آپ نے فرمایا :

أَجَلْ,ذَلِكَ كَذَالِكَ

\\\”ہاں ،یہ اسی طرح ہے \\\”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيْبُهُ أَذًى شَوْكَةٌ فَمَا فَوْقَهَا إلاّكَفَّرَ اللهُ بِهَاسَيِّئاتِهِ كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا\\\” (البخارى:5648 ومسلم: 657)

جس مسلمان کو تکلیف پہنچےکانٹا چھبنےسےیا اس سے بڑی تکلیف تو اللہ تعالی اس کے گناہوں کو ایسے مٹادیتا ہے جیسے ایک درخت اپنے پتے گراتا ہے ۔

صبر کے بعض ثمرات

صبر کے بعض ثمرات وفوائد ہم حوالے سے عرض کرچکے ہیں ،صبر کرنے والوں کو اللہ کی معیت نصیب ہوتی ہے،اللہ تعالی ان سے محبت کرتا ہے اور انہیں صبر کرنے کا اجر وثواب بغیر حساب کے دیا جائے گا۔ان فوائد کے علاوہ صبر کے اور فوائد یہ ہیں

(1)صبر کرنے والوں پر دنیا میں اللہ تعالی کی نوازشیں اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ارشاد باری تعالی ہے :

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِيْبَۃٌ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ۝۰ۣ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُہْتَدُوْنَ

اور ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے ،کچھ خوف وحراس اور بھوک سے اور مال وجان اور پھلوں میں کمی سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے جنہیں جب کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تووہ کہتے ہیں : ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے، ایسے ہی لوگوں پر اللہ تعالی کی نوازشیں اور رحمت ہوتی ہے اور وہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں\\\”

ان آ یا ت مبارکہ میں رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ ہم تمہیں ضرور با لضرور آزمائیں گیں ،دشمن کے خوف کے ساتھ یا بھوک وپیاس کے ساتھ یا مال میں کمی کے ساتھ یا اپنے پیاروں کی جدائی کے ساتھ یا پھلوں کے نقصان کے ساتھ یا اس کے علاوہ کسی اور انداز میں ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے،لیکن اگر تم صبر وتحمل کا دامن  مضبوطی سے تھامے رکھو گے ،اور کسی بھی آزمائش کے وقت میں \\\”إنّاللهِ وَإنّاالَيْهِ رَاجِعُوْن\\\”پڑھوگے تو پھر یقین کر لو کہ تم ہی ہدایت یافتہ اور راہ حق پر گامزن ہو ،سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد سنا:

مَامِنْ مُسْلِمٍ تُصِيْبُهُ مُصِيْبَةٌ فَيَقُولُ مَاأمَرَه اللهُ إنّاللهِ وَإنّاالَيْهِ رَاجِعُوْنَ اَللَّهُمَّ ؤْجُدْنِى فِى مُصِيْبَتِى وَأَخْلِفْ لِى خَيْراً مِنْهَاإِلاَّأَخْلَفَ اللهُ لَهُ خَيْراً مِّنْهَا\\\”(مسلم: 918)

جس مسلمان کو مصیبت پہنچے ،پھر وہ اللہ کے حکم کے مطابق \\\”إنّاللهِ وَإنّاالَيْهِ رَاجِعُوْن\\\”پڑھےاور دعا کرے کہ اے اللہ !مجھےمیری مصیبت میں اجر دےاور اس کے بعد مجھے خیر نصیب کر ،تو اللہ تعالی اسے اس سے بہتر چیز عطاکرتا ہے \\\”سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں کہ جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو میں نے سوچا ابو سلمہ سے بہتر کون ہو سکتا ہے وہ تو سب سے پہلے مہاجر تھے پھر میں نےیہی دعا پڑھی تو اللہ تعالی نے مجھےان سےبہتر شخص یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عطا کردیئے۔ آیات کریمہ اور حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ صبر کرنے والےلوگ ہی دنیا میں اللہ تعالی کی نوازشوں کےمستحق ہوتے ہیں اور انہی لوگوں کو اللہ تعالی مصیبتوں کا بہترین بدلہ عطاکرتا ہے۔

(2)آخرت میں صبر کرنے والوں کو اللہ تعالی بدلہ دے گا۔اس کا فرمان ہے :

 وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِيْنَ صَبَرُوْٓا اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۹۶

اور ہم صبر کرنے والوں کو ان کا بدلہ ان کے اعمال سے کہیں زیادہ اچھا عطا کریں گے\\\”یہ بہترین بدلہ کیا ہوگا؟ جنت کےبالاخانےہونگے۔پھر فرمایا:

\\\”َالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّہُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ غُرَفًا تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝۰ۭ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ۝۵۸ۤۖ الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۝۵۹ 58،59)

اور جو لوگ ایمان لائےاور انہوں نے نیک عمل کیئےہم انہیں یقینا جنت کے بالا خانوں میں جگہ دیں گےجن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،ان میں وہ ہمیشہ رہیں گیں اور نیک عمل کرنے والوں کیلئے کیا ہی اچھا اجر ہےجنہوں نے (مصائب میں)صبر کیااور وہ اپنے رب پر ہی توکل کرتےہیں\\\”عزیزگرامی !یہ ہیں صبر کے بعض ثمرات، لہذا ہمیں ہر پریشانی میں اور تمام مصائب وآلام میں صبر ہی کرنا چاہیے۔ہم صبر کیوں نہ کریں جبکہ ہمیں معلوم ہےکہ مصیبت خواہ بڑی ہو یا چھوٹی ہمارےاپنے گناہوں کی وجہ سے ہی آتی ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :

وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَۃٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۝۳۰(الشوری:30)

اور تمہیں جو مصیبت آتی ہے تمہارے اپنے کرتوتوں کی وجہ سےآتی ہے ،اور وہ بہت سے گناہوں جو تو ویسے ہی معاف کر دیتا ہے ۔

چاہے کانٹا چبھنے کی شکل ہی کیوں نہ ہو ،صبر کرنے والے شخص کے گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے ۔نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

مَا يُصِيبُ المُسْلِمَ، مِنْ نَصَبٍ وَلاَ وَصَبٍ، وَلاَ هَمٍّ وَلاَ حُزْنٍ وَلاَ أَذًى وَلاَ غَمٍّ، حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا، إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ (البخارى:5641,5642,مسلم:2573)

مسلمان کو تھکاوٹ یا بیماری لاحق ہوتی ہے یاوہ حزن وملال اور تکلیف سےدوچار ہوتا ہے حتی کہ اگر ایک کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالی اس کےبدلےمیں اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے \\\”سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَايَزَالُ الْبَلاَءُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَةِ فِى نَفْسِهِ وَوَلَدِهِ وَمَالِهِ حَتَّى يَلْقَى اللهُ وَمَاعَلَيْهِ خَطِيْئَتَةٌ\\\”(الترمذى:2399,وصححه الألبانى)

آزمائش مومن مرد اور مومنہ عورت کا پیچھانہیں چھوڑتیں کبھی جان میں ،کبھی اولاد میں اور کبھی مال میں ،یہاں تک کہ وہ جب اللہ تعالی سے ملےگاتو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا\\\”سو آزمائشوں اور مصیبتوں کو اپنے گناہوں کا کفارہ تصور کرتے ہوئےان پر صبر تحمل ہی کامظاہرہ کرنا چاہیے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں صبروتحمل پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے