قرآن مجید کا تعارف:

اللہ تعالی نے ہمارے پیارے رسول ﷺ کو انتہائی بلند مقام عطا فرمایا اور مختلف معجزات (Miracles) سے نوازا۔ جن میں سب سے عظیم و سنہری معجزہ قرآن کریم ہے۔

قرآن کریم کا انتہائی مختصر تعارف اور خصوصیات درجِ ذیل ہیں:

1ـ قرآن مجید اللہ تعالی کا کلام ہے :

جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد ہے:

وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْلَمُوْنَ (التوبۃ: 6)

اور اگر ان مشرکوں میں سے کوئی آپ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دیجئے تاآنکہ وہ (اطمینان سے) اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دو۔ یہ اس لیے (کرنا چاہئے) کہ وہ لوگ علم نہیں رکھتے۔

2ـ قرآن مجید اللہ کے پاس لوح محفوظ میں ہے:

فرمان الٰہی ہے:

بَلْ ہُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ (آیت:22)

بلکہ یہ قرآن بلند پایہ ہے، جو لوح محفوظ میں (درج ہے)۔

3ـ قرآن مجید کی حفاظت کی ضمانت خود اللہ تعالیٰ نے دی ہے:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:9)

بےشک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بےشک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں ۔

صرف قرآن مجید کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ اللہ کی قدرت کاملہ کے ذریعہ قرآن کریم ہمیشہ محفوظ رہے گا۔

4ـ قرآن کریم انمول معجزہ ہے:

قرآن مجید اللہ کی طرف سے پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کیا گیا ایک ایسا انمول معجزہ (Miracle) ہے جس کی زبان صرف نفیس ہی نہیں بلکہ عربی زبان کا شاہکار (Master piece)ہے، اسلوب بڑا نرالہ ہے، اور اثر انگیزی کا تو یہ عالم ہے کہ مشرکین مکہ بھی اس کے قائل تھے، نیز یہ معجزہ مستقل و ابدیہے ۔قرآن مجید جیسا کلام کوئی نہیں لا سکتا جیساکہ ارشاد الٰہی ہے:

قُلْ لَّیِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا (بنی اسرائیل:88)

کہہ دے اگر سب انسان اور جن جمع ہوجائیں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہیں لاسکیں گے، اگرچہ ان کا بعض بعض کا مددگار ہو ۔

5قرآن مجید کامل ہدایت ہے (Complete Guidance)

قرآن کریم تمام شعبہ ہائے زندگی میں بہترین رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ (البقرۃ: 185)

’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ہدایت کی اور (حق و باطل میں) فرق کرنے کی واضح دلیلیں ہیں‘‘

6قرآن مجید تمام جہانوں کے لئے ہدایت ہے:

وَمَا ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ (القلم:52)

حالانکہ وہ تمام جہانوں کے لیے نصیحت کے علاوہ کچھ بھی نہیں

7ـقرآن مجید میں کسی قسم کا کوئی بھی تضاد (Contradiction) نہیں:

قرآن مجید میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ اس کے مضامین میں مکمل ہم آہنگی (Harmony) اور ارتباط (Integrity)پایا جاتا ہے۔اللہ تعالی وحدہ لا شریک کا فرمان ہے:

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭوَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا(النساء: 82)

تو کیا وہ قرآن میں غورو فکر نہیں کرتے، اور اگر وہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔

8ـقرآن مجید انتہائی مؤثر (Effective) کلام ہے:

قرآن کی تاثیر کا عالم یہ ہے کہ کوئی شخص قرآن کے معانی و مفہوم کو نہ بھی سمجھتا ہو اس کے باوجود اگر وہ قرآن کی تلاوت سنے تو اس کے دل کی کیفیت بدل جاتی ہے اور اسے سکون ملتا ہے۔ اسی لئے مشرکین مکہ اسے جادو سے تعبیر کیا کرتے تھے۔فرمان الٰہی ہے:

وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَہُمْ ۙ ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ (الأحقاف: 7)

’’اور جب ان کے سامنے ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا حق کے بارے میں، جب وہ ان کے پاس آیا، کہتے ہیں یہ کھلا جادو ہے‘‘

9ـ قرآن کریم ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہے:

ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ٻ فِیْہِ ڔ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ

یہ ایسی کتاب ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں، اس میں ان ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے (البقرۃ:2)

10ـ قرآن مجید میں سچی پیشن گوئیاں ہیں:

قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے جو پیش گوئیاں ذکر فرمائی ہیں ان میں سے کچھ واقع ہوچکی ہیں جبکہ باقی پیش گوئیاں بھی واقع ہوکر ہی رہیں گی۔جیسا کہ سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالی نے فرمایا:

وَاِنْ کَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَکَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْکَ مِنْہَا وَاِذًا لَّا یَلْبَثُوْنَ خِلٰفَکَ اِلَّا قَلِیْلًا (سورۃ الاسراء: 76)

قریب تھا کہ یہ لوگ آپ کو اس سرزمین (مکہ) سے دل برداشتہ کردیں تاکہ آپ کو یہاں سے نکال دیں ۔ اور ایسی صورت میں آپ کے بعد یہ لوگ بھی یہاں زیادہ دیر نہ ٹھہر سکیں گے۔

یہ پیشین گوئی غزوہ بدر اور فتح مکہ کے موقعوں پر پوری ہوئی اور کئی کفار ہلاک ہوگئے اور کئی ذلت و رسوائی کے ساتھ بھاگ گئے۔ اور کچھ مسلمان ہوگئے۔

11ـ قرآن کی بدولت ہی عزت و کامیابی نصیب ہوتی ہے:

فرمان نبوی ﷺ ہے:

إِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَاما وَیَضَعُ بِہِ آخَرِیْنَ

بے شک اللہ تعالی اس کتاب (قرآن) کی بدولت بہت سی قوموں کو ترقی دیتا ہے اور اسی کی وجہ سے بہت سی قوموں کو رسوا کردیتا ہے۔(مسلم)

اقبال نے کہا تھا:

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں

اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار

12قرآن کریم کے نزول، حفظ و کتابت، جمع و تدوین کے اعتبار سےمراحل :

اللہ سبحانہ وتعالی کے فضل و کرم سے قرآن کریم نزول سے لے کر مصحف کی صورت تک چند اہم مراحل سے گزر کر ہم تک پہنچا ہے۔اس لئے اختصار کے ساتھ ان مراحل کو تحریر کرنا نہایت قابل ذکر ہے۔

پہلا مرحلہ:

قرآن مجید کا نزول:

سیدناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق قرآن مجید دو (2) مرتبہ نازل ہوا:

(پہلی مرتبہ) قرآن مجید لیلۃ القدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کے بیت العزت یعنی ’البیت المعمور‘ میں ایک ہی مرتبہ مکمل نازل کیا گیا۔ اور اس کے بعد دوسری مرتبہ آسمان دنیا سے بتدریج (وقتا فوقتا) ہمارے پیارے نبی جناب محمد رسول اللہﷺ کے مبارک قلب (دل) پر نازل کیا گیا۔ (الحاکم)

پہلی مرتبہ مکمل قرآن مجید رمضان کے مہینے میں لیلۃ القدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کے ’البیت المعمور، میں نازل کیا گیا۔ اس بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَکَةٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ

’’بےشک ہم نے اسے ایک بہت برکت والی رات میں اتارا، بےشک ہم ڈرانے والے تھے ‘‘(الدخان:3)

اس آیت کریمہ میں جس برکت والی رات کا ذکر ہے اس سے مراد لیلۃ القدر کی رات ہے جیساکہ سورۃ القدر میں ارشاد الٰہی ہے:

اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ (القدر:1)

’’بلاشبہ ہم نے اسے قدر کی رات میں اتارا‘‘

اور یہ بات واضح ہے کہ لیلۃ القدر کی رات رمضان میں ہوتی ہے اور قرآن مجید کا نزول بھی رمضان کے مہینہ میں لیلۃ القدر میں ہوا۔جیساکہ مندرجہ ذیل آیت میں مذکور ہے:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ (البقرۃ:185)

’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘

دوسری مرتبہ آسمان دنیا سے بتدریج (وقتا فوقتا) قرآن نازل ہونے کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :

وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّنَزَّلْنٰہُ تَنْزِیْلًا(سورۃ الاسراء: 106)

اور عظیم قرآن، ہم نے اس کو جدا جدا کرکے (نازل) کیا، تاکہ تو اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھے اور ہم نے اسے نازل کیا، (تھوڑا تھوڑا) نازل کرنا۔

دوسرا مرحلہ:

جمع و تدوینِ قرآن مجید بمعنی حفظ و کتابت قرآن مجید، یہ چونکہ اللہ کی سچی کتاب ہے اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے ہدایت ہے اس لئے اللہ تعالی نے ہی اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اور فرمایا:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:9)

’’یقینا ہم نے ہی الذکر اتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کے محافظ ہیں‘‘

قرآن کریم کی حفاظت کے مختلف انداز ہیں جن کا تعلق مختلف ادوار سے ہے۔

(۱) نبی مکرمﷺ کا زمانہ۔

(2) سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا زمانہ

(3) سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ

1 نبی کریمﷺ کے زمانے میں جمع القرآن:

پیارے نبیﷺ کے زمانے میں قرآن مجید کی حفاظت دو طریقوں سے ہوئی۔

1ـ حفظ                      2ـ کتابت

(الف) عہد نبوی ﷺ میں جمع القرآن بمعنی حفظِ قرآن:

اللہ ذوالجلال کا فرمان ہے:

اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہ (القیامۃ:17)

بلاشبہ اس کو جمع کرنا اور ( آپ کا ) اس کو پڑھنا ہمارے ذمے ہے۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید کو نبی مکرمﷺ کے سینے میں محفوظ فرمایا اور یہی وجہ ہے اللہ کے رسولﷺ نے دو مرتبہ قرآن حکیم جبرائیل علیہ السلام کو سنایا۔نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بھی قرآن مجید کو حفظ کیا، جن میں سے سات حفاظ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام صحیح بخاری میں سرفہرست ہیں۔ سیدناعبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ، سیدناسالم بن معقل (مولی ابی حذیفہ) رضی اللہ عنہ ،سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ،سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہم،سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ،سیدنا ابوزید رضی اللہ عنہ۔(بخاری)

(ب) عہد نبوی ﷺ میں جمع القرآن بمعنی کتابتِ قرآن

پیارے نبیﷺ نے بعض جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو وحی لکھنے کی ذمہ داری دی جن میں سرفہرست سیدنا علی،سیدنا معاویہ،سیدنا ابی بن کعب اورسیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہم وغیرہ ہیں۔ پیارے نبیﷺ ان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی رہنمائی کرتے کہ کس آیت کو کونسی سورت میں لکھنا ہے۔یہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین (کاتب وحی) متعدد جگہوں اور مختلف چیزوں (درختوں کی چھال، پتھر، چمڑے وغیرہ) پر قرآن لکھا کرتے تھے۔ (الحاکم)

2 سیدناابو بکرt کے زمانے میں جمع القرآن:

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قرآن کی حفاظت کا انداز:

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سنہ 12 ہجری میں جنگ یمامہ واقع ہوئی جس میں ستر (۷۰) حفاظ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہوئے۔سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس ڈر کو محسوس کیا کہ قرآن کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے، اسی لئے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گزارش کی کہ قرآن کو ایک جگہ لکھ کر جمع کیا جائے،لہذا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ ذمہ داری زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو سونپ دی۔

ابوبکر t کے زمانے میں جمع القرآن بمعنی کتابتِ قرآن:

سیدنازید بن ثابت t فرماتے ہیں کہ میں نے قرآن مجید کو ان مختلف جگہوں سے جمع کرلیا جہاں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے زمانہء نبوت میں لکھا تھا نیز جن صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قرآن مجید یاد تھا ان سے بھی موافقت لی۔وہ قرآن مجید کے جمع شدہ نسخہ ابوبکر t کے پاس تھا پھرسیدنا عمر tکے پاس رہا اور پھرسیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنھما کے پاس رہا۔ (بخاری)

سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کیا گیا نیز اس میں وہ سات حروف (قراءت و لہجے) اسی انداز سے موجود تھے جس طرح قرآن مجید نازل ہوا تھا۔

3سیدنا عثمان tکے زمانے میں جمع القرآن:

اسلامی فتوحات کی وجہ سے حفاط صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین مختلف جگہوں میں چلے گئے، اور ہر علاقہ والوں نے اپنے علاقہ میں رہائش پذیرصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ان کے لہجہ میں قرآن سیکھا۔چونکہ قرآن مجید کے بعض الفاظ مختلف حروف کے ساتھ نازل ہوئے تھے لہٰذا جب مختلف علاقوں کے لوگ ایک جگہ جمع ہوتے اور ایک دوسرے کا مختلف اندازِ تلاوت سنتے تو حیران ہوجاتے، اکثر لوگ تو مان لیتے کہ یہ سب ہی طریقے صحیح ہیں لیکن کبھی کبھی یہ بات ضرور انہیں ستاتی تھی کہ ان حروف یا لہجوں میں سے کون سا لہجہ سب سے اعلی ہے۔

ایک وقت ایسا آیا جس کی تفصیل صحیح بخاری میں درج ذیل ہے:

سیدناحذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اہلِ عراق اور اہلِ شام کی جنگوں (جنگ ارمینیہ اور جنگ آذربایجان) کے موقعہ پر میں نے لوگوں میں قراءتِ قرآن کے بارے میں شدید اختلاف دیکھا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اس سے آگاہ کیا، تو انہوں نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے وہ قرآن کریم کے نسخہ (جو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لکھے تھے) منگوالئے، اور زید بن ثابت، عبد اللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ھشام رضی اللہ عنہم (ان چاروں صحابہ کرام) نے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے حکم سے ان صحیفوں کو مزید نقل کرکے ایک ہی قراءت (قریش کی زبان) میں متعدد مصاحف میں جمع کیا۔ اس کے بعد سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنھا کو ان کے صحیفے بھجوادیے اور ایک ہی قراءت والے مصاحف کو مختلف مقامات پر بھجواکر حکم دیا کہ اس کے علاوہ جو بھی نسخہ کسی کے پاس ہو تو وہ جلا دے تاکہ آئندہ اختلاف کی گنجائش نہ رہے۔

اس طرح عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن حکیم کے سات حروف (قراءت) کی بجائے ایک ہی قراءت (قریش کی زبان) پر جمع کیا گیا جو کہ اللہ کے فضل و کرم سے کسی تبدیلی کے بغیر ہم تک پہنچا۔

سوالات:

س۱: مشرکین مکہ قرآن کریم کو جادو سے کیوں تعبیر کرتے تھے؟

س2: نزول کے اعتبار سے قرآن مجید کی کونسی دو (۲) قسمیں ہیں، مختصر جواب دیں۔

س3: پہلی مرتبہ قرآن مجید کہاں سے کہاں تک نازل ہوا؟

س4: پہلی مرتبہ قرآن کریم کس رات میں نازل ہوا؟ وہ رات رمضان کی لیلۃ القدر تھی یا شعبان کی پندھرویں شب؟

س 5:دوسری مرتبہ قرآن حکیم کا نزول کہاں سے کہاں تک ہوا؟

س6: کیا قرآن مجید نبیﷺ کے مبارک دل پر ایک ہی مرتبہ نازل ہوا یا مختلف اوقات میں نازل ہوا؟

س7: کیا قرآن اللہ کا کلام ہے؟

س8: کیا نبی مکرمﷺ اور صحابہ کرام y کو قرآن مجید یاد تھا؟

س9:پیارے رسول ﷺ کے زمانے میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے قرآن کو کس طرح لکھا؟ ایک ہی جگہ یا مختلف چیزوں پر؟

س10:سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قرآن کی قرآن کریم کو کس طرح جمع کیا گیا نیز کس انداز سے لکھا گیا؟

س11: سیدناعثمان رضی اللہ عنہ میں زمانے قرآن مجید کو کس طرز پر جمع کیا گیا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے