اسلام وہ دینِ فطرت ہے کہ جسے اس کائنات میں حضرت انسان کی تمام ضرورریات کو مد نظر رکھتے ہوئے خالق کائنات نے پسند فرمایا ہے جس کی وضاحت رب تعالی نے اپنے اس فرمان ذیشان میں کی ہے

:وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا (الإنعام:3)

’’اور میں نے تمہارے لیے اسلام کوبطوردین اختیار کرنے کے لیے پسند کرلیا ‘‘ ایک زندہ انسانی وجود کو جتنی ضرورت آکسیجن کی ہوتی ہے بعین اتنی ہی ضرورت نفاذ اسلام میں قیام عدل کی ہے۔کیونکہ قیام عدل کے بغیر اسلامی نظام کا کوئی بھی جزو اپنی صحیح صورت میں نشو و نما نہیں پا سکتا۔ اسی لئے قرآن مجید اور سنت رسول اللہ ﷺ میں عدل کو قائم کرنے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔پاکستان میں عدل قائم کرنے کے راستے میں بے شمار دشواریاں اور رکاوٹیں ہیں۔ان رکاوٹوں میں سے سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ابھی تک وہ ادارے صحیح معنوں میں قائم نہیں ہو سکے ہیں جن کے توسط سے اسلام کا حقیقی نظام عدل قائم کیا جا سکے۔یہ کام قدرے صبر آزما اور دیر طلب بھی ہے ،اگر کوئی چاہتا ہے کہ چند مہینوں میں یہ کام ہو جائے تو اس کی یہ خواہش درست نہیں ہے۔تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اس کام کو کٹھن سمجھ کر ہمت ہی ہار دی جائےاور کسی قسم کی پیش رفت ہی نہ کی جائے۔کام کرنا ہوگا اور محنت کرنا ہوگی ان شاء اللہ جلد یا بدیر کامیابی حاصل ہوگی۔
عدل و انصاف کی اہمیت و ضرورت قرآن و حدیث کی روشنی میں :
عدل ظلم کی ضد ہے، ظلم کہتے ہیں”وضع الشی فی غیر محل” (کسی شئے کو اس کو اصل مقام سے ہٹاکر دوسری جگہ رکھ دینا )اور عدل کہتے ہیں اس چیز کو اصل مقام پر رکھنا۔

لغوی معنی:

برابر کرنا، سیدھا رکھنا (قاموس الوحید صفحہ ۱۰۵۴)یعنی کسی چیز کو اس طرح تقسیم کرنا کہ ان دو میں میں سے کسی میں ذرا برابر بھی کمی بیشی واقع نہ ہو۔
اصطلاحی معنی :
سید شریف فرماتے ہیں “عدل افراط اور تفریط کے درمیان ایک نقطہ مساوات ہے جو اطراف کو برابر رکھتا ہے اور حق پر آکر رک جاتا ہے “۔(اسلام کا سیاسی نظام ،پروفیسر غلام رسول چیمہ )

عدل کی اہمیت:

عدل کو ایک آفاقی حقیقت کا درجہ حاصل ہے دنیا کا کوئی معاشرہ ،خواہ وہ مسلم ہو یا کافر اس کے بغیرچل ہی نہیں سکتا۔عدل کی ضد ظلم ہے جس معاشرے میں عدل نہیں ہوگا وہاں ظلم ہوگا اور ظلم معاشرے کے لیے تباہی کا باعث بنتا ہے۔ارشاد باری ہے

“اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ “)(سورۃ المائدہ 51 )

(اللہ ہدایت نہیں کرتا ظالم لوگوں کو)معاشرے میں استحکام پیدا کرنے کے لیے عدل وانصا ف اور سزا نہایت ضروری ہے ۔ اس کے بغیر معاشرہ جرائم اور منکرات سے پاک نہیں ہوسکتا۔ معاشرے کو برائیوں سے مبرا رکھنے کے لیے عدل کاہوناضروری ہےکیونکہ عدل کے بغیر امن وامان قائم نہیں رہ سکتا، اس لیے اسلام نے ایسے جرائم میں حدمقرر کی جس کا اثر دوسروں پرپڑتاہے جیسے چوری،زنا، قتل وغارت گری، لوٹ مار اور شراب نوشی وغیرہ اور انصاف اور سزا کا اختیار صرف ان لوگوں کو دیا جن کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہو۔ قانون کے نفاذ سے جرائم کا انسداد ضروری ہوجاتا ہے اور معاشرہ کسی حد تک جرائم سے پاک بھی ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہر معاملے میں عدل قائم کرنے پر زور دیا ہے۔ اس کے متعلق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے

:وَأُمِرْ‌تُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ(سورہ الشوری 18)

’’مجھے تمہارے درمیان انصاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے

‘‘وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ ٱلنَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِٱلْعَدْلِ (سورۃ النساء 19)

’’اور جب بھی تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘ اور مزید فرمایا:

وَلَا يَجْرِ‌مَنَّكُمْ شَنَـَٔانُ قَوْمٍ عَلَىٰٓ أَلَّا تَعْدِلُوا ٱعْدِلُوا هُوَ أَقْرَ‌بُ لِلتَّقْوَىٰ (سورۃ المائدۃ 20)

’’اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث عدل کو ہرگز نہ چھوڑو، عدل کرو یہی تقویٰ کے بہت زیادہ قریب ہے

۔‘‘وَإِنْ حَكَمْتَ فَٱحْكُم بَيْنَهُم بِٱلْقِسْطِ (سورۃ المائدۃ 21)’

’اور اگرآپ فیصلہ کریں تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کریں‘‘احادیث میں بھی عدل کی بہت زیادہ اہمیت پائی جاتی ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

:(فإن عدلوا فلأنفسھم، وإن ظلموا فعلیھا)

’’اگر وہ انصاف کریں.

توان کے لیے فائدہ مند ہے، اگر ظلم کریں تو ان کے لیے وبال جان‘‘

عدل وانصاف کے اُصول:

محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف تو جرم کی سزا کی تنفیذ کی سختی سے تاکید فرمائی تو دوسری طرف آپس کے معاملات میں جن کا تعلق انفرادی زندگی سے تھا، عفو و درگزر کی تعلیم دے کر معاشرہ میں جماعت اور افراد دونوں کواستحکام بخشا اور نظامِ عدل کو ایسے بنیادی اُصولوں سے نوازا جو عالم گیر اہمیت کے حامل ہیں ۔
اصل قانون سازاللہ تعالیٰ: ربّ ِکائنات ہی حکمرانِ حقیقی ہے۔ اس حقیقت کو قرآن کریم میں متعدد بار بیان کیا گیا اور اتنے زور کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اس سے زیادہ پُرزور الفاظ کسی بات کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے استعمال نہیں ہوسکتے۔ ارشادِ باری ہے

إِنِ ٱلْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ‌ أَلَّا تَعْبُدُوٓا إِلَّآ إِيَّاهُ ۚ ذَ‌ٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّم(سورۃ یوسف 28)’

’حکم اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ، اس کا فرمان ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی اور اطاعت نہ کرو، یہی صحیح طریقہ ہے۔‘‘
قانون سازی میں رسول اللہ ﷺ کی حیثیت: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ منصف انسانیت کے لیے عظیم اُسوئہ حسنہ چھوڑا ہے۔ قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پراللہ تعالیٰ نے اس امر کی تصریح فرمائی ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قاضی مقرر کیا ہے،کیونکہ آپ ﷺ اللہ کی جانب سے صرف حق بات ہی کہتے ہیں جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے:

وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلْهَوَىٰٓ ..(سورہ النجم 29)’

’اور وہ جو کچھ کہتا ہے ہواے نفس کی بنا پر نہیں کہتا‘‘اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(إني لا أقول إلا حقًّا)

’’میں فی الواقع حق کے سوا کچھ نہیں کہتا‘‘
اس قانون عدل پر عمل کرنے والے ان درخشندہ ستاروں کا ذکر ضروری سمجھتاہوں جن کے ذکر سے ہماری تاریخ کے اوراق روشن ہیں اور مسلم قوم بجا طور پر ان پر فخر کرتی ہے، عمر قاروق رضی اللہ عنہ جو 22لاکھ مربع میل پر حکمران تھے ایک دن نماز جمع کے لیے دیر سے آئے اور ممبر رسول ﷺ پر قدم رکھتے ہی فرمایا: ’’ساتھیو! میرے دیر سے آنے کا سبب یہ تھا کہ میرے پاس ایک ہی کرتہ ہے وہ میلا ہوگیا تھا اسے دھو کر بھچایا تھا سوکھنے کا انتظار کر رہا تھااس لیے دیر سے آیاہوں‘‘ اور ایک بار دامادِ رسول ﷺ خلیفۃ المسلمین علی رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں بر سر ممبر لوگوں سے فرمانے لگے :’’من یشتری منی سیفی ھٰذا فلو کان عندی ثمن ازارمابعتہ‘‘ کون مجھ سے میری یہ تلوار خریدے گا اگر میرے پاس ایک تہبد خریدنے کی بھی قیمت ہوتی تو میں اسے فروخت نہ کرتا‘‘ایک شخص نےکہا آپ تلوار فروخت نہ کریں ہم آپ کو قرض دیتے ہیں آپ اس سے تہبند خرید لیں۔ امام عبدرالرزاق فرماتے ہیں : ’’کانت بیدہ الدنیاالاماکان من الشام‘‘ یعنی اس وقت کی بات ہے جب کہ ملک شام کے علاوہ (جس پر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حکمران تھے) باقی ایک بڑی دنیا ان کے ہاتھ میں تھی مگر مسند خلافت پر بیٹھ کر بیت المال سے ایسے ضرورتوں کو نہیں نکالا کرتے تھے۔(احیاء العلوم ج:2 ص:122)
لیکن آج ہمارے بھی حکمران ہیں جن کے ہاتھ خون آلودہ اور جن کے جبڑوں سے قوم کی عزت وآبرو اور ان کے مال ناحق کا خون ٹپکتا ہے اور قوم کی دولت کو اجداد کی میراث سمجھ کر ہضم کرتے ہوئے ڈکار بھی نہیں لیتے آئیے ان کی بھی ذرا سی جھلک دیکھتے ہیں:سلمان فاروقی نے غریبوں اور بیواؤں کے فنڈز سےچودہ کروڑ روپے آپس میں بانٹ لیے یہ بات پبلک اکاؤنٹس کمپنی کے ریکارڈپر موجود ہے، یہ سلمان فاروقی سابق صدر زرداری کی سفارش کے ذریعے اپنے آپ کو محتسب لگوایا تو حکم نامہ صادر فرمایا2008سے 2012 تک کا الاؤنس پچھلی تایخ سے ادا کیا جائے تو اس نے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ پر ہاتھ صاف کیا۔
سوئی سدرن گیس کمپنی کے ڈپٹی ایم ڈی سے صرف غیر قانونی کنکشنز کی مد میں دوارب 10 کروڑ کے گھپلوں کے شواہد مل گئے، غیر قانونی ٹھیکوں اور صنعتی کنکشنز کی کرپشن اس کے علاوہ ہے یہ صاحب ڈاکٹر عاصم صاحب کے قرابت دار ہیں اور انہی کے اثر رسوخ پرنہیں اعلی عہدے پر فائز کیا گیا تھا تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہواکہ شعیب وارثی اور عادل پراچہ سمیت ایک درجن سے زائد ایس ایس جی سی افسران کی جانب سے ہر کام پر کمیشن وصول کیا جاتاتھا۔
اس دوران متعدد ٹینڈرز میں کروڑوں روپے کا کمیشن لیکر من پسند افراد کو غیر قانونی طور پر ٹھیکے الاٹ کیے گئےکرڑوں روپے کے اضافی بل کلیئر کراکے قومی خزانے اور اہم ادارے کو شدید نقصان پہنچایا گیا ۔ ذرائع کے مطابق تفتیش میں مزید انکشاف ہواہے کہ ان افسران نے مختلف علاقوں میں گیس کے کنکشنز لگانے کے لیے اپنے ایجنٹ رکھے ہوئے تھے جو کئی افسران کے قریبی عزیز تھے سینکڑوں کی تعداد میں دئیے گئے کنکشنز میں ہر ایک پر چھ لاکھ روپے کا کمیشن لیا گیا اس کے علاوہ پرانے میٹروں کو اتار کر نئے میٹر لگانے میں بھی اربوں روپے کی کرپشن کی گئی ذرائع کے مطابق ایف آئی اے ایٹی پاور اینڈ تھیفٹ سیل میں درج ہونے والی ایک انکوائری میں یہ معلوم ہو اتھاکہ گھریلوصارفین کے ساڑھے تین لاکھ میٹرز اتار کر انہیں نئےمیٹر لگا کر دئیے گئے تاہم یہ لاکھوں میٹرز بعد میں غائب کردیئے گئے یہ میٹر نہ تو ادارے کے اسٹور میں موجود تھے اور نہ ہی ان کا ریکارڈ ادارے کے کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ میں موجود تھا ۔یہ ہمارے قومی اداروں کا حال ہے کس کس کا رونا روئیں، کسی شاعر نے کہاتھا؎
داستانِ عبرت وحسرت تو ہے بے حد طویل میں نے لکھ ڈالی ہے کر کے مختصر دیوارپر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے