پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، ہم اسکی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے لئے رہنمائی بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، وہی بلند و برتر ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اللہ کے بندے اور اسکے بشیر و نذیر رسول ہیں، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد پر، انکی آل اور دینِ الہی کے بہترین مدد گار صحابہ کرام پر سلامتی، برکتیں ، اور رحمتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والے اوامر و نواہی کے مطابق تقوی اختیار کرو ؛ کیونکہ متقی لوگ با مراد ہونگے اور غافل و کاہل نا مراد ہونگے۔
اللہ کے بندو!
ان افضل ایام میں عبادات کی نیکیاں بڑھا دی جاتی ہیں ، نیز اجر میں اضافہ اخلاص کی بنا پر بڑھتا ہے، اور یہی اخلاص اطاعت گزاری کی روح ہے۔
عید الاضحی کے بعد ان دنوں میں اللہ تعالی کا مقید و مطلق ذکر کثرت سے کرنا ان ایام کی خصوصیات اور امتیازی حیثیت کو اجاگر کرتا ہے؛ چنانچہ مقید ذکر ہر فرض نماز کے سلام کے بعد کہی جانے والی تکبیرات یوم عرفہ کی فجر سے ہی شروع ہو جاتی ہیں اور ایام تشریق کے آخری دن نماز عصر تک جاری رہتی ہیں؛ اس کی دلیل ابن ابی شیبہ اور دارقطنی میں جابر رضی اللہ عنہ نے مروی ہے کہ: “نبی ﷺ جب یوم عرفہ کی صبح فجر کی نماز سے لیکر ایام تشریق کے آخری دن عصر کی نماز کا سلام پھیرنے کے بعد تک تکبیرات کہتے ”
اور ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں: ” جب عرفہ کے دن نماز پڑھتے تو اپنے صحابہ کرام کی طرف متوجہ ہو کر کہتے : (اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے رہو) پھر آپ فرماتے :

الله أكبر ، الله أكبر ، لا إله إلا الله ، والله أكبر، الله أكبر ، ولله الحمد

اسی طرح مقید ذکر میں نماز کی دعائے استفتاح بھی شامل ہے، دعائے استفتاح نبی ﷺ سے متعدد الفاظ میں ثابت ہے، چنانچہ باری باری سب دعاؤں کو پڑھنا چاہیے ، تا کہ نبی ﷺ کی اقتدا ہو سکے، اور ہر دعائے استفتاح کی برکت حاصل ہو، نیز ان دعاؤں کی دہرائی بھی جاری رکھیں تا کہ یاد بھی رہیں اور ان پر عمل بھی کیا جا سکے، دعائے استفتاح کے مختلف الفاظ کتب الاذکار میں موجود ہیں۔
اسی طرح مقید اذکار میں آخری تشہد کیلئے نبی ﷺ کی سکھائی ہوئی یہ دعا بھی شامل ہے:

اَللّٰهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبادَتِكَ

ترجمہ: یا اللہ! تیرے ذکر، شکر، اور اچھی طرح تیری عبادت کیلئے میری مدد فرما (ابو داود اور نسائی نے اس روایت کو معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔)
اسی طرح آپ ﷺ نے یہ دعا بھی سکھائی:

اَللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْماً كَثِيراً، وَلاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِي، إِنَّكَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ

ترجمہ: یا اللہ! یقیناً میں نے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم ڈھائے ہیں، تیرے علاوہ گناہوں کو کوئی نہیں بخش سکتا ہے، تو اپنی طرف سے خاص مغفرت عطا فرما، اور مجھ پر رحم کر دے، بیشک تو ہی بخشنے والا، اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔( بخاری و مسلم نے اسے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔)
نیز نبی ﷺ نے تشہد کے بعد ان چار چیزوں کے بارے میں دعا کرنے کی تاکید فرمائی:

اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ

یا اللہ! میں جہنم کے عذاب ، قبر کے عذاب، زندگی اور موت کے فتنے، اور دجال کے شریر فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں( بخاری و مسلم نے اسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔)
آخری تشہد کے بعد بہت سی با برکت دعائیں ثابت ہیں، اور تشہد کے بعد دعا مانگنے کے بارے میں نبی ﷺ کا فرمان ہے: (پھر پسندیدہ ترین دعا مانگے) اور جامع ترین دعاؤں میں :

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

[ترجمہ: ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا] بخاری و مسلم نے اسے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
تشہد کے بعد یہ دعائیں نماز میں ہونے والی کمی کوتاہی کو بھی پورا کر دیتی ہیں، فرض نماز کے آخر میں انسان اپنی ضروریات بار گاہِ الہٰی میں پیش کرتا ہے، اور اللہ تعالی سے امید رکھتا ہے کہ نماز جیسی عظیم عبادت دعا کی قبولیت کیلئے وسیلہ بن جائے گی۔
ہر مسلمان کو آخری تشہد کیلئے نبی ﷺ سے ثابت شدہ اذکار یاد کرنے چاہئیں، کیونکہ جو شخص ہمیشہ دعائیں مانگے تو وہ کامیاب و کامران ہو جاتا ہے، اور اس سے مصیبتیں ٹال دی جاتی ہیں۔
نماز کے بعد والے اذکار نماز کے ثواب میں اضافے اور اللہ تعالی کے ہاں درجات کی بلندی کا باعث بنتے ہیں، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جو شخص ہر نماز کے بعد 33 بار سبحان اللہ، 33 بار الحمد للہ، اور 33 بار اللہ اکبر کہے تو یہ 99 بار ہو جائے گا، اور پھر 100 مکمل کرنے کیلئے کہے:

لَا إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

تو اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے، چاہے سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں) مسلم
نیز ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے تو اسے جنت میں داخل ہونے سے موت کے علاوہ کوئی چیز نہیں روک رہی) اور ایک روایت میں “قل هو الله أحد” کے الفاظ ہیں۔ اس کو طبرانی نے معجم الکبیر اور معجم الاوسط میں روایت کیا ہے، نیز منذری کہتے ہیں کہ ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔
جبکہ ذکر مطلق کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے مطلق ذکر کرنے کی خوب ترغیب دلائی ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا (41) وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا

اے ایمان والو! کثرت سے ذکر الہٰی کرو [14] اور صبح و شام اسی کی تسبیحات بیان کرو۔[الاحزاب : 41 – 42]
نیز فرمایا:

وَالذَّاكِرِينَ اللهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا

اور اللہ تعالی کا کثرت کیساتھ ذکر کرنے والے مرد اور خواتین کیلئے اللہ تعالی نے بخشش و عظیم اجر تیار کیا ہوا ہے[الاحزاب : 35]
نیز ذکر کا اجر اوقات کی فضیلت کے باعث زیادہ بھی ہوتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا

اور اپنے پروردگار کی طلوع و غروب آفتاب سے پہلے تسبیحات بیان کریں۔[طہ : 130]
اسی طرح فرمایا:

وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ

اور سحری کے وقت بخشش طلب کرنے والے[لوگوں کیلئے اللہ کے ہاں عظیم اجر ہے]۔[آل عمران : 17]
ایک مقام پر فرمایا:

وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَأَصِيلًا

اپنے رب کا نام لیکر صبح و شام ذکر کریں۔[الانسان : 25]
ذکر الہی سے دل منور اور ایمان بڑھ جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلٰى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ

سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور جب اللہ کی آیات انہیں سنائی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسا رکھتے ہیں۔ [الانفال : 2]
اور ایک حدیث میں ہے : (ذکر الہی میں مصروف اور بیزار شخص کی مثال زندہ اور مردہ شخص جیسی ہے)
ذکر انسان کو شیاطین سے تحفظ فراہم کرتا ہے؛ آپ ﷺ کا فرمان ہے: (میں نے اپنی امت کا ایک شخص دیکھا جسے شیاطین نے اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا، تو ذکر الہی نے آ کر شیاطین کو اس پاس سے بھگا دیا)
ذکر گناہوں کو مٹا کر نیکیوں میں اضافہ کر دیتا ہے، حدیث میں ہے: (جس شخص نے صبح اور شام کے وقت “سبحان الله وبحمده” سو بار کہا تو قیامت کے دن اس سے اچھا عمل اسی کا ہوگا جو اتنی ہی بار یا اس سے زیادہ مرتبہ یہ کہے گا) مسلم نے اسے ابو ہریرہ t سے روایت کیا ہے۔
اسی طرح ایک حدیث میں ہے: جس شخص نے

لَآ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ

ایک دن میں سو بار کہا تو یہ اس کیلئے دس غلام آزاد کرنے کے برابر ہو جائیں گے، اس کیلئے سو نیکیاں لکھ دی جائیں گی، اور سو گناہ مٹا دیے جائیں گے، نیز پورا دن شام تک شیطان سے محفوظ رہے گا، اور اس شخص سے افضل عمل اسی کا ہوگا جس اس سے زیادہ پڑھے (بخاری ، مسلم نے اسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔)
ذکر الہی سے انسان سے ہونے والی کمی کوتاہی کا ازالہ بھی ہوتا ہے، چنانچہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جس شخص نے بھی صبح و شام کہا:

فَسُبْحَانَ اللهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَيُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَكَذَلِكَ تُخْرَجُونَ

ترجمہ: جب بھی تم صبح کرو یا شام اللہ کی تسبیح بیان کرو[17] آسمانوں اور زمین میں اسی کے لیے حمد ہے اور تیسرے پہر اور جب تم پر ظہر کا وقت آتا ہے[18] وہی زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے پیدا کرتا ہے، اور وہی زمین کو بنجر ہونے کے بعد آباد کرتا ہے، بالکل اسی طرح تمہیں بھی نکالا جائے گا[الروم: 17- 19]
تو وہ اپنے دن اور رات کی رہ جانے والی عبادات پا لے گا) ترمذی نے اسے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
ذکر الہی انسان کو تکالیف سے نجات اور مصیبتوں سے راحت پہنچاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ (143) لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ

اگر وہ [یونس علیہ السلام] تسبیحات بیان نہ کرتے [143] تو اس [مچھلی] کے پیٹ میں اس دن تک رہتے جب سب کو اٹھایا جاتا۔[الصافات : 143 – 144]
اور حدیث میں ہے کہ:

لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ، لَامَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنَ اللهِ اِلَّااِلَيْهِ

ترجمہ: نیکی کرنے کی طاقت، اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ بلند و برتر کے بغیر ممکن نہیں ہے، اور اللہ سے بچنے اور پناہ لینے کی جگہ اللہ کے سوا کہیں نہیں ہے]مصیبتوں کے ستر دروازے بند کر دیتا ہے، جس میں سب سے چھوٹا دروازہ پریشانی کا ہے)
ذکر کے دنیاوی و اخروی فوائد شمار کرنا بڑا مشقت طلب کام ہے، جس کیلئے لمبا وقت درکار ہے۔
اسلام نے مسلمانوں کیلئے شب و روز کے ہر لمحے میں ذکر کرنے کو شرعی عمل قرار دیا ہے، چنانچہ چلتے پھرتے، سوتے جاگتے، سفر و حضر ہر حالت میں ذکر کرنا چاہیے۔
لہٰذا جو شخص ہر حال میں ذکر کرتا رہے تو اللہ تعالی اسے دونوں جہانوں میں کامیاب فرمائے گا، اور جس قدر ذکر الہی میں کمی ہوگی اتنی ہی مقدار میں خیر سے محروم رہے گا۔
عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “یا رسول اللہ! اسلام کے شرعی احکامات بہت زیادہ ہیں ، ان میں سے جامع ترین کونسا عمل ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: (تمہاری زبان ہمیشہ ذکر الہی سے تر رہے)
فرمانِ باری تعالی ہے:

وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِين

اپنے پروردگار کو صبح و شام دل ہی دل میں عاجزی، خوف کے ساتھ نیز زبان سے ہلکی آواز کیساتھ یاد کریں اور غافل لوگوں سے نہ ہو جائیں ۔ [الاعراف : 205]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں اسی نے سب کو کامل ترین انداز میں پیدا کیا، وہی تقدیر بنانے والا اور رہنمائی کرنے والا ہے، میں اپنے رب کی لا تعداد نعمتوں پر حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اسکے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے ، اسی کے اچھے اچھے نام ہیں، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اسکے بندے اور چنیدہ رسول ہیں، یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمد ، آپکی آل ، اور علم و دانش کے پیکر صحابہ کرام پر اپنی رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما ۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہٰی اختیار کرو، اور اسلام کے مضبوط کڑے کو اچھی طرح تھام لو۔
مسلمانو!
واقعات و حادثات کے بارے میں گفتگو کرنے سے متعلق لوگوں کی مختلف اقسام ہیں، چنانچہ ان میں سے کچھ بغیر کسی تحقیق کے باتیں بناتے ہیں، اور اڑتی پھرتی غلط افواہوں کا سہارا لیتے ہوئے مجالس گرماتے ہیں، اور تفریح کیلئے خوب طبع آزمائی کرتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالی نے ایسا انداز اپنانے سے منع فرمایا اور کہا:

وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا

اور جس چیز کے بارے میں آپکو علم نہیں ہے اس کے پیچھے مت لگیں، بیشک سماعت، بصارت، اور دل ان سب کے بارے میں باز پرس ہوگی۔[الاسراء : 36]
اور کچھ لوگ ان واقعات و حادثات کے بارے میں بری نیت ، مذموم مقاصد کیساتھ زبان درازی کرتے ہوئے چرب زبانی اور جھوٹ بول کر حقائق چھپاتے ہیں، تا کہ اپنے اہداف حاصل کر کے معصوم لوگوں پر تہمت زنی کر سکیں، اور ان کی کاوشوں پر پانی پھیر دیں، ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ نیکی کو بدی میں بدل دیا جائے، بھلائی کو برائی کا رنگ دیا جائے، اور رحمت کو زحمت بتلایا جائے، اس قسم کے لوگ عدل و انصاف اور حیا سے بالکل عاری ہوتے ہیں، انہیں جھوٹ بولنا اور تہمت لگانا اچھا لگتا ہے، انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ ان کے بول کا پول کھل جائے گا، اور انہیں سخت خفگی و ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ لوگ اللہ کے بندوں کیلئے کسی نہ کسی مصیبت کے انتظار میں ہوتے ہیں، اللہ تعالی نے ان سے دور رہنے کیلئے ان کی صفات بیان کر دی ہیں، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ يَقُوْلُوْا قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَيَتَوَلَّوْا وَهُمْ فَرِحُوْنَ قُلْ لَنْ يُصِيْبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ

اگر آپ کو کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں بری لگتی ہے اور اگر آپ کو کوئی مصیبت پہنچے تو کہتے ہیں ہم نے تو پہلے ہی اپنا بچاؤ کر لیا تھا اور اس حال میں وہ بہت خوش پھرتے ہیں [50] فرما دیں ہمیں صرف وہی نقصان پہنچے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے، وہی ہمارا مالک ہے اور اللہ ہی پر ایمان والوں کو بھروسا کرنا چاہیے ۔[التوبہ: 50 – 51]
ایسے ہی فرمایا:

لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ حَتَّى جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللہِ وَهُمْ كَارِهُوْنَ

بے شک انہوں نے اس سے پہلے بھی فتنہ ڈالنا چاہا اور آپ کے لیے کئی معاملات الٹ پلٹ کیے یہاں تک کہ حق آ پہنچا اور اللہ کا حکم غالب ہو گیا حالانکہ وہ ایسا نہیں چاہتے تھے ۔ [التوبہ: 48]
جب کہ کچھ لوگ ان مصائب سے بچنے کیلئے جائز وسائل و اسباب اپناتے ہیں، لیکن تقدیری فیصلے ان کے وسائل و اسباب پر غالب آ جائیں تو پھر اللہ تعالی کے فیصلوں پر سرِ تسلیم خم کر دیتے ہیں، اور نقصانات سے بچنے کیلئے اللہ سے مدد چاہتے ہوئے شرعی ذرائع اپناتے ہیں، ان لوگوں کو تقدیری فیصلوں کو تسلیم کرنے پر ثواب سے نوازا جاتا ہے، اور حقیقت میں یہی لوگ عقل و دانش، اور ذہین و فطین ہیں ، انہی کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155)
اَلَّذِيْنَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيْبَةٌ قَالُوْٓا إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ۔

اور ہم ضرور تمہیں خوف اور فاقہ میں مبتلا کر کے، نیز جان و مال اور پھلوں کے خسارہ میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ اور ایسے صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے [155] جنہیں جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یقیناً ہم تو اللہ تعالیٰ کے ہیں اور یقیناً ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔[البقرة : 155 – 156]
اس سال حج کے آخر میں اللہ تعالی کا شکر بجا لاتے ہیں کہ حج کا رکن ادا کیا گیا اور اس میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی۔
عالم اسلام اس بات کا عینی شاہد ہے کہ موجودہ حکومت بیت اللہ کے حجاج کرام کیلئے کیا کچھ خدمات پیش کر رہی ہے، ہر میدان میں ضیوف الرحمن کیلئے اعلی ترین معیار کی خدمات پیش جا رہی ہیں، تمام تر ادارے جانفشانی کیساتھ امورِ حج کی آسانی سے ادائیگی ، اور رونما ہونے والے تمام واقعات پر کنٹرول کرنے کیلئے پوری قوت کا استعمال کر رہے ہیں۔
ان تمام کاوشوں کا انکار وہی بیوقوف کر سکتا ہے جو دن کے وقت بھی سورج کا انکار کرے، حقیقت یہی ہے کہ تمام امور کی باگ ڈور اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے،

{لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ}

اللہ کے افعال کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہیں کر سکتا، بلکہ لوگوں سے باز پرس کی جائے گی۔[الانبياء : 23] وہی بڑا رحیم اور حکمت والا ہے۔
اللہ کے بندو!
اللہ تعالی نے تمہیں ایک ایسے کام کا حکم دیا ہے جسکی ابتدا پہلے خود فرمائی، اور فرمایا:

إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

یقیناً اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الاحزاب: 56]
اور آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔
اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔

اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، وسلم تسليما كثيراً۔

یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان ، علی اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی ہو جا، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہو جا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! کفر اور تمام کفار کو ذلیل کر دے ، یا اللہ! اپنے اور اسلام کے تمام دشمنوں کا غارت فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہمیں دین کی سمجھ عطا فرما، یا اللہ! ہمیں دین کی سمجھ عطا فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو دین کی سمجھ عطا فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! اسلام، قرآن، اور سنت نبوی ﷺ کا بول بالا فرما، یا اللہ! پوری دنیا میں سنت نبوی کا بول بالا فرما، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! تمام فوت شدگان پر رحمت فرما، یا اللہ! تمام فوت شدگان پر رحمت فرما، یا اللہ ! ان کے درجات بلند فرما، اور انکی نیکیوں میں اضافہ فرما، نیز لغزشوں سے در گزر فرما۔
یا اللہ! حجاج کرام کا حج قبول فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ان کا حج قبول فرما، اور ان کے گناہ معاف فرما، یا اللہ! جو حجاج کرام فوت ہوگئے ہیں ان کی بخشش فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ! انہیں اپنی وسیع رحمت کے صدقے معاف فرما، یا ذو الجلال و الاکرام! یا اللہ! تمام حجاج کرام کو اپنے اپنے گھروں میں صحیح سلامت واپس پہنچا، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہمیں حق بات اچھی طرح دیکھا، اور ہمیں حق کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرما، اور ہمیں باطل بھی اچھی طرح سمجھا دے اور پھر ہمیں اس سے بچنے کی توفیق بھی عطا فرما، اور اپنی رحمت کے صدقے باطل ہمارے لیے مشتبہ نہ بنا کہ کہیں ہم گمراہ ہی نہ ہو جائیں، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ مت فرما، اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا فرما، بیشک تو ہی عطا کرنے والا ہے۔
یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان اور شیطانی چیلوں اور شیطانی لشکروں سے محفوظ رکھ، یا اللہ! مسلمانوں کو شیطان اور شیطانی چیلوں اور شیطانی لشکروں سے محفوظ رکھ، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! جادو گروں کو تباہ و برباد فرما، یا اللہ! جادو گروں کو تباہ و برباد فرما، اور انہیں کسی بھی مسلمان پر مسلط نہ ہونے دے ، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ ! ان کی تمام چالبازیاں غارت فرما۔
یا اللہ! مقروض مسلمانوں کے قرض چکا دے، یا اللہ! مقروض مسلمانوں کے قرض چکا دے، یا اللہ! پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی بر و بحر اور فضاؤں میں بھی حفاظت فرما، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! تمام بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! تمام بیماروں کو شفا یاب فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! تمام بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! تمام بیماروں کو شفا یاب فرما، یا ذوالجلال و الاکرام!
یا اللہ! تمام مسلمانوں کے دلوں میں الفت پیدا فرما، لڑے ہوئے لوگوں میں صلح کروا، اور انہیں سلامتی والا راستہ دکھا۔
یا اللہ! قیامت کی دیواروں تک بدعات کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! قیامت کی دیواروں تک بدعات کو ذلیل و رسوا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! بدعات کو رسوا فرما، اور اہل بدعت کو غارت فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا ذو الجلال و الاکرام، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! یا ذو الجلال و الاکرام! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی مصیبتوں کو رفع فرما ، یا اللہ! یا ذو الجلال و الاکرام! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی مصیبتوں کو رفع فرما، یا اللہ! مسلمانوں پر کسی ایسے شخص کو مسلط نہ فرما جو تجھ سے نہ ڈرے اور ان پر رحم نہ کرے ، یا رب العالمین! یا اللہ! مسلمانوں پر کسی ایسے شخص کو مسلط نہ فرما جو تجھ سے نہ ڈرے اور ان پر رحم نہ کرے ، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! ہماری تمام معاملات میں رہنمائی فرما، یا اللہ! ہماری تمام معاملات میں رہنمائی فرما، اور ہمیں ایک لمحہ کیلئے بھی تنہا مت چھوڑ۔
یا اللہ! ہمیں ہمارے خطوں میں امن عطا فرما، اور ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما۔
یا اللہ! اپنے بندے خادم حرمین شریفین کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! اُسکی تیری مرضی کے مطابق رہنمائی فرما، اور اسکے تمام اعمال اپنی رضا کیلئے قبول فرما، یا اللہ! ہر اچھے نیکی کے کام کی انہیں توفیق دے، یا اللہ! ان کے ذریعے اپنے دین کو غلبہ عطا فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ! انہیں صحت و عافیت سے نواز ، یا اللہ! انہیں صحت و عافیت اور کامیابیوں سے نواز ، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے ان کے دونوں نائب کو اپنی رضا کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرما، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! یا ارحم الراحمین! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ہی ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! یا ذو الجلال و الاکرام! ہمیں بارش عطا فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہم بری تقدیر، دشمنوں کی پھبتی ، بد بختی، اور سخت آزمائش سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
اللہ کے بندو!

}إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ

{ اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو[90] اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے [النحل: 90، 91]
اللہ عز و جل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے