عصر حاضر کا انسان روحانیت اور مادیت کے درمیان لٹکا ہوا ہے۔اس کی زندگی کا ایک سرا ذاتِ باریٔ تعالیٰ ہے تو دوسرا فکرمعاش، اس کا ایک ا ہم ترین رشتہ اپنے خالق کے ساتھ ہے جبکہ دوسر ا رشتہ اس جہانِ آب و گلِ سے جڑا ہوا ہے۔اس دوگونہ رشتوں اور دیرینہ تعلق میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے نتیجے میں زندگی یا تہذیب کی میزان برابر رہ سکتی ہے۔ ورنہ ایک پلڑہ جھکے گا تو نتیجہ الحاد و مادہ پرستی اور خواہشات و جذبات کی غلامی ہے، اور دوسرا پلڑہ جھکے گا تو رہبانیت، ترک دنیا اور نفس کُشی کا مظاہرہ ہوگا۔ اس روحانی اور مادّی کشمکش نے انسان کے وجود میں ایک ہیجان اور تناؤ کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اور جس کے اثرات نے اس کے باطن میں چھپے ان جواہر کو مضمحل کر دیا ہے جو اس کی شخصیت کی آبیاری کر تے ہیں۔ اورا س کو فکری ترفع دیتے اور معاشرے کی ایک ذمہ دار اور فعال کرداریت کا حسن عطا کر تے ہیں۔

انسان کی اس باطنی شکست و ریخت کے مظاہر اجتماعی اور انفرادی گوشوںمیں عیاں ہوتے رہتے ہیں۔ اور حد تو یہ ہے کہ اس کی ستم پروری نے مذہب کو بھی نہیں بخشا۔ کچھ اپنے نفس کے تقاضے اور کچھ مغربی تہذیب کے جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری کی چمک دمک نے احساسِ کمتری، ذہنی انتشار، قلبی سکون سے محرومی، اخلاقی بگاڑ، تشکیک و تردد اور انحراف و اختلاف میں ایسا الجھا دیا ہے کہ نظروں کے سامنے پھیلی ہوئی دھند کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اور یہ دھند دراصل انسان کی بصیرت کے شفاف آئینے پر پڑی وہ گرد ہوتی ہے جو اس کے فکر و عمل کی کجروی اور فہم و فراست کی غیر فعالیت کی بنا پر آئینے کی نورانیت کو بے نور کر دیتی ہے۔

عظمت کی زندگی بصیرت سے حاصل ہوتی ہے اور بصیرت زندگی کے عرٖٖفان کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ کوئی بھی نظریہ یا فلسفہ زندگی کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوششوں کے نتیجے میںہی معرض وجود میں آتا ہے۔ انسان نے جب سے غور و فکر کر نا سیکھا ہے جب ہی سے وہ اس کائنات کے رموز اور اس کی معنویت سمجھنے میں غواصی کر رہا ہے۔ اور اسی فہم و تدبر کی ادھیڑ بن کے سبب دنیا میں علم و دانش کا ارتقاء ہوا۔

مختلف فلسفۂ ہائے مذہب وجود میں آئے۔ مذہب انسانی ذہن کی گرہیں کھولنے کا بہتری آلہ ہے۔ لیکن ا نسانی ذہن کی عیاریوں اور فلسفیانہ موشگافیوں نے مذہب کی ڈور کو سلجھانے کے بجائے کچھ اور الجھا دیا۔ دوسری چیز فلسفیانہ افکار ہیں جو انسان کو زندگی کے حقائق سے دور کر کے اس فکر و عمل میں شکوک و شبہات کا بیج بودیتے ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزادرحمہ اللہ اپنی رائے کا یو ں اظہار کر تے ہیں: ’’ فلسفہ شک کا دروازہ کھول دے گا اور پھر اسے بند نہیں کر سکے گا۔ سائنس ثبوت دے دےمگر عقیدہ نہیں بدل سکے گا‘‘لیکن مذہب ہمیں عقیدہ دے دیتا ہے اگرچہ ثبوت نہیں دیتا اور یہاں زندگی بسر کر نے کے لیے صرف ثابت شدہ حقیقتوں ہی کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ عقیدہ کی بھی ضرورت ہے۔ہم صرف انہی باتوں پر قناعت نہیں کر سکتے جنہیں ثابت کر سکیں اور اس لیے مان لیتے ہیں، ہمیں کچھ باتیں ایسی بھی چاہئیں جنہیں ثابت نہیں کرسکتے لیکن مان لینا پڑتا ہے۔ یہ راہ ہمیشہ شک سے شروع ہوتی ہے اور انکار پر ختم ہوتی ہے اور اگر قدم اسی پر رک جائیں تو پھر مایوسی کے سواکچھ ہاتھ نہیں آتا۔

عصر حاضر میں آج اس کی شدید ضرورت ہے کہ انسان کی انفرا دی و اجتماعی شخصیت میں چھپے روحانی جوہر کو اجا گر کیا جائے اور اس کی عملی تشکیل میں اسوۂ رسول ﷺ کی اطاعت کی بنیادوں کو واضح کیا جائے جس سے اس کی فعال شخصیت کے خدو خال ابھر کر سامنے آئیں، مادیت کا جوحصار انسانی وجود کو گھیرے رہتا ہے ااس کی طنابیں ٹوٹ کر اسے روحانیت کی آسودگی سے آشنا کر سکیں۔ کیونکہ انسان کی ذات میں خودی کی بھرپور نشوو نما اور اس کی فکری اٹھان ہی زندگی کا اصل منتہا و مقصود ہے۔

ابنِ خلدون نے اپنے ’مقدمہ‘ میں لکھا ہے: ’’اسباب میں اپنی فکر لگانا یا اس سے دست کش ہوجانا آپ کی قدرت و بس میں ہر گز نہیں،اسباب میں بار بار غور و خوض کرنے سے نفس پر کچھ ایسا رنگ چڑھ جاتا ہے کہ وہ اسباب پرستی کا ہی بندہ بن جاتاہے پھر وہ خود اپنے قابو سے با ہر ہو جاتا ہے۔ اور اس کی اس بے بسی کا اس کے نفس کو علم تک نہیںہوتا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اسباب پر قطعاً نظر نہ ڈالی جائے کہ پھر اس کے جال سے نکلنا دشوار ہوجائے۔ اسباب میں پڑنے اور اس پر بھروسہ کرنے سے انسان ایمان سے خارج ہو کر کفر میں داخل ہوجا ئے گا، یا اسباب کے سمندر میں ہی غواصی کر تا رہے گا۔ جس کے نتیجے میں وہ ناکام و نا مراد ہی رہے گا۔ لہٰذا انہیں خطرات سے بچانے کے لیے ہم کو شرع سے حکم ملا ہے کہ ہم اسباب کی کرید اور ٹوہ میں نہ رہیں۔‘‘

نظام کائنات کی ان گنت مخلوقات میں صرف انسان ہی کو ارادہ و اختیار کی قدرت و طاقت سے نوازا گیا ہے، وہ اس کار خانۂ حیات کی بے شمار چیزوں کو اپنی مرضی سے استعمال کر سکتا ہے اور ان کو اپنے تصرف میں لا سکتا ہے۔ سا ئنس اور ٹیکنا لوجی کا ارتقاء نت نئی دریافتیں اورحیرت انگیز ایجادات انسان میں دیے ہوئے حق تصرف اور خود شعوری کی عکاس ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان جبر و قدر کے مابین ایک مجبور و مختار ہستی ہے۔ اس لیے وہ اس کائنات کی ہیئت و ساخت اور اس کے حرکت و سکون پر کوئی قدرت نہیں رکھتا۔ بلکہ اسے تو اپنی ذات کی فنا و بقا میں بھی کسی تغیر و تبدل کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اس کی اس بے بسی کی قرآن حکیم میں کچھ یوں نقشہ کشی کی گئی ہے: ترجمہ:’’لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کرسکتے، گو سارے کے سارے جمع ہوجائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھا گے تو یہ تو اس سے چھینے کی بھی کوئی قدرت نہیں رکھتے، بڑا بودا ہے طلب کرنے والا اور بڑا بودا ہے جس سے طلب کیا جا رہا ہے۔‘‘ (الحج)

انسان کے ترک و اختیار اور ردّوقبول کی قوت و صلاحیت میں بھی اللہ کی کوئی نہ کوئی مصلحت و حکمت پوشیدہ ہے۔ اس لیے کہ اللہ کا کوئی عمل اور اس کی قدرت کا کوئی مظہر (phenomenan) نہ بے مقصد ہوتا ہے اور نہ بے نتیجہ۔ چنانچہ انسان کو جن استعدادات اور طبعی قوتوں سے بہرہ ور کیا گیا ہے اس کے پیچھے بھی کوئی خاص مقصدکار فرما ہے۔ اور وہ یہ کہ انسان اپنی فطر ی صلاحیتوں کو اللہ کی منشاء اور اس کی رضامندی کے عین مطابق استعمال کرے۔ زندگی اس ڈھب سے گزارے جس میں وہ راضی ہو۔ اپنی ذات کی نفی کر دینا، اپنے منہ زورنفس کی لگاموں کو کھینچ کر رکھنااور راضی برضا رہنا رب کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے۔

بقول شاعر ؎

رضائے حق پہ راضی رہ، یہ حرفِ آرزو کیسا؟

خدا خالق، خدا مالک، خدا کا حکم ، تو کیسا؟

اب سوال یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی مرضی و منشا کو کیسے معلوم کرے۔ خالق ومخلوق کے درمیان پڑے حجابات کو اٹھانا انسان کے قبضہ ٔ قدرت میں نہیں ہے۔یہاں وہ لاچار و بے بس ہے۔ کیونکہ یہ تمام چیزیں تو ما بعد الطبیعات کے اسرار و رموز ہیں۔ جبکہ اس سوال کا حل خود انسانی زندگی کی فلاح و نجات کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر کسی کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ جس منزل کی طرف وہ رواں دواں ہے اس تک پہنچنے کا صحیح راستہ کون سا ہے تو وہ کبھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ پائے گا، بلکہ انجانے راستوں کے نشیب و فرازاس بھٹکے ہوئے مسافر کو ان گھاٹیوں میں بھی لے جا سکتے ہیں جو اس کی ہلاکت و بربادی کا ٹھکانہ ثابت ہوں گی۔ یقیناً اس مقام پر اسے کسی ایسی رہنمائی اور سواء السبیل کی ضرورت ہوتی ہے جو صحیح سمت کی طرف اس کے رخ کو موڑ سکے۔ چونکہ انسان کی نظر پیکر محسوس کی عادی ہے، اس لیے اس کی ہدایت ورہنمائی کے لیے کسی اپنے ہی جیسے انسان کا وجود بطور نمونہ چاہیے تھا، چنانچہ خالق کون و مکاں نے نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ شروع کیا۔ جس کی آخری کڑی یا رشد و ہدایت کی مضبوط عمارت کی آخری اینٹ خاتم الانبیاء و مرسلین محمد عربی ﷺ کو بنایاگیا۔ ارشاد ربانی ہے:

ترجمہ: وہی تو جس نے ان پڑھوں میں، انہی میں سے (یعنی محمد ﷺ کو) پیغمبر بنا کر بھیجا ،جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے، ان کا تزکیہ کرتے اور اللہ کی کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور اس سے پہلے تو یہ صریح گمراہی میں تھے۔‘‘ (الجمعہ ۰۲)

حق کی راہ سے بھٹکی ہوئی یا شعور و آگہی سے محروم انسانوں کے کردار و عمل کی درستی کے لیے یہ چار صفات رسول ﷺ کے فرائض منصبی کے ضمن میں اس سورۃ سے قبل سورہ البقرمیں دو مقامات پر اور پھر سورہ آلِ عمران کے بعد چوتھی مرتبہ سورہ الجمعہ میں اس کا اعادہ کیاگیا، اسی سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مولانا ابو لاعلیٰ مودودی تفہیم القرآن‘ میں سورۃ الجمعہ کی اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: ’’ جو آیات اللہ کے رسول پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں، جن کی زبان، مضامین، انداز بیان ہر چیز اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ فی الواقع وہ اللہ کی ہی آیات ہیں۔ وہ لوگوں کی زندگیاں سنوار رہے ہیں، ان کے اخلاق، عادات اور معاملات کو ہر طرح کی گندگیوں سے پاک کر رہے ہیں اور ان کو اعلیٰ درجے کے اخلاقی فضائل سے آراستہ کر رہے ہیں۔ یہ وہی کام ہے جو اس سے پہلے بھی تمام انبیاء کر تے آئے ہیں۔ پھر وہ (رسول) صرف آیات پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ ہروقت اپنے قول اور عمل سے اور اپنی زندگی کے نمونے سے لوگوں کو کتاب الٰہی کا منشا سمجھا رہے ہیں اور ان کو اس حکمت و دانائی کی تعلیم دے رہے ہیں جو انبیاء کے سوا آج تک کسی نے نہیں دی۔ یہی سیرت و کردار اور کام ہی انبیاء کا وہ نمایاں وصف ہے جس سے یہ پہچانے جاتے ہیں‘‘ اس سے یہ ثابت ہوا کہ تمام انسانوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین(اسوہ) نمونہ ہے۔

انبیاء کی بعثت کا اصل مقصد ہی بندوں کا تعلق اللہ اور اس کے رسول سے مضبوط کر نا ہے۔ اور اپنے قول و فعل سے دنیا اور آخرت کی حقیقتوں کو واضح اور مبر ہن کر نا ہے ۔ اسی لیے قرآن میں اس طرف خصوصی توجہ دلائی گئی کہ رسول کی پیروی اور اس کی اطاعت کرو کیونکہ رسول کی اطاعت ہی دراصل اللہ کی اطاعت ہے۔ اللہ نے رسول کو اپنا نائب بنا کر اس کارزار حیات میں بھیجا ہے۔ چنانچہ یہ رسولوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کے ذہنوں سے اشکالات اور فکری الجھنوں کو حکمت و مو عظت کے ساتھ دور کریںاور ان کو یہ آگہی دیںکہ خالق کائنات کا اس محیر العقول کائنات سے ربط و تعلق کیا ہے؟ ایک بندہ ہونے کی حیثیت سے اللہ سے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ اس وسیع و عریض کا ئنات میں انسان کا اپنا مقام و مرتبہ کس درجے کا ہے؟ انسانوں کے مابین حقوق و فرائض کے حدود و قیود کا پیمانہ کیا ہے؟اخلاقی ضابطے، سماجی تعلقات، تمدنی تقاضے اور انسان کے خیر و شرکے خارجی اور داخلی داعیات کے تقاضوں کے معیارات کیا ہے؟ ان سارے امور کی پردہ کشائی رسولوں کا فرض منصبی ہے۔

انسان کی کردار سازی کا اصل راز ہی یہ ہے کہ اس کے اندر روح ربانی کی با لیدگی، نشو و نمااور ارتقا کی منازل درجہ بدرجہ طے ہوتی چلی جائیں،قرآن کریم میں رب تعالی کا ارشاد ہے:

لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ (الانشقاق 19)

’’تم یقیناً درجہ بدرجہ آگے بڑھوگے‘‘اور اسی امر کے پیش نظر انبیاء و رسل کو مبعوث کیا گیا اور ان کو انسانی نفوس کے تزکیہ اوران کے آئینہ روح کو فسق و فجو ر کی گرد سے صاف و شفاف کر نے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ چنانچہ عقلی موشگافیوں، منطق و فلسفہ اور علم الکلام کی نکتہ آفرینوں سے صرفِ نظر کر کے محض وحی ربانی کی بنیا د پرمنحصر انسان کے ان اساسی عوامل پر اپنی پوری توجہ کو مرکوز کیا گیا جو انسان کی مثبت فعالیت کے اصل محرکات ہیں۔ اور ان ہی کو قرآن حکیم میں انسان کے فائدہ اور خسران کا اصل منبع و محور قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے:

وَالْعَصْرِ، اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ، اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ڏ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصر 3-1)

’’قسم ہے زمانے کی! تمام انسان خسارے میں ہیں۔ سوائے ان کے جو ایمان لائے۔ اور جنہوں نے نیک عمل کئے اور جو لوگوں کو حق کی وصیت کرتے رہے۔ اورجو صبر و تحمل سے کم لیتے رہے۔

انسان کی زندگی میں تین عوامل اس کے اعلیٰ کردار اور روحانی ارتقا کے لیے نا گزیر ہیں۔ اللہ، اس کے رسول اور آخرت پر کا مل ایمان، عمل صالح اور اخلاق حسنہ۔ یہ اعلیٰ اوصاف اور فکری بلندی کے وہ مضبوط ستون ہیں جو ایک بار فکر و نظر کی زمین پر کھڑے کر دئے جائیں تو انسانی وجود میں نا قابل تسخیر قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن اس مقام پر پہنچنے کے لیے اس فلسفہ و حکمت کو حرزِ جاں بنا نا لازمی ہے جو اللہ کے رسول ﷺ نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔

اس بلند و بالا منزل پر پہنچنے کے لیے پہلی سیڑھی ایمان راسخ ہے۔ ایمان کی جڑیں انسان کے باطن میں اپنی جگہ بنا لیں تو اس کے عقائد، نظریات، فکری اور عملی زندگی میں وہ انقلاب بر پا ہو جاتا ہے۔ جو اس کے ارادوں، ولولوں اور قربِ الٰہی کی تڑپ کو تازہ اور توانا خون مہیا کر تا ہے۔ اور اس کی شخصیت کی نشوو نما کو نئی زندگی بخش دیتا ہے۔ اصل میں ایمان و یقین کی کیفیت ہی الحاد و مادہ پرستی کی جڑوں پر تیشہ چلاتی ہے۔ اور حق و صداقت کی روشنی سے اس کی ذات کے اندھیرے دور ہوتے ہیں۔ زیغ و ضلال کی گمراہیاں انسانی وجود کو تارِ عنکبوت کی مانند گھیرے رہتی ہیں۔ ایمان کی ایک بار شمع روشن ہوجائے تو فسق و فجور کی تیرگی اس طرح معدوم ہو جاتی ہے جیسے کہ سورج کی آمد کے بعد چاند کی کرنیں بے نور ہوجاتی ہیں۔

انسان کا دوسر ا قدم اس کی عملی زندگی کی شفافیت اور صالحیت کے جوہرخالص پر منحصر ہے۔ ایمان اور عمل ایک دوسرے کے لیے لا زم و ملزوم ہیں۔ اگر دل کی گہرائیوں میں ایمان راسخ ہوگا تو اس کا اظہار انسان کے عمل سے ہونا لازمی ہے۔ اس لیے کہ ہر انسان کی حیاتِ دنیوی کے دو رخ ہیں، ایک اس کی فکر اور دوسرا اس کا عمل، اگر فکر درست ہوگی تو اس کا عمل بھی تیر کی طرح سیدھا ہوگا اور اگر فکر میں ہی کوئی کجروی اور بگاڑ موجود ہے تو بلا شبہ اس کا اظہار اس کے عمل سے مترشح ہو گا۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ’ ’حجۃ اللہ با لغہ‘ ‘میں لکھتے ہیں: انسان اپنے ارادہ

اختیار سے جو عمل بھی انجام دیتا ہے وہ اس کے باطن اور نفس ناطقہ میں ایک پائیدار اثر چھوڑتا ہے جو اس عمل کا نتیجہ ہوتا ہے کہ عمل کی نوعیت کے مطابق اس کا نفس یا نورانی بنتا جاتا ہے یا اس پر ظلمت چھا جا تی ہے‘‘ قلبی ایمان اعمالِ ظاہرہ کا متقاضی اور اس میں مداومت سے مشروط ہے۔ اسی طور سے اعمالِ صالحہ پر استقامت قلبی ایمان کی حرارت کو بر قرار رکھتی ہے۔ اور اس میں ترو تازگی اور رعنائی کے عنصر کو ختم ہونے نہیں دیتی۔

انسانیت کے اعلیٰ مرتبے پر پہنچنے کے لیے تیسری چیز اخلاق حسنہ ہے۔ یہ انسانی اوصاف کا وہ عطر ہے جس سے پورا معاشرہ مہکتا رہتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’یعنی مجھے تو عمدہ ا خلاق کی تکمیل کے لیے ہی بھیجا گیا ہے‘‘۔(الجامع الصحيح للسنن والمسانيد (9/ 494)

نبی کریم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ کونسی چیز اکثر لوگوں کو جنت لے جائےگی؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:

تَقْوَى اللَّهِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ” (صحيح ابن حبان – محققا (2/ 224)

وہ اللہ سے ڈرنا اور خوش خلقی ہوگی‘‘

حسنِ اخلاق انسانی معاشرے میں امن و سلامتی کا ضامن ہوتا ہے۔اور اخلاقی تقاضے حیات دنیوی کے ہر شعبہ میں موجود ہونا لازم ہے۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر بگاڑ کا پیدا ہونا بنیادی انسانی اخلاق سے غفلت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ نحوست کیا چیز ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: سو ء الخلق ’’یعنی بد خلقی‘‘ یعنی دین میں اگر کوئی نحوست والی شے ہے تو وہ برااخلاق ہے۔ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی بد تمیزیوں، اکڑ فوں، لفنگے پن سے عزت دار لوگ خوف زدہ رہتے ہیں کہ نہ جانے کب یہ شخص عزت خا ک میں ملا دے، اب اندازہ کریں کہ ایک انسان اپنے ہی جیسے دوسرے انسان سے ڈرنے اور خائف رہنے لگے، جبکہ ڈرنے کا حقدار صرف اللہ واحد ا لقہار کا ہے، تو ایسا انسان جو خوف کی علامت ہو، وہ انسانیت کے مقام سے ہی گر جاتا ہے۔

اب غور طلب امر یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ سے ازروئے قرآن حکیم ہمارے تعلق اور نسبت کا دائرہ کیا ہے۔اس سلسلے میں ارشاد ربانی ہے:

ترجمہ: پس جو لوگ ایمان لائے ان(نبیﷺ) پر اور جنہوں نے ان کی توقیر و تعظیم کی،اور جنہوں نے ان کی مدد اور حمایت کی،اور جنہوں نے اس نور کا اتباع کیا جو انﷺ کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، تو یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔ ( الاعراف ۵۷)

سورۃ الاعراف کی پوری آیت کے اس حصے کے مطالعہ سے رسول اکرمﷺ سے ہمارے روحانی تعلق کی اصل بنیاد سامنے آتی ہے اور جس پر عمل پیرا ہوکر بحیثیت مسلمان ہم اس آیت کا مصداق بنتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ’’رسول کی اطاعت ہی دراصل اللہ کی اطاعت ہے‘‘ رسول اکرم ﷺ کی اطاعت کا اولین تقاضا تو یہ ہے کہ ان پر صمیمِ قلب سے ایمان لایا جائے۔ لیکن آپ ﷺ اور امت مسلمہ کا جو مضبوط ترین تعلق ہے وہ ایمان با لرسالت کے حوالے سے ہے۔ اور وہ یہ کہ اللہ کے رسول ﷺ پورے عالم کے لیے ہادی و رہنما بنا کر مبعوث کیے گئے ہیں۔ اس اعتبار سے آخرت میں بھی وہی شخص مؤ من قرار پائے گا جس نے اللہ کے رسولﷺ پر زبانی اقرار کے ساتھ دل سے آپ کی رسالت کی تصدیق بھی کی ہو، کیونکہ اقرار ٌ با للسان اور تصدیق با لقلب لازم ملزوم ہیں۔ اور ایمان کی تکمیل ان دونوں کے اشتراک و ارتباط سے ہوتی ہے۔ دوسرے درجے میں ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کی تعظیم و توقیرکی جائے۔ رسول کریمﷺ کی اس عزت و توقیر اور احترام و ادب کی وضاحت سورۃ الحجرات کی آیت 02 میں ان الفاظ میں کی گئی ہے:

ترجمہ: اے ایمان والو! مت بلندکرو اپنی آوازوں کو نبیﷺ کی آواز پر اور نہ ان سے گفتگو میں آواز کو اس طرح بلند کیا کرو جس طرح باہم تم ایک دوسرے سے گفتگو کر تے ہوئے اپنی آواز کو بلند کر تے ہو، مباد ا تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں اس کاشعور تک نہ ہو

چنانچہ ایمان با لرسالت کا پہلا اور لازمی عنصر رسول کریمﷺ کا احترام، ادب اور توقیر و تعظیم ہے۔ انسان کے اس جذبے اور اس پر عمل کی تکمیل رسالت کے دو اہم اجزاء کے باہمی ربط سے اپنے منطقی انجام کو پہنچتی ہے۔ ایک ہے رسول ﷺ کی بے ریا اطاعت اور دوسرے محبت رسولﷺ جو محض جھنڈے لگاکر، سیرت کانفرنسیں کر واکر، آپﷺ پر درود و سلام بھیج کر اور وجد کی کفیت میں نعتیں پڑھ کر نتیجہ خیز نہیں ہوسکتیں اور نہ اس طرح حق اطاعت و اتباع ہی ادا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ خود رسالت مآب ﷺ نے اس کی وضاحت ان الفاظ میں فرمائی ہے:

’’ تم میں سے کوئی مؤ من نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس اس (ہدایت) کے تا بع نہ ہو جائے جو میں لے کر آیا ہوں(شرح السنہ)

گویا ایمان کے دعویدار جب تک ان تمام احکامِ شریعت، حدود و قیود اور اوامر و نواہی کو دل کی پوری آمادگی کے ساتھ تسلیم نہ کر لیں جو رسول برحق ﷺ نے قرآن و سنت کے حوالے سے تعلیم فرمائے ہیں تب تک ایمان کا تقاضا پورا نہیں ہو سکتا۔ اللہ نے کوئی رسول اس روئے ارض پر نہیں بھیجا جس کی قلبی اور شعوری اطاعت لا زمی نہ قرار دی ہو۔ ارشاد الٰہی ہے:

ترجمہ: اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔(النساء 64 )

اسی سورہ مبارکہ کی آیت 80 میں فرمایا:

ترجمہ: جس شخص نے رسول کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘

کیونکہ اللہ کے احکام و فرامین بندوں تک پہنچانے کا ذریعہ رسولوں کو ہی بنایا جاتاہے۔ اس لیے رسول کی اطاعت گویا اللہ کی ہی اطاعت ہے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ رسول صرف تبلیغِ وحی کے لیے ہی نہیں آتے بلکہ عملی طور پر کتاب اللہ کا نمونہ بھی ہوتے ہیں، اس لیے ہر عمل میں ان کی اطاعت لازمی ہے۔ اسی بات کو خود رسول کریمﷺ نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا: ’’جس نے میری اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے اللہ کی نا فرمانی کی‘‘( متفق علیہ)

رسول کریم ﷺ پر ایمان اور آپ کی عظمت اور مقام رفعت کا دوسرا اہم پہلو آپﷺ سے سچی اور والہانہ محبت ہے جس میں کسی قسم کی زبردستی، مجبوری اور ریا کاری نہ پائی جاتی ہو۔ بلکہ دل کی پوری آمادگی اور پورے شرح صدر کے ساتھ کی جا ئے، اور یہ بھی ایمان کا لازمہ ہے۔ا للہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے: ’’تم میں سے کوئی شخص مؤ من نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے لیے اس کے باپ، اس کے بیٹے اور تمام انسانوں سے محبوب تر نہ ہوجاؤں‘‘ (متفق علیہ)

اس سے متعلق ایک اور لازمی امر ہےکہ رسول ﷺ کی اتباع، یعنی یہاں محض رسول کے حکم کے ہرحکم اور ہر فرمان کی اطاعت ہی مطلوب نہیں بلکہ اپنے محبوب رسول کی ہر ہر ادا کی پیروی بھی باعث سعادت ہے۔ جن کاموں کے کرنے کی تر غیب و تشویق دلائی گئی ہے وہ طوعاً و کر ہاً واجب الادا ہیں، لیکن جن کا حکم دربارِ رسالت سے نہیں جاری ہوا، صرف اپنے محبوب کے معمولات زندگی کو بھی اپنے لیے از خود لازم کر لینا حبّ رسولﷺ کا ثبوت ہے۔ اور اسی کا نام اتباع رسولﷺ ہے۔ گویا کہ ؎

جہاں تیر ا نقش قدم دیکھتے ہیں

خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں

رسول کریمﷺ کی محبت تکمیل ایمان کی نشانی ہے، اگر اس میں کوئی فکری اور عملی سقم موجود ہو گا، تو ایمان نامکمل ہوگا، رسول اللہ ﷺ سے سچی، صداقت سے لبریز اور دل کی گہرائیوں میں جاگزیں محبت اور جذبۂ اطاعت ایک مؤ من کا بیش بہا سرمایہ ہے اور کسی مؤ من کا دل اس نعمت عظمیٰ سے خالی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہی حبّ رسول اپنے محبوب حقیقی کے قرب اور اس کی ذات و صفات کے صحیح تصور کا واحد وسیلہ ہے۔ اگر دل میں محبت ہوگی تو اتباع اور اطاعت کا جذبہ بھی لازماً پروان چڑھے گا۔ کیونکہ محبت اطاعت و اتباع کا منطقی تقاضا ہے۔ محبت ہوگی تو اطاعت ہوگی اور جب اطاعت ہوگی تو یقینا اتباع رسول ﷺکا جذبہ بھی انسان کے اندر سے ابھر کر باہر آئے گا۔ ان سب داعیات سے جو فکری اور عملی روح بیدار ہوگی وہ ایک مسلمان کے قلب و ذہن میں یہ حقیقت واضح کر دے گی کہ اس کا بحیثیت ایک اُمتی کیا فرض بنتا ہے۔ جبکہ نبوت و رسالت کی تکمیل محمد عربیﷺ پر ہوچکی ہے۔ اب اس کار رسالت کو کون آگے بڑھائے گا۔ اس لیے کہ ؎

وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے

نور   توحید   کا   اتمام ابھی باقی ہے!

ختم نبوت و رسالت کا لازمی تقاضہ بھی یہ ہے کہ اب وہ سارے کام جو اللہ کے رسول ﷺ کیا کر تے تھے، اس امت کے ذمے ہیں۔ اس ضمن میںخواہ دعوت و تبلیغ ہو، انذار و تبشیر، تعلیم و تربیت و اصلاح و تزکیہ یا فریضۂ شہادتِ حق ہو جو بعثت انبیا ء و رسل کی اصل غرض و غایت ہے۔ پھر اعلائِ کلمۃ اللہ،اقامت دین اور اظہار دین حق ہو، یہ سب فرائض اب ان لوگوں پر عائد ہوتے ہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ کے نام لیوا ہیں، اورجو آپﷺکی ذات سے منسوب ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور آپ کے امتی ہونے کو باعث سعادت سمجھتے ہیں۔ درحقیقت انسان کی کر دار سازی اور اس کی مؤ منانہ تعمیر شخصیت کے لیے اللہ کے رسولﷺ کی ذات میں بہترین اسوہ(نمونہ) ہے۔ جس کو اختیا ر کر کے ہی وہ اللہ کا قرب بھی حاصل کر سکتا ہے اور اللہ کے رسول ﷺ کی شفاعت سے بھی بہرہ ور ہوسکتا ہے۔

کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

raheelgoher5@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے