اصل دیں آمد کلام اللہ معظم داشتن
پس حدیث مصطفی ہر جاں مسلم داشتن

حدیث وسنت

نبی اکرم ﷺ کو دنیا میں مبلغ و معلم بناکر بھیجا گیا اور دین الٰہی کی آخری کتاب قرآن مجید آپ ﷺ کو عطا کی گئی قرآن مجید ایک واضح اور کھلی ہوئی کتاب ہے اس میں کسی قسم کا غموض و خفا نہیں ہے لیکن اس کے بہت سے کلمات مجمل یا کلیات کی شکل میں ہیں جن کی وضاحت رسول اللہ ﷺ نے اپنے قول وعمل سے فرمائی آپ ﷺ کا کام محض کلام الٰہی کو لوگوں تک پہنچادینا نہیں تھا بلکہ اس کی تشریح وتدوین بھی آپ ﷺ کے ذمہ تھی۔

وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ (النحل:44)

یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وہ غور و فکر کریں ۔
دوسری جگہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ اِلَّا لِتُـبَيِّنَ لَہُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوْا فِيْہِ۝۰ۙ وَہُدًى وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ(النحل:64)

اس کتاب کو ہم نے آپ پر اس لئے اتارا ہے کہ آپ ان کے لئے ہر اس چیز کو واضح کر دیں جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اور یہ ایمان داروں کے لئے راہنمائی اور رحمت ہے۔
اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے اس پسندیدہ دین کا مرجع ومصدر کلام الٰہی قرآن مجیدہے اس کلام کی جو توضیح وتشریح رسول اللہ ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے فرمائی جسے اصطلاح کی زبان میں حدیث وسنت کے نام سے تعبیر کیا جاتاہے انہی دونوں مجموعوں کا نام اسلام ہے ۔ یہ دونوں آپس میں لازم وملزوم ہیں دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا نہ ہی حدیث کو الگ کر کے محض قرآن سے اسلام کو سمجھا جاسکتا ہے اور نہ ہی قرآن کو۔
علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ(م1373ھ)
علم القرآن اگر اسلامی علوم میں دل کی حیثیت رکھتا ہے تو علم حدیث شہ رگ کی یہ شہ رگ اسلامی علوم کے اعضاء وجوارح تک خون پہنچاکر ان کےلیے تازہ زندگی کا سامان پہنچاتارہتاہے۔
آیات کا شان نزول اور ان کی تفسیر ،احکام القرآن کی تشریح و تبیین ، اجمال کی تفصیل ، عموم کی تخصیص سب علم حدیث کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے۔
اسی طرح قرآن نبی اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ اور اخلاق وعادات مبارکہ اور آپ ﷺ کے اقوال و افعال اور آپ ﷺ کے سنن، مستحبات اور احکام وارشادات اسی طرح علم حدیث کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں اسی طرح خود اسلام کی تاریخ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے احوال اور ان کے اعمال واقوال اور اجتہادات ومستنبطات کا خزانہ بھی اسی ذریعہ سے پہنچا ہے ، اس بنا پر اگر یہ کہاجائے تو صحیح ہے کہ اسلام کے اصلی پیکر کا صحیح مرقع اسی علم کی بدولت مسلمانوں میں ہمیشہ کےلیے موجود اور قائم ہے اوران شاءاللہ تا قیامت رہےگا۔

قرآن مجید اور حدیث لازم وملزوم ہیں:

مقدمہ تدوین حدیث میں مولانا مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن مجید اور حدیث نبوی ﷺ کو حرز جان بنا ئے رکھا اور دین اسلام کو انہی دونوں (قرآن وحدیث)سے سمجھا ان نفوس قدسیہ نے رسول اللہ ﷺ کے ارشادات و توجیہات کو کبھی شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا اگر حدیث کو قرآن سے علیحدہ کردیاجائے تو اسلام کے بہت سے گوشے مخفی رہ جاتےہیں ۔
مولانا معین الدین احمد ندوی سابق ایڈیٹر ماہنامہ معارف اعظم گڑھ کہتے ہیں کہ:’’نبی کریم ﷺ کی بعثت ، اسلام کا ظہور اس کی تبلیغ ، اس راہ کی صعوبتیں ، غزوات ، اسلام کا غلبہ و اقتدار اور حکومت الٰہیہ کا قیام اس کا نظام ، رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ اور آپ ﷺ کی سیرت معلوم کرنے کا ذریعہ صرف حدیث ہے اگر اس کو نظر انداز کردیا جائے تو اسلام کی بہت سی تعلیمات اور تاریخ اسلام کے بہت سے گوشے مخفی رہ جائیں گے ،اس لیے احادیث نبوی ﷺ اسلام اور اسلامی تاریخ کا بڑا قیمتی سرمایہ ہیں اور اس پر ان کی عمارت قائم ہے(مقدمہ تذکرۃ المحدّثین)
حدیث قرآن ہی کی شرح ہے:
حدیث کا شرعی مقام یہ ہےکہ قرآن کریم کی طرح اور اس کے بالکل مساوی یہ بھی شرعی ماخذ ہے اور اس کو یہ مقام خود اللہ تعالی نے دیا ہے، اللہ کی کتاب میں اللہ تعالی پر ایمان کو رسول اللہ ﷺ پر ایمان کے ساتھ فرض قرار دیا ہے اور کسی جگہ دونوں کے درجہ اور حکم میں کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے چنانچہ اہل ایمان کا ذکر کرتےہوئے فرمایا :

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَاِذَا كَانُوْا مَعَهٗ عَلٰٓي اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوْا حَتّٰى يَسْتَاْذِنُوْهُ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ

’’با ایمان لوگ تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر یقین رکھتے ہیں اور جب ایسے معاملہ میں جس میں لوگوں کے جمع ہونے کی ضرورت ہوتی ہے نبی کے ساتھ ہوتے ہیں توجب تک آپ سے اجازت نہ لیں نہیں جاتے۔ جو لوگ ایسے موقع پر آپ سے اجازت لے لیتے ہیں حقیقت میں یہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لا چکے ہیں پس جب ایسے لوگ آپ سے اپنے کسی کام کے لئے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا مانگیں، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘(النور:62)
مسلمانوں نے آغاز اسلام سےلے کر آج تک اس 1400 سالہ تاریخ میں قرآن مجید کے بعد حدیث کی ایسی خدمت کی جس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی اور ہر دور میں مسلمانوں نے اس پر ایمان رکھا کہ شریعت اسلامی کے دو ہی سر چشمے ہیں ۔
اللہ تعالی کی کتاب قرآن مجید اور نبی اکرمﷺ کی حدیث مبارک۔
قرآن مجید کے احکامات مجمل ہیں اور ان کے احکامات کی تبیین رسول اللہ ﷺ نے اپنے قول و عمل سے فرمائی۔
مولانا بدر عالم میر ٹھی (م1965ء) کہتے ہیںکہ:
یہ واضح رہناچاہیےکہ جب قرآن کی جامعیت بلحاظ امامت اصول ہے تو اب یہ ضروری نہیں کہ ہر جز اس میں مذکور ہو اگر ایسا ہوتو نہ حدیث کی ضرورت ہے اور نہ رسول کی ، صرف اللہ تعالی کی کتاب براہ راست اتاردی جائے اور وہی تمام ضروریات کے لیے کافی ہو جائے جب ایسا نہیں کیا بلکہ کتاب کے بیان کےلیے اس کے ساتھ ایک رسول بھیجا گیا تو یہ ضروری ہوا کہ قرآن کو ایک اسلامی قانون بنادیا جائے اور اس کے دفعات کی تشریح رسول کے سپرد کردی جائے یہ تشریحات تمام کی تمام اللہ تعالی کی مراد کے مطابق ہوں گی مگر رسول کی زبان سے ہوں گی۔
(ترجمان السنہ1/127)
قرآن مجید باوجود اپنی جامعیت اور مجملہ علوم ضروریہ پر حاوی ہونے کے زیادہ تر ایمان وعقائداوراصول دین بیان کرتا ہے اور قرآن مجید کی حیثیت ایک بنیادی قانون اور دستور اساسی کی ہے ۔ اس کو تفصیلی شکل دینا اور اسکی کی دفعات کی وضاحت کرنا دراصل حدیث کا کام ہے ، اللہ تعالی نے یہ کام خود رسول اللہ ﷺ کے سپر دکیا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا فرمان ہے

وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (النحل:44)

’’ یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وہ غور و فکر کریں ‘‘
جو متن خود اپنے بیان کا محتاج شرح ہو اگر اس کی شرح ضائع ہوجائے تو بلاشبہہ وہ متن بھی باوجود اس کے کہ ایک ایک حرف محفوظ ہے ضائع ہونے کے برابر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ علمائے اسلام نے کبھی بھی قرآن مجید کو حدیث سے آزاد ہوکر نہیں دیکھا ، حافظ ابن عبدالبر القرطبی فرماتے ہیں کہ:امام اوزاعی نے امام مکحول سے نقل کیا ہے:
’’الکتاب احوج الی السنۃ من السنۃ الی الکتاب‘‘(جامع بیان العلم وفضلہ)
کتاب اللہ قرآن مجید سنت کی اس سے کہیں زیادہ محتاج ہےجتنی کہ سنت کتاب اللہ کی محتاج ہے۔
علمائے اسلام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ سنت قرآن کی شرح وتفسیر ہے، امام شاطبی رحمہ اللہ اپنی کتاب الموافقات میں لکھتے ہیں۔
فکان السنة بمنزلة التفسير والشرح لمعانی أحکام الکتاب (الموافقات4؍10)
’’گویا کہ حدیث کتاب اللہ کے اَحکام کی شرح و تفسیر ہے۔‘‘
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ ازروئے شریعت آپس میں لازم وملزوم ہیں وہ کسی بھی صورت میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے علامہ شاطبی ’’الموافقات‘‘ میں لکھتے ہیں:
لیس فی السنۃ الاواصلہ فی القرآن
سنت میں ایسا کوئی بیان نہیں جس کی اصل قرآن مجید نہ ہو
حدیث کے بغیر قرآن مجید کی بہت سی آیات کا مطلب ومفہوم تشنہ رہ جاتاہے:
اگر حدیث نبوی ﷺ کو پس پشت ڈال دیا جائے اور یہ پروپگنڈہ کیا جائے کہ ہمیں قرآن ہی کا فی ہے تو ایسا پروپگنڈہ کرنے والے بے علم اور جاہل ہیں ان کا یہ اندازہ صحیح نہیں ہے کیونکہ بہت سی آیات قرآنی کا مطلب و مفہوم حدیث نبوی ﷺ کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا ، مثلاً:

وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ(الحجر: 87)

’’یقاناً ہم نے آپ کو سات آیات دے رکھی ہیں جوکہ دہرائی جاتی ہیں اور عظیم قرآن بھی دے رکھا ہے‘‘
یہ سبع مثانی سے کیا مراد ہے حدیث نے اس کی وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد سورۃ فاتحہ ہے یہ سبع آیات ہیں جو نمازوں میں بار بار دہرائی جاتی ہیں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے، الحمدللہ رب العالمین
یہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو میں دیا گیا ہوں (صحیح بخاری تفسیر سورۃ لحجر)
ایک اور حدیث میں فرمایا :
ام القرآن ھی السبع المثانی والقرآن العظیم(حوالہ مذکور)
سبع المثانی کے معنی بار بار دہرانے کے کیے گئے ہیں۔
قرآن مجید میں بہت سی آیات ایسی میں جن کا مفہوم ومطلب حدیث کے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا۔
ذیل میں چند آیات کا ذکر کیا جاتاہے:

فَبَدَّلَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِىْ قِيْلَ لَھُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاۗءِ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ(سورۃ البقرہ:59)

’’پھر ان ظالموں نے اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی بدل ڈالی، ہم نے بھی ان ظالموں پر ان کے فسق اور نافرمانی کی وجہ سے آسمانی عذاب نازل کیا‘‘

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰي مَا فِيْ قَلْبِهٖ ۙ وَھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ(سورۃ البقرہ:204)

’’بعض لوگوں کی دنیاوی غرض کی باتیں آپ کو خوش کر دیتی ہیں اور وہ اپنے دل کی باتوں پر اللہ کو گواہ کرتا ہے حالانکہ دراصل وہ زبردست جھگڑالو ہے‘‘

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَهُ ابْـتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ
(سورۃ البقرہ:207)

’’اور بعض لوگ وہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑی مہربانی کرنے والا ہے‘‘

وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَھُنَّ فَرِيْضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلَّآ اَنْ يَّعْفُوْنَ اَوْ يَعْفُوَا الَّذِيْ بِيَدِهٖ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ۭ وَاَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ۭ وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ(سورۃ البقرہ:237)

’’اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انہیں ہاتھ نہیں لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کردیا تو مقررہ مہر کا آدھا مہر دے دو یہ اور بات ہے وہ خود معاف کر دیں یا وہ شخص معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے تمہارا معاف کر دینا تقویٰ سے بہت نزدیک ہے اور آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموش نہ کرو یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے‘‘

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَاۗجَّ اِبْرٰھٖمَ فِيْ رَبِّهٖٓ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ ۘاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّيَ الَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۙ قَالَ اَنَا اُحْيٖ وَاُمِيْتُ ۭ قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ يَاْتِيْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِيْ كَفَرَ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ(سورۃ البقرہ:258)

کیا تو نے اسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے، وہ کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے اور تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ اب تو وہ کافر بھونچکا رہ گیا، اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘

اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰي قَرْيَةٍ وَّهِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا ۚ قَالَ اَنّٰى يُـحْيٖ ھٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَـةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ ۭ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۭ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۭ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَـنَّهْ ۚ وَانْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَكْسُوْھَا لَحْــمًا ۭ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗ ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ
(سورۃ البقرہ:259)

’’یا اس شخص کی مانند کہ جس کا گزر اس بستی پر ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی وہ کہنے لگا اس کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اسے کس طرح زندہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ نے اسے مار دیا سو سال کے لیے، پھر اسے اٹھایا، پوچھا کتنی مدت تم پر گزری؟ کہنے لگا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ فرمایا بلکہ تو سو سال تک رہا پھر اب تو اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ، ہم تجھے لوگوں کے لئے ایک نشانی بناتے ہیں تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، جب یہ سب ظاہر ہو چکا تو کہنے لگا میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے ‘‘

وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَيُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ(سورۃ الانفال:7)

’’اور تم لوگ اس وقت کو یاد کرو! جب کہ اللہ تم سے ان دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کرتا تھا کہ وہ تمہارے ہاتھ آجائے گی اور تم اس تمنا میں تھے کہ غیر مسلح جماعت تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اپنے احکام سے حق کا حق ہونا ثابت کردے اور ان کافروں کی جڑ کاٹ دے‘‘

اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰي وَالرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ ۭوَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيْعٰدِ ۙ وَلٰكِنْ لِّيَقْضِيَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا ڏ لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَيِّنَةٍ وَّيَحْيٰي مَنْ حَيَّ عَنْۢ بَيِّنَةٍ ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَسَمِيْعٌ عَلِيْمٌ(سورۃ الانفال:42)

’’جب کہ تم پاس والے کنارے پر تھے اور وہ دور والے کنارے پر تھے اور قافلہ تم سے نیچے تھا اگر تم آپس میں وعدے کرتے تو یقیناً تم وقت معین پر پہنچنے میں مختلف ہو جاتے لیکن اللہ کو تو ایک کام کر ہی ڈالنا تھا جو مقرر ہو چکا تھا تاکہ جو ہلاک ہو اور جو زندہ رہے، وہ بھی دلیل پر (حق پہچان کر) زندہ رہے بیشک اللہ بہت سننے والا خوب جاننے والا ہے‘‘

اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَــصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ۚ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلَيْهِ وَاَيَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى ۭوَكَلِمَةُ اللّٰهِ ھِىَ الْعُلْيَا ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ (سورۃ التوبہ:40)

اگر تم ان (نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں اس نے کافروں کی بات پست کردی اور بلند و عزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔

وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّيْ وَلَا تَفْتِنِّىْ ۭ اَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا ۭوَاِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِيْنَ (سورۃ التوبہ:49)

’’ان میں سے کوئی تو کہتا ہے مجھے اجازت دیجئے مجھے فتنے میں نہ ڈالیے، آگاہ رہو وہ فتنے میں پڑ چکے ہیں اور یقیناً دوزخ کافروں کو گھیر لینے والی ہے ‘‘

وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ ۚ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَاِنْ لَّمْ يُعْطَوْا مِنْهَآ اِذَا هُمْ يَسْخَطُوْنَ (سورۃ التوبہ:58)

ان میں وہ بھی ہیں جو خیراتی مال کی تقسیم کے بارے میں آپ پر عیب رکھتے ہیں اگر انہیں اس میں مل جائے تو خوش ہیں اور اگر اس میں سے نہ ملا تو فوراً ہی بگڑ کھڑے ہوئے‘‘

وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّكُفْرًا وَّتَفْرِيْقًۢا بَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَاِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُ ۭوَلَيَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰى ۭ وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّھُمْ لَكٰذِبُوْنَ (سورۃ التوبہ:107)

’’اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے اغراض کے لئے مسجد بنائی ہے کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کی باتیں کریں اور ایمانداروں میں تفریق ڈالیں اور اس شخص کے قیام کا سامان کریں جو اس پہلے سے اللہ اور رسول کا مخالف ہے اور قسمیں کھائیں گے کہ ہم بجز بھلائی کے اور ہماری کچھ نیت نہیں، اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں‘‘

وَّعَلَي الثَّلٰثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا ۭ حَتّٰى اِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ اَنْفُسُھُمْ وَظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّآ اِلَيْهِ ۭ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوْبُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ (سورۃ التوبہ:118)

اور تین شخصوں کے حال پر بھی جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین باوجود اپنی فراخی کے ان پر تنگ ہونے لگی اور وہ خود اپنی جان سے تنگ آگئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی بجز اس کے کہ اسی کی طرف رجوع کیا جائے پھر ان کے حال پر توجہ فرمائی تاکہ وہ آئندہ بھی توبہ کر سکیں بیشک اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا بڑا رحم والا ہے‘‘

اِنِّىْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِكُهُمْ وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَّ لَهَا عَرْشٌ عَظِيْمٌ(سورۃ النمل:23)

’’میں نے دیکھا کہ ان کی بادشاہت ایک عورت کر رہی ہے جسے ہر قسم کی چیز سے کچھ نہ کچھ دیا گیا ہے اور اس کا تخت بھی بڑی عظمت والا ہے ‘‘

وَاِذْ قَالَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْهُمْ يٰٓاَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوْا ۚ وَيَسْتَاْذِنُ فَرِيْقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُيُوْتَنَا عَوْرَةٌ ړ وَمَا هِىَ بِعَوْرَةٍ ڔ اِنْ يُّرِيْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا (سورۃ الاحزاب:13)

’’ان ہی کی ایک جماعت نے ہانک لگائی کہ اے مدینہ والو تمہارے لئے ٹھکانا نہیں چلو لوٹ چلو اور ان کی ایک جماعت یہ کہہ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت مانگنے لگی ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں حالانکہ وہ (کھلے ہوئے اور) غیر محفوظ نہ تھے (لیکن) ان کا پختہ ارادہ بھاگ کھڑے ہونے کا تھا‘‘

وَاَنْزَلَ الَّذِيْنَ ظَاهَرُوْهُمْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَيَاصِيْهِمْ وَقَذَفَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ وَتَاْسِرُوْنَ فَرِيْقًا،وَاَوْرَثَكُمْ اَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ وَاَرْضًا لَّمْ تَـــطَـــــُٔـوْهَاوَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرًا (سورۃ الاحزاب:27،26)

’’اور جن اہل کتاب نے ان سے سازباز کرلی تھی انھیں (بھی) اللہ تعالیٰ نے ان کے قلعوں سے نکال دیا اور ان کے دلوں میں (بھی) رعب بھر دیا کہ تم ان کے ایک گروہ کو قتل کر رہے ہو اور ایک گروہ کو قیدی بنا رہے ہو ،اور اس نے تمہیں ان کی زمینوں کا اور ان کے گھروں کا اور ان کے مال کا وارث کردیا اور اس زمین کا بھی جس کو تمہارے قدموں نے روندا نہیں اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے‘‘

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَكَفَرْتُمْ بِهٖ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي مِثْلِهٖ فَاٰمَنَ وَاسْـتَكْبَرْتُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْــقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ(سورۃ الاحقاف:10)

’’آپ کہہ دیجئے! اگر یہ (قرآن) اللہ ہی کی طرف سے ہو اور تم نے اسے نہ مانا ہو اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس جیسی کی گواہی بھی دے چکا ہو اور ایمان بھی لا چکا ہو اور تم نے سرکشی کی ہو تو بیشک اللہ تعالیٰ ظالموں کو راہ نہیں دکھاتا‘‘

قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا وَتَشْـتَكِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ڰ وَاللّٰهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ (سورۃ المجادلہ:1)

’’یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال جواب سن رہا تھابیشک اللہ تعالیٰ سننے دیکھنے والا ہے‘‘

وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِيُّ اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِهٖ حَدِيْثًا ۚ فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِهٖ وَاَظْهَرَهُ اللّٰهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهٗ وَاَعْرَضَ عَنْۢ بَعْضٍ ۚ فَلَمَّا نَبَّاَهَا بِهٖ قَالَتْ مَنْ اَنْۢبَاَكَ هٰذَا ۭ قَالَ نَبَّاَنِيَ الْعَلِيْمُ الْخَبِيْرُ (سورۃ التحریم:3)

’’اور یاد کرو کہ جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے ایک پوشیدہ بات کہی پس جب اس نے اس بات کی خبر کر دی اور اللہ نے اپنے نبی پر آگاہ کردیا تو نبی نے تھوڑی سی بات تو بتا دی اور تھوڑی سی ٹال گئےپھر جب نبی نے اپنی اس بیوی کو یہ بات بتائی تو وہ کہنے لگی اس کی خبر آپ کو کس نے دی کہا سب جاننے والے پوری خبر رکھنے والے اللہ نے مجھے یہ بتلایا ہے ‘‘

عَبَسَ وَتَوَلّىٰٓ اَنْ جَاۗءَهُ الْاَعْمٰى(سورہ عبس:1،2)

’’وہ ترش رو ہوا اور منہ موڑ لیا،(صرفٖ اس لئے) کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا ‘‘
اطاعت رسول ﷺ
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کوئی اٹھارہ آیات کے ساتھ اپنے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور یکساں درجے میں دیا ہے اور اطاعت کے معنی فرمانبرداری کے ہیں جس کی ضد عصیان اور نافرمانی ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ سورۃ النحل:44)

’’دلیلوں اور کتابوں کے ساتھ، یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وہ غور و فکر کریں ‘‘
یہی وجہ ہے کہ دورِ رسالت میں بھی اور اس کے بعد بھی نبی ﷺ کے قول وفعل کو اسی طرح واجب الاطاعت سمجھا گیا جس طرح کتاب اللہ اور سنت کو وحی الٰہی تسلیم کیا گیا ہے ۔
فرمان الٰہی ہے:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى (النجم:3،4)
’’اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ،وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے‘‘
اس لیے آپ ﷺ کے تمام احکام واجب التعمیل ہے اس فہم نبوت اور وحی سے مستنبط احکام کو قرآن مجید نے حکمت سے تعبیر کیا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:

طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْھُمْ اَنْ يُّضِلُّوْكَ ۭوَمَا يُضِلُّوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَضُرُّوْنَكَ مِنْ شَيْءٍ ۭ وَاَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا (النساء:113)

’’اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم تجھ پر نہ ہوتا تو ان کی ایک جماعت نے تو تجھے بہکانے کا قصد کر ہی لیا تھا مگر دراصل یہ اپنے آپ کو ہی گمراہ کرتے ہیں، یہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب اور حکمت اتاری ہے اور تجھے وہ سکھایا ہے جسے تو نہیں جانتا اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے‘‘
اللہ تعالی کا رسول ﷺ پر یہ احسان بھی ہے کہ اس نے آپ ﷺ کو قرآن مجید اور سنت جیسی نعمت عطا کی اور دین وشریعت کے وہ امور سکھائےجنہیں آپ ﷺ پہلے سے نہیں جانتے تھے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی کی اطاعت کے ساتھ ساتھ رسول ﷺ کی اطاعت کی تاکید کی گئی ہے اور بہت سی آیات میں اطیعوا اللہ کے ساتھ اطیعوا الرسول کا بھی حکم دیا ہے۔
فرمان الٰہی :

وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(آل عمران:132)

’’اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘
محترم ڈاکٹر سید سعید احسن عابدی صاحب کہتے ہیںکہ:
’’حقیقی مطاع تو اللہ تعالی ہے کیونکہ وہ ہمارا خالق ،مالک، رب اور معبو د ہے لیکن چونکہ اللہ تعالی کی اطاعت رسول ﷺ کی اطاعت و اتباع کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے ۔
اس لیے اللہ تعالی نے خود ہی قرآن پاک میں بار بار اور مختلف انداز میں اپنی اطاعت کے ساتھ اپنے رسول ﷺ کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے اور دونوں اطاعتوں میں کوئی تفریق نہیں کی ہے قرآن پاک میں ایک بھی آیت ایسی نہیں جس میں خبر یا امر کی شکل میں اللہ تعالی نے صرف اپنی اطاعت کا حکم دیا ہو البتہ ایسی آیت ضرور ہے جس میں رسول ﷺ کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دیا ہ:
ارشاد ربانی ہے:

مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ۚ وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا(سورۃ النساء:80)

’’ جو شخص رسول کی فرماں برداری کرے گا تو بیشک اس نے خدا کی فرماں برداری کی اور جو نافرمانی کرے تو (اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں ہم نے ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا ہے‘‘
ایسا اس لیے ہےکہ رسول ﷺ کی اطاعت کے بغیر اللہ کی اطاعت ممکن ہے اور نا معتبر(حدیث کا شرعی مقام1/46)
برصغیر پاک وہند کے نامور عالم دین مفسر قرآن محترم ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ لکھتے ہیںکہ شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ (م728ھ) فرماتے ہیںکہ:
’’قرآن وسنت اور اجماع کے ذریعہ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر اپنی اور اپنے رسول ﷺ کی اطاعت کو فرض کیا ہے اوامر و نواہی میں اللہ تعالی نے رسول ﷺ کے علاوہ اس امت پر کسی کی اطاعت کو فرض قرارنہیں دیا ہے اس لیے ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نبی مکرم ﷺ کے بعد سب سے افضل انسان تھے)وہ فرمایا کرتے تھے کہ:’’ میں جب تک اللہ کی اطاعت کروں تم لوگ میری اطاعت کرواور اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو تم لوگ میری اطاعت نہ کرو ‘‘
تمام علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کوئی معصوم نہیں ہے اس لیے بہت سے ائمہ کرام نے کہا ہے کہ سوائے رسول اللہ ﷺ کے ہر آدمی کی کوئی بات کی جائے کی اور کوئی چھوڑ دی جائے گی اور یہی وجہ تھی کہ فقہی مذاہب کے چار اماموں نے لوگوں کو ہر بات میں اپنی تقلید سے منع فرمایاتھا‘‘۔(تیسیر الرحمان لبیان القران 1/237)
معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو اطاعت اللہ تعالی کے فرض سے فرض ہے اس تناظر میں آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری اللہ کی اطاعت قرار پائی اور آپ کی حکم عدولی اللہ تعالی کی معصیت اور نافرمانی ہوئی۔
قرآن مجید کی طرح حدیث نبوی بھی محفوظ ہے:
آنحضرت ﷺ سے قبل تمام انبیائے کرام کو ایک مخصوص زمانے کے لیے بھیجا گیاجبکہ آپ ﷺ کو قیامت تک تمام دنیا والوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا اور آپ ﷺ کو خاتم النبیین بنا یا ، آپ ﷺ کے بعد قیامت تک اور کوئی نبی نہیں آسکتا اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

وَمَآاَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (الانبیاء:107)

’’اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘
اس آیت کی تفسیر میں صاحب احسن البیان فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب فرماتے ہیںکہ:
’’آپ ﷺ کی رسالت پورے جہاں کے لیے ہے اس لیے آپ ﷺ پورے جہاں کے لیے رحمت بن کر یعنی اپنی تعلیمات کے ذریعے سے دین ودنیا کی سعادتوں سے ہم کنار کرنے کےلیے آئے ہیں‘‘(احسن البیان ۔ص909)
محترم ڈاکٹر سید سعید احسن عابدی صاحب آیت مذکورہ کے ضمن فرماتے ہیںکہ:
’’جس کا لازمی تقاضہ یہ ہےکہ آپ ﷺ کو دی گئی شریعت قیامت تک واجب العمل ہے اور جب اس شریعت کا پہلا ماخذ قرآن کریم اپنے نزول کے بعد سے اب تک محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا کیونکہ اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے‘‘

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر9)

’’ ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں‘‘
قرآن کریم کے محفوظ ہونے کا لازمی تقاضہ یہ ہے کہ، سنت یا حدیث بھی محفوظ ہو کیونکہ یہ قرآن مجید کی شرح و تفسیر ہونے کی وجہ سے شریعت کا دوسراماخذ ہے جس کے بغیر قرآن مجید پر عمل ممکن نہیں اور اگر ممکن ہوتو معتبر نہیںحدیث میں تمام ذخیرہ قرآن مجید کا بیان اور اس کی شرح ہے اگر قرآن مجید کی حیثیت تشریعی ہے تو اس کے بیان کی حیثیت بھی تشریعی ہونی چاہیے یہی عقیدہ تمام صحابہ کرام سے لے کر آج تک تمام امت کا ہے ۔
باقی قرآن مجید اپنے ماننے والوں سے مطالبہ کرتاہے کہ رسول ﷺ کے قول وفعل کو وہ عین دین سمجھیں اور نبی کریم ﷺ کے ہی طرز زندگی کو اللہ تعالی کا پسندیدہ طریقہ حیات تسلیم کریں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا(سورۃالاحزاب:21)

یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے‘‘
مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ : ’’یہ آیت اگر چہ جنگ احزاب کے ضمن میں نازل ہوئی ہے جس میں جنگ کے موقعے پر بطور خاص رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کو سامنے رکھنے اور اس کی اقتداء کرنے کا حکم دیاگیا ہےلیکن یہ حکم عام ہے ، یعنی آپ ﷺ کے تمام اقوال افعال اور احوال میں مسلمانوں کے لیے آپ ﷺ کی اقتداء ضروری ہے چاہے ان کا تعلق عبادات سے ہویا معاشرت سے ہومعیشت سے یا سیاست سے زندگی کےہر شعبے میں آپ ﷺ کی ہدایات واجب الاتباع ہیں‘‘ (احسن البیان،ص1172)
مولانا سید ابو الحسن ندوی (م1999) فرماتے ہیںکہ حدیث نبوی ﷺ ایک ایسی میزان ہے جس میں ہر دور کے معلمین و مجددین اس امت کے اعمال و عقائد رجحانات ، خیالات کو تول سکتےہیں اورامت کے طویل تاریخی عالمی سفرمیں پیش آنے والے تغیرات وانحرافات سے واقف ہو سکتے ہیں۔
حدیث نبوی ﷺ امت اسلامیہ کے لیے ایک ناگزیر
حقیقت اور اس کے وجو د کےلیے ایک لازمی شرط ہے اور اس کی حفاظت ، ترتیب وتدین ، حفظ اور نشرو اشاعت کے بغیر امت کا یہ دینی ومذہبی واخلاقی دوام وتسلسل برقرار نہیں رہ سکتا (تاریخ دعوت وعزیمت 5/170)
اس مضمون کا اختتام اس شعر پر رکھا جاتاہےجس سے مضمون کا آغاز کیا تھا۔
اصل دیں آمد کلام اللہ معظم داشتن
پس حدیث مصطفی ہر جاں مسلم داشتن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے