يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى ۙ كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًا ۭ لَا يَـقْدِرُوْنَ عَلٰي شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْا ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ (البقرۃ:264)

’’اے ایمان والو اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذاء پہنچا کر برباد نہ کرو جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالٰی پر ایمان رکھے نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اس کو بالکل صاف اور سخت چھوڑ دےان ریا کاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالٰی کافروں کی قوم کو (سیدھی) راہ نہیں دکھاتا‘‘

تفسیر و تشریح:

یہ آیت ندا ء کی تفسیر و تشریح پڑھتے ہوئے یہ نکتہ ذہن میں ضرور ہونا چاہیے کہ اللہ رب العالمین اس آیت کریمہ میں جوخطاب کر رہے ہیں اسے اچھی طرح محفوظ کر کے اس پر عمل کرنا ہے ۔

اس آیت کریمہ میں اللہ رب العالمین اپنے مومن بندوں کو ان کے اعمال صالحہ اور صدقات و خیرات کی صیا نت و حفاظت کے بارے میںتنبیہہ کرتے ہوئے فرمارہے ہیں کہ اے میرے مومن بندو ! خیال رکھنا کہ کہیں تم اپنے اعمال اور صدقات و خیرات کو باطل اور رائیگاں اور ضائع نہ کر بیٹھو اور اسی لیے اس آیت کریمہ میں چند ایک مضر چیزوں کا ذکر کرکے ان سے ہوشیار رہنے اور بچنے کا کہا گیا ہے۔

صدقات کو باطل و رائیگاں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ صدقات سے جو غرض ہوتی ہے کہ نفس کا تزکیہ و تطہیر ہوجائے وہ غرض اگر صدقات سے حاصل نہ ہو تو صدقہ باطل ورائیگاں ہوگیا کیونکہ شریعت میں صدقہ ایک ایسی عبادت ہے کہااگر وہ ایسی باتوں سے خالی ہو جو تزکیہ نفس میں رکاوٹ ہوتی ہیں تو صدقہ سے نفس کاتزکیہ حاصل ہوجاتاہے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے چند باتیں بیان کی ہیں جو تزکیہ نفس میں مانع اور رکاوٹ ہوتی ہیں ۔

1-پہلی چیز جو مانع تزکیہ ہے وہ ’’المَنـ‘‘ہے جو بہت بڑا گناہ ہے ،’’مَن‘‘ کا مطلب ہے احسان جتانا، احسان جتلانے والے کو مناّن کہتے ہیںاور یہ منان ان تین لوگوں میں سے ایک ہے جن کے بارے میں حدیث پاک میں آتاہے کہ روز قیامت اللہ ان کی طرف نظر رحمت نہ فرمائیں گےاور نہ ان کا تزکیہ فرمائیں گے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا جیساکہ مسلم شریف کی حدیث میں آیا ہے ۔

ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: رَجُلٌ عَلَى فَضْلِ مَاءٍ بِالْفَلَاةِ يَمْنَعُهُ ابْنَ السَّبِيلِ، وَرَجُلٌ بَايَعَ رَجُلًا سِلْعَةً بَعْدَ الْعَصْرِ فَحَلَفَ بِاللَّهِ لَأَخَذَهَا بِكَذَا وَكَذَا فَصَدَّقَهُ، وَهُوَ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ (سنن ابن ماجه (2/ 744)

’’وہ تین قسم کے لوگ ہونگے جن سے اللہ تعالیٰ روز قیامت نہ تو کلام فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظر رحمت فرمائیں گے اور نہ ان کا تزکیہ فرمائیں گے اور ان کو دردناک عذاب ہوگا وہ تین قسم کے لوگ یہ ہیں، ٹخنے سے نیچے تک لٹکا ہو پاجامہ یا تہبند پہننے والا، احسان جتانے والا، کہ جو بھی دے احسان جتائے بغیر نہ دے اور جھوٹی قسم کھارکر مال بیچنے والا‘‘

صدقات میں احسان جتانے کی صورت یہ بھی ہے کہ جس کو صدقہ دے رہاہے اس کو جتابھی دے کہ میں تم کو صدقہ دے رہا ہوں اور یہ اتنی رقم ہے وغیرہ اور یہ جتانے میں اس پر اپنی بڑائی ظاہر کرنا مقصود ہو۔

لوگوں میں منان وہی شخص کہا جائیگا جو بغیر احسان جتائے کوئی شے کسی کو نہ دیتاہو۔

اہل ایمان کو اس احسان جتانے سے بہت پر ہیز کرنا چاہیے کہ اس کی وجہ سے صدقہ کا اجر و ثواب برباد ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی جو ناراضگی ہے وہ مزید برآں ہے۔

2-دوسری چیز جو مانع تزکیہ ہے وہ یہ ہے کہ ’’الاذیٰ‘‘ یعنی ایذارسانی، عربی زبان میں اذیٰ تکلیف کو کہتے ہیں۔ انسان کو اپنے دین، اپنی عزت و آبرو، اپنی جان و مال وغیرہ سے متعلق جو بھی تکلیف پہنچے وہ ’’اذیٰ‘‘ میں داخل ہےاور اس کی وجہ سے صدقہ کا اجر وثواب باطل ہوجاتاہے ۔

اس آیت کریمہ میں ’’الاذیٰ‘‘سے مراد یہ ہے کہ جسے صدقہ دیا ہے اس سے بدزبانی اور زبان درازی میں ایسی بات کہہ دے جو اسے ناگوار گذرے یا اس کی بے عزتی اورتذلیل کرے حالانکہ وہ بیچارہ غریب صدقہ لینےوالا بھی مومن ہونے کی وجہ سےاللہ تعالیٰ کا دوست ہے۔

بخاری شریف کی ایک روایت ہے کہ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ ( صحيح البخاري (8/ 105)

’’جو شخص میرے کسی دوست سے دشمنی کرے گا تو میں اس سے اعلان جنگ کرتاہوں‘‘

تجربہ اور مشاہدہ سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ در اصل یہ دشمنی ہی ہے جس سے یہ اذیٰ جنم پاتی ہے ، یعنی سب سے زیادہ بری اور خراب قسم کی اذیٰ وہ ہے جو عداوت اور دشمنی کہلاتی ہے۔

3-تیسری چیز جو تزکیہ و صفائی سے روکتی ہےاور اس کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے وہ ہے ریاء او ر دکھاوا ہے۔ ریا ء کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنا نیک عمل لوگوں کو اس لیے دکھائے کہ لوگ اس کی تعریف کریں اور اسے بزرگ سمجھیں یا ایسی صورت ہو کہ اسے اندیشہ ہو کہ کہیں لوگ میری برائی نہ کریں اس لیے ان کی برائی سے بچنے کے لیے کوئی عمل کرے تو یہ بھی ریا ء ہے اور دکھاواے میں داخل ہے ۔ یہ ریا بھی عمل خیر کو باطل و فاسد کریتی ہے جس کی وجہ سے نفس انسانی کا تزکیہ نہیں ہو پاتا۔ جو حال ’’المن‘‘ اور ’’الاذیٰ‘‘ کا ہے بالکل وہی حال اس ریاء میں بھی ہوتا ہے ، صدقہ کا اجر و ثواب جاتا ہے او ر گناہ لازم آتا ہے۔ جبکہ من و اذیٰ کا تعلق صدقہ سے ہی ہے باقی عبادات میں ان کا دخل نہیں لیکن ریا ء ایسی برائی ہے یہ تمام عبادات میںپائی جا سکتی ہے ، مثلاً دکھلاوے کی نمازیں ، روزے ، حج ، عمرہ وغیرہ الغرض تمام عبادات میں ریا کا عنصر پایا جا سکتا ہے ، لہٰذا یہ آخر الذکر مذکو رہ بالادو بیماریوں سے زیادہ خطر نا ک و نقصان دہ ہے ان سے صرف صدقہ برباد ہوتا ہے اس سے اعمال کی پوری عمارت گرجاتی ہے اور جب انسان کے اعمال نامہ سے نیک اعمال مٹا دیے جائیں تو گناہ باقی رہ جائیں گے اور اس کا انجام کا ر جہنم کا گھڑا ہوگا۔لہٰذا مجھے اور آپ کو سب سے زیادہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارے اعمال ریاء کی لعنت سے پاک ہوں اور خالص اللہ کے لیے ہوں۔

ریا کا سبب ضعف ایمان ہے اور یہ اکثر کمزور ایمان والوں میں پائی جاتی ہے، جن کا ایمان اللہ اور آخرت پر پختہ ہوگا ہو اس بیماری سے بچا رہے گا اور جس کا ایما ن کمزور ہوگا وہ اس میں مبتلاء ہوگا۔

اللہ تعالی نے ایسے محروم اور اعمال کے برباد ہونے والوں کی مثال ایک چکنے پتھر سے دی ہے کہ جس پر کچھ گرد پڑی ہو اور تیز بارش ہو اور وہ صاف ہوجائے اور پتھر ویسا ہی رہے جیسا پہلے بالکل خالی تھا، وہی صورت ان لوگوں کی ہے کہ جو لوگ صدقات میں احسان جتاتے اور لوگوں کو اذیٰ دیتے اور اعمال میں ریاء کرتے ہیں با وجود یہ کہ وہ بظاہر اعمال کرتے ہیں لیکن ان کے دل اس چکنے پتھر کی مانند ہیں جس کے اندر اس بارش کا کو ئی اثر نہیں جاتا نہ کوئی ثمر آتا ہے بلک وہ جیسے پہلے تھا اپنی اسی حالت پہ برقرار رہتا ہے۔ ایسےلوگ منزل مقصود تک نہیں پہنچ پاتے بلکہ دونوں جہانوں میں نامراد ہی رہتے ہیں ۔

ا س سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ گویا یہ لوگ کا فر ہیں اگرچہ یہ کفر حقیقی نہیں بلکہ کفرانِ نعمت ہےمگر نعمتوں کی نا شکری اور غلط استعمال منعم حقیقی کو ناپسند ہے ۔

اب اہل ایمان کو چاہیے کہ اس ارشادگرامی کو اچھی طرح سمجھ لیں اور پنے صدقات و خیرات اور اعمال صالحہ کی حفاظت کریں ان موذی امراض سے کہ مبادا یہ ان سب کو برباد کر کے تطہیر قلوب کے مانع ہوجائےاو تزکیہ نفس نہ ہو سکے۔اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے کہ :

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى (الاعلی:11)

’’بیشک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا (اپنے نفس کا تزکیہ کیا)‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے