ممکن ہے کہ انتہائی متاثر کن شخصیات کی فہرست میں محمد ﷺ کا شمار سب سے پہلے کرنے پر چندا حباب کو حیرت ہواور کچھ معترض بھی ہوں لیکن یہ واحد تاریخی ہستی ہے جو مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر برابر طور پر کامیاب رہی۔
محمد ﷺ نے عاجز انہ طور پر اپنی مساعی کا آغاز کیا اور دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک کی بنیاد رکھی اور اسے پھیلایا وہ ایک انتہائی موثر سیاسی رہنمابھی ثابت ہوئے، آج تیرہ سو برس گزرنے کے باوجود ان کے اثرات انسانوں پر ہنوز مسلم اور گہرے ہیں۔
اس کتاب میں شامل متعددافراد کی یہ خوش قسمتی رہی کہ وہ دنیا کے تہذیبی مراکز میں پیدا ہوئے او ر وہیں ایسے لوگوں میں پلے بڑھے جو عموماً اعلی تہذیب یافتہ یا سیاسی طور پر مرکزی حیثیت کی اقوام تھیں ۔ اس کے برعکس ان کی پیدائش جنوبی عرب میں مکہ شہر میں 570ء میں ہوئی یہ تب تجارت فنون اور علم کے مراکز سے بہت دور دنیا کا دقیانوسی گوشہ تھا۔ وہ چھ برس کے تھے جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا۔ ان کی پرورش عام وضع پر ہوئی ۔ اسلامی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ وہ ’’ان پڑھ‘‘ تھے، پچیس برس کی عمر میں جب شادی ایک اہل ثروت عورت سے ہوئی تو ان کی مالی حالت میں بہتری پیدا ہوئی، تاہم چالیس برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے لوگوں مین ان کا ایک غیرمعمولی انسان ہونے کا تاثر قائم ہوچکا تھا ۔
تب زیادہ تر عرب اصنام پرست تھے وہ متعدد دیوتاؤں پر ایمان رکھتے تھے، مکہ میں البتہ عیسائیوں اور یہودیوں کی مختصر آبادیاں بھی موجود تھیں انہی کے توسط سے آپ واحد الٰہِ مطلق کے تصور سے شنا سا ہوئے ۔ جب ان کی عمر چالیس برس تھی انہیں احساس ہوا کہ لٰہِ واحد کی ذات مبارک ان سے اپنے فرشتے جبریل علیہ السلام کی وساطت سے ہم کلام ہے اور یہ کہ انہیں سچے عقیدے کی تبلیغ کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔
تین برس تک وہ اپنے قریبی عزاء واقرباء میں ہی اپنے نظریات کا پر چار کرتے رہے قریب613 عیسوی میں انہوں نے کھلے عام تبلیغ شروع کی آہستہ آہستہ انہیں ہم خیالوں کی معیت حاصل ہوئی تو مکہ کے بااختیار لوگوں نے ان کی ذات میں اپنے لیے خطرہ محسوس کیا۔622 ء میں وہ اپنی حفاظت جان کی غرض سے مدینہ چلے گئے (یہ مکہ کے شمال میں دوسو میل کے فاصلے پر واقع ایک شہر ہے) وہاں انہیں ایک بڑے سیاست دان کی حیثیت حاصل ہوئی۔
اس واقعہ کو ’’ہجرت‘‘ کہاجاتا ہے یہ نبی ﷺ کی زندگی میں ایک واضح موڑ تھا ۔ مکہ میں تو انہیں چند رفقاء کی جمعیت حاصل تھی مدینہ میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی جلد ہی ان کی شخصیت کے اثرات واضح ہوئے اور وہ ایک مکمل فرمانروا بن گئے اگلے چند برسوں میں ان کے پیروکار وں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا اور مدینہ و مکہ کے بیچ چند جنگیں لڑی گئیں جن کا اختتام 630ء میں آپ کی فتح مندی اور مکہ میں بطور فاتح واپسی پر ہوا ان کی زندگی کے اگلے ڈھائی برسوں میں عرب قبائل سرعت سے اس نئے مذہب کے دائرے میں داخل ہوئے 632ء میں آپ کا انتقال ہوا تو آپ جنوبی جزیرہ ہائے عرب کے موثر ترین حکمران بن چکے تھے۔
عرب کے بدو قبائل تند خو جنگجوؤں کی حیثیت سے جانے جاتے تھے لیکن دہ تعداد میں کم تھے، شمالی زرعی علاقوں میں آباد وسیع بادشاہتوں کی افواج کے ساتھ ان کی کوئی برابری نہیں تھی تاہم آپ نے تاریخ میں پہلی مرتبہ انہیں یکجا کیا یہ واحد راست الٰہ پر ایمان لے آئے ان مختصر عرب فوجوں نے انسانی تاریخ میں فتوحات کا ایک حیران کن سلسلہ قائم کیا ۔جزیرہ ہائے عرب کے شمال میں ساسانیوں کی نئی ایرانی سلطنت قائم تھی۔ شمال مغرب میں بازنطینی یا مشرقی سلطنت روما تھی جس کا محور کا نسٹنٹی لوپل تھا ۔ بالحاظ تعداد عرب فوج کا اپنے حریفوں سے کوئی جوڑ نہیں تھا۔ تاہم میدان جنگ میں معاملہ مختلف تھا ان پر جوش عربوں نے بڑی تیزی سے تمام میسوپوٹیمیا، شام اور فلسطین فتح کیا ۔642ء میں مصر کو بانطینی تسلط سے چھینا، جبکہ 637ء میں جنگ قادسیہ اور 642ء میں نہاوند کی جنگ میں ایرانی فوجوں کو تاخت وتاراج کیا۔
تاہم نبی اکرم ﷺ کے جانشیں اور قریبی صحابہ ابو بکر اور عمر بن الخطاب کی زیر قیادت ہونے والی ان عظیم فتوحات پر ہی مسلمانوں نے اکتفاء نہ کیا ۔711ء تک عرب فوجیں شمالی افریقہ کے پار بحر اوقیانوس تک اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ چکی تھیں۔ پھر یہ شمال کی طرف مڑے اور آبنائے جبرالٹر کو عبور کرکے اسپین میں ’’ویسی گوتھک‘‘ سلطنت پر قبضہ کیا۔ ایک دور میں تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ مسلمان تمام مسیحی یورپ پر قابض ہوجائیں گے تاہم732ء میں طور کی مشہور جنگ میں جبکہ مسلمان فوجیں فرانس میں داخل ہوچکی تھیں فرانک قوم کی فوجوں نے انہیں بالاخر شکت فاش دی۔ جنگ و جدل کی اس صدی میں ان بدوی قبائل نے نبی کے الفاظ سے حرارت لیکر ہندوستان کی سرحدوں سے بحراوقیانوس تک ایک عظیم سلطنت استوار کرلی اتنی بڑی سلطنت کی اس سے پہلے تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ جہاں ان افواج نے فتوحات حاصل کیں وہاں بڑے پیمانے پر لوگ اس نئے عقیدے کی جانب مائل ہوئے۔
لیکن یہ تمام فتوحات پائیدار ثابت نہیں ہوئیں، ایرانی اگرچہ اسلام سے وفادار رہے لیکن انہوں نے عربوں سے آزادی حاصل کرلی اسپین میں سات صدیاں خانہ جنگی جاری رہی اور بالآخر تمام جزیرہ ہائے اسپین پر پھر سے مسیحی غلبہ ہوگیا۔ قدیم تہذیب کے یہ دوگہوارے میسوپوٹیمیااور مصر عربوں کے تسلط میں ہی رہے۔ یہی پائیداری شمالی افریقہ میں بھی قائم رہی۔ اگلی صدیوں میں یہ نیا مذہب مسلم فتوحات کی حقیقی سرحدوں سے بھی پرے پھیل گیا۔ آج افریقہ اور وسطی ایشیا میں اس مذہب کے کروڑوں پیروکار موجود ہیں یہی حال پاکستان، شمالی ہندوستان اور انڈونیشیا میں بھی ہے۔ انڈونیشیا میںتو اس مذہب نے ایک متحد کردینے والے عنصر کا کردار ادا کیا ہے۔
برصغیرپاک وہند میں ہندو مسلم تنازعہ ایک اجتماعی اتحاد کی راہ میں حائل ہنوز ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح انسانی تاریخ پر محمد ﷺ کے اثرات کا تجزیہ کر سکتے ہیں تمام مذاہب کی طرح اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں یہی وجہ ہے کہ قریب سبھی عظیم مذاہب کے بانیان اس کتاب میں شامل ہیں۔ اس وقت عیسائی مسلمانون سے بالحاظ تعداد زیاددوگنے ہیںاسی لیے یہ بات عجیب محسوس ہوتی ہے کہ محمد ﷺ کو عیسیٰ علیہ السلام سے بلند مقام دیا گیا ہے ۔ اس فیصلہ کی دو بنیادی وجوہات ہیں اول مسیحیت کے فروغ میں یسو ع مسیح(عیسیٰ علیہ السلام) کے کردار کی نسبت اسلام کی ترویج میں محمد ﷺ کا کردار کہیں زیادہ بھر پور اور اہم رہا۔ ہر چند کہ عیسائیت کے بنیادی اخلاقی اعتقادات کی تشکیل میں یسوع کی شخصیت بنیادی رہی ہے (یعنی جہاں تک یہ صہیونی عقائد سے مختلف ہیں)۔ یسنٹ پال ہے ہی صحیح معنوں میں عیسائیت کی ترویج میں حقیقی پیش رفت کی۔ اس نے عیسائی پیروکاروں میں اضافہ بھی کیا اور وہ عہد نامہ جدید کے ایک بڑے حصے کا مصنف بھی ہے۔
محمدﷺ نہ صرف اسلام کی الہامیت کی تشکیل میں فعال تھے بلکہ اس کے بنیادی اخلاقی ضوابط بھی بیان کیے، علاوہ ازیں انہوں نے اسلام کے فروغ کے لیے بھی مساعی کیں اور اس کی مذہبی عبادات کی بھی توضیح کی۔
عیسیٰ علیہ السلام کے برعکس محمدﷺ نہ صر ف ایک کامیاب دنیا دار تھے بلکہ ایک مذہبی رہنما بھی تھے ۔ فی الحقیقت وہی عرب فتوحات کے پس پشت موجود اصل طاقت تھے۔ اس اعتبار سے وہ تمام انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ متاثر کن سیاسی قائد ثابت ہوتےہیں۔
بہت سے اہم تاریخی واقعات کے متعلق کہا جاسکتا ہےکہ وہ ناگزیر تھے اگر ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی خاص سیاسی قائد نہ بھی ہوتاوہ وقوع پذیر ہوکر ہی رہتے ۔ مثال کے طور پر اگر سائسن بولیور کبھی پیدا نہ ہوتا پھر بھی شمالی امریکی کالونیاں اسپین سے آزاد ی حاصل کرہی لیتی لیکن عرب فتوحات کے بارے میں ایسا نہیں کہا جاسکتا ہے۔ محمد ﷺ سےپہلے ایسی کوئی مثال ہی موجود نہیں ہے۔ اس امر پر اعتبار کرنے میں ہچکچاہٹ کی کوئی وجہ نہیںہے کہ پیغمبر کے بغیر یہ فتو حات ممکن نہیں تھیں۔ تاریخ انسانی میں ان سے مماثل ایک مثال تیرہویں صدی عیسوی میں ہونے والی منگولوں کی فتوحات ہیں جو بنیادی طور پر چنگیز خان کے زیر اثر ہوئیں یہ فتوحات عربوں سے کہیں زیادہ وسیع و عریض ہونے کے باوجود ہر گز پائیدار نہیں تھیں۔ آج منگولوں کے قبضہ میں صرف وہی علاقے باقی رہ گئے ہیں جو چنگیز خان کے دور میں ان کے تلسط میں تھے۔
عرب فتوحات کا معاملہ اس سے بہت مختلف ہے ۔ عراق سے مراکش تک عرب اقوام کی ایک زنجیر پھیلی ہوئی ہے یہ صر ف اپنے مشترکہ عقیدے ’’اسلام‘‘ہی کے سبب باہم متحد نہیں ہیں بلکہ ان کی زبان، تاریخ اور تمدن بھی مشترک ہیں ۔ قرآن نے مسلم تہذیب میں مرکزیت پیدا کی ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اسے عربی میں لکھا گیا۔ شاید اسی باعث عربی زبان باہمی ناقابل فہم مباحث میں الجھ کر منتشر نہیں ہوئی گو درمیان کی تیرہویں صدی میں ایسا امکان پیدا ہوچلاتھا ۔ بلاشبہ ان عرب ریاستوں کے بیچ اختلافات اور تقسیم موجود ہے۔ یہ بات ناقابل فہم بھی ہے لیکن یہ جزوی بعد ہمیں اتحاد کے ان اہم عناصر سے صرف نظر کرنے پر مائل نہیں کرسکتا جو ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایران اور انڈونیشیا دونوں تیل پیدا کرنے والے اور مسلمان ممالک ہیں۔ لیکن1973-74ء کے موسم سرما میں ہونے والے تیل کی تجارت کی بندش کے فیصلے میں شامل نہیں تھے یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ تمام عرب ریاستیں اور صرف عرب ریاستیں ہی اس فیصلے میں شریک تھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے