withered flowerقرآن و حدیث کے عمومی دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ نیک کام کرنا شرعی طور پر مطلوب ہے جنت میں داخلے کے لئے ہر شخص عمل صالح کا محتاج ہے۔ سورۃ مومنون میں اعمال صالحہ کا ذکر کر نے کے بعد اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:

اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ الَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ۭ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ( المومون11,10)

’’ یہی لوگ ہیں جو وارث ہیں ۔ جو فردوس کے وارث ہوںگے ‘ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرما تے ہے :

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا (الکھف:107:18 )

’’ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ان کے لیے فروس کے باغات میں مہمانی ہوں گے۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد گرامی ہے۔

وَالْعَصْرِاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ( العصر3,1:103)

’’زمانے کی قسم بے شک ہر انسان گھاٹے میں ہے ‘ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے ‘‘ رسول اللہ ﷺ نے انپے قریبی رشتہ داروں کے نام لے لے کر انھیں خطاب کیا اور فر مایا: ’’ قیامت کے دن میں تمھارے کسی کام نہیں آسکوں گا‘ لہٰذا دنیا ہی میں نیکیاں کرلو۔‘‘ (صحیح بخاری:4771 )
ہر نیکی اپنی ذات کے اعتبار سے خیر ہی خیر ہے۔ شرعی نصوص سے تو یہ بات بھی ثابت ہے کہ بعض افراد کو معمولی معمولی نیکیوں پر جنت کی خوشخبری سنائے گئی ہیں۔ قرآن و حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ شرعی طور پر نیکی ایک مطلوب چیز اور کامیابی کی اساس ہے، تاہم اس کے باوجود کچھ بندوں کی نیکیاں ان کے کام نہیں آئیں گی۔ کچھ لوگ بڑی بڑی نیکیاں لے کر آئیں گے مگر انکی نیکیوں کو ذرات کی صورت میں اڑا دیا جائے گا ۔انکی نیکیاں ان کے لیے نفع بخش ہونے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہونگی۔
ایسے ہی لوگوں کے بارے میںاللہ تعالی فرماتاہے:

وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا( الفرقان: 23)

’’ اور ہم اس کی طرف آئیں گے جو انھوں نے کوئی بھی عمل کیا ہوگا ، چناچہ اسے بکھرا ہوا غبار بنادیں گے‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد گرامی ہے :

عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ تَصْلٰى نَارًا حَامِيَةً ( الغاشیۃ : 3,4)

’’ محنت کرنے والے ، تھک جانے گرم آگ میں داخل کیے جائیں گے‘‘
سورۃ ماعون میں اللہ تعالی فرماتے ہیں :
ترجمہ ’’ پس نمازیوں کے لیے بڑی ہلاکت و بربادی ہے ، جو اپنی نماز سے غافل ہیں‘‘
ان لوگوں کی نیکیاں تو ہیں مگر وہ کارآمد نہیں ہیں۔ نیکیوں کے باوجود انھیں کامیابی کی بجائے ناکامی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔گویا وہ نیکیاں ان کے لیے ہلاکت و بربادی کا سبب بن رہی ہیں ۔اپنی نیکیوں کے بارے میں جو ان لوگوں کا جو گمان تھا قرآن کریم اسے یوں بیان کرتا ہے ۔
ترجمہ:’’ وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں ضائع ہو گئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ بے شک وہ اچھا کام کر رہے ہیں‘‘ (الکہف:104)
اس تمھید کا خلاصہ یہ ہے کہ نیکی فی نفسہ کامیابی کی اساس ہے ، البتہ کچھ امور ایسے ہیں جو نیکی پر اثر انداز ہو کر اسے بے وزن بنا دیتے ہیں ۔ بظاہر تو وہ نکی بڑی محسوس ہوتی ہے مگر حقیقت میں وہ کھوکھلی ہوتی ہے۔ یوں وہ نیکی اس آدمی کے لیے ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے۔ اسی طرح کچھ اعمال ایسے ہیںجنھیں بندہ نیک سمجھ کر ادا کر رہا ہوتاہے ، حقیقت میں وہ عمل نیک نہیں ہوتا۔ اس طرح ظاہر میں نظر آنے ولی یہ نیکی اس آدمی کے لیے ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ اس کی مزید تفصیل ہم آگے چل کر کریں گے۔ ذیل میں ان امور کا ذکر کر تے ہیں جو ہلاکت اور بربادی کا باعث بنتے ہیں۔

نیکی میں تکبر:

جب بندہ نیکیاں کرتا ہے تو شیطان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ بندے کو نیکیاں کرنے سے روک دے ۔ اگر بندہ اس کے شکنجے میں نہ آئے تو وہ اس پر دوسرا حملہ کرتا ہے ۔ اس کا دوسرا حملہ یہ ہوتا ہےکہ وہ بندے کو نیکیوں کے غرور میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کوئی آدمی شیطان کے اس حملے کا شکار ہوجائے تو پھر وہ نیکیوں کے بارے میں غرور اور تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ شخص اپنے آپ کوبڑا نیک تصور کرنے لگتاہے اور نیکی میں کمزور لوگوں کو حقیر گردانتاہے اور ان پر عجیب و غریب جملے کسنے لگتاہے ۔
اعمال صالحہ سے دور لوگوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتاہے ۔ جب کسی بندے کی نیکی میں تکبر اور غرور آجائے تویہ نیکی اس کے لیے ہلاکت اور بربادی کا سبب بن جاتی ہے ۔ نیکی میں تواضع اختیارکرنا لازمی اور ضروری ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان گرامی ہے۔
ما تواضع احد للہ الا رفعہ اللہ ’’ جو شخص اللہ تعالی کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالی اسے ن بلند مقام عطاء کر دیتا ہے ۔ ‘‘ ( جامع ترمذی :(2029 )
یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں اعتبار سے تواضع ضروری ہے ۔ بندہ اللہ تعالی کی عبادت کر ے تواس میں عاجزی ہونی چاہیے۔ اسی طرح بندوں کے ساتھ بھی اس کا معاملہ عاجزی والا ہونا چاہیے ۔
احادیث سے بھی ہمیں اسکی واضح رہنمائی ملتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت کا ذکر کیا گیاکہ وہ بڑی نیک ہے ۔ فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی بڑا اہتمام کرتی ہے ۔ نفلی روزے بھی کثرت سے رکھتی ہے۔ مگر اس میں ایک کمی ہے کہ اپنے پڑوسیوں کو بڑا تنگ کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ھی فی النار ’’ یہ عورت جہنم میں جا ئے گی‘‘ ( مسند احمد: (440/2 )حدیث میں مزکور الفاظ : ’’ وہ اپنے پڑوسی کو بہت تکلیف دیتی ہے‘‘ میں یہ احتمال موجود ہے کہ وہ اپنی نیکیوں کی بنا پر پڑوسیوں کوتنقید کا نشانہ بناتی ہو انھیں حقیر سمجھتی ہو۔
رسول اللہ ﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا : یہ عورت جہنم میں جائے گی۔ گویا ایسی نیکی جو تکبر پر مبنی ہو بندے کے لیے ہلاکت اور بربادی کا باعث ہے۔ بنی اسرائیل کے دو آدمیوں کا واقعہ احادیث میں منقول ہے جو آپس میں بھائی بنے ہوئے تھے ۔
ان میں سے ایک نیکیوں میں کوشاں رہتا جبکہ دوسرا گناہوں میں گرفتار تھا۔ نیک بھائی جب بھی بدکار کو بھی گناہ کرتے دیکھتا تو اسے منع کرتا۔ ایک دن وہ کسی گناہ میں مبتلاتھا کہ نیک بھائی نے منع کیا ۔ بدکار نے کہا : ’’مجھے رہنے دے ، میرا معاملہ میرے رب کے ساتھ ہے ۔ کیا تو مجھ پر دروغہ بنا کر بھیجا گیا ہے؟ ‘‘ نیک بھائی نے اس کے جواب میں کہا : ’’ اللہ کی قسم اللہ تھجے معاف نہیں کریگا‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جب وہ دونوں فوت ہوگئے تو اللہ تعالی نے نیک بھائی کو جہنم میں ڈال دیا اس کے اس جملے کی وجہ سے اور بدکار کو معاف کردیا۔‘‘ (سنن ابی دائوود : 490)
گویا نیک بھائی نے اپنی نیکیوں کی بنا پر اپنے آپ کو جنتی تصور کر تے ہوئے کہا تھا: تیرے گناہوں کی وجہ سے اللہ تجھے معاف نہیں کرے گا۔ یہی جملہ اس کو جہنم میں لے گیا۔ یہ صرف ایک جملہ نہ تھا بلکہ اس کے پیچھے غرور اور تکبر کا عنصر کار فرماتھا۔ جس کی بنا پر وہ اپنے بھائی کو حقیر گردان تا تھا۔ اسی تکبر میں آکر اس نے کہا کہ اللہ تجھے معاف نہیں کرے گا۔ شیطان کی مثال ہمارے سامنے روزے روشن کی طرح واضح ہے وہ تھا تو جنوں میں سے لیکن اس نے اللہ کی اتنی عبادت کی کہ وہ فرشتوں کے مقام کو جا پہنچا اس نے جب تکبر کیا تو اس کی ساری نیکیاں ختم وہ نیکیاںاس کے لیے کوئی فائدہ مند نہ رہی بلکہ وہ اس کے لیے ہلاکت اور بربادی کا سبب بن گئی۔
خلاصہ کلام یہ کہ جس نیکی میں تکبر آ جائے وہ بندے کے لیے ہلاکت اور بربادی سبب بن جاتی ہے۔ اس ضروری ہے بندہ اپنے آپ کو تکبر سے بچا کر رکھے۔بندہ جوں جوں نیکی کر ے توں توں اس میں عاجزی پیدا ہو نی چاہیے۔

خواہش کے مطابق کی ہوئی نیکی:

اللہ تعالی اور اس کا رسول ﷺ نے مسلمانوں کو یہ ترغیب دلائی ہے کہ نیکی کا شوق اور جذبہ ان کے دلوں میں ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایک حقیقی مسلمان کوئی نیکی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ لیکن قابل غور پہلو یہ ہے ک کچھ لوگ نیکی تو کر رہے ہو تے ہیں مگر وہ نیکی ان کے لیے ہلاکت اور بربادی کا باعث بن رہی ہو تی ہے۔اس لیے کہ ان کا اختیار کردہ عمل فی نفسہ درست ہے لیکن اس کو کر نے کا طریقہ کار شرعی نہیں ہوتا بلکہ نیکی کرنے والے کی خواہش کے مطابق ہوتا ہے۔ ایسے نیک اعمال کرنے کے لیے اپنے ہی انداز اپنا تے ہیں۔ یہی روش ان اعمال کی بربادی کا باعث بنتی ہے۔
کچھ لوگ مسجد میں حلقہ بنا کر گٹھلیوں پر ذکر کر رہے تھے۔ اس حلقہ کا امیر جو کچھ ان کو پڑھنے کو کہتا وہ سارے اسی کلمے کا ذکرکرنے لگ جاتے۔
ذکر کرنا فی نفسہ درست ہے ، البتہ اس کا طریقہ کار درست نہیں تھا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو جب ان کے بارے میں علم ہوا تو ان کے پاس گئے اور انھیں ڈانٹ دپٹ کی۔ اس کے بعد فرمانے لگے : ’’ تم لوگ ان گٹھلیوں پر جو سبحان اللہ ، الحمد للہ ، اور اللہ اکبر کا ذکر کر رہے ہو اس کے بجائے اگر (ان پر) اپنے گناہوں کو شمار کرو تو تمہارے لیے یہ بہتر ہے۔ اس لیے کہ گناہوں کو شمار کرنے سے تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا لیکن اپنے زعم میں جو تم نیکی کر رہے ہو یہ نیکی تمہاری دوسری نیکیوں کو بھی ختم کر دے گی۔‘‘ ( سنن الدارمی:(87/1)
ایسے لوگ کل قیامت کے دن جب حوض کوثر کے قریب جائیں گے تو نبی اکرم ﷺ ان کے بارے میں فرمائیں گے:’’ ان لوگوں کو مجھ سے دور لے جائو کہ جنھوں نے میرے بعد میرے دین میں بگاڑ پیدا کیا‘‘( صحیح بخاری : ((6583
ان کے پاس نیکیاں تو ہونگی لیکن انھوں نے وہ نکیاں اپنی خواہش اور سوچ کے مطابق کی ہونگی جو ان کے لیے ہلاکت اور بربادی کا سبب بن جائیں گی۔ وہ واقعہ بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ تین آدمی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور رسول اللہ ﷺ کی عبادت کے متعلق سوالات کیےان کا جو آگے جو ابات تھے وہ اس بات کی دلیل ہیں کہ ان کے اعمال تھے وہ خواہش پر مبنی تھے جس کی بنا پر آپ ﷺ نے ان کے بارے فرمایا: ’’جو شخص میری سنت سے اعراض کرے گا وہ ہم میں سے نہیں‘‘
اس لیے ضروری ہے کہ جو بھی نیکی کی جائے اس طریقہ کار شرع سے ثابت ہونا چاہیے اور ادا بھی شرع کے مطابق ہو نا چاہیے ، بصورت دیگر وہ نیکی اس آدمی کے لیے ہلاکت کا باعث بن جائے گی۔

تشہیری نیکیاں:

عمومامعاشرے میں دیکھتے ہیں ک کچھ لوگ اپنی نیکیوں کی خوب تشہیر کرواتے اور کرتے ہیں۔ خصوصا عید قربان کے موقع پر یہ چیز بہت دیکھنے کو ملتی ہے۔ لوگ باہم بتاتے پھر رہے ہوتے ہیںکہ ہم نے اتنے بکرے ذبح کیے ہمارے اونٹ میں بھی اتنے حصے تھے اتنی گائے بھی ذبح کی وغیرہ ۔ ایسی نیکیاںجن کی بندہ خود تشہیر کرے یا نیکی کرتے وقت اس مقصد یہی ہو تو یہ نیکیاں اس کے لیے باعث ہلاکت ہونگی۔ تین آدمیوں کا مشہور واقعہ بھی اس پر دلالت کرتا ہے جس میں سخی ، مجاہد ، اور قاری قرآن کا ذکر ہے۔ ان لوگوں نے یہ بڑے نیک کام کیے ہونگے لیکن لوگوں کی داد و تحسین وصول کرنے کے لیے کیے، اس لیے یہ اعمال انھیں جہنم سے بچانے کے بجائے اسے بھڑکانے کا باعث بن گئے۔ روز قیامت سب سے پہلے انھی تین آدمیوں کو سپردِ جہنم کیا جائے گا ۔ اس لیے ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ جو بھی نیکی کرے خالص اللہ تعالی کی رضا کے لیے کرے ۔ اپنی نیکیوں کی تشہیر نہ کرے اور جب لوگوں کے سامنے نیکی کرے تو اس مقصود بھی اللہ کی رضا و خو شنودی ہو۔ وگر نہ یہ نیکیاں ہلاکت و بربادی کا باعث ہوں گی۔
ان تمام ساتھیوں سے التماس ہے جو اس عظیم الشان سنت یعنی قربانی کر نا چاہتے ہیں تو وہ اپنے اس عمل کو ان موزی بیماریوں سے پاک رکھیں بصورت دیگر آپ کی یہ نیکی دنیا میںبھی آپ کے لیے ہلاکت و بربادی کا باعث بن سکتی ہے اور روز قیامت تو آپ کو جہنم میں داخل کروا کر ہی چھوڑیں گی۔ اللہ تعالی ہمیں ہر قسم کی ہلاکت و بربادی سے محفوظ فرمائے آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے