بیت اللہ الحرام کا وہ خطبہ جمعہ جس سے تحریک ناموسِ رسالت نے جنم لیا !!
خطبہ مسنونہ کے بعد …

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْ‌سَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرً‌ا وَنَذِيرً‌ا وَدَاعِيًا إِلَى اللَّـهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَ‌اجًا مُّنِيرً‌ا وَبَشِّرِ‌ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُم مِّنَ اللَّـهِ فَضْلًا كَبِيرً‌ا وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِ‌ينَ وَالْمُنَافِقِينَ وَدَعْ أَذَاهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ وَكِيلًا (سورۃ الاحزاب)

اے نبیﷺ، ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والابناکر، اس کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بناکر۔ آپ ان لوگوں کو بشارت دیں جوآپ پر ایمان لائے ہیں کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے اور آپ کفار و منافقین سے ہرگز نہ دبیں اور ان کی اذیت رسائی کی کوئی پرواہ نہ کریں ، اور اللہ پر ہی بھروسہ کریں، اللہ ہی اس کے لئے کافی ہے۔
رسول اللہ ﷺ پر ربّ کی رحمتیں ہوں اور ان کی آل اور صحابہ پرجن کو اللہ تعالیٰ نے شاہد اور مبشرو نذیر بناکربھیجا ۔ شاہد ہمیشہ انصاف کرتا ہے ، مبشر ہمیشہ خیر کا پیغام ہی لاتا ہے اور نذیر ہمیشہ محبت و شفقت کے ساتھ ہلاکت و تباہی سے ڈراتا ہے، جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:

لَقَدْ جَآءَكُمْ رَ‌سُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِ‌يصٌ عَلَيْكُم بِٱلْمُؤْمِنِينَ رَ‌ءُوفٌ رَّ‌حِيمٌ (سورۃ التوبہ)

’’دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا مشقت میں پڑنا، اس پر سخت گراں گزرتا ہے۔ تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے ایمان لانے والوں کے لئے وہ شفیق اور رحیم ہے۔‘‘
اے لوگو! دنیاے کائنات پر اس دن صبح ِحق طلوع ہوئی اور انسانی زندگی کی نشاة ِثانیہ کا آغاز ہوا جب سب سے پہلے محمد بن عبداللہ ﷺ نے انسانی کشتی کا پتوار اپنے ہاتھ میں لیا، ان پر میرے پروردگار کی طرف سے بے شمار درود و سلام ہو۔
اللہ کی قسم! اگر آج اس عظیم ترین انسان کا دفاع نہ کیا گیا تو روے زمین کی رونقوں اور بھلائیوں کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور دنیا ویران ہوجائے گی ۔جب آپﷺ منبر پرجلوہ گر ہوتے تو وہ کانپنے لگتا۔جب آپ ﷺ وعظ کے لئے منبر پر چڑھتے تو آواز بلند ہوجاتی ، چہرہ سرخ ہوجاتا،یوں محسوس ہوتا کہ آپ ﷺ ایک حملہ آور لشکر کی اطلاع دینے والے ہیں۔
آپ ﷺ عبودیت کی سیڑھی پر سوار ہوکر سدرة المنتہیٰ تک پہنچے، اس روز جب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مسجد ِحرام سے بیت المقدس تک سیر کروائی ۔
اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کے علاوہ کسی انسان کی زندگی کی قسم نہیں کھائی، جیساکہ فرمانِ الٰہی ہے:

لَعَمْرُ‌كَ إِنَّهُمْ لَفِى سَكْرَ‌تِهِمْ يَعْمَهُونَ
(سورۃ الحجر)

’’تیری جان کی قسم! اے نبی، اس وقت اِن پر نشہ چڑھا ہوا تھا، جس میں وہ آپے سے باہر ہوئے جاتے تھے۔‘‘
حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے :

’’ما خلق اﷲ وما ذرع نفسًا أکرم من محمد ﷺ وما سمعتُ اﷲ أقسم بحیاة أحد غیرہ‘‘

’’اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ سے زیادہ عزت والاکوئی ذی نفس پیدا نہیں کیا۔ اور میں نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے علاوہ کسی اور انسان کی زندگی کی قسم کھائی ہو ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ پربے شمار درودوسلام ہوں۔ وہ اولاد ِآدم کے سرداراور اس میں کوئی فخر کی بات نہیں، وہ سب سے پہلے قبر سے اُٹھیں گے، وہ سب سے پہلے سفارش کریں گے اور ان کی سفارش قبول کی جائے گی۔ حمد کا جھنڈا روزِقیامت ان کے ہاتھ میں ہوگا اور اس میں کوئی فخر کی بات نہیں ہے۔
آپ ﷺ کا نام ‘محمد ‘جو ‘ حمد ‘سے مشتق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کائنات میں سے سب سے بڑھ کر اللہ کی تعریف و شکر کرنے والے تھے۔
اور آپ کے والد کا نام عبداللہ تھاجواللہ تعالیٰ کی عبودیت سے ماخوذ ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کو یہ بات بہت پسند تھی کہ آپ ﷺ کو عبد اﷲ ورسولہ کہہ کر پکارا جائے کیونکہ وہی اللہ کی اطاعت و بندگی پر مبنی دین ِ خالص کولے کر اُٹھے تھے۔
آپ کی والدہ کا نام آمنہ تھا جو امن و امان کا آئینہ دار ہے اور یقینا آپ کی شریعت امن کا پیغام تھی، اسی دین اور وحی کی بدولت کائنات کو پھر سے امن و امان کی دولت نصیب ہوئی۔
اور آپ کی پرورش کرنے والی کا نام اُمّ ایمن تھا جو خیروبرکت کامظہر ہے۔
اور آپ کو دودھ پلانے والی کا نام حلیمہ تھا جو حلم و بردباری کا نشان ہے۔
یہ اور اس جیسی تمام صفاتِ حسنہ پیغمبر ﷺ کی ذاتِ گرامی میں جمع ہوگئیں تھیں!!
جب آپ ﷺ اللہ کے آخری پیغمبر تھے تو اس کا تقاضا تھا کہ آپ ﷺ کی شریعت ہرلحاظ سے کامل ہو اور تمام انبیا و رسل کی تمام اعلیٰ صفات کا آپ بے مثل نمونہ ہوں۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب ایک قول ہے :

’’ما أوتي نبي من معجزة ولا فضیلة إلا لنبیناﷺ نظیرها‘‘

’’انبیا کے تمام معجزات وفضائل کی نظیر ہمارے نبیﷺ میں موجود تھی۔‘‘
یاخاتم الرسل المبارك والعلو صلیّ علیــك مُنــزل القــرآن
’’اے خاتم الرسل جس کی ذات بابرکت اور شان بلند ہے۔ قرآن کا نازل کرنے والا تجھ پر رحمتیں نازل فرمائے۔‘‘
پاک ہے وہ ذات جس نے آپ کی سمع و بصارت کو تزکیہ کا اعلیٰ نمونہ بنا دیا اور آپ کو کائنات پر فضیلت بخشی۔ اس نے انسانیت کی تمام صفاتِ کمال اور کمال اخلاق آپ کی ذات میں رکھ دیے۔ آپ کی شان کتنی عظیم ہے کہ خود پروردگار نے آپ کو وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ1 خطاب دیا۔
اور آپ ﷺ نے اپنے بارے میں فرمایا :

(أدبني ربي فأحسن تأدیبي) 2

’’میرے ربّ نے مجھے آداب سکھائے اور بہترین آداب سکھائے۔‘‘
حسان بن ثابت نے آپ ﷺ کے بارے میں کہا :

وأحسن منك لم تر قط عیني
وأجمل منك لم تلد النساء
خلقت مبرأ من کــل عیـب
کـأنك قد خلقت کما تشاء

’’آپ ﷺ سے بڑھ کر خوبصورت آج تک میری آنکھ نے نہیں دیکھا۔اور آپ ﷺ سے زیادہ حسین و جمیل کسی ماں نے نہیں جنا۔آپ ﷺ ہر نقص و عیب سے پاک پیدا ہوئے، گویا ایسے جیسے آپ ﷺ نے چاہا۔ ‘‘
اور آپ ﷺ کی ان صفاتِ حمیدہ کا شدید دشمنوں نے بھی اعتراف کیا، اگرچہ آپ ﷺ ان کی شہادتوں اور تزکیوں کے چنداں محتاج نہیں ہیں!!
ہم آج آپ ﷺ کی صفاتِ عالیہ اور اعلیٰ محاسن کو یاد کرنے جمع نہیں ہوئے،ہم ان میں کبھی شک نہیںکرسکتے۔ آپ ﷺ بلا شبہ اولادِ بنی آدم کے سردار، تقویٰ و طہارت کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ لوگو! آج جھوٹے اور سچے کی تمیز کا وقت آگیا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ہم صدیوں سے مسلط ذلت و رسوائی کے اسباب کا جائزہ لیں۔ ہر جگہ مسلمانوں کی آہ و بکا سنائی دے رہی ہے لیکن کوئی اس پر کان دھرنے والا نہیں۔ آج چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی ہماری چیخ و پکار کی بازگشت بھی ہمیں سنائی نہیں دیتی۔ ہم کب تک نفرت و حقارت کی تصویر بنے رہیں گے ۔کیا آج ہم سے بھی بڑھ کر کوئی رسوا اس دنیا میں موجود ہے؟ ایساسب کچھ کیوں…؟
اس لئے کہ جب ہم نے اپنے پروردگار کے اوامر کا احترام چھوڑ دیا تو اللہ نے لوگوں کے دلوں سے ہمارا رعب ختم کردیا۔اگر ہم اپنے ربّ کا حکم مانتے تو آج ہمیںان ذلتوں سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔ اگر ہم سیرتِ نبوی ﷺ کو اپنے رستے کا چراغ بناتے تو آج خوف وسراسیمگی کی یہ خوفناک حالت ہم پر طاری نہ ہوتی۔ پیغمبر ﷺ نے ہمارے مرض کی تشخیص چودہ سو سال پہلے کرکے اس کا علاج بھی بتا دیاتھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا تھا :

(إذا تبایعتم بالعینة وأخذتم أذناب البقر ورضیتم بالزرع وترکتم الجھاد سلَّط اﷲ علیکم ذلا،لا ینزعه حتی ترجعوا إلیٰ دینکم) 3

جب تم کاروبار میں بیع عینہ (سود کی ایک قسم ) کا معاملہ کرنے لگو گے اور بیل کی دمیں پکڑے کھیتی باڑی میں مگن ہو جاؤ گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں ذلت و رسوائی میں گرفتار کردے گا اور تم ذلت و رسوائی کی اس اتھاہ وادی اس وقت تک نکل نہیں سکو گے جب تک دین کی طرف پلٹ نہیں آؤ گے۔‘‘
اپنے ماضی ٔرفتہ کو یاد کرو جب مسلمان عزت دار تھے، جب ایک مظلوم عورت کی آواز : وا إسلاماہ’’ پر معتصم نے اس کی مدد کے لئے لشکر روانہ کیا ۔ اس عظمت ِرفتہ کو یاد کرو جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے شاہِ روم کو خط لکھتے ہوئے اسے ’’اے روم کے کتے!‘‘کے الفاظ سے مخاطب کیا تھا۔آج ہم ذلت کے گھونٹ پی رہے ہیں۔ ہمارے احساسات مردہ ہوگئے، ہمارے جذبات سرد پڑگئے۔ گائے کے پجاری آج ہمارے پیغمبر ﷺ کا مذاق اُڑا رہے ہیں، آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور ہم بائیکاٹ کے پمفلٹ ہاتھ میں لئے ان سے معذرت کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
کون سی معذرت؟ اس سے بڑھ کر کوئی بے بسی ہوگی کہ ہم ظلم پر ان سے معذرت کے خواستگار ہیں،کیوں؟ اس لئے کہ ہم نے ذلت کا لباس پہن لیا ہے… !!
لوگو! اب مسئلہ ڈیری مصنوعات کے بائیکاٹ کا نہیں، یہ تو ہماری موت اور زندگی کا سوال ہے۔ اب ہمیں موت و حیات میں سے کسی ایک کے انتخاب کافیصلہ کرنا ہوگا۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، بتاؤ!تاریخ ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کرے گی۔ مستقبل کا مؤرخ ہمارے بارے میں لکھے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے خیانت کی تھی۔
ہمیں جائزہ لینا ہے کہ ہمارے نبی ﷺ کی شان اور عظمت کیا ہے اور ان توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے پس پردہ کیا محرکات اور مقاصد کار فرما ہیں اور محبینِ رسول اللہ ﷺ کا کیا کردار ہونا چاہئے…؟
رحمتہ للعالمین پیغمبر ﷺ
اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کے متعلق فرماتے ہیں:

وَمَآ أَرْ‌سَلْنَـٰكَ إِلَّا رَ‌حْمَةً لِّلْعَـٰلَمِينَ
(سورۃ الاحزاب)

 کو قبول کیا اور اس نعمت پراللہ کا شکر ادا کیا، وہ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوا اور جس نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا، اس نے اپنی دنیا و آخرت کو برباد کیا۔
صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے، کسی نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ مشرکوں کے خلاف بددعا کیجئے تو آپ ﷺ نے فرمایا:

(إني لم أُبعث لعّانًا وإنما بعثتُ رحمة) 4

’’مجھے بددعا دینے والانہیں بلکہ رحمت بنا کربھیجا گیا ہے۔‘‘ایک حدیث میں ہے :
(أنا رحمة مھداة) 5-
’’مجھے رحمت کا تحفہ دے کر بھیجا گیا ہے۔‘‘
آپ ﷺ کی رحمت صرف انسانوں پر محدود نہیں تھی، بلکہ حیوان بھی اس ابر ِرحمت سے محروم نہ رہے ۔سنن ابی داؤد میں سیدناعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میںتھے۔ ہم ایک درخت کے قریب سے گزرے، وہاں پر ایک چڑیا کو اپنے بچوں کے ساتھ گھونسلے میں دیکھا۔ ہم نے اس کے بچوں کو پکڑ لیا۔ پیغمبر رحمت ﷺ چڑیا پر اس ظلم کو برداشت نہ کرسکے اور بچوں کو واپس رکھنے کا حکم دیا ۔اس لئے کہ وہ دنیا میں عدل و انصاف کا بول بالا کرنے آئے تھے۔افسوس ! ایسے خوبصورت مناظر سے ظالموں کی آنکھیں اندھی ہوگئیں۔ سید الابرار کی زندگی کے یہ بے مثل واقعات ان کی نظروں سے کیوں اوجھل ہوگئے!!
سیدنازید بن ارقم رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے۔کسی دیہاتی نے ایک ہرنی کوجنگل سے پکڑ کر باندھ رکھا تھا ۔ جب ہم وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ ایک ہرنی وہاں بندھی ہوئی ہے۔ ہرنی نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو شکوہ کناں ہوئی کہ یہ دیہاتی مجھے جنگل سے شکار کرکے لے آیاہے ۔ میرے تھنوں کا دودھ مجھ پر گراں ہوگیاہے۔ مجھے آزاد کردیں کہ میں اپنے بچوں کے پاس چلی جاؤں اور میرے دودھ سے مجھے آرام مل جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں تجھے چھوڑ دوں تو کیاتو اکیلی چلی جائے گی؟ اس نے کہا: ہاں چلی جاؤں گی۔ اسی دوران وہ دیہاتی بھی آگیا، جس نے اسے باندھ رکھا تھا۔ نبی رحمت ﷺ نے اس سے کہا: کیااس ہرنی کو بیچو گے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! یہ آپ کی ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس ہرنی کو آزاد کردیا۔ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ اللہ کی قسم! میں نے صحرا میں اس کو آواز لگاتے ہوئے سنا۔ وہ کہہ رہی تھی:

لا إلــــہ إلا اﷲ محمـــد رســـــول اﷲ

سیدہ اُمّ سلمہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعینسے اس کے اور طرق بھی ہیں۔
یہ نبی ٔرحمت ﷺکہ انسان تو انسان، حیوان بھی آپ ﷺ کی رحمت و شفقت سے فیض یاب ہوئے، ایسے پیغمبر کی ایسی فحش تصاویر اور خاکے بنانا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ یہاں آپ ﷺ کی سیرت و کردار اور آپ ﷺ کے حسین و جمیل سراپا کے ساتھ انتہائی بھونڈا مذاق ہے۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو چودہویں کی ایک خوبصورت رات کو سرخ لباس میں ملبوس دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے چہرے کی چمک کے سامنے چاند کی روشنی بھی ماند پڑگئی تھی۔
’’ جب نبی ﷺ کو کوئی خوشی ہوتی تو آپ ﷺ کا چہرہ چمک اُٹھتا اور یوں محسوس ہوتا گویا چاند کا ٹکڑا ہے۔
ربیع بن معوذ نے محمد بن عمار بن یاسررضی اللہ عنہ سے کہا:’’ اگر آپ نبی ﷺ کو دیکھ لیتے تو پکار اٹھتے کہ سورج اپنے برجوں سے طلوع ہورہا ہے۔‘‘
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:قد نہ زیادہ لمبا تھا، نہ پست۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رنگ سفید سرخی مائل اور آنکھیں سیاہ، پلکیں دراز تھیں۔
سفید حصے میں سرخ ڈورے، آنکھوں کا خانہ لمبا، قدرتی سرمگیں اور چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح گولائی مائل تھا۔
آپ ﷺ کا روئے زیبا کتنا خوبصورت اور حسین و جمیل تھا …!!
اہل علم کہتے ہیں کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کو اگر دنیا کی آدھی خوبصورت دی گئی تو ہمارے نبی ﷺ کو پوری دنیا کا حسن عطا کیا گیا۔ شاعر کہتا ہے :
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آنچہ خوباں وہ ہمہ دارند تو تنہا داری
سیدناحسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کی پیشانی کشادہ، ابرو خمدار، باریک اور گنجان، دونوں جدا جدا، دونوں کے درمیان ایک رگ کا اُبھار جو غصہ آنے پر نمایاں ہوجاتا۔ ناک بلندی مائل، اس پرنورانی چمک۔ دندان مبارک باریک، آبدار، سامنے کے دو دانتوں میں خوشنما ریخیں، جب تکلم فرماتے تو دانتوں سے چمک سی مہکتی۔
سر اور ریش کے بال گھنے اور گنجان تھے، آپ ﷺ نے کبھی اپنی داڑھی نہیں منڈائی اور داڑھی چھوڑنے کا حکم دیا اور اسے منڈانے سے منع فرمایا۔آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ
’’(یہود نصاریٰ )کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو۔ ‘‘ 6
لیکن افسوس ! آج ہمیں رسول اللہ ﷺ کی یہ سنت اچھی نہیں لگتی…!!
آپ ﷺ کے بال قدرے خمدار، نہ گھنگریالے اور نہ بالکل تنے ہوئے ۔ (انس رضی اللہ عنہ)
گنجان، کبھی کبھی کانوں کی لو تک لمبے، کبھی شانوں تک ۔ (براء بن عازب رضی اللہ عنہ )
سر اور ریش مبارک میں سفید بال 20 سے زیادہ نہیں تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کا حسین سراپا دیکھتے اور دیکھتے ہی رہ جاتے۔
صحابہ کرام کی نبی ٔرحمت سے محبت
صحابہ کارضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اشتیاق کااندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ ایک دفعہ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے۔ایک صحابی کو سخت پریشان اور غمزدہ دیکھا تو اس کا سبب پوچھا، اس نے جواب دیا: مجھے ایک بات نے پریشان کررکھا کہ آج آپ ہمارے ساتھ موجود ہیں اور ہمیں آپ کی صحبت حاصل ہے اور آپ سے ملنے کا شوق فراواں ہے۔ لیکن جب ہم یا آپ ﷺ فوت ہوجائیں، ہم جنت میں ہوں گے اور آپ ﷺ جنت کے سب سے اعلیٰ درجہ میں تو ہم آپ ﷺ کو کیسے دیکھ سکیں۔اور اگر ہم جہنم میں چلے گئے تو پھرکیا بنے گا؟ تو آپ ﷺ نے اپنے اس محبت کرنے والے کو خوش خبری سنائی کہ) المرء مع من أحب(کہ ’’آدمی روزِ قیامت اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘
ہمیں بھی رسول ﷺ سے حقیقی محبت ہے، کیونکہ حب ِرسول ﷺہی ایمان کا حصہ ہے:
( لا یؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیه من والدہ وولدہ والناس أجمعین) 7-
’’ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں محمد ﷺ اسے اس کی اولاد ، والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں۔‘‘

واﷲ ماطـلعت الشمس ومـا غربت إلا وحبك مقرون بأنفاسي
ولا جلست بقوم أحدثھم إلا وأنت حـدیثی بیـن جُلَّاسي

’’اللہ کی قسم! سورج کے طلوع و غروب میں ہر پل آپ کی محبت میرے سانسوں میں رواں ہے اور جب بھی میں کسی مجلس میں بیٹھتا ہوں تو آپ ﷺ ہی میری گفتگو کا موضوع ہوتے ہیں۔‘‘
صحیح مسلم کی حدیث ہے؛ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ
’’ آپ کی رنگت چمکدار تھی۔ آپ ﷺ چلتے تو پسینہ مبارک ایسے گرتا جیسے سرخ موتی گر رہے ہیں اور آپ ﷺ کی جلد حریر و ریشم سے زیادہ نرم تھی اور آپ ﷺ کے جسم کی خوشبو عنبر اور کستوری سے بھی زیادہ پیاری تھی۔‘‘
ان کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے اور قیلولہ کے لئے لیٹ گئے اور آپ ﷺ کو قدرے زیادہ پسینہ آتا تھا۔ میری ماں اُمّ سلیم آپ ﷺ کا پسینہ ایک شیشی میں ڈالنے لگیں۔ نبی ﷺ بیدار ہوئے تو پوچھا: اُمّ سلیم کیا کررہی ہو؟ کہنے لگیں، یہ آپ ﷺ کا پسینہ ہے ہم اسے بطورِ خوشبو استعمال کریں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ سے شدید محبت کا اندازہ اس واقعہ سے کیاجاسکتا ہے۔
جنگ ِبدر میںصفوں کی درستگی کے دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک تیر تھا، جس کے ذریعے آپ ﷺ صف سیدھی فرما رہے تھے کہ سواد بن غزیہ کے پیٹ پر،جو صف سے کچھ آگے نکلے ہوئے تھے، ہلکا دباؤ ڈالتے ہوئے فرمایا: سواد برابر ہوجاؤ۔ سواد نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ ﷺ نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے، بدلہ دیجئے۔ آپ ﷺ نے اپنا پیٹ کھول دیا اور فرمایا: بدلہ لے لو۔ سوادرضی اللہ عنہ آپ ﷺ سے چمٹ گئے اور آپ ﷺ کے پیٹ کو چومنے لگے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے سواد! تجھے ایسا کرنے پر کس بات نے آمادہ کیا؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! جو کچھ درپیش ہے، آپ دیکھ ہی رہے ہیں، شاید یہ میری آپ سے آخری ملاقات ہو تو میں نے چاہا کہ آپ ﷺ کے ساتھ آخری ملاقات اس طرح ہو کہ میری جلد آپ ﷺ کی جلد سے چھوجائے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے دعا فرمائی۔دیکھئے! کائنات کا سپہ سالار اپنے آپ کو پورے لشکر کے سامنے قصاص کے لئے ایک سپاہی کے حوالے کررہے ہیں۔
آپ ﷺ کی مہر نبوت کا تذکر کئے بغیر آپ ﷺ کی شخصیت مکمل نہیں ہوسکتی جو آپ ﷺ کی کمر مبارک پر دونوں کندھوں کے درمیان تھی، بالکل ایسے جیسے کبوتر کا اَنڈہ۔ یہ جسم مبارک کے مشابہ تھی اور اس پر مسوں کی طرح تلوں کا جمگھٹ تھا۔ یہ آپ ﷺ کا معجزہ اور نبوت کا نشان تھا جس کاتذکرہ اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کی کتابوں میں کیا ہے۔
اور بعض نے اس کی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ نبی ﷺ کا دل حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا تو اس پر یوں مہر لگا دی گئی جس طرح کہ کستوری سے بھری ہوئی تھیلی کو بند کرکے اس پرمہر لگا دی جاتی ہے۔ آپ ﷺ انسانیت کے ہادی اور معلم تھے، اللہ کی حدود کے معاملے میں انتہائی عادل اور سخت تھے لیکن اپنی ذات کے بارے میں لوگوں میں سب سے زیادہ نرم اور رحم دل تھے۔آپ ﷺ پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادارتھے۔
ایسے رحمت وشفقت کے مجسمہ اور حیا دارپیغمبر ﷺ کے بارے میں ایسی حیا باختہ تصاویر اور خاکے بناتے ہوئے ان لوگوں کوشرم آنی چاہیے تھی۔

قاتلہم اﷲ أنیٰ یؤفکون!

جو تمام اعلیٰ انسانی کمالات کا حسین مرقع تھے اور دنیا کا کوئی انسان آپ کا ہم پلہ نہیں ہو سکتا۔آپ ؐنے اپنی قوم کے ظلم وستم کا جواب ایسی عظیم الشان دعوت سے دیا کہ کفر وشرک اور سرکشی کی تمام آندھیاں چھٹ گئیں اور دنیا کووہ درس دیا کہ آج چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کر سکا۔
عیسائی بادشاہ ہرقل نے ابو سفیان سے پیغمبراعظم ﷺ کا تذکرہ سننے کے بعد اس سے یہ کہا تھا کہ جو کچھ تم نے بتایا ہے ، اگر وہ سچ ہے تو یہ شخص جلد میری ان دونوں قدموں کی جگہ کا مالک بن جائے گا، اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔
نبی مکرم ﷺ صرف قریش اور جزیرئہ عرب کی طرف رسول بناکر نہیں بھیجے گئے،بلکہ پوری کائناتِ ارضی کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیے گئے۔ بچپن سے چالیس سال تک آپ کی زندگی تقویٰ اور عفت کی اعلیٰ مثال اور چالیس سال سے وفات تک دعوت وجہاد کا عملی نمونہ، گویا بچپن سے وفات تک آپﷺ کی زندگی ایک کھلی ہوئی کتاب کی مانند تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس داعی ٔ برحق کے نقشہ زندگی کو دلیل کے طور پر پیش فرمایا:

فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرً‌ا مِّن قَبْلِهِۦٓ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (سورۃ یونس)

وہ شخص جس نے چالیس سال تک کسی سے جھوٹ نہیں بولا،ساری کسوٹیوں پر اپنے آپ کو کھرا ثابت کیا۔کیا عقل اس بات کوتسلیم کرتی ہے کہ اس کے بعد وہ اللہ پر جھوٹ باندھے گا؟ نہیں نہیں، بلکہ کفارِ مکہ خود ہی اپنی عقل کے دشمن بن گئے تھے۔مفاد اور تعصبات نے ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا تھا۔
اور پھر جب نبوت کا بھاری بوجھ رسول اللہﷺ کے کندھوں پر ڈال دیا گیا، آپ ﷺ شدید خوف کی حالت میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور فرمایا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو تو اس وقت آپ کی زندگی اور کردار سے واقف وہ خاتون پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہتی ہے:
’’ اللہ کی قسم ! اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا،آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں، در ماندوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں، تہی دستوں کابندوبست کرتے ہیں،مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مصائب پر مدد کرتے ہیں۔‘‘ 8
پورا واقعہ معلوم کرنے کے بعدسیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کو اپنے اپنے چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو دورِ جاہلیت میں عیسائی مذہب قبول کر چکے تھے اور انجیل کے عالم تھے۔سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پوری بات سننے کے بعد سنئے کہ وہ بوڑھا اورآنکھوں سے نابینا انسان رسول اللہ ﷺ کے بارے میں کیا کہتا ہے: ’’یقینا یہ اِس اُمت کا نبی ہے۔‘‘ اور پھر رسول ﷺ کو مخاطب کر کے کہا: ’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ تو وہی ناموس ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا کرتا تھا۔‘‘
پھر اس نے رسول اللہ ﷺ کا سر پکڑ کر اسے بوسا دیا اور کہا کاش! میں اس وقت توانا اور زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کومکہ سے نکال دے گی۔
رسول اللہ نے فرمایا: اچھا تو کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا: ہاں! رضی اللہ عنہجب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا، جیسا آپ لائے ہیں تو اس سے ضروردشمنی کی گئی اور اگر میں نے آپ کا زمانہ پا لیا تو آپ کی زبردست مدد کروں گا۔اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہوگئے۔ 9
پھر جب

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ‌ ﴿١﴾ قُمْ فَأَنذِرْ‌ ﴿٢﴾ وَرَ‌بَّكَ فَكَبِّرْ‌ ﴿٣﴾ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ‌ ﴿٤﴾ (سورۃ المدثر}

آیات نازل ہوئیں اور قوم کا یہ چمکتا ہوا ہیرا اور صادق وامین کا لقب پانے والا اللہ کا یہ پیغمبر دین الٰہی کی دعوت لے کر کھڑا ہوا توزمانہ کی آنکھوں کا رنگ ڈھنگ بدل گیا۔ مخالفتوں کے طوفان اُٹھے،نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو سنگین عذابوں سے گزرنا پڑا۔ آلِ یاسر پر جو بیتی تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔
یہ سب کچھ اس لیے برداشت کیا گیا کہ انسانیت شرک کی وادی سے نکل آئے۔حتیٰ کہ جب کفارِ مکہ کی سختیاںاور تشدد حد سے گزر گیا تو آپ ﷺ کو اپنے ساتھیوں کو ہجرت کا حکم دینا پڑا۔
لیکن نبی ﷺمکہ میں کفار کے ظلم وستم کے مقابلے میں پہاڑ بن کر کھڑے ہوگئے۔ظلم وستم کی آندھیاں اُٹھیں اور گزر گئیں لیکن رسول معظمﷺ کے قدموں میں ہلکی سے لغزش بھی پیدا نہ کر سکیں اور آپﷺ

وَجَـٰهِدْهُم بِهِۦ جِهَادًا كَبِيرً‌ا .(..سورۃ الفرقان)

کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔
جب کفار کی تمام تدابیر ناکام ہو گئیں تو اُنہوں نے آپﷺ کو عرب کی حسین وجمیل عورت، بادشاہت اور مال وزر کا لالچ دیا۔جب یہ سازش بھی ناکام ہو گئی تو اُنہوں نے دھمکیاں دیں لیکن آپ ﷺعزیمت ِمجاہدانہ سے سرشار ہو کر یہ جواب دیا :
’’اللہ کی قسم! یہ لوگ اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پرچاند رکھ کر چاہیں کہ اس مشن کو چھوڑ دوں تو میں اس سے باز نہیں آ سکتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس مشن کو غالب کر دے یا میں اس جدوجہد میں کام آجاؤں۔‘‘
پھر ابو طالب اور مونس وغمگساربیویسیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کا سالِ اندوہ اور اس کے بعد طائف میں آپ پر جو گزری وہ بقولِ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ آپ ﷺ کی زندگی کا اندوہناک دن تھا۔ جب آپ ﷺ نے طائف کے سرداروں کو دعوت دی تو ایک بدبخت نے کہا: اگر واقعی اللہ نے ہی آپ کو بھیجا ہے توپس وہ کعبہ کا غلاف نچوانا چاہتا ہے ۔دوسرے نے تمسخر اُڑاتے ہوئے کہا :کیا ربّ کو تمہارے علاوہ رسالت کے لیے کوئی اور موزوں آدمی نہیں ملا اور تیسرے نے کہا :اللہ کی قسم! میں تجھ سے بات تک نہیں کرنا چاہتا۔ آپ ﷺ نے صبر وثبات اور تحمل سے یہ سارے تیر برداشت کیے۔
پھر اُنہوں نے بازاری لونڈوں اور غلاموں کو آپﷺ کے پیچھے لگا دیا، وہ آپ کو گالیاں دیتے، ٹخنے کی ہڈیوں پر پتھرمارتے، آپ ﷺ نڈھال ہو جاتے تو بیٹھ جاتے۔ نعلین خون سے بھرگئیں تو آپﷺ نے بالکل بے دم ہو کر ایک باغ میں پناہ لی۔
اِسی عالم میں قرنِ منازل کے پاس جبرائیل حاضر ہوئے اور عرض کیا :پہاڑوں کا نگران فرشتہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہے، اگر آپ چاہیں تو وہ اس ظالم قوم کو دو پہاڑوں کے درمیان کچل دے۔اس وقت نبی رحمت ﷺ نے جو الفاظ ارشاد فرمائے، اس میں آپ ﷺ کی یگانہ روز شخصیت کی ایک جھلک اور آپ کے اخلاقِ عظیم کا جلوہ دیکھا جا سکتا ہے۔فرمایا:
’’نہیں،بلکہ مجھے اُمید ہے کہ اللہ عزوجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔‘‘
اے پیغمبر کی توہین کرنے والو!مکہ اور اس کے باشندوں سے پوچھو،طائف اوراس کےپہاڑوں سےسوال کروکہ اس محسن انسانیت ﷺ نبی کی عظمت کیا ہے؟
اللہ کی قسم! زبان وقلم کی وسعتیں، مدتوں کی زمزمہ خوانیاں اور دفتروں کے دفتر بھی آپ کی عظمت کا احاطہ نہیں کرسکتے۔
کوئی بڑے سے بڑا سیرت نگار، پیغمبر آخر الزماں ﷺ کی سیرت نگاری کاحق ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، کوئی بڑے سے بڑا زور آور قلم بھی اس ہستی کے تذکر ہ کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے کایارا نہیں رکھتا…!!
چنانچہ جب کفارِ مکہ کی اذیت ناکیاں او رتوہین آمیزیاں حد سے بڑھ گئیں تو حق تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان ہوا:

وَلَقَدِ ٱسْتُهْزِئَ بِرُ‌سُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِٱلَّذِينَ سَخِرُ‌وا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِۦ يَسْتَهْزِءُونَ
(سورۃ الانعام)

’’اے نبی ﷺ ! تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اُڑایا جاچکا ہے، مگر ان مذاق اُڑانے والوں کو اسی چیز نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔‘‘

وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُ‌سُلٌ مِّن قَبْلِكَ فَصَبَرُ‌وا عَلَىٰ مَا كُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّىٰٓ أَتَىٰهُمْ نَصْرُ‌نَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَـٰتِ ٱللهِ…(.سورۃ الانعام)

’’تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جاچکے ہیں، مگر اس تکذیب پر اور ان اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں، اُنہوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی، اللہ تعالیٰ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔‘‘
اور آج اس توہین آمیزی کے مرتکب افراد خود اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں اور وہ اپنے انجامِ بد سے بچ نہیں سکیں گے۔ اور یہ اللہ کی طرف سے ہمارے ایمان اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہماری محبت کا امتحان ہے کہ ہم نے اتباعِ رسول ﷺ اور ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ میں کیاکردار ادا کیا …!!
حوالہ جات:
1 تفسیرطبری: 14؍44
2جامع الصغیر :249
3 ابوداود:3462
4 مسلم :2599
5 مستدرک حاکم :1؍91
6 ابوداؤد :4031
7 صحیح بخاری:15
8صحیح بخاری :3
9 صحیح بخاری: 3

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے