ہمارے ہاں ہندو پاک میں کچھ عرصہ قبل تک اجناس کے لین دین کے سلسلہ میں لکڑی یا لوہے کے بنے ہوئے پیمانے استعمال ہوتے تھے۔

چھوٹے پیمانے کو ٹوپی یا پڑوپی اور بڑے پیمانے کو ٹوپا یا پڑوپاکہا جاتا تھا۔ اسی طرح عربوں کے ہاں بھی اجناس کے لین دین اور حساب کے سلسلہ میں وزن کے علاوہ ماپ کے پیمانے رائج تھے۔

ان کے ہاں اس پیمانے کو صاع اور اس کی چوتھائی کو مُد کہا جاتا تھا۔ احادیث مبارکہ میں مختلف ابواب میں ان دونوں پیمانوں کا ذکر بکثرت ملتا ہے۔

مثلا وضو اور غسل کے ابواب میں ہے کہ نبی مکرم  ایک مُد پانی کی مقدار سے وضو اور چار پانچ مُد یعنی صاع، سوا صاع سے غسل فرما لیا کرتے تھے۔

(صحیح بخاری مع الفتح جلد 1 ص 304)

اسی طرح زکوٰۃ، عشر اور کفارات کے بیان میں بھی صاع کا ذکر آیا ہے۔

نیزرسول اللہ نے رمضان المبارک کے اختتام پر ہر مسلمان کی طرف سے ایک صاع طعام بطور فطر (فطرانہ) ادا کرنا مقرر فرمایا ہے۔

اسی طرح مدینہ منورہ کے فضائل اور حرمت کے ضمن میں آپ نے مدینہ منورہ کے صاع اور مُد میں برکت کی دعا فرمائی ہے۔

چنانچہ صحیح مسلم باب فضل المدینۃ الخ میں آپ کی دعائیں مندرہ ذیل مختلف صیغوں سے منقول ہیں۔

اللھم بارک لھم فی مُدھم و صاعھم
اللھم بارک لنا فی مدینتنا و بارک لنا فی صاعنا وبارک لنا فی مُدنا
اللھم بارک لنا فی مدینتنا اللھم بارک لنا فی صاعنا اللھم بارک لنا فی مُدنا (دو بار)
اللھم بارک لنا فی صاعنا و مُدنا

اور صحیح بخاری، باب صاع المدینۃ میں اس سلسلہ میں آپ کی دعا بایں الفاظ مروی ہے۔

اللھم بارک لھم فی مکیالھم و صاعھم و مُدھم (صحیح بخاری مع الفتح جلد 1 ص 597)

صاع کی اقسام اور وزن:

شروح حدیث میں بالعموم دو قسم کے صاع مذکور ہیں۔ امام علامہ عبدالرحمن صاحب مبارکپوری رحمۃ اللہ صاحب تحفۃ الاحوذی نے بھی دو قسم کے صاع کا ذکر کیا ہے۔

1۔ صاع نبوی:

جسے حجازی صاع بھی کہا جاتا ہے یہ بلاد حجاز میں مروج اور دور نبوت میں بھی یہی رائج و مستعمل تھا اور دور نبوت میں لوگ اسی کے حساب سے صدقہ فطر ادا کیا کرتے تھے۔ اس کی مقدار 5/1.3رطل تھی۔

2۔ عراقی صاع:

اسے ’’حجاجی صاع‘‘ بھی کہتے ہیں یہ چونکہ بلاد عراق میں رائج تھا اس مناسبت سے اسے عراقی صاع کہا جاتا ہے اور چونکہ اسے حجاج بن یوسف نے رواج دیا تھا اس لیے اسے حجاجی صاع بھی کہتے ہیں اس کی مقدار آٹھ رطل تھی۔ (تحفۃ الاحوذی جلد 2 ص 27)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ نے لکھا ہے کہ دور نبوت میں ایک مُد کی مقدر  3/1 رطل اور ایک صاع کی 3.1/5 رطل تھی۔ (فتح الباری جلد 1 ص 305 باب الوضوء بالمُد) گویا ایک صاع میں چار مُد ہوتے تھے۔

مُد اور صاع کی مقدر اور حجم میں اضافہ:

مُد اور صاع کی مقدر اور حجم میں اضافہ بعد میں ایک دور آیا کہ مُد اور صاع کی مقدر اور حجم میں اضافہ کر دیا گیا۔ چنانچہ صحیح البخاری مع الفتح ج11، ص597 کتاب کفارات الایمان ’’باب صاع المدینۃ ومُدا لنبی صلی اللہ علیہ وسلم و برکتہ‘‘ میں سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے۔

كان الصاع على عهد النبي صلى الله عليه وسلم مُدا وثلثا بمُدكم اليوم، فزيد فيه في زمن عمر بن عبد العزيز

کہ نبی کے زمانہ کا ایک صاع آج کل کے 3/1 امُد کے برابر ہوتا تھا۔

گویا اس زمانہ میں مُد کی مقدر اور حجم میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا گیا ہے اسی باب کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ:

دور نبوت میں ایک 3/1 ایک رطل کا اور ایک 3/1 پانچ رطل کا ہوتا تھا۔

بعد ازاں ایک مُد دو رطل کا اور ایک صاع آٹھ رطل کا مقرر کیا گیا۔

اور اس کے بعد اس میں مزید اضافہ کر کے ایک مُد کی مقدار چار رطل اور صاع کی سولہ رطل کر دی گئی۔

شرعا کونسا صاع معتبر ہے؟

اگرچہ مختلف زمانوں میں صاع اور مُد کی مقدار میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں تاہم شرعی طور پر وہی صاع معتبر ہے جو نبی اکرم کے مبارک زمانہ میں مدینہ منورہ میں رائج و مستعمل تھا۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْمِكْيَالُ مِكْيَالُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، وَالْوَزْنُ وَزْنُ أَهْلِ مَكَّةَ
(سنن نسائی جلد 1 ص 285 باب کم الصاع، طبع مکتبہ سلفیہ لاہور)

’’کہ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا کہ ماپ اہل مدینہ کا اور وزن اہل مکہ کا معتبر ہے‘‘

اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کسی دوسرے مُد یا صاع کو کوئی اہمیت نہ دی بلکہ نبوی صاع و مُد کے حساب سے شرعی احکام بجالاتے تھے۔

چنانچہ صحیح بخاری میں سیدنا نافع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے۔

کان ابن عمر یعطی زکوٰۃ الفطر من رمضان بمُد النبیﷺ المُد الاول وفی کفارۃ الیمین بمُد النبیﷺ

(فتح الباری ج11 ص 597 باب صاع المدینۃ)

کہ سیدنا عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہما صدقہ فطر اور قسم کا کفارہ پہلے مُد یعنی نبوی مُد کے حساب سے ادا کیا کرتے تھے۔

اسی روایت میں اس سے آگے ہے ابو قتیبہ فرماتے ہیں مجھ سے امام مالک نے فرمایا:

ہمارا یعنی اہل مدینہ کا مُد تمہارے مُد سے زیادہ افضل اور عظمت والا ہے اور ہم اسی مُد کو افضل سمجھتے ہیں جسے نبی مکرم استعمال فرمایاکر تے تھے۔ پھر فرمایا: کیا خیال ہے اگر کوئی حاکم آ کر نبوی مُد سے چھوٹا مُد رائج کر دے تو تم کس مُد سے فطرانہ کفارہ وغیرہ ادا کرو گے؟ میں نے کہ ہم تو نبوی مُد سے ادا کریں گے۔ امام صاحب نے فرمایا تو معلوم ہوا کہ اصل اور معتبر نبوی مُد ہے۔ (کیونکہ وہی اصل ہے لہذا اب جب کہ لوگوں نے اس کی مقدار میں از خود اضافہ کر لیا ہے تو اب بھی نبوی مُد کا حساب اور لحاظ رکھو ترمیم کردو پیمانوں سے تمہیں کیا غرض؟)

بشر بن عمر کا بیان ہے میں امام مالک سے کہا مجھے مُد نبوی دکھائیں امام مالک نے ایک لڑکے کے ذریعے مُد منگوایا۔ وہ لڑکا مُد لے کر آیا اور اس نے وہ مجھے تھما دیا میں نے وہ امام مالک کو دکھا کر پوچھا کیا وہ یہی ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں! یہی مُد نبوی ہے خود میں نے تو دور نبوت نہیں پایا۔ البتہ ہم اسی مُد سے نبوی مُد کی تعین کرتے ہیں میں نے کہا: کیا عشر، صدقات اور کفارات اسی مُد کے حساب سے ادا کئے جائیں تو فرمایا: ہاںہم اہل مدینہ اسی سے ادا کرتے ہیں۔ میں نے پھر کہا اگر کوئی شخص صدقہ فطر اور قسم کا کفارہ اس بڑے مُد سے ادا کرنا چاہے تو؟ امام صاحب نے فرمایا: نہیں۔ اسے چاہیے کہ وہ اسی مُد سے ادا کرے۔ اس کے بعد مزید جو (نفلی طور پر) دینا چاہتا ہو (اس کے علاوہ) ادا کرے۔ (وہ اس کی اپنی مرضی ہے) (سنن دار قطنی طبع قدیم جلد 1 ص 224) ج 2 ص 151 طبع ملتان رقم الحدیث 57

اسحاق بن سلیمان رازی کہتے ہیں۔ میں نے امام مالک سے کہا: اے ابو عبداللہ! نبی اکرم کے صاع کا کتنا وزن تھا؟ فرمایا: عراقی حساب سے 3/1  پانچ رطل کا تھا یہ میں نے خود ماپا ہے۔ میں نے کہا اے ابو عبدا للہ! آپ لوگوں کے شیخ (رئیس) کی مخالفت کرتے ہیں؟ انہوں نے پوچھا کس کی؟ میں نے کہا ابو حنیفہ کی۔ کیونکہ وہ تو ایک صاع آٹھ رطل کا بتاتے ہیں۔

یہ سن کر امام مالک شدید غضبناک ہوئے اور فرمایا اللہ انہیں برباد کر دے وہ اللہ کے بارے میں کس قدر جری ہو گئے ہیں؟ پھر امام صاحب نے مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے فرمایا وہ اپنے اپنے دادا، چچا، دادی کے صاع لے کر آئیں ۔ چنانچہ بہت سے صاع جمع ہو گئے تو امام مالک نے ہر ایک سے اس کے صاع کی سند کے متعلق دریافت کیا تو ہر ایک نے اپنے دادا، چچا ، دادی کی سند سے نبی تک بیان کیا کہ وہ دور نبوت میں اسی سے صدقات ادا کیا کرتے تھے۔

پھر امام مالک نے فرمایا: میں نے خود اسے ماپا ہے اس کا وزن 3/1 پانچ رطل بنتا ہے۔

میں (اسحاق) نے کہا: اے ابو عبد اللہ کیا میں آپ کو اس سے بھی عجیب تر بات نہ بتاؤں؟ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ آٹھ رطل والے صاع کے حساب سے صدقہ فطر نصف صاع یعنی چار رطل ہے یہ سن کر امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایایہ تو پہلی سے بھی عجیب بات ہے۔ ایک تو انہوں نے صاع کی مقدار میں ازخود اضافہ کردیا3/51 رطل کی بجائے آٹھ رطل کابنایا) اور ادائیگی میں کمی کردی۔ (یعنی 3/51 کی بجائے چار رطل مقررکردیے) ہر آدمی کی طرف سے مکمل صاع اداکرنا چاہیے۔ ہم نے اپنے شہر کے علماء یعنی علماء مدینہ کو یہی کہتے سنا ہے (سنن دارقطنی طبع دہلی ،ج1ص:225) طبع ملتان ج2 ص151 الحدیث 58 )

سنن بیہقی میں ہے حسین بن ولید قرشی بیان کرتے ہیں کہ امام ابو یوسف ادائیگی حج کے بعد ہمارے ہاں تشریف لائےاور فرمایا: مجھے ایک اہم علمی مسئلہ درپیش تھا۔ میں نے اس کی تحقیق کی ہے اور تمہیں بھی اس سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے مدینہ منورہ جاکر صاع کے متعلق دریافت کیا تو کہنےوالے نے کہا ہمارا یہ صاع رسول اللہ کے صاع کے برابر ہے۔ میں نے اس سے پوچھا، اس کی دلیل کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہم دلیل کل پیش کردیں گے۔ صبح ہوئی تو انصار ومہاجرین صحابہ کی اولادوں میں سے پچاس کے قریب افراد جمع ہوگئے ۔ ہر ایک کے پاس درکے نیچے صاع تھا۔ ہر ایک نے اپنے اپنے والد اور گھروالوں سے نقل کرتے ہوئے بیان کیا کہ یہ رسول اللہ کے صاع کے برابر ہے۔ میں نے موازنہ کیا تو وہ تمام صاع آپس میں برابر تھے۔ میں نے اس کی مقدار کا اندازہ کیا تو وہ 1/3 رطل سے کچھ ہی کم تھا۔ مجھے یہی بات قوی نظر آتی ہے۔ چنانچہ میں ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ترک کرکے اہل مدینہ کا قول اختیار کر لیا ہے(تحفۃ الاحوذی ج2 ص7) (التعلیق المغنی علی سنن الدارقطنی ج2 ص151طبع ملتان)

اسی طرح امام ترمذی رحمہ اللہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ نبوی صاع 3/51رطل کا اور اہل کوفہ کا صاع آٹھ رطل کا ہے (جامع ترمذی مع تحفۃ الاحوذی2/6 باب ماجاء فی صدقہ الزرع والثمروالحبوب)

ان کے علاوہ بھی بے شمار دلائل ، قرائن اور اہل علم کے اقوال سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ دور نبوت میں حجازی صاع 3/1  5رطل کا ہوتاتھا۔

یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین عظام ، محدثین وائمہ کرام رحمہم اللہ نے دور نبوت والے حجازی، مُدنی صاع کو شرعی قرار دیا کیونکہ زبان رسالت سے اسے نہ صرف معیار قرار دیا گیا بلکہ اس میں برکت کی دعا بھی کی گئی۔

اس کے برعکس احناف نے لوگوں کے ترمیم کردہ، اضافہ کردہ صاع کو اختیار کرلیا۔

سچ ہے؎       نظر اپنی اپنی پسند اپنی اپنی

حجازی صاع کا وزن

قبل ازیں سنن نسائی کے حوالے سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث بیان ہوچکی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہےکہ نبی مکرم کو اپنے دور میں رائج ماپ کے پیمانوں اور اوزا ن بخوبی علم تھا۔ اسی لیے تو اہل مدینہ کے ماپ اور اہل مکہ کے وزن کومعتبر قرار دیا۔

اوزان کا علم ہونے کے باوجود صدقہ فطرہ وغیرہ امور کے لیے وزن کے بجائے ماپ (صاع) کو مقرر کرنااس بات کی دلیل ہےکہ اس بارے میں معتبر ماپ ہے نہ کے وزن۔

نیز ہر جنس کے صاع کو ایک مقررہ وزن سےمحدود کرلینا درست نہیں۔ کیوں کہ تجربہ سے ثابت ہے کہ مختلف اجناس کا ماپ لے کر وزن کیا جائے تو ان کے وزن میں نمایاں فرق ہوگا۔

اہل علم کے مابین حجازی صاع کے وزن کے تعین میں دو مشہور موقف ہیں ۔

(أ) دوسیر دس چھٹانک دس تولے چار ماشے، یعنی تقریباً پونے تین سیر یا اڑھائی کلو تقریباً۔

(ب) دوسیر چار چھٹانک یعنی سوادوسیر۔

ہمارے نزدیک اول الذکر وزن معتبراور معیاری ہے اور یہ بھی صر ف گندم کے بارے میں۔

ہمارے اس موقف کی تائید اور بالفعل ثبوت وہ مُد ہے جو شیخ الحدیث مولانا حافظ احمداللہ پر تاب گڑھی ثم صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ کے پاس تھا اور آپ کے پاس زید بن ثابت صحابی رضی اللہ عنہ تک اس کی سند بھی تھی ۔ موصوف قیام دہلی کے عرصہ میں اس کی نقلیں تیار کراکے اہل علم کو دیا کرتے اور سند بھی عطا فرمایا کرتے تھے ، مولانا حافظ احمداللہ صاحب رحمہ اللہ مذکور سے والد گرامی مولانا ابو سعید عبدالعزیز سعیدی مرحوم نے بھی ایک مُد مع سند حاصل کیا تھا جو اب تک راقم کے پاس محفوظ ہے۔ اس مُد کے متعلق محب مکرم مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب حفظہ اللہ رکن الدعوۃ السلفیہ رقم طراز ہیں۔

’’مولانا احمداللہ دہلوی رحمہ اللہ والے مُد کی ایک نقل مولانا عبدالعزیز سعیدی مرحوم آف منکیرہ کے پاس بھی مع سند تھی جو اب بھی ان کے صاحبزادگان کے پاس موجود ہے۔ چنانچہ ہم انے ان کے ایک فاضل حاصبزادے پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی سے درخواست کی کہ وہ مُد ہمیں لاکر دکھائیں۔ چنانچہ موصوف مع سند وہ مُد لائے۔ اس مُد میں ہم نے دوچیزوں کا وزن کر کے دیکھا تو چار مُد(91 ایک صاع) گندم کا وزن دو کلو 226 گرام اور چاول کا وزن دو کلو560 گرام (تقریباً ) نکلا۔۔۔اس سے معلوم ہوا ہمارے اہل حدیث عوام وخواص میں ایک صاع برابر پونے تین سیر جو تصور چلا آرہا ہے وہ بے بنیاد نہیںہے۔

واللہ اعلم بالصواب

مُد کی سند

اس مُد کے ہمراہ والد گرامی مولانا عبدالعزیز سعیدی کو حافظ احمد اللہ صاحب نے جو سند عطا فرمائی اس کے ایک جانب عربی عبارت ہے، نیچے چند ضروری توضیحات ہیں۔ صفحہ کے آخر میں جناب حافظ صاحب کے دستخط اور مہر ثبت ہے۔

دوسری جانب مُد کا خاکہ اور خاکہ کے اندر سند کا ترجمہ مختصراً مذکور ہے۔ اس جانب والد گرامی مولاناعبد العزیز سعیدی رقمطراز ہیں کہ میں اپنے شیخ الکل سیدنا مولانا احمداللہ صاحب محدث دہلوی شیخ الحدیث ومدرسہ زبیدیہ کے مُد سے برابر کیا ۔ انہوں نے مولوی محمد ایوب صاحب قاضی بھوپال کے مُد سے، انہوں نے اپنے مُد کو محمد اسحاق محدث دہلوی کے مُد سے انہوں نے اپنے مُدکو مولانا رفیع الدین کے مُد سے انہوں نے اپنے مُد کو حافظ محمد حیات کے مُد سے انہوں نے ابوالحسن بن محمد صادق کے مُد سے انہوں نے اپنے مُد کو ابو الحسن بن ابی سعید کے مُد سے برابر کیا ۔ ان کا مُد ابو یعقوب کے مُد سے ان کا حسین بن یحیٰ کے مُد سے، ان کا ابراہیم بن عبدالرحمٰن کے مُد سے اور ان کامُد منصوربن یوسف کے مُد سے اور ان کا مُد احمد بن علی کے مُد سے اور ان کا احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مُدسے اور ان کا مُد خالد بن اسماعیل کے مُد سے اور ان کا مُد ابراہیم بن شنطیر اور ابو جعفر بن میمون کے مُدوں سے برابر تھا اور ان دونوں کے مُد زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے مُد سے برابر تھے۔

مدنی مُد:

راقم کی خواہش تھی کہ مدینہ سے بھی ایک مُد حاصل کیا جائے ۔ چنانچہ اللہ تعالی کی توفیق سے مئی 2011ء میں زیارت حرمین الشریفین اور مناسک عمرہ کی ادائیگی کی سعادت نصیب ہوئی ۔ مُد کےجستجو جاری رہی ۔ بالآخر 29 مئی کو مدینہ پاک میںایک بزرگ الشیخ عبدالرحمٰن محمد سعیدسراج سے ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے کمال شفقت و مہر بانی فرماتے ہوئے مُد مع سند عنایت کیا۔ اللہ کریم انہیں جزائے خیر سے نوازے آمین۔

وہ ذاتی طور پر ایک مہندس(انجینئر) ہیں۔ وہ اس مُد کی ہزاروں نقول تیار کر واکر اکناف عالم میں اصحاب علم و ذوق تک پہنچا چکے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ اس مُد کو پوری دنیا میں عام کردیا جائے تاکہ اہل اسلام فطرانہ کی ادائیگی کے لیے استعمال کریں اور اس طرح متروکہ سنت کا احیا ء ہوسکے۔(جزاہ اللہ خیراً)

موصوف سے جو مُد حاصل ہواہے ، پانی سے پیمائش کی گئی تو ہو ہمارے پاس پہلے سے موجود مُد کے بالکل برابر تھا۔ اور اس کی سند بھی مختلف مشائخ و اہل علم کے بعد شیخ الحدیث حافظ احمد اللہ پرتاب گڑھی ثم دہلوی رحمہ اللہ تک پہنچتی ہے اور اس کے بعد پوری وہی سند ہے۔

الشیخ عبدالرحمٰن محمد سعید سراج المدنی حفظہ اللہ کے توجہ دلانے کے نتیجے میں یہ مُد اب سیالکوٹ میں تجارتی پیمانے پر تیار ہورہاہے۔

مُد حاصل کرنے کے لیے درج ذیل پتے اور فون نمبرز پر رابطہ کیا جاسکتاہے۔

میٹرو میڈیکل 1335 انڈسٹریل اسٹیٹ سیالکوٹ۔

052-3256343،  052-3256353

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے