مسجد وہ مقام ہے جہاں اللہ کے بندے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور اس کے سامنے عاجزی و انکساری کا اظہار کرتے ہیں ، مسجد وہ جگہ ہے جہاں مختلف طبقات سے تعلق رکھنےوالے لوگ ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر ایک ہی اللہ قبلہ کی طرف رخ کرکےسب ایک ہی اللہ کو پکارتےہیں اس سے راز ونیاز کی باتیں کرتے ہیں اور اس سے دعا کرتے ہیں۔

محترم بھائیو!

ہمیں مسجدوں کو آباد کرنا چاہیے اور ان میں باجماعت نماز پڑھنا چاہیے۔

مساجد کو آباد کرنے کے فضائل:

اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ مساجد کو تعمیر کرکے ویران چھوڑدیا جائے، بلکہ اسلام اس بات کی ترغیب دلاتا ہے کہ ان کو آباد کیا جائے ان کی رونق میں اضافہ کیا جائے او ان سےدل لگایا جائے اور ان مین پانچوں نمازیں قائم کی جائیں اور انہیں قرآن وحدیث کی دعوت کا مرکز بنایا جائے حدیث نبوی میں ہےکہ رسول اللہ نے مسجد سے دل لگانے اور اسے آباد کررکھنے والے شخص کو قیامت کےروز عرش کےباری کے سائے میں جگہ پانے کی عظیم خوشخبری دی ہے۔

نبی کریم کا ارشاد ہے:

سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللهُ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: الإِمَامُ العَادِلُ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي المَسَاجِدِ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِي اللهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ، أَخْفَى حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ  (صحيح البخاري (1/ 133)

’’سات افراد ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالی اپنے(عرش کے) سائے میں جگہ دےگا اور اس دن اس کے سائے کےعلاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا ، عادل حکمران ، وہ نوجوان جس کی نشونمااللہ کی عبادت کے ساتھ ہوئی ، وہ آدمی جنہوں نے اللہ کی رضاکی خاطر محبت کی اس پر اکھٹے ہوئے او اسی پر جدا ہوئے، وہ آدمی جس کو ایک منصب وحُسن والی عورت نے دعوت (زنا) دی تو اس نے کہا میں اللہ سے ڈرتاہوں ، وہ آدمی جس نے اس طرح خفیہ طور پر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلاکہ اس کے دائیں نے کیا خرچ کیا ہے اور وہ آدمی جس نے علیحدگی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ آئے‘‘

سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:

بَشِّرِ الْمَشَّائِينَ فِي الظُّلَمِ إِلَى الْمَسَاجِدِ، بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (سنن ابن ماجه (1/ 257)

’’اندھیروں میں مساجد کی طرف چل کر جانے والوں کو بشارت دے دیجئے کہ انہیں قیامت کے روز مکمل نور نصیب ہوگا۔ ‘‘

اور اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

’’جوشخص اپنے گھر میں وضو کرکے پھر اللہ کے گھروں میںسے کسی گھر کی طرف روانہ ہوجائے اور اس کا مقصد صرف اللہ کے فرائض میں سے ایک فریضہ (یعنی نماز) کو اداکرنا ہو تو اس کے دو قدموںمیں سے ایک قدم ایک گناہ مٹاتا ہے اور دوسرا ایک درجہ بلند کرتا ہے‘‘(صحیح مسلم)

مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی اہمیت

اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ :

وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ (البقرۃ:43)

’’اور نماز پڑھا کرو اور زکوۃ دیا کرو اور (خدا کے آگے) جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو‘‘

اور اسی لیے نبی کریم نے فرمایا:

مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يَأْتِهِ، فَلَا صَلَاةَ لَهُ، إِلَّا مِنْ عُذْرٍ (سنن ابن ماجه (1/ 260)

’’جو شخص اذان سنے پھر وہ اذان کی جگہ یعنی مسجد میں نہ آئے تو اس کی نماز ہی نہیں ہاں اگر عذر ہوتو کوئی حرج نہیں۔‘‘

امام بخاری نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے کہ میں اپنی ایک قوم کے گروہ کے ہمراہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہواتو ہم نبی کریم کے پاس 20 رات ٹھہرے آپ مہربان اور نرم دل تھے جب آپ ہمارا اپنے گھر والوں کے ساتھ اشتیاق دیکھا تو فرمایاتم لوٹ جاؤ اور انہی میں رہو انہیں تعلیم دینا اور نماز پڑھانا اور جب نماز کا وقت آئے تو تم میں سے ایک تمہارے لیے آذان دے اور تم میں سے سب سے بڑی عمر والانماز پڑھائے اس حدیث میں آپ نے نماز کا وقت ہونے پر آذان اور امامت کا حکم دیا امامت کا حکم دینے کا مقصد یہی ہے کہ نماز باجماعت اداکی جائے ( بخاری628)

امام ابن قیم رحمہ اللہ اس حدیث سے باجماعت نماز کے واجب ہونے پر استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

ووجه الاستدلال به أنه أمر بالجماعة وأمره على الوجوب (الصلاة وأحكام تاركها (ص: 106)

’’اور اس سے وجہ استدلال یہ ہے کہ آپ نے جماعت کا حکم دیا اور آپ کا حکم دینا وجوب پر دلالت کرتا ہے ‘‘

ایک صحابی ابن مکتوم رضی اللہ عنہ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے جو کہ نابینا اور عمر رسیدہ تھے جن کا گھر دور تھاگھر اور مسجد کے درمیان بہت سانپ اور درندے وغیرہ بھی تھےاور انہوں نے یہ اعذار بیان کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول میں نابینا ہوں اور مجھے مسجد میں لانے والا کوئی نہیں ہے تو مجھے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دیجئے توآپ نے اجازت دیدی پھر جب وہ جانے لگا تو آپ نے پوچھا ’’ھل تسمع النداء وفی روایۃ ھل تسمع حی علی الصلاۃ حی علی الفلاح؟کیا تم آذان کی آواز سنتے ہو ایک روایت میں ہے کہ :حی علی الصلاۃ حی علی الفلاح کی آواز سنتے ہو؟ اس نے کہا جی ہاں سنتا ہوں تو آپ نے فرمایا : ’’لاأجد لک رخصۃ‘‘ وفی روایۃ فأجب‘‘ میرے پاس تمہارے لیے کوئی رخصت نہیں ہے ایک روایت میں ہے کہ اگر تم آذان سنتے ہو تو ا س کو قبول کرتے ہوئے مسجد میں آکر نماز پڑھا کرو(صحیح مسلم :6531)

اللہ تعالی سے دعا ہےکہ اللہ تعالی ہمیں مسجدوں کو آباد کرنے اور مسجدوں میں باجماعت نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے