ہمارے ملک پاکستان کا بااثر طبقہ ، حکمران اور سیاستدان اکثر اغیار کی تقلید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں گویا کہ انہی کے تنخواہ دار ہیں ان کی نمک حلالی کرنے میں بہت پیش پیش رہتے ہیں انہی کے ہم نوالہ ، ہم پیالہ ہونے کا دم بھر تے ہیں ، شکل وصورت ، وضع قطع حتیٰ کہ لباس بھی انہی کا زیب تن کرتے ہیںپھر زبان بھی انہی کی بولیں گے ، اپنے مذہب ، قوم اور ملک کی کیا پرواہ؟، ملک کی اشرافیہ کی یہ حالت ہے کہ انہیں اپنی قومی زبان تک نہیں آتی کہ وہ اپنا مافی ضمیر قوم کو سمجھا سکیں، دل ودماغ کچھ اور سوچ رہے ہوتے ہیں اور زبان سے کچھ اور پھول جھڑ رہے ہوتے ہیں، اپنے مذہب کے بنیادی عقائد وارکان کی بھی انہیں خبر تک نہیں، شریعت اسلامیہ سے بالکل نابلد ہیں ایک سابق وزیر کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ آذان بج رہا ہےایک ملک کے نامی گرامی قانون دان ہیں، انہیں اس بات کا بھرم ہے کہ میرے دم سے ہی پاکستانی عدالتوں کا نظام چل رہا ہے جب انہوں نے عوام کے سامنے سورت فاتحہ پڑھنا چاہی جو صرف سورت فاتحہ بھی نہ پڑھ سکے، یہ و وہ سورت ہے جو ہر نماز کی ہر ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے اور بچوں کو بھی یاد ہوتی ہےاور ایک سابق وزیر داخلہ کو سورہ اخلاص بھی پڑھنی نہ آئی ، یہ ان کی دینی قابلیت ہے ، مسلمان ہونے کے ناطے ، جس علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے اور یہ اشرافیہ ملک و قوم اور نہ ہی مذہب کے وفادار ہیں بلکہ یہ وفاداریاں اغیار کی ننبھاتےتے ہیں، سابق انڈس واٹر کمشنر سید جماعت علی شاہ ہندوستان میں پاکستان کے مندوب بن کر جاتے تھے مگرنمائندگی ہندوستان کی کرتےہیں۔

ایسے ہی ایک صاحب قوم کے خیر خواہ اور مسیحا بننے کی ان تھک کوشش کر رہے ہیں ، وہ قوم کو سبز باغ دکھلارہے ہیں ، حقیقت میں وہ بھی غیر وں کے فرمانبردار ہیں ان کی اصلیت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے ان کے ماضی کا داغدار ہونا تو سب کو معلوم تھا مگر حال کا اب پتہ چلا ہے کہ سابقہ بیوی فرماتی ہیں کہ میرے اور عمران کے کتوں کی بھی آپس میں نہیں بنی ۔

اس کے ساتھ جماعت اسلامی کی عقل کا بھی ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے کہ ملک میں اسلامی نظام کی تنفیذ کا دعویٰ کیا جاتا ہے اس ملک کو اسلامی، فلاحی اسٹیٹ بنائیں گے اس ملک کو سیکولر نہیں بننے دیں گے جماعت سے ایسی توقع کی جانی بھی چاہیے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ملک کو لادین قوتوں کے ہاتھ میں نہیں جانے دیں گے مگر جماعت اسلامی سے پوچھا جائے کہ حالیہ الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کن سے کی جارہی ہے ؟ ان سے جن کے گھر میں کتے پلتے ہیں جن کے کتوں کے لیے روم اور بیڈ مخصوص ہیں کیا یہ سیکولر ذہن رکھتے والے لوگ نہیں ، جماعت اسلامی تو ایک نظریاتی جماعت ہے ، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ بھی کرسی اور اقتدار کی ہوس میں اس قدر آگے چلی جائےکہ ملحدانہ خیالات رکھنے والے لوگوں سے الحاق کرلے گی ، ہم اپنے حکمرانوں کی بات کر رہے تھے بات کہیں اور نکل گئی ہمارے حکمران اغیار کی غلامی میں بہت آگے نکل گئے ہیں کہ انہیں نہ اپنے دین کی کوئی خبر اور نہ ہی ملکی قوانین کا کوئی علم ہے ملکی آئین یہ بات واضح طور پر مکتوب ہےکہ پاکستان کا سپریم لاء قرآن وسنت ہوگاکوئی قانون اگر قرآن وسنت کے متصادم د ہوگا تو اسے کالعدم قرار دیدیا جائے گا ۔

۱۴ نومبر ۱۹۹۱ء کو پاکستان کی فیڈرل شریعت کورٹ نے ہر قسم کے سودی کاروبار کو حرام قرار دیکر ملکی معیشت کو جلد اس سے پاک کرنے کا تاریخ ساز فیصلہ دیا تھا اور ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹کو سپریم کورٹ کے شریعت اپلیٹ بنچ نے بھی اس کی توثیق کی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ، جس کے آئین میں سود کو ختم کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے اس مملکت کے صدر ممنون حسین کو یہ جرأت ہوتی ہے کہ وہ علماء سے کہتے ہیں کہ ’’ہائوس بلڈنگ کے قرضے پر سود کی ادائیگی کے لیے راستہ نکالیں‘‘ ۔ ہاؤس بلڈنگ کے قرضے حکومت کے زیر انتظام دیے جاتے ہیں اور صدر محترم اپنے ماتحت محکمے کو سود سے منع نہیں کر سکتے لیکن علماء سے کہتے ہیں کہ کوئی راستہ نکالیں۔ یعنی حکومت تو یہ حرام کھاتی رہے گی، آپ دینے والوں کی تسلی کے لیے کوئی راستہ نکالو۔ یہ توقع علماء سے کیوں لگائی گئی۔ اس لیے کہ اس مملکت خداداد پاکستان کے کچھ اسکا لرز نے ایک ایسے بینکاری نظام کو حیلوں کے ذریعے اسلامی بنا کر پیش کیا جس کی ساری کی ساری اساس ہی سودی نظام پر ہے، ان لوگوں کا حال بھی علمائے یہود کا سا ہے جن کا خاصا تھا کہ حیلہ سازی و بہانہ بازی اور مختلف طریقوں سے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات سے روگردانی کا راستہ نکالنا ۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے اپنی امت کے بارے میں ایسے ہی ایک خطرے سے آگاہ فرمایا:’

’عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:تَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ سَلَكُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوهُ، قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ: اليَهُودَ، وَالنَّصَارَى قَالَ: فَمَنْ‘‘(صحيح البخاري 4/ 169)

سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم لوگ اپنے سے پہلے لوگوں کی (ایسی زبردست پیروی کرو گے (حتیٰ کہ) ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز پر (یعنی ذرا سا بھی فرق نہ ہوگا) حتیٰ کہ اگر وہ لوگ کسیسانڈے کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی داخل ہو گے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہود و نصاری مراد ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر اور کون مراد ہوسکتا ہے۔

’’جب سپریم کورٹ نے اپنے تاریخ ساز فیصلے مورخہ 23 دسمبر 1999ء میں بینکاری سود کو حرام قرار دیا تو اقتدار کے ایوانوں میں ہل چل مچ گئی۔ فوری طور پر جو پالیسی ترتیب دی گئی اس کے اہم ستون یہ تھے۔ 1- عدالتوں کے ذریعے سود کے حرام ہونے کو متنازعہ رکھا جائے تا کہ پوری قوم کنفیوژن کا شکار رہے۔2 – حکومت عدالت میں یہ مؤقف اختیار کرے کہ اسلام نے تو اصل میں رباء کو حرام قراردیا جب کہ بینکاری سود تو رباء ہے ہی نہیں۔ -3 موجودہ جدید بینکاری کی طرز پر ایک اسلامی بینکاری نظام قائم کیا جائے جو سودی نظام کے شانہ بشانہ چلتا رہے اور جسے اسلامی قرار دینے کے لیے شریعہ ایڈوائز مقرر کیے جائیں۔

یوں ایک ہی بینک لوگوں کو یہ سہولت دے کہ اگر وہ چاہیں تو اسلامی بینکاری کے تحت اکاؤنٹ کھولیں یا عام بینکاری کے تحت۔ یعنی چاہے تو اس بینک کی دکان سے حرام کاروبار کریں یا حلال۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک قصاب کی دکان پر خنزیر اور بکری کا گوشت بیک وقت دستیاب ہو۔ اس وقت 22 اسلامی بینک بیک وقت یہ سہولت فراہم کر رہے ہیں اور ان بینکوں میں بیٹھے شریعہ ایڈوائزر اور مفتیان کرام خاموش ہیں بلکہ اسٹیٹ بینک کا شریعہ ایڈوائزی بورڈ بھی خاموش ہے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک قصاب کی دکان پر خنزیر کا گوشت بھی بک رہا ہو اور آپ کہیں کہ میں تو اس بات کی تنخواہ لیتا ہوں کہ یہاں بکری کا گوشت خالص ہے یا نہیں۔ اگر اسلامی بینکاری واقعی حلال ہے تو مروجہ بینکاری کو بند کیوں نہیں کرتے۔ سب کچھ تو ویسا ہی ہے‘ عمارت‘ چیک بک‘ اے ٹی ایم کارڈ‘ قرضہ اسکیمیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہم نے ہی تو حیلہ سازی سے انھیں قائم رکھا ہوا ہے۔ صرف ایک شرعی حیلہ بیان کر دوں۔ اجارہ سکوک‘ یہ ایک طرح کے بانڈ کی قسم ہے۔ مثلاً واپڈا اگر ایک ڈیم بنانا چاہتا ہے تو وہ اپنے ڈائریکٹروں کی ایک کمپنی بنائے گا جسے SPV یعنی Siecial Purpose Vehicle کہتے ہیں۔

یہ کمپنی اس ڈیم کی عالمی کنسلٹیسٹ سے قیمت لگوائے گی جسے Valuation کہتے ہیں۔ یہ قیمت اسلامی بینک اجارہ سکوک کی انوسٹمنٹ کے ذریعے ادا کر دیں گے جس سے وہ ڈیم بنے گا۔ اب یہ کمپنی جو اسی ادارہ کے ڈائریکٹروں پر مشتمل ہو گی‘ ڈیم کو واپڈا کو استعمال کرنے کے لیے دے گی۔ اب واپڈا سے جو رقم کمپنی حاصل کرے گی اسے سود نہیں کرایہ کہا جائے گا۔ اس پر سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ہر صبح اس ڈیم کا کرایہ سودی بینکوں کے سود کی شرح ناپنے کے نظام KIBOR یا LIBOR کے ذریعے ادا ہو گا۔ یعنی جس دن شرح کم اس دن کرایہ کم اور جس دن شرح زیادہ اس دن کا کرایہ زیادہ۔ کیا خوبصورت نفع اور نقصان کی حصہ داری نکالی ہے۔ کیا کسی عالم دین نے اپنا مکان کرائے پر دیا ہے اور ہر روز اس کا کرایہ KIBOR یا LIBOR کے ریٹ دیکھ کر وصول کرتا ہو۔ پوری کی پوری اسلامی بینکاری حیلہ سازی پر مبنی ہے جسے اسلامی بینکاری تو نہیں حیلہ بینکاری کیا جا سکتا ہے‘‘(اقتباس از اوریامقبول )

سود تو وہ لعنت ہے جو صرف ملت اسلامیہ میں ہی حرام نہیں بلکہ ہندو مذہب جو کہ کروڑوں معبودوں کے پجاری ہیں ان کے مذہب میں بھی یہ حرام ہے، جس کا اندازہ آپ اس عبارت سے بخوبی لگا سکتے ہیں، جیساکہ مغل شہزادے ‘داراشکوہ اور معروف ہندوپنڈت کے درمیان ہونے والے مکالمے سے واضح ہے ۔داراشکوہ نے پنڈت صاحب سے پوچھا کہ کیا مسلمان پر سود کا لیناحرام اور اہل ہنود پر حلال ہے ؟تو پنڈت صاحب نے جواب دیا: اہل ہنود پر سود لیناحرام سے بھی زیادہ برا ہے ۔اس پر دارا شکوہ نے سوال کیا کہ پھر سود لیتے کیوں ہیں ؟تو پنڈت جی نے کہا کہ یہ رواج پاگیا ہے اور اس کا رواج پانا اس کے نقصان سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ہے۔[اسرار معرفت :۲۱]

اغیار نے ملت اسلامیہ کو ہر دور میں معاشی، معاشرتی،غرض ہر قسم کا نقصان پہنچایا۔ملت اسلامیہ کے معاشی نظام کو نا کام کرنے کے لیے اُنہوں نے کبھی سرمایہ دارانہ نظام مسلط کیا،کبھی اشتراکی نظام کے فوائد بتا کر ملت اسلامیہ کی ہر سطح پر بیخ کنی کی ہے تاکہ مسلمان ہمیشہ کے لیے اقتصادی طور پر غلام بن کر رہیں۔لیکن افسوس صد افسوس مسلمانوں نے اپنے پاس الٰہی تعلیمات ہوتے ہوئے بھی اغیار کی تقلید کی اور اس میں اپنی معاشی کامیابی اور نجات سمجھنے لگے

رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي، لَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَنَظَرْتُ فَوْقَ – قَالَ عَفَّانُ: فَوْقِي – فَإِذَا أَنَا بِرَعْدٍ وَبَرْقٍ وَصَوَاعِقَ “، قَالَ: ” فَأَتَيْتُ عَلَى قَوْمٍ بُطُونُهُمْ كَالْبُيُوتِ فِيهَا الْحَيَّاتُ تُرَى مِنْ خَارِجِ بُطُونِهِمْ، قُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ يَا جِبْرِيلُ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ أَكَلَةُ الرِّبَا(مسند أحمد (14/ 285)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا شب معراج میں جب ہم ساتویں آسمان پرپہنچے تو آپ ﷺنے اوپر کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا تو اچانک گرج، بجلی اور کڑک محسوس کی آپﷺ نے ارشاد فرمایا ایک ایسی قوم پر میرا گزرہوا جن کے پیٹ ایسے تھے جیسے (بڑے بڑے ) مکان ہوں جن میں سانپ (بھرے ہوئے) تھے جو پیٹوں سے باہر صاف طور پر نظر آرہے تھے میں نے پوچھا جبریل یہ کون لوگ ہیں انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور ہیں‘‘

افسوس کی بات یہ ہے اس مملکت خداداد کے سربراہ بجائے اس کے کہ اس نظام کو ختم کریں اس کی حلت کی حیلہ سازی کا راستہ نکالنا چاہتے ہیں، سود کی سنگینی میں احادیث مذکورہ کے علاوہ اور بھی بے شمار نصوص وارد ہوئے ہیں ایک اور حدیث مبارکہ میں میرے اور آپ کے آقا جناب محمدرسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے، جسے سیدنا عبد اﷲ بن حنظلہ رضی الله عنہ نے روایت کیا ہے کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ”سود کا ایک درہم ، جسے انسان جانتے بوجھتے کھاتا ہے ، وہ 36 مرتبہ زنا کاری سے بھی بدتر ہے “۔ ( صحیح : مسنداحمد ، طبرانی )

آج ہم اللہ کے عذاب کو دعوت دینے جارہے ہیں جو رب پچھلی قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے جو کہ ہم سے کہیں زیادہ طاقتور تھیں، اگر ہم نے بھی اپنی روش نہ بدلی توورنہ ایک دن ہم اپنے ہاتھوں سے ہی تاریخ کا حصہ بن جائیں گے اور ہماری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے