یقینا تمام تعریفیں اللہ عز وجل کیلئے ہیں، وہی جابر حکمرانوں پر قاہر ہے، اور مکاروں کی مکاریوں کو ہوا کرنے والا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، وہ یکتا ہے، اسکا کوئی شریک نہیں ،اولین و آخرین سب کا وہی معبود ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمد ﷺاللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، آپ ہی سید الانبیاء و المرسلین ہیں، آپ پر، آپکی آل، اور صحابہ کرام پر افضل ترین درود و سلام ہوں۔

حمد و صلاۃ کے بعد!

یمن کی بدلتی صورت حال اور باغیوں کی کاروائیاں
بہت ہی دکھ کی بات ہے کہ ساری دنیا نے پیارے یمن کے بدلتے حالات کا مشاہدہ کیا، جس یمن اور کتاب و سنت پر گامزن اہل یمن کے بارے میں نبی کریم  ﷺ نے تعریفی کلمات کہے اور فرمایا: (ایمان یمنی ہے، اور حکمت بھی یمنی ہے) (بخاری)
بہت ہی پریشان کن حالات میں سنگین تبدیلیوں کا پیارے یمن میں مسلمانوں نے مشاہدہ کیا، اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ باغیوں کی طرف سے منتخب قیادت کا تختہ الٹ دیا گیا، اور اہل علاقہ پر دست درازی کی گئی، جس کی وجہ سے گھر بار تباہ، امن و امان تار تار ہو گیا، پر امن لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، بلکہ ظلم زیادتی کا یہ بازار پورے خطے کے امن کیلئے علی الاعلان خطرہ بن چکا تھا، اور ملکِ حرمین شریفین اور یہاں کے لوگوں کیلئے اس کے خطرات خصوصی نوعیت کے تھے۔

باغیوں کے ساتھ مذاکرات کی ناکامی

دانشمندی اور حکمت پر مبنی رائے شماری بھی ہوئی کہ یمن میں اتحاد ، پائدار امن و استحکام ، پرا من طریقوں اور بات چیت کے ذریعے قائم ہو، اس کیلئے خلیج عرب کی ریاستوں کی جانب سے کی جانے والی کوششیں بھی شامل ہیں۔
خطے میں امن و امان کی دگر گوں صورت حال
لیکن معاملہ مزید سنگین ہوتا گیا، اور حالات اتنے بگڑ گئے کہ یمن میں امن و امان تہ و بالا ہو کر رہ گیا، جس کی وجہ سے جبراً و قہراً ملکی قیادت منظر سے غائب کر دی گئی، اور حالات مسلمانوں کے علاقے میں مزید تشویش ناک ہوگئے، جو کہ یمن ، اہل یمن، اور پڑوسی ممالک کیلئے خطرے کی گھنٹی بجانے لگے۔
اہل یمن کو ظلم و زیادتی ، اور ملکی قیادت کو مسلسل دشواری کا سامنا تھا، پھر دانشمندانہ طور پر اس بات سے آگاہ کیا گیا کہ یمن کو ٹوٹنے کا خطرہ لاحق ہے، اور یمن میں امن و امان اور استحکام ختم کر کے خانہ جنگی شروع ہونے والی ہے، جس سے ملک و قوم کو نقصان ہوگا اور پڑوسی ممالک بھی متاثر ہونگے۔
یمن توڑو! اغیار کا ایجنڈا
نازک حالات اور مشکل صورتحال کا بہت سے مسلم ممالک کو سامنا ہے، یہ کسی طور پر بھی دینِ حنیف اور بلند اخلاقی اقدار کیساتھ بالکل مناسب نہیں ہیں۔
یہ حالات غرور، لالچ اور عارضی مفاد کے سایے میں پیدا کیے گئے، ان کی وجہ سے ایسے ایجنڈوں کی آبیاری ہوتی ہے جو مسلم معاشرے کو تہس نہس کر دیں، ان ایجنڈوں کی ہمارے عقائد سے کھلی دشمنی ہے، انہی کی وجہ سے ہمارے علاقوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اور ایسے حالت پیدا کر کے ہمارے وسائل و اسباب کو لوٹا جا رہا ہے۔

مشکل حالات میں مؤمن کا کردار

چنانچہ ان حالات و واقعات کے تحت ہمارے حکمرانوں نے کندھوں پر پڑی ہوئی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے ضروری اسباب اپنائے ، جو کہ اللہ کے حکم سے ملک و قوم کی حفاظت کے ضامن تھے، اور یہ اقدامات مسلم حکمرانوں پر عائد ذمہ داری میں شامل ہیں تا کہ وہ مسلم معاشروں کے حقوق کا تحفظ کر سکیں، اور علاقائی و عالمی امن و امان اور سلامتی کیلئے کردار ادا کر سکیں، نیز دشمنان اسلام کی منصوبہ بندیوں کو ناکام بنائیں، کیونکہ دشمن اپنے منصوبوں کے ذریعے پورے علاقے میں تباہی مچانا چاہتا ہے۔
اور جب پر امن طریقے سے مسئلہ حل نہ ہوا، سیاسی طور پر بات چیت بھی کار گر نہ ہوئی ، اور یمن کے منتخب صدر نے اپنے برادر اسلامی ممالک سے یمنی قوم کیساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا مطالبہ کیا، تا کہ یمن کو پر خطر اور پر پیچ حالات سے بچایا جائے۔
پھر پوری امت مسلمہ کو سنگین نتائج سے بچانے کیلئے اسلامی ممالک نے خادم الحرمین الشریفین حفظہ اللہ کی قیادت میں یمنی حکومت اور یمنی عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا، تا کہ مستحکم ، مضبوط، پائدار امن و امان قائم ہو، اور دھوکے پر مبنی انقلاب کو روکا جا سکے، حقیقت میں یہ اقدام اللہ تعالی کے اس فرمان کی عملی صورت ہے:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ

بیشک تمام مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں[الحجرات : 10]
اور نبی کریم ﷺکے اس فرمان پر مبنی ہے کہ : ’’اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا، نہ ہی اسے رسوا کرتا ہے، اور اسے تنہا نہیں چھوڑتا ‘‘( متفق علیہ)
امام ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’اسے تنہا نہیں چھوڑتا ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنے مظلوم بھائی کو ظالم کے رحم و کرم پر تنہا نہیں چھوڑتا ، بلکہ اپنے مظلوم بھائی کی مدد اور اس کا بھر پور دفاع کرتا ہے، یہ درجہ کسی مسلمان کو تکلیف نہ دینے سے بڑا ہے۔
اپنے بھائی کی مدد کرو، چاہے ظالم یا مظلوم
بلکہ اللہ تعالی نے زیادتی کرنے والے کے ہاتھ پکڑنا اور مظلوم کی مدد کرنے کو واجب قرار دیا، اور فرمایا:

  وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ

مؤمن مرد اور مؤمن خواتین سب ایک دوسرے کے مدد گار ہیں۔[التوبة : 71]
اور ہمارے پیارے پیغمبر ﷺنے فرمایا: (اپنے بھائی کی [ہر حال میں]مدد کرو، چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم) تو ایک آدمی نے کہا: ’’اللہ کے رسول! اگر وہ مظلوم ہو تو میں اسکی مدد کروں[یہ تو سمجھ میں آتا ہے]، اور اگر وہی ظالم ہو تو پھر اس کی مدد کیسے کروں؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے ظلم سے روکو یہی اس کی مدد ہے‘‘ (بخاری)
باہمی تعاون بھائی چارے کا بنیادی حق ، اور اس کا عملی تقاضا ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے حکم دیتے ہوئے فرمایا:

{فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتّٰى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللهِ}

اگر [مسلمانوں کی دو جماعتوں میں سے] ایک دوسری پر زیادتی کرے، تو باغی جماعت سے دو ہاتھ کرو، حتی کہ باغی جماعت اللہ کے حکم کے تابع ہو جائے۔[الحجرات : 9]
اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’عدل کی خوبصورت ترین شکل :مظلوم کی مدد ہے‘‘
اسی طرح سیدنا زین العابدین -اللہ ان سے راضی ہو- سے منقول ہے کہ: ’’یا اللہ! میں تجھ سے ایسے مظلوم کے بارے میں معافی چاہتا ہوں جس پر میرے سامنے ظلم ہو لیکن اس کی مدد نہ کر سکوں‘‘
اگرچہ مظلوم شخص غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو، مظلوموں کی مدد، اور زیادتی کا شکار لوگوں کیساتھ تعاون کرنا بنیادی اسلامی اصول ہے، چنانچہ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’مسلم حکمران پر لازمی ہے کہ اہل ذمہ کا تحفظ یقینی بنائے، اور انہیں ظلم و زیادتی کرنے والے مسلمانوں اور کفار سے محفوظ رکھے‘‘
پوری امت پر ضروری ہے کہ زیادتی کرنے والوں کو روکیں، اور مسلم ممالک کے امن و امان اور استحکام کو مخدوش کرنے والوں کی پیش قدمی کے سامنے بند باندھیں، تا کہ لوگوں کو دین و دنیا کے بارے میں مکمل امن حاصل ہو؛ کیونکہ یہ بھی اس دین کے مقاصد میں سے ایک ہے چنانچہ حدیث میں ہے کہ: ’’کوئی بھی شخص کسی مسلمان کو ایسی جگہ رسوا کر دے جہاں اس کی ہتک عزت کی جا رہی تھی، اور اسے بے آبرو کیا جا رہا تھا، تو اللہ تعالی اسے ایسی جگہ رسوا کریگا جہاں وہ اپنی فتح چاہتا ہوگا‘‘(مسند احمد، صحیح)
حکمران و رعایا کا ہم آہنگ ہوناکیوں ضروری؟
آج امت اسلامیہ کو موجودہ صورت حال میں بہت سے بیرونی حملوں کا سامنا ہے، جو کہ مختلف صورتوں میں نمودار ہو تے ہیں، لیکن ان میں سے سب سے خطرناک حملہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک کو اندر سے کھوکھلا کیا جائے، کہ وہ خود ہی ایک دوسرے کو مارنے لگیں، اگر پوری قوم و ملت ان دخل اندازیوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر کھڑی نہ ہوگی ، تو مسلم ممالک ان کے سامنے ایک لقمہ بن کر رہ جائیں گے، جو اس آگ کے منہ میں یکے بعد دیگر ایک ایک کر کے چلتے بنے گے۔
حقیقت میں مکر و فریب پر مشتمل دشمنوں منصوبہ بندی یہی ہے، لہذا حکمران و رعایا سمیت اس کے سامنے پوری قوت و طاقت کیساتھ کھڑا ہونا ضروری ہے، تا کہ امت اور مسلم معاشرے ہمہ قسم کے نقصانات اور خطرات سے محفوظ ہو جائیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے

: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَكُمْ

اے ایمان والو! اپنا دفاعی [سازو و سامان] ہاتھوں میں رکھو[النساء : 71]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ

اور جہاں تک ممکن ہو ان کے مقابلے کے لئے قوت اور جنگی گھوڑے تیار رکھو ۔ جن سے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دیگر دشمنوں کو خوفزدہ کر سکو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ انہیں جانتا ہے [الأنفال : 60]

السَّيْفُ أَصْدَقُ إِنْبَاءً مِنَ الكُتُبِ
في حدهِ الحدُّ بينَ الجدِّ واللَّعبِ

تلوار کا وار نجومیوں کی پیش گوئی سے زیادہ سچا ہوتا ہے، اسی کی تیز دھار سنجیدگی اور مزاح میں فرق ڈالتی ہے
یہ فیصلے ،اقدامات ، اور فوجی مداخلت اس وقت عمل میں لائی گئی ، جب پر امن طریقے سے مسئلے کے حل کا ہر راستہ بند ہو گیا، بلکہ باغیوں کی طرف سے کسی بھی بات کو سننے سے یکسر انکار کر دیا گیا، مزید برآں ایسے اقدامات پر اتر آئے جس سے یمن اور پڑوسی ممالک سمیت سب کو خطرات منڈلاتے نظر آنے لگے، اس وقت اہل حل و عقد اور ذمہ داران کے پاس ایک ہی حل بچا جو کہ ابو تمام نے ذکر کیا ہے:
مسلم حکومتوں کو موجودہ دور میں کیا کرنا چاہیے؟
آج تمام مسلمانوں کیلئے یہ ضروری ہو چکا ہے کہ: تفرّق، اختلاف، اور اپنی صفوں میں دراڑیں پیدا کرنے سے دور ہو جائیں، اور مسلمانوں کے بارے میں کی جانے والی منصوبہ بندیوں سے بچیں، یہ منصوبہ بندیاں صرف مسلمانوں میں اختلافات ، ان کے عقائد سے متعلق زبان درازی ، مسلم اسباب و وسائل پر قبضہ، اور مسلم علاقوں و معاشروں سے امن و امان نا پید کرنے کیلئے کی جاتی ہیں۔
مسلمانوں میں ان منصوبوں کیخلاف بیداری اسی وقت پیدا ہوگی جب تک باہمی تصادم اور ٹکراؤ کے اسباب ختم نہیں ہونگے، ساتھ میں ایسی فضا مہیا کرنا ضروری ہے جس کا مقصد اتحاد، اتفاق ، اور قومی مفاد کو ترجیح دینا ہو، اسی طرح دینی و ملّی مفادات کے سامنے ذاتی مفادات کی قربانی کا جذبہ پیدا ہو، ان تمام امور کا بنیادی مقصد یہ ہو کہ سب سے پہلے دین کی خدمت اور پھر اس کے بعد ملک و وطن کے امن و امان کے استحکام کیلئے کوشش کی جائے، وگرنہ ہماری صورت حال کسی شاعر کے مطابق یوں ہوگی:

أَمَرْتُكَ أَمْراً جَازِمًا فَعَصَيْتَنِيْ
فَأَصْبَحْتَ مَسْلُوْبَ الْإِرَادَةِ نَادِماً

میں نے تمہیں یقینی بات کا حکم دیا تو تم نے میری بات نہ مانی، اب تمہارے پاس حکمرانی نہیں رہی، تو نادم ہو رہے ہو!
تمام حکومتوں اور دانشوروں پر لازمی ہے کہ امت کے مسائل اور انکے حل کے بارے میں انکی ایک متفقہ پر عزم رائے ہو، تا کہ ان سے شرعی مقاصد، اور دنیاوی اہداف حاصل کیے جائیں، اور دشمنوں کو اپنے شریر و مذموم اہداف حاصل کرنے کا موقع ہی نہ ملے؛ کیونکہ جب مصیبت آتی ہے تو سب پر آتی ہے، لیکن جب خیر آئے تو عموما مخصوص لوگوں تک محدود ہوتی ہے، اور اللہ تعالی خود سے تباہ ہونے والے کو ہی تباہ فرماتا ہے۔
عوام الناس اور علماء کی ذمہ داریاں
اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کیلئے آگہی مہم چلائیں، اور انہیں درست تعلیمات سے بہرہ ور کریں، تا کہ حکمران و رعایا کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہو۔
اسی طرح پر فتن اوقات میں انفرادی فتووں سے بالکل گریز کریں، کیونکہ زمینی حقائق نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ ان میں سے کچھ کے نتائج اچھے اور مثبت برآمد نہیں ہوتے، چنانچہ اس پہلو پر حکمت ، اور فہم و فراست سے کام لینا انتہائی ضروری ہے۔
اسی طرح اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ بات چیت اور عملی مظاہرے میں متوقع نتائج کو پیش نظر رکھیں، تا کہ تمام معاملات خوش اسلوبی کیساتھ مکمل ہوں اور اچھے نتائج کا باعث بنیں؛ کیونکہ مختلف ممالک میں مسلمانوں کو در پیش مسائل پہلے ہی بہت ہیں، جو کہ کسی سے مخفی بھی نہیں ہیں، ان مسائل کی وجہ سے بہت ہی زیادہ نقصانات ہوئے، اور ان نقصانات و تباہی کے اعداد و شمار کے متعلق اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کریں، اسی کے سامنے گڑ گڑائیں، دینِ الہی پر عمل پیرا ہوں، احکامِ الہی کی تعمیل کریں، حدودِ الہی سے تجاوز نہ کریں، گناہوں میں ملوّث نہ رہیں؛ کیونکہ کسی بھی فتنے سے بچاؤ، اور بحران سے نکلنے کا یہی واحد راستہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

فَفِرُّوا إِلَى اللّهِ  اللہ کی طرف دوڑو۔[الذاريات : 50]

اسی طرح فرمایا:

الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ

جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کیساتھ ظلم [شرک] کی آمیزش نہیں کی، صرف انہی لوگوں کیلئے امن ہے، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔[الانعام : 82]
ایک جگہ فرمایا

:   وَتُوبُوا إِلَى اللّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

  اے مؤمنو! تم سب کے سب اللہ کی طرف توبہ کرو، تا کہ تم ہی فلاح پاؤ۔[النور : 31]
بحران سے نکلنے کا راستہ
مایوس کن فتنے ، مختلف مصائب، بڑے بڑے سنگین مسائل، اور مہلک بیماریاں لوگوں کے گناہوں ، شرعی مخالفتوں، اور سنت محمدیہ سے ہٹنے کی وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ

تمہیں کچھ بھی مصیبت پہنچے تو وہ تمہارے اپنے اعمال کی وجہ سے پہنچتی ہے۔[الشورى : 30]
اسی طرح فرمایا:

أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

بھلا جب [احد کے دن] تم پر مصیبت آئی تو تم چلا اٹھے کہ “یہ کہاں سے آگئی؟” حالانکہ اس سے دوگنا صدمہ تم کافروں کو پہنچا چکے ہو ؟ آپ ان مسلمانوں سے کہہ دیں کہ: “یہ مصیبت تمہاری اپنی ہی لائی ہوئی ہے”، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ [آل عمران : 165]
علمائے یمن ، حکمران، سیاستدان، اور عوام الناس پر لازمی ہے کہ باہمی اتحاد و اتفاق قائم کریں، تا کہ سنگین خطرات اور بھیانک نقصانات سے اپنے دین و عقیدے اور خطے کی کامیابی کیساتھ حفاظت کر سکیں، وگرنہ ان خطرات کا دین و دنیا میں یکساں نقصان ہوگا، ان کیلئے ضروری ہے کہ ہر قسم کی مکاری و عیاری پر مشتمل کسی بھی منصوبہ بندی کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا

  سب کے سب اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اور تفرقہ نہ ڈالو[آل عمران : 103]
اسی طرح فرمایا:

وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِيْنَ

آپس میں تنازعات مت کھڑے کرو، ورنہ ناکام ہوجاؤ گے، اور تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی، لہٰذا [اتحاد کیساتھ] ڈٹے رہو، بیشک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کیساتھ ہے۔ [الانفال : 46]
تمام لوگوں پر واجب ہے کہ اپنے علاقوں اور اسباب و وسائل کی حفاظت کریں، اپنی قوم، معاشرے، اور قومی دھارے کا تحفظ یقینی بنائیں، یمن کے سپوتو پر لازمی ہے کہ خواہشات یا شیطان کی بات مت مانیں، اور اسی طرح دنیاوی و شخصی مفادات کے پیچھے مت لگیں، ورنہ اپنا ملک گنواں بیٹھو گے، اور یہی سب سے بڑی خیانت ہوگی، جو سنگین جرم بھی ہے:

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ

  اے ایمان والو! اللہ اور رسول کی خیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو جبکہ تم جانتے ہو[الانفال : 27]
اللہ تعالی میرے اور آپکے لئے قرآن و حدیث کو بابرکت بنائے، اسی پر اکتفاء کرتا ہوں، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
ملک حرمین میں رہنے والوں کیلئے ہدایات
اس ملک میں رہنے والوں پر اللہ کی بے شمار نعمتیں ہیں، ان میں سے ایک نعمت اس ملک کی قیادت ہے، جو کہ نفاذِ شریعت کے اعتبار سے بالکل منفرد ہے، اس قیادت کی پوری جد وجہد اس ملک کے امن و امان کے استحکام کیلئے ہے، یہ ملک حرمین شریفین کی سرزمین ہے، یہی ملک سر زمین رسالت ہے، بلکہ یہ روئے زمین پر موجود ہر مسلمان کا اپنا ملک ہے، اس ملک کا امن ہر مسلمان کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔
ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمارے قائد خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان حفظہ اللہ کی مدد فرمائے، جنکی ذمہ دارانہ زندگی حکمت ، اور دانشمندی سے بھر پور ہے، وہ اتحاد امت کیلئے اپنی سیاسی سرگرمیوں میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آنے دیتے، انکی پوری کوشش ہے کہ امت اسلامیہ کا امن و امان مخدوش نہ ہو، پوری امت راحت و استحکام کیساتھ زندگی گزارے۔
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے، خادمِ حرمین شریفین کا یہ اقدام ایک ٹھوس تاریخی اقدام ہے، جو سنہرے لفظوں کیساتھ تاریخ میں لکھا جائے گا، انہوں نے مسلمانوں کے عقائد کے خلاف بنائی جانے والی منصوبہ بندیوں پر یہ قدم اٹھایا ، اور ابو تمام نے اسی قسم کے اقدامات کے بارے میں کہا تھا:

فَتْحُ الفُتوحِ تَعَالَى أَنْ يُحيطَ بِهِ  نَظْمٌ
مِن الشعْرِ أَوْ نَثْرٌ مِنَ الخُطَبِ

یہ ایک بہت بڑی فتح ہوگی جسے بیان کرنے کیلئے شعروں کا قصیدہ یا نثری خطبہ ناکافی ہے
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ انہیں اس کا چھا بدلہ عطا فرمائے، اور انہیں مزید کی توفیق دے، اللہ تعالی انکی مکمل معاونت فرمائے، انہیں اپنی حفظ و امان میں رکھے، ولی عہد اور نائب ولی عہد کی بھی حفاظت فرمائے۔
اس ملک کے تمام افراد یہ جان لیں کہ قرآن و حدیث کی نصوص اور مقاصد شریعت پر عمل پیرا ہوں، تا کہ مفادِ عامہ کا تحفظ ممکن ہو اور کم سے کم نقصانات کا خدشہ بھی باقی نہ رہے، ملک حرمین شریفین کے تحفظ ، اور اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے، نیز عالمی امن و امان کے تناظر میں اس خطے کے حکمرانوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات کو سراہا جائے، ان کا یہ موقف سب کی طرف سے تائید کا مستحق بھی ہے، تا کہ سب کے سب مسلمان ان باغیوں کے شر سے محفوظ رہیں، اور انکی بے پناہ منصوبہ بندیوں سے تحفظ مل سکے۔
اللہ تعالی ان کی تمام منصوبہ بندیوں کو غارت فرمائے، اور مکر کرنے والوں کیساتھ مکر فرمائے، اس ملک کے تمام افراد پر لازمی ہے کہ وہ اپنے قائدین کیساتھ ایک ہی صف میں شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔
اور اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کی صحیح سمت کی جانب رہنمائی کریں، اور نوجوان اپنے قائدین کے ساتھ رہیں، تا کہ امن و امان قائم رہے، اور خطرات ٹل جائیں۔
ہمیں اللہ تعالی نے ایک بہت بڑے عمل کا حکم دیا ہے اور وہ نبی کریم ﷺپر درود و سلام ہے۔
یا اللہ! ہمارے پیارے نبی، ہمارے قلب و نظر کی ٹھنڈک محمد پر رحمتیں ، برکتیں اور سلامتی نازل فرما ، یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین سیدناابو بکر ،سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی ، آپکی آل، تمام صحابہ کرام، آل و اہل بیت، تمام تابعین اور قیامت تک انکے راستے پر چلنے والے افراد سے راضی ہوجا۔
یا اللہ! اسلام کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! جس نے بھی مسلمانوں پر زیادتیاں کی ، یا اللہ! ان پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! جس نے بھی مسلمانوں پر زیادتیاں کی ، یا اللہ! ان پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! جس نے بھی مسلمانوں پر زیادتیاں کی ، یا اللہ! ان پر اپنی پکڑ نازل فرما۔
یا اللہ! پوری دنیا میں تمام مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے