ياايهَا الَّذِين امَنُوا

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (البقرۃ:278 تا280)

’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر واقعی تم مومن ہو تو جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دواور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہےاور اگر (سود سے) توبہ کر لو تو تم اپنے اصل سرمایہ کے حقدار ہو۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائےاور اگر مقروض تنگ دست ہے تو اسے اس کی آسودہ حالی تک مہلت دینا چاہیے۔ اور اگر (راس المال بھی) چھوڑ ہی دو تو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے۔ اگر تم یہ بات سمجھ سکو‘‘

تفسیر و تشریح:

پہلی آیت کریمہ میں اللہ رب العالمین نے تقویٰ اختیار کرنے اور سود سے بچنے اور چھوڑنے کی تلقین فرمائی ہے جبکہ اس سے اگلی آیت میں سود پر مُصر رہنے والوںکے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے کھلی جنگ کے ارتکاب کی وعید ہے اور تیسری آیت کریمہ میں فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص کسی قرض دار یعنی مقروض کو فراخی اور خوشحالی تک مہلت دے دے یا پھر اسے معاف کردے تو یہ اس کے لیے بہت بڑی خیر اور بھلائی ہے۔

ان آیات کریمہ سے قبل اللہ رب العالمین نے یہ بات بتلائی کہ اللہ نے تمہارے لیے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے ، بیع کی حلت اور سود کی حرمت کے بعد اللہ رب العالمین نے خاص کر اہل ایمان کو مخاطب کیا اور پھر تقویٰ اختیار کرنے کو کہا کیونکہ سود کی بقیہ رقم چھوڑنا یعنی جوپہلے سے طے شدہ تھی اس کو چھوڑ نا طبیعت پر گراں تھا تو اللہ رب العالمین نے اسی وجہ سے یہ حکم اہل ایمان کے لیے خاص کردیا کہ جس کے اندر ایمانی جذبہ و طاقت ہوگی وہ ہی سود کی بقیہ رقم چھوڑے کا اور جس کے اندر تقویٰ یعنی اللہ کا ڈر ہوگا وہی اس کے شرعی احکام کی پاسداری کرے گا اور ان پر عمل پیرا ہوگا۔

جو اتنی ترغیب و تر ہیب کے بعد بھی نہ سمجھے اور اس عمل شنیع پر مصر رہے تو پھر اس کے بعد والی آیت(یعنی آیت نمبر:279) میں اللہ رب العالمین نے فرمایا کہ پھر وہ شخص اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے تیار ہوجائےتو پھر ایسے ظالم شخص کو جان لینا چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرکے کوئی فتح حاصل نہیں کر سکتا بلکہ وہ سراسر نقصان ، خسارے اور گھاٹے میں رہے گا۔

’’اور یہ ایسی سخت وعید ہے کہ قرآن مجید میں اور کسی معصیت کے ارتکاب پر نہیں دی گئی اس لیے سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ اسلامی مملکت میں جوشخص سود چھوڑ نے پر تیار نہ ہو تو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑائے‘‘ (تفسیر ابن کثیر رحمہ اللہ)

اللہ رب العالمین کا ارشاد گرامی ہے کہ :

اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ

’’(ان لوگوں کے برعکس) جو لوگ سود کھاتے ہیں۔ وہ یوں کھڑے ہوں گے۔ جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر اسے مخبوط الحواس بنا دیا ہو‘‘(البقرۃ:275)

اسی طرح نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالی نے سود کھانے اور کھلانے والے پر (یعنی لینے اور دینے والےپر) اور جو سودی دستاویز لکھے اور جو اس پر گواہ ہوں ان پر لعنت فرمائی ہے ، اسی طرح ایک اور حدیث میں سات ہلاک کردینے والی چیزوں کا تذ کرہ فرمایا اور ان سے دور رہنے اور بچنے کا حکم دیا ان سے ایک سود ہے اور اسی طرح ایک حدیث میں آپ نے فرمایا سود کا سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ انسان اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے (ولعیاذ باللہ)

سود کی دو قسمیں ہیں:

ایک ’’رباالفضل‘‘ اور دوسری ’’رباالنسیئہ‘‘ ہے رباالفضل زیادتی کے سود کو کہتے ہیںرباالنسیئہ ادھار کے سود کو کہتے ہیں یہ دونوں حرام ہیں، ربا الفضل کی صورت کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ جن چیزوں کے لین دین یعنی خرید و فروخت اس طرح سے کی جائے کہ ایک طرف زیادتی اور دوسری طرف کمی رہے تو یہ ربا الفضل ہے اور یہ حرام ہے۔

جن چیزوں میں سود دیا جاتا ہے وہ یہ ہیں : سونا، چاندی، گیہوں، جو، کھجوراور نمک اب اگر کوئی شخص سونے کے بدلے سونااور چاندی کےبدلے چاندی بیچتاہے تو یہ لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ دونوں طرف مقدار برابر ہواور ہاتھوں ہاتھ ہواور اگر اجناس مختلف ہوں یعنی سونے کے بد لے چاندی ہوتو پھر کمی بیشی جائز ہے۔

ربا النسیئہ کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص دوسرے کو مال دے بطور قرض ایک مقررہ مدت کے لیے اور جب مدت پوری ہونے پر قرض واپس کیا جائے تو اس کے ساتھ کچھ اضافی رقم دی جائے یاپھر مقررہ مدت سے زیادہ وقت گزر جائے تو پھر اور زیادہ رقم اداکرنی بڑے تو یہ ربا النسیئہ ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (آل عمران: 130)

’’اے ایمان والو! دگنا چوگنا کر کے سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم (آخرت میں) نجات پاسکو‘‘

زمانۂ جاہلیت میں قرض کی ادائیگی نہ ہونے کے صورت میں سوددر سود اصل رقم میں اضافہ ہی ہوتا چلاجاتا تھا جس سے وہ تھوڑی سی رقم پہاڑ بن جاتی تھی اور اس کی ادائیگی ناممکن ہوجاتی تھی(اور آج یہی صورت حال IMFسے پاکستانی قرض کی جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا) اس کے برعکس اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ اگر کوئی تنگدست ہوتو سود لینا تو درکنار اس سے اصل مال لینے میں بھی آسانی تک مہلت دو اور اگر قرض بالکل ہی معاف کردو تو زیادہ بہتر ہے ، احادیث میں بھی اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔

کتنا فرق ہےکہ ان دونوں نظاموں میں ایک سراسر ظلم ، سنگدلی اور خودغرضی پر مبنی ہے اور دوسرا ہمدردی ، تعاون اورایک دوسرے کو سہارا دینے والا نظام ۔مسلمان خود ہی اس بابرکت اور پر رحمت نظام الٰہی کو نہ اپنائیں تو اس میں اسلام کا کیا قصور ؟ کاش مسلمان اپنے دین کی اہمیت و افادیت کوسمجھیں او ر اس نظام زندگی کو استوار کرسکیں

(احسن البیان)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے