مغربی اور غیر مسلم مشاہیرومستشرقین کےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو اقوال و خیالات نقل کے گئے ہیں۔آپ بھی اسکوملاحظہ فرمائیں:
(1)مجھے امید ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب میں تمام ممالک کے پڑھے لکھے اور دانشمند لوگوں کو جمع کر سکوں گا اور قرآن کے بتائے ہوے اصولوں کے مطابق ایک ہمہ جہت عالمی نظام حکومت قائم کرلوں گا کہ جو سچائی پر مبنی ہوگا اور انسان کو حقیقی مسرت دے سکے گا۔
(نپولین بونا پارٹ – “بوناپارٹ ایٹ اسلام “، پیرس -١٩١٤ )
(2)میرا اس پر یقین پہلے سے بڑھ چکا ہے کہ یہ تلوار نہیں تھی جس کے ذریعے اسلام نے اپنا مقام حاصل کیا بلکہ ایک غیر لچکدار سادگی، پیغمبر اسلام کی نفس کشی، اپنے وعدوں کا احترام، اپنے دوستوں اور ماننے والوں کے لیے انتہائی درجہ کی وابستگی، انکی بہادری اور بے خوفی اور اپنے خدا اور اپنے مشن پر غیر متزلزل اور مطلق ایمان نے انھیں کامیابیاں دلائیں اور اسی سے انہوں نے ہر مشکل پر قابو پایا ۔( گاندھی : ینگ انڈیا -١٩٢٤ )
(3)اگر مقصد کی عظمت، وسائل کی قلت اور حیرت انگیز نتائج کسی انسان کی غیر معمولیت کا معیار ہوں تو کون ہے جو جدید انسانی تاریخ میں محمد کا مقابلہ کر سکے؟۔ زیادہ مشہور لوگوں نے ہتھیار بنائے، قوانین بنائے اور سلطنتیں تخلیق کیں اور کچھ پایا تو یہ کہ انکی مادی طاقت انکی آنکھوں کے سامنے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔ اس شخص نے افواج، قوانین، سلطنتوں، عوام اور خواص کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ دنیا میں رہنے والی ایک تہائی آبادی کے کروڑوں انسان ان سے متاثر ہوے بغیر نہ رہ سکے۔ اور اس بھی زیادہ اس شخص نے مذہبی رسومات کو، نام نہاد خداؤں کو، ادیان کو، خیالات و نظریات کو، ارواح اور عقائد کو متاثر کیا ۔ جسکا مقصد کبھی بھی بادشاہت نہیں رہا جو کہ صرف ایک عظیم الشان مقصد سے وابستہ رہا کامیابی اور تحمل کے ساتھہ ۔ اسکی بے انتہا عبادات اور اپنے رب سے مکاشفات، اسکی موت اور بعد از مرگ اسکی کامیابی اسکی وہ خوبیاں ہیں جو کسی مکر و فریب کی بجائے ایمان کی اس بلند ترین حالت کو ثابت کرتی ہے جو قوت دیتی ہے بنیادی عقیدے کو بحال کرنے کی۔ یہ بنیادی عقیدہ دو اجزا پر مشتمل ہے ایک جز تمام خداؤں کا انکار کرتا ہے تو دوسرا جز بتاتا ہے خدا کیا ہے۔ ایک جز تلوار کے زور پر جھوٹے خداؤں کو دور کرتا ہے تو دوسرا جز تبلیغ کے زور پر اصل خدا سے تعارف کراتا ہے۔
محمد کیا نہیں تھے ؟ ایک فلاسفر، خطیب، رسول، قانون ساز، جنگجو، نظریات کو فتح کرنے والے، ایک عقلی عقیدہ کو بحال کرنے والے، ٢٠ سرحدوں والی سلطنتوں اور ایک روحانی سلطنت کے خالق…انسانی عظمت کے کسی بھی معیار کو لے لیجئے، ہم صرف ایک سوال کرتے ہیں کہ کیا کوئی محمد سے عظیم شخص آیا ہے ؟
(لامارٹیں – “تاریخ ترکی” ١٨٥٤ – جلد دوئم صفحہ ٢٧٦-٢٧٧ )
(4)میرا یقین ہے کہ اگر محمد جیسے شخص کو جدید دنیا کی مطلق العنان حکومت سونپ دی جائے تو وہ اس دنیا کے مسائل اس طرح سے حل کرے گا کہ دنیا حقیقی مسرتوں اور راحتوں سے بھر جائے گی۔ میں نے انھیں پڑھا ہے وہ کسی بھی طرح کے مکر و فریب سے کوسوں دور ہیں انہیں بجا طور پر انسانیت کا نجات دہندہ کہا جاسکتا ہے۔ میں نے پیشینگوئی کی تھی کہ محمد کا عقیدہ یورپ کے لئے آنے والے کل میں اتنا ہی قابل قبول ہوگا کہ جتنا آج قابل قبول بننے لگا ہے۔( جارج برنارڈ شا – “حقیقی اسلام ” ١٩٣٦ – جلد ٨ )
(5)یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک آدمی خالی ہاتھہ جنگ و جدل میں مشغول قبائل اور بدوؤں کو اس طرح سے آپس میں جوڑ لے کہ وہ ٢٠ سال کے مختصر عرصہ میں ایک انتہائی
طاقتور اور مہذب قوم بن جائیں ؟
جھوٹ اور تہمتیں جو مغربی اقوام نے اس شخص پربڑے جوش و خروش سے لگائی ہیں خود ہمارے لئے شرمندگی کا باعث ہیں۔یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک آدمی خالی ہاتھہ جنگ و جدل میں مشغول قبائل اور بدوؤں کو اس طرح سے آپس میں جوڑ لے کہ وہ دو دہائیوں سے بھی کم کے مختصر عرصہ میں ایک انتہائی طاقتور اور مہذب قوم بن جائیں ؟ ایک تنہا مگر عظیم شخص ایک اولو العزم انسان جسے اس دنیا کو روشن کرنا تھا کیونکہ اسکا حکم اسے اسکے خدا نے دیا تھا( تھامس کارلائل – ہیروز اینڈ ہیروز ورشپ )
(6)ہمیں اسکے دین کے فروغ سے زیادہ اسکے دین کی استقامت پر حیرت ہونی چاہیے۔ وہی خالص اور مکمل احساس جسے اس نے مکّہ اور مدینہ میں کندہ کیا وہی احساس ہمیں ١٢ صدیاں گزرنے کے بعد بھی قرآن کے ماننے والے انڈین، افریکی اور ترکوں میں نظر آتا ہے۔ مسلمانوں نے بڑی کامیابی سے ان ترغیبات کا مقابلہ کیا جو انسانوں کی کسی بھی عقیدے سے وابستگی کو کم کر کے انکو انکے نفس کی خواھش پر چھوڑ دیتی ہیں۔ ” میں اللہ واحد و لاشریک پر ایمان لاتا ہوں اور اس بات پر کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ” یہ ایک سادہ اور نہ قابل ترمیم دینی اعلان ہے۔یہاں خدا کے منطقی تصور کو بتوں کے ذریعے گھٹایا نہیں اور نہ ہی رسول کی عظمت کو انسانی حدوں سے بڑھایا گیا۔اسکی زندگی نے ایسی مثال قائم کی جس نے اسکے ماننے والوں کو مذہب اور معقولیت کی حدوں میں رکھا۔(ایڈورڈ گبن اور سائمن اوکلے – ” تاریخ سلطنت شام و عرب “ – لندن ١٨٧٠ – صفحہ ٥٤ )
(7)وہ خود میں ایک قیصر اور پوپ تھے پاپائیت سے منسوب الزامات اور دعووں سے مبرّا اور قیصرآنہ فوج اور شان و شوکت، محافظین، محلات اور آمدنی کے بغیر۔ اگر کبھی بھی کسی بھی شخص کے بارے میں یہ کہا جائے کہ اس نے الوہی حکومت کی ہے تو وہ شخص محمد کے علاوہ کوئی اور ہو نہیں سکتا بغیر الوہیت کے، الوہیت کی تمام تر طاقت لئے ہو۔( بوس ورتھ اسمتھ – محمد اور محمدی عقیدہ – ١٨٧٤ لندن – صفحہ :٩٢)
(8)یہ نا ممکن ہے کسی بھی ایسے شخص کے لئے جس نے عرب کے عظیم پیغمبر کی زندگی اور اسکے کردار کے بارے میں پڑھا ہو ۔ جو یہ جانتا ہو کہ اس پیغمبر نے کیا تعلیم دی اور کیسے زندگی گزاری وہ اسے اپنے دل میں اس عظیم پیغمبر کے لئے انتہائی احترام کے علاوہ کچھ اور محسوس کرے۔ اگرچہ میں انکے بارے میں آپ سے کچھ بھی کہوں، بہت سارے لوگ ایسے بھی ہونگے جن کے نزدیک میری باتیں نئی نہیں ہیں لیکن ابھی تک خود میں جب بھی اس عظیم پیغمبر کے بارے میں پڑھتی ہوں تو اس عظیم استاد کے لئے تعریف و توصیف کی ایک نئی لہر میرے اندر اٹھتی ہے اور احترام کا ایک نیا جذبہ میرے اندر کروٹ لیتا ہے۔
( اینی بیسنٹ – ” محمد کی زندگی اور انکی تعلیمات ” – مدراس ١٩٣٢ – صفحہ ٤ )
(9)اپنے عقیدے کی خاطر کسی بھی قسم کے ظلم اور زیادتی کو برداشت کرنے کی آمادگی، اسکے ماننے والوں کا بلند اخلاق و کردار، اسکے ماننے والوں کا رشد و ہدایت کے لئے اسی کی طرف دیکھنا اور اسکی کامیابیوں کی شان و عظمت، یہ سب اسکی ایمانداری اور دیانت داری کی طرف دلالت کرتی ہیں اسی لئے یہ خیال کرنا کہ وہ (معاذ الله ) جھوٹے تھے، مشکلات کو حل کرنے کی بجائے بڑھا دیتا ہے۔ مزید برآں مغرب میں کسی بھی عظیم شخص کی ایسی بے توقیری اور قدر ناشناسی نہیں دیکھی گئی ہے جیسا کہ محمد کے لئے کی گئی ہے۔( منٹگمری واٹ – مکّہ والے محمد – آکسفورڈ ١٩٥٣ – صفحہ ٥٢ )
(10)انسان کامل، محمد جو ٥٧٠ ء میں ایک ایسے قبیلے میں پیدا ہوئے جو بتوں کو پوجتا تھا۔ پیدائشی یتیم تھے۔ وہ خاص طور پر غریبوں اور ضرورت مندوں، بیواؤں اور یتیموں، غلاموں اور پسے ہوؤں کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے۔ بیس سال کی عمر میں وہ ایک کامیاب تاجر بن گئے تھے اور ایک دولتمند بیوہ کے لئے تجارتی منتظم بن گئے تھے۔ جب پچیس سال کے ہوئے تو انکی آجر انکی خوبیوں اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انھیں رشتہ بھیجا۔اور باوجود اسکے کہ وہ ان سے ١٥ سال بڑی تھیں، نا صرف شادی کی بلکہ جب تک زندہ رہیں اپنے آپ کو اپنی بیوی کے لئے وقف رکھا‘‘
” ہر بڑے پیغمبر کی طرح وہ بھی خدا کے الفاظ و پیغام کو محض اپنی بشری کمزوریوں کی وجہ سے دہرانے میں متردد تھے۔ لیکن فرشتہ نے انھیں حکم دیا کہ’’پڑھ ‘‘ ۔ امی ہونے کے باوجود انہوں نے وہ الفاظ دوہرائے جنہوں نے زمین کے ایک بڑے حصّے میں انقلاب برپا کر دیا ” خدا ایک ہے ” ۔
’’ محمد سب سے زیادہ عملیت پسند تھے جب انکے پیارے بیٹے ابراہیم کا انتقال ہوا، تو اسی دن سورج گرہن ہوا جسکو خدا کی طرف سے تعزیت قرار دیا جانے لگا۔ جس کے رد میں محمد کو یہ کہنا پڑا کہ گرہن لگنا قدرت کا ایک نظام کے تحت ہے۔ کسی کی زندگی اور موت کو اس سے منسوب کرنا حماقت ہے۔‘‘
محمد کی وفات پر جب لوگوں کو یقین نہیں آرہا تھا تو اسکے جانشین نے اس ہسٹیریا کو ایک تاریخی، انتہائی اعلیٰ و بہترین خطاب سے رفع کیا کہ ” اگر تم میں سے کوئی محمد کی پرستش کرتا تھا تو محمد وفات پا چکے ہیں لیکن اگر تم خدا کی پرستش کرتے ہو تو وہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔
( جیمز اے مچنر – ” اسلام : ایک غلط سمجھا گیا دین ” – ریڈرز ڈائجسٹ -مئی ١٩٥٥- صفحہ ٦٨-٧٠ )
(11)ممکن ہے کہ انتہائی متاثر کن شخصیات میں محمد کا شمار سب سے پہلے کرنے پر کچھ لوگ حیران ہوں اور کچھ اعتراض کریں۔ لیکن یہ وہ واحد تاریخی ہستی ہیں جو کہ مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر یکساں طور پر کامیاب رہے”
” ہم جانتے ہیں کہ ساتویں صدی عیسوی میں عرب فتوحات کے انسانی تاریخ پر اثرات ہنوز موجود ہیں۔ یہ دینی اور دنیاوی اثرات کا ایسا بینظیر اشتراک ہے جو میرے خیال میں محمد کو انسانی تاریخ میں سب سے متاثر کن شخصیت قرار دینے کا جواز دیتا ہے۔
( مایکل ایچ ہارٹ – ١٠٠- عظیم آدمی )
(12)یہ وہ پہلا مذہب ہے جس نے جمہوریت کی تبلیغ اور اسکی ترویج کی ۔ جب مسجد میں پانچ وقت اذان دی جاتی ہے اور نمازی، نماز کے لئے اکھٹے ہو جاتے ہیں تو اسلامی جمہوریت مجسم ہوجاتی ہے اور کسان اور بادشاہ گھٹنے سے گھٹنا ملائے خدا کی تکبیر بیان کرتے ہیں
( سروجنی نائیڈو – اسلام کے آئیڈیلز – مدراس ١٩١٨ )
(13)وہ انکا نہایت ایماندار حفاظت کرنے والا تھا جن کی اس نے حفاظت کی، گفتار میں انتہائی شیریں اور متحمل ۔ جنہوں نے بھی اسے وہ احترام کے جذبے سے مغلوب ہوئے ۔ جو اسکے قریب آئے اس پر فدا ہوئے۔ جنہوں نے بھی اسکے بارے میں کچھ بتانا چاہا، یہی کہا کہ ” میں نے ان جیسا نا پہلے نا بعد میں کبھی دیکھا ہے ” انکی خاموشی میں بھی انکی عظمت تھی لیکن جب بھی انہوں نے بات کی زور دیکر اور بہت سوچ بچار کرکے کی اور کوئی بھی انکی کہی ہوئی بات کو بھول نا سکا( اسٹینلے لینی پول – ٹیبل ٹاک آف دی پرافٹ )
(14)ہمیں اسلام اور پیغمبر اسلام کو انکی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔اسلام کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ بہت زیادہ غلط سمجھا گیا دین ہےآپ ہندو مت کو سمجھنے کے لئے ہندو انتہا پسندوں کی طرف نہیں دیکھتے، سکھ مذھب کو سمجھنے کے لئے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور اسکے ساتھیوں کی طرف نہیں دیکھتے اسی طرح آپکو اسلام سمجھنے کے لئے اسکے نام نہاد پیروکاروں کی بجائے پیغمبر اسلام کی تعلیمات کو دیکھنا چاہیے۔ لوگوں کو ایک بات سمجھنا چاہیے کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں پھیلا۔ انڈونیشیا اور ملائشیا میں کبھی اسلامی فوج داخل نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اسکے باوجود وہاں پر ایک بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا۔ محمد صلی اللہ علیھ وسلم نے ہمیں ایک قادر مطلق خدا کی عبادت کرنا سکھائی۔دوسرے مذھب کے برعکس جہاں مختلف کاموں کے لئے مختلف خدا ہیں۔
( خشونت سنگھ – مالا پرّم ٹاون ہال – فروری ٢٠١٠ )
(15)غزوہ احد میں ہر شہید مسلمان نے اپنے پیچھے بیویاں اور بچیاں چھوڑیں جن کا کوئی والی وارث نہیں تھا اس غزوہ کے بعد قرانی آیت نازل ہوئیں جن میں چار شادیوں کی اجازت دی گئی تھی۔ اسلام میں کثیر الازدواجی کی اجازت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسے عورت کے مصائب اور تکلیف کا ایک بڑا سبب بتایا جاتا ہے۔ لیکن جب یہ اجازت دی گئی اس وقت یہ ایک نہایت عمدہ معاشرتی قدم تھا۔اسلام سے پہلے مردوں اور عورتوں کو ایک سے زیادہ بیویاں اور شوھر رکھنے کی اجازت تھی۔ شادی کے بعد عورتیں اپنے میکے میں ہی رہتیں تھیں جہاں انکے شوہر ان سے ملنے آتے۔یہ معاشرتی سیٹ اپ ایک قانونی قحبہ گری سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ شوہروں کی زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے بچوں کی ولدیت کا تعین مشکل تھا اور بچے اپنی ماں سے پہچانے جاتے تھے اسی وجہ سے مرد نان و نفقہ اور اولاد کی پرورش سے آزاد رہے۔اسلام سے پہلے عورت حق وراثت اور حق ملکیت سے محروم تھی۔جو بھی آمدنی اسکی طرف آتی تھی وہ اسکے گھر والوں خاص طور گھر کے مردوں کے پاس چلی جاتی تھی۔ عورت کے لئے کاروبار چلانا اور جائیداد کا انتظام و انصرام سنبھالنا ایک مضحکہ خیز خیال محسوس ہوتا تھا۔ عورت کو کوئی انفرادی حقوق حاصل نہیں تھے اور اسکی حیثیت مرد کی ملکیت سے زیادہ نہیں تھی۔
اسلامی کثیر الازدواجی در حقیقت ایک سماجی قانون سازی ہے۔ جس میں عورت کو مرد کی خواھش پورا کرنے کا آلہ نہیں بنایا بلکہ کمزور اور بے سہارا خواتین کے لئے گھروں کا اور نگہبانوں کا انتظام کیا،تمام تر حقوق،عزت اور احترام کے ساتھ اور سب سے بڑھ کر وراثت میں وہ حقوق دے جو مغربی خواتین کو ١٩ صدی عیسوی تک میسر ہی نہیں تھے۔
(کیرن آرمسٹرانگ – ” محمد : ہمارے عہد کے نبی‘‘)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے