سود کے احکام اور بینکاری نظام

سپریم کورٹ شریعت اپلیٹ بنچ کے سوالات کے جوابات

سوال نمبر1: ربا کی حقیقت، تعریف ا ر معنویت کیا ہے؟

جواب : رِبا عربی زبان کا لفظ ہے اور قرآنِ کریم میں بھی استعمال ہوا ہے۔ اس کے لغوی معنی زیادتی، بڑھوتری، اضافے کے ہیں۔ لیکن شرعی اصطلاح میں اس سے مراد مطلق اضافہ اور زیادتی نہیں ہے، بلکہ ایک مخصوص قسم کی زیادتی ہے اور وہ یہ کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم اُدھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا …مثلاً کسی کو سال یا چھ مہینے کے لئے۱۰۰ روپے قرض دیئے، تو اس سے یہ شرط کر لی کہ وہ ۱۰۰ کے ۱۲۰ روپے لے گا۔ مہلت کے عوض یہ ۲۰ روپے جو زیادہ لئے گئے ہیں، یہ سود ہے۔ ورنہ انسان کاروبار کرتا ہے تو وہ سو روپے کے ساتھ عموماً۲۰،۲۵ روپے نفع کما لیتا ہے، یا کسی کو سو روپے قرضِ حسن کے طور پر دیتا ہے، دیتے وقت سوائے ہمدردی اور ثواب کے کوئی اور نیت نہیں تھی۔ لیکن قرض لینے والا اپنے طور پر

﴿هَل جَزاءُ الإِحسـٰنِ إِلَّا الإِحسـٰنُ ﴾(الرحمن:60)

کے تحت ۱۰،۲۰ روپے زائد دے دیتا ہے تو یہ دونوں اضافے سود کی ذیل میں نہیں آئیں گے۔ کیونکہ کاروبار اور تجارت ایک جائز فعل ہے، اللہ نے اسے حلال اور مشروع کیا ہے، اور اس کا مقصد ہی نفع کمانا ہے۔ اس لئے تجارت کے ذریعے سے جتنا اضافہ حاصل ہوگا، بشرطیکہ اس میں کسی امر حرام کا اِرتکاب نہ کیا گیا ہو، وہ حلال اور جائز ہوگا ۔ اسی طرح قرض دیتے وقت، قرض دینے والے نے زیادتی کی کوئی شرط عائد نہیں کی تھی، صرف اللہ کی رضا کے پیش نظر مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے قرض دیا تھا، اب قرض لینے والا اگر اپنی مرضی سے کچھ رقم زائد دے دے، تو یہ بھی جائز ہے، کیونکہ یہ نبیﷺ سے ثابت ہے۔ (صحیح بخاری:باب حسن القضاء) یہ اضافہ بھی سود نہیں ہے۔
بہرحال سود کی تعریف میں وہ اضافہ آئے گا جو شرط کرکے لیا جائے، اور وہ اضافہ بھی صرف مہلت کا عوض ہو۔ یہ ربا النسیئۃ یا ربا الجاھلیۃ کہلاتا ہے۔ اسے ربا النسیئۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ادھارپر سود لیا جاتا ہے کہ اس کے معنی ہی، ادھار کا سود ہیں۔ اور اسلام سے قبل زمانہ ٔ جاہلیت میں بھی اس کا چلن تھا، اس لئے اِسے ربا الجاھلیۃ بھی کہا جاتا ہے …اس کے علاوہ شریعت نے ربا کی بعض مزیدصورتوں کو بھی حرام کیاہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:

الذھب بالذھب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعیر بالشعیر والتمر بالتمر والملح بالملح مثلاً بمثل یدا بید، فمن زاد أو استزاد فقد أربی ، الآخذ والمعطي فیه سواء (مسلم، المساقاة، باب الصرف و بیع الذھب بالورق نقداً)

’’سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے، یہ برابر برابر ہوں اور ہاتھوں ہاتھ (نقد) ہوں۔ ( تب ان کا باہمی تبادلہ جائز ہے) جس نے زیادہ دیا یا زیادہ طلب کیا، تو اس نے سودی معاملہ کیا، لینے اور دینے والا دونوں اس میں برابر ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم :حدیث نمبر ۱۵۸۴)
اس حدیث کی رو سے (مثلاً) گندم کا تبادلہ گندم سے کرنا ہے، تو ایک تو وہ برابر برابر ہو دوسرے ہاتھوں ہاتھ (نقد) ہونا بھی ضروری ہے۔ اس میں کمی بیشی ہوگی تب بھی اور ہاتھوں ہاتھ (نقد) ہونے کی بجائے ایک نقد اور دوسری ادھار یا دونوں ہی ادھار ہوں، تب بھی یہ سود شمارٰ ہوگا۔ تاہم ایک جنس کا دوسری جنس سے کمی بیشی کے ساتھ بیچنا جائز ہے، بشرطیکہ دست در دست (ہاتھوں ہاتھ) ہو
غرض شریعت میں ربا کااطلاق ’’بیع میں ایک جیسی دو چیزوں کے تبادلے میں کسی ایک چیز میں ہو یا قرض کی واپسی کے وقت اصل چیزیا رقم میں ہو۔‘‘ پر ہوتا ہے… اس کی دو صورتیںہیں
1 ربا الفضل: ایک جیسی دو چیزوں کے تبادلے کے وقت ایک چیز کے عوض میں زیادہ لینا ۔
ربا الفضل کی مختلف صورتیں :ہر مال کا ایک وصف عام ہوتا ہے، اس اعتبار سے اسے جنس کہا جاتا ہے اور ایک وصف خاص ہوتا ہے، جسے صنف (قسم) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جیسے غلہ جات ہیں، یہ اپنے وصف عام (کہ ان کو کھایا جاتا ہے) کے اعتبار سے ایک جنس ہیں۔ یعنی کھانے والی جنس۔ لیکن و صف خاص کے اعتبار سے غلہ جات کی کئی صنفیں (قسمیں) ہیں جیسے چاول، جو، گندم، مکئی، جوار وغیرہ۔ یہ سب وصف عام کے اعتبار سے ایک جنس ہیں: جنس مطعومات، لیکن اپنے اپنے خاص اوصاف کے اعتبار سے یہ الگ الگ قسمیں ہیں۔ چاول ایک قسم ہے، گندم ایک قسم، جوار ایک، مکئی ایک، منقیٰ ایک، نمک ایک وغیرہ۔ ہر کھانے والی چیز کو اس پر قیاس کرکے اس میں شامل کیا جاسکتا ہے چاہے وہ ماپ کر فروخت ہوتی ہو یا تول کر…ایک مال کی قسم وہ ہے جسے ثمن کہا جاتاہے جیسے سونا، چاندی ہے اور اسی پر آج کل قیاس کیا جاسکتاہے: سکے، کرنسی نوٹ، چیک او رکمپنیوں کے شیئرز (حصے) وغیرہ کو۔
شریعت میں ان دونوں قسموں کی بابت اَحکام وارد ہیں۔ حدیث میں جن چھ چیزوں کا ذکر ہے وہ ان دونوں قسموں کو حاوی ہیں:سونا، چاندی، گندم، جو، کھجور او رنمک ۔ بعض ائمہ نے سودی معاملات کو صرف ان چھ چیزوں تک محدود رکھا ہے، باقی دیگر چیزوں میںوہ کمی بیشی کو سود قرار نہیں دیتے۔ جب کہ اکثر ائمہ و فقہاء نے قیاس کرکے دوسری چیزوں کو بھی شامل کیا ہے۔ مثلاً جو کھانے والے چیزیں ہیں چاہے کَیْلی(ماپی جانے والی) ہوں یا وزنی (تولی جانے والی)یا(سابقہ حاشیہ)جن میں (سونے چاندی کی طرح ) ثمنیّت پائی جاتی ہے، یا بعض کے نزدیک جن کو ذخیرہ کیا جاسکتا ہو۔ اس حساب سے ایک جنس وزنی چیزوں کی ہے یعنی جنہیں تول کر بیچا اور خریدا جاتا ہے۔ دوسری جنس کَیلی چیزوں کی ہے جنہیں پیمانوں سے ماپ کر بیچا جاتا ہے او رایک جنس ان چیزوں کی ہے جنہیں ذخیرہ کیا جاسکتا ہو او رایک جنس وہ ہے جو ثمن بننے کی صلاحیت رکھتی ہے، جیسے سونا، چاندی، سکے کرنسی نوٹ وغیرہ۔ ان اَموال میں سودی اور غیر سودی صورتیں حسب ِذیل ہونگی:
(۱) جب دونوں تبادلوں والی چیزیں جنس اور قسم کے اعتبار سے ایک ہوں گی۔ مثلا گندم کا گندم سے، چاول کا چاول سے تبادلہ ہو، تو اس میں کمی بیشی بھی حرام ہوگی اور اُدھار بھی ۔ ان کا برابر ہونا بھی ضروری ہے اور مجلس عقد میں قبضہ بھی ضروری ہے۔
(۲) جب دونوں تبادلوں والی چیزیں جنس کے اعتبار سے ایک ہوں، البتہ قسم کے اعتبار سے مختلف ہوں تو ان میں کمی بیشی جائز ہوگی تاہم اُدھار ناجائز ۔ جیسے ایک کلو چاندی کا تبادلہ ایک یا دو گرام سونے کے ساتھ، ایک کلو جو کا سودا آدھا کلو گندم کے ساتھ۔ ایک دینار کا تبادلہ تین چار ریالوں کے ساتھ۔ اگر یہ سودا نقد ہوگا تو جائز ہے، اس میں اُدھار کرنا صحیح نہیں۔
(۳) جب دونوں تبادلوں والی چیزیں جنس کے اعتبار سے بھی ایک نہ ہوں اور قسم کے اعتبار سے بھی مختلف ہوں توان میں کمی بیشی بھی جائز ہے اور ادھار کرنا بھی جائز۔ جیسے (مثلاً) ایک کلو گندم کا ایک گرام سونے سے تبادلہ۔ ایک کلو کھجور کا سودا دس یا بیس تولہ چاندی کے ساتھ، ان میں کمی بیشی بھی جائز ہے او رادھار کرنا بھی جائز۔
2 ربا النسیئۃ: ایک جیسی دو متبادل چیزوں میں سے کسی ایک کا زیادہ معاوضہ لینا، مگر ایک مقررہ مدت کے بعد۔
یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ سودی معاملے میں کسی قسم کا تعاون بھی لعنت اور غضب ِالٰہی کا باعث ہے۔ اس شدت کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایسا معاشرہ تعمیر کرنا چاہتا ہے جس کی بنیاد اُخوت، ہمدردی، ایثار و قربانی پر ہو۔ کسی کو مال کی ضرورت ہو، تو اصحابِ اموال ضرورت مندوں کی ضرورت فی سبیل اللہ، اللہ کی رضا کے لئے پوری کردیں یا پھر قرضِ حسن کے طور پر۔ جب کہ سود کی بنیاد اس کے برعکس خود غرضی، دوسرے کے استحصال اور ظلم پر ہے۔ اس میں اصحاب ِثروت کسی ضرورت مند سے اللہ کی رضا کے لئے تعاون پر آمادہ نہیں ہوتے۔ انہیں صرف اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے۔ غریب کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کے باوجود ان کی حرص میں کمی نہیں ہوتی۔ اسی لئے شریعت نے ہر قسم کے سود کو ممنوع اور حرام قرار دیا ہے،چاہے وہ ذاتی ضرورت پوری کرنے کے لئے دیئے گئے قرض پر وصول کیا جائے یا تجارتی مقاصد کے لئے حاصل کردہ رقم پر۔
سوال نمبر 2: کیا ’’ربا‘‘ کی ا صطلاح کا بنکوں او رمالیاتی اداروں کے دیئے گئے قرضوں اور ان پر عائد کردہ سود پر بھی اطلا ق ہوتا ہے؟
جواب : یہ سوال ا س لئے پیدا ہوا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ’’قرآن نے جس سود سے روکا ہے، وہ صرف وہ سود ہے جو ذاتی ضروریات کے لئے لئے گئے قرض پر لیا جائے۔ لیکن جو قرض تجارت اور کاروبار کے لئے لیا جائے، ا س پر لیا جانے والا سود اس کی ذیل میں نہیں آتا اور نہ وہ ممنوع ہی ہے، کیونکہ نزولِ قرآن کے وقت تجارتی قرض کا رواج ہی نہ تھا‘‘… لیکن یہ دعویٰ بالکل بے دلیل ہے۔ علماء نے بڑی وضاحت اور تفصیل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی دونوں قسم کے قرضے لئے جاتے تھے، ذاتی ضرورت کے لئے بھی اور تجارت و کاروبار کے لئے بھی اور دونوں پر سود لیا اور دیا جاتا تھا اور قرآنِ کریم میں بغیر کسی قسم کی تفریق کے سود کو حرام قرار دیا گیا ہے، جس کا مطلب ہر قسم کے سود کی ممانعت اور حرمت ہے، چاہے قرض ذاتی ضرورت کے لئے لیا گیا ہو یا تجارت کے لئے۔
اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ دونوں صورتوںمیں ظلم اور خود غرضی کا پہلو پایا جاتاہے۔ ذاتی ضرورت پر لئے گئے قرض پر سود کا ظلم تو مسلم ہے، لیکن تجارتی قرض پر سود میں بھی ظلم صریح اور بدترین خود غرضی کا پہلو پایا جاتا ہے۔ مثلا ً ایک شخص نے بنک سے یا کسی ساہوکار سے کاروبار کے لئے قرض لیا، لیکن کاروبار چل نہ سکا یا کاروبار میں نقصان ہوگیا۔ لیکن قرض دہندہ تو ہر صورت میں اپنا سود کا مطالبہ جاری رکھے گا، حالانکہ وہاں اصل رقم بھی ڈوب گئی ہے چہ جائیکہ وہ اس کے منافع سے سود ادا کرے۔ لیکن بنک یا سود خور مہاجن کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوگی، وہ اصل رقم کے ساتھ اپنا طے شدہ سود بھی ضرور وصول کرے گا۔ اسلام اس ظلم اور خود غرضی کی اجازت کس طرح دے سکتا ہے؟ اس لئے اسلام میں دونوں قسم کے قرضوں پر سود حرام او رناجائز ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ عرب میں تجارتی مقاصد کے لئے قرض لینے اور دینے کا رواج ہی نہیں تھا، صرف ذاتی ضروریات کے لئے ہی قرض لینے دینے کا معمول تھا۔ اس لئے جو سود حرام کیا گیا ہے، وہ صرف ثانی الذکر قسم کا سود ہے نہ کہ اول الذکر سود۔ کیونکہ پہلی قسم کے سود کا تو وہاں رواج ہی نہیں تھا۔ اس بنا پر وہ صنعت و کاروبار کیلئے لئے ہوئے قرض پر سود کو جائز قرار دیتے ہیں۔ اس کو وہ تجارتی سود سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کی بابت کہتے ہیں کہ یہ حرام نہیں ہے، ا س سے تو لوگ کاروبار کرکے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں، اگر وہ اس فائدے میں سے تھوڑا سا فائدہ صاحب ِمال کو ایک سالانہ شرح کے حساب سے لوٹا دیں، تو یہ کس طرح ناجائز ہو سکتا ہے، یہ تو صاحب ِمال کا وہ حق ہے جو اپنے مال کی وجہ سے اسے ملنا چاہئے۔ لیکن اوّل تو یہ دعویٰ ہی صحیح نہیں ہے کہ عرب میں تجارتی قرض کا رواج نہیں تھا، عربوں میں تجارتی مقاصد کے لئے بھی قرض لینے دینے کا رواج تھا۔ علاوہ ازیں صنعت و تجارت میں لگے ہوئے سرمائے کی بابت کوئی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ بہرصورت نفع دے گا، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ لاکھوں کروڑوں کا سرمایہ ڈوب جاتا ہے۔ لیکن بنک یا ساہو کار کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی، وہ ہر صورت میں اپنے دیئے ہوئے قرض پر سالانہ شرح سے سود وصول کرنا ضروری سمجھتا اور وصول کرتا ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں، خود غرضی نہیں، استحصال نہیں؟ اور اگر نقصان نہ ہو تو یہ سودی قرض گرانی کا باعث بنتا ہے۔ ایک صنعت کار، جتنا سود ادا کرتا ہے، اسے وہ پیداواری لاگت میں شامل کرکے اپنی تیار کردہ اشیاء کی قیمت مقرر کرتا ہے، جس سے عوام کو وہ چیز نسبتاً مہنگے داموں خریدنی پڑتی ہے۔ اس لئے اسلام نے ہر قسم کے سود کو حرام کرکے ظلم و استحصال اور گرانی کے ایک بہت بڑے ذریعے اور سرچشمے کو بند کردیا ہے۔

تجارت اور سود میں فرق ہے:

بعض لوگ کہتے ہیں کہ سودی قرض بھی تو ایک تجارت ہے، قرآن نے ان کا یہ قول ان الفاظ میں نقل کیا ہے

:وَأَحَلَّ اللهُ البَيعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بو‌ٰا﴾ (البقرۃ)

بیع بھی تومثل سود ہی کے ہے، اللہ نے اس کے جواب میں فرمایا:یہ دونوں چیزیں کس طرح ایک ہوسکتی ہیں۔ بیع کو تو اللہ نے حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام؟ جس سے واضح ہے کہ یہ دونوں ایک نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں تجارت میں تو نقد رقم اور کسی چیز کا آپس میں تبادلہ ہوتا ہے۔ دوسرے ا س میں نفع نقصان کا اِمکان رہتا ہے۔ جبکہ سود میں یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں، تیسرے، تجارت باہم تعاون و تناصر کا نام ہے جبکہ سود خود غرضی، بے رحمی اور سنگ دلی کا۔ چوتھے، تجارت میں رقم او ر چیز کے تبادلے کے بعد دونوں ایک دوسرے کے تبادلے کے مالک بن جاتے ہیں او راس کے بعد ان کا آپس میں کوئی مطالبہ نہیں رہتا۔ جبکہ سود میں ایسا نہیں ہوتا، بلکہ صاحب المال کی طرف سے ہر سال زیادتی کا مطالبہ رہتا ہے جو سالہا سال تک بلکہ بعض دفعہ نسل درنسل چلتا رہتا ہے۔ ان وجوہ سے سود اور تجارت ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہیں۔ ایک حلال ہے اور دوسرا حرام۔
لیکن افسوس کہ مسلمانوں میں بھی مغرب کی نقالی میں معیشت کی ساری بنیاد سودی نظام پر قائم ہے اور اس سے بچنے کی کوئی سعی و کاوِش اسلامی ملکوں کے مغرب زدہ حکمرانوں کی طرف سے نہیں ہو رہی ہے۔ اسی طرح مسلمان عوام میں بھی اب سود سے بچنے کا کوئی جذبہ نہیں رہا اور ان کی اکثریت بنک کے سود کو وصول کرتی اور کھاتی ہے اور سودی کھاتوں میں شریک ہوتی ہے۔
بنا بریں بنکوں اور مالیاتی اداروں کے دیئے قرضوں اور ان پر عائد کردہ سود پر بھی ربا کا اطلاق ہوگا۔ کوئی بھی سودی قرضہ اس سے مستثنیٰ نہیں ہوگا۔
سوال نمبر 3: پاکستانی بنک اور بعض مالیاتی ادارے اپنے گاہکوں کو ‘مارک اَپ پر دوبارہ خریداری کے معاہدوں کی بنیاد پر رقم دیتے ہیں۔ اس طریق کار کے تحت بنک کا گاہک یہ مراد لیتا ہے کہ وہ ایک مخصوص جنس بنک کو فروخت کرتا اور عین اسی وقت اس جنس کو مؤثر ادائیگی کی بنیاد پر زیادہ مدت کے عوض دوبارہ خرید لیتا ہے۔ مارک اَپ کی کوئی شرح (فی صد سالانہ) کا اطلاق دوسری فروخت پر ہوتا ہے۔ کیا یہ معاہدہ ’’ربا‘‘ کے زمرے میں آتا ہے؟
جواب: یہ بھی ایک حیلہ ہے جس کا مقصد سودی نظام کا نام بدل کر اسے جائز قرار دینا ہے۔ اس میں بنک کا گاہک قطعاً کوئی چیز بنک کو فروخت نہیں کرتا، صرف فرض کر لیا جاتاہے جب کہ ایسا کرنا بھی ممنوع ہے، کیونکہ جس چیز کا عملاً وجود ہی نہیں ہے، اُسے فروخت کرنے کے کیا معنی؟ نبی کریمﷺ نے قبل القبض (اپنے قبضے میں لینے سے پہلے) کسی چیز کو فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ جب قبل القبض ہی فروخت کرنا جائز نہیں ہے، توایک معاملے کو فرض کرکے اس پر بیع و شراء کے احکام کس طرح لاگو ہوسکتے ہیں؟
پھر وہ گاہک (جو اصل میں بنک سے قرض لینے کا خواہش مند ہوتا ہے) بنک سے اپنی (فرضی) فروخت شدہ چیز بنک سے زیادہ مدت کے عوض دوبارہ خرید لیتا ہے (جس کا مطلب دراصل زیادہ رقم کا حصول ہے) اور پھر وہ گاہک بنک کو سود ادا کرتا رہتا ہے جس کا نام مارک اَپ رکھ لیا گیا ہے۔ اصل مقصد بنک سے تجارت کے لئے قرض لینا ہی ہے، لیکن سیدھے طریقے سے ناک پکڑنے کی بجائے، ہاتھ کو پیچھے سے گھما کر ناک پکڑنے کا کام کیا گیا ہے۔ بہرحال یہ بھی ایک سودی حیلہ ہی ہے جس کا جواز تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
سوال نمبر4: کیا ’’ربا‘‘کی حرمت کے معاملے میں ایک مسلمان اور غیر مسلم کے مابین کوئی فرق ہے؟ کیا ’’ربا‘‘ کی حرمت کا دائرہ غیر مسلموں سے لئے گئے قرضوں یا ایسے مسلم ممالک جن کے قوانین اور قومی پالیسیاں بین الاقوامی مالیاتی قوانین اور پالیسیوں سے منسلک نہیں اور جو صدرِ مملکت پاکستان کے کنٹرول میں نہیں ہیں، تک بڑھایا جاسکتا ہے؟
جواب: ’’ربا‘‘کی حرمت میں مسلم اور غیرمسلم کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ جس طرح ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ کوئی سودی معاملہ نہیں کرسکتا، اسی طرح ایک مسلمان کسی غیر مسلم کے ساتھ سودی لین دین نہیں کرسکتا۔ جن لوگوں نے اس میں فرق کیا ہے، ان کے پاس اس کی کوئی معقول دلیل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اس قول کو ان کے اپنوں نے بھی تسلیم نہیں کیا ہے۔
علاوہ ازیں اس کی حرمت کا دائرہ ان تمام مالیاتی قوانین اور پالیسیوں تک وسیع ہے جن پر سودی معاملات کا اطلاق ہوتا ہے، چاہے وہ قرضے غیر مسلموں سے حاصل کئے گئے ہوں یا مسلم ممالک سے، چاہے وہ پاکستان کے کنٹرول میں ہوں یا نہ ہوں۔ ان چیزوں سے سود کی حرمت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اصل چیز سود کی وہ تعریف ہے جو پہلے گزری، جو بھی معاملہ اس کی زد میں آئے گا اور اس تعریف کا مصداق قرار پائے گا، اس پر یقینا حرمت کا اطلا ق ہوگا۔
سوال نمبر5: حکومت ِپاکستان اور اس کے زیر کنٹرول بعض ادارے بانڈز اور سرٹیفکیٹس وغیرہ جاری کرکے قرضے حاصل کرتے ہیں اور ایسے بانڈز کے حامل افرا دکو مقررہ ہر مدت کے بعد منافع ادا کرتے ہیں۔ کیا یہ منافع ’’ربا‘‘ کی تعریف میں آتا ہے؟
جواب: یقینا ان پر ’’ربا‘‘ کی تعریف صادق آتی ہے کیونکہ یہ قرضے ہیں، کوئی کاروباری شراکت نہیں ہے، اور حکومت یا اس کے ادارے ان پر ایک طے شدہ رقم منافع کے نام سے (فی صد سالانہ کے حساب سے ) ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں، جب کہ ان کی اصل رقم محفوظ ہوتی ہے، وہ جب چاہیں اپنی رقم لے سکتے ہیں، لیکن جب تک یہ رقم حکومت یا اداروں کے پاس رہے گی، وہ اس پر متعین منافع دیتے رہیں گے۔ یہ وہی قر ض کے بدلے میں مہلت کا معاوضہ وصول کرنا ہے، جو خالص سود ہے، اس کا نام منافع رکھ لیا گیا ہے، گویا شراب کی بوتل پر ‘روح افزا کا لیبل چسپاں کردیا گیا ہے۔
سوال نمبر6: یہ امر واضح ہے کہ کاغذ کی کرنسی افراطِ زر کی صورتِ حال میں اپنی قیمت کم کرنے کے رجحان کی حامل ہے۔ ایک قرض دار جو پیپر کرنسی کی اپنی مخصوص رقم اگر بطورِ قرض حاصل کرتا ہے، تو جب وہ یہ رقم ایک طے شدہ مدت کے بعد اپنے قرض خواہ کو لوٹاتا ہے، تو قرض خواہ افراطِ زر کی وجہ سے نقصان اُٹھا سکتا ہے۔ اگر قرض خواہ اپنے قرض دار سے اپنے نقصان کی تلافی کے لئے مزید رقم ادا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، تو کیا یہ مطالبہ سود طلب کرنے کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے؟
جواب: یہ مسئلہ نہایت اہم ہے، کیونکہ جو ملک اقتصادی اور سیاسی استحکام سے محروم ہیں، جن میں بدقسمتی سے پاکستان بھی شامل ہے، وہاں آئے روز افراطِ زر کی صورتِ حال نمودار ہوتی رہتی ہے، جس سے کرنسی کی قدروقیمت مسلسل گھٹتی ہے۔ اس لئے طویل ُالمیعاد قرضوں پر یقینا قرض خواہ کو نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ اب اس نقصان کی تلافی کے لئے قرض خواہ اپنے قرض دار سے مطالبہ کرسکتا ہے یا نہیں؟ اگر کرسکتا ہے تو یہ سود کی ذیل میں تو نہیں آئے گا؟ …یقینا یہ قابل غور اور اجتہادی مسئلہ ہے اور اس قسم کے مسائل کے حل کے لئے اجتماعی اجتہاد ناگزیرہے، یعنی عالم اسلام کے جید علماء اور ماہرین معیشت مل کر اس کے تمام پہلوئوں پر غور کریں اور اس کے لئے کوئی اصول اور ضابطہ طے کریں، تاکہ کسی فریق پر بھی ظلم نہ ہوسکے۔ کیونکہ جس طرح ظلم کرنا صحیح نہیں ہے، اسی طرح کوئی دوسرا شخص یا فریق ظلم کا ہدف بن رہا ہو، تو اس کے اِزالے کے لئے بھی سعی کرنا ضروری ہے۔ قرآنِ کریم کے حکم ﴿لَا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ ﴾(البقرة279) ’’ نہ خود ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے‘‘کا مفاد بھی یہی ہے۔
آج سے ۱۴؍۱۵ سال قبل، شرعی عدالت میں بھی اس قسم کا ایک کیس آیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ شفعہ کا ایک مقدمہ ۲۰ سال کے بعد انجام کو پہنچا ہے۔ جبکہ ۲۰ سالوں میں کرنسی کی قدروقیمت بہت گھٹ چکی ہے۔اب قیمت کی ادائیگی وہی کی جائے جو ۲۰ سال قبل لی گئی تھی، جو کہ گھٹتے گھٹتے برائے نام رہ گئی ہے، یا اب موجودہ حالات کے مطابق اس میں اضافہ کرکے ادائیگی کی جائے، تاکہ مالک کو بھی نقصان نہ ہو؟ اس وقت جسٹس گل محمد (مرحوم) عدالت کے چیف جسٹس تھے، عدالت نے مختلف علماء سے استفسار کیا، راقم نے اس وقت فاضل عدالت کے سامنے جو رائے پیش کی تھی، مناسب معلوم ہوتا ہے، اسے علماء کے غوروفکر کے لئے یہاں دہرا دیا جائے۔ یہ تحریر عدالت میں تو شاید محفوظ ہوگی، لیکن کسی اور جگہ ابھی تک شائع نہیں ہوئی۔
یہ تحریر حسب ِذیل ہے: کرنسی کی قوتِ خرید میں کمی کا ادائیگی پر اثر:چند سا لو ں سے کر نسی نو ٹ اپنی ما لیتی اعتبا ر سے جس غیر یقینی صو رتحال سے دو چا ر ہے، اس کے پیش نظر زیر بحث مسئلہ فی ا لو اقع سنجیدہ غو رو فکر کا مستحق ہے۔ علما ء کو اجتما عی غو رو فکر اور بحث و تمحیص کے ذر یعے سے اس کا شر عی حل پیش کرنا چاہیے…اس سلسلے میں را قم کی رائے حسب ِذیل ہے:
کر نسی نو ٹ موجودہ دور میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ سونے چا ند ی کے سکو ں کی بجا ئے اب یہی نو ٹ اس کے متبا دل بن گئے ہیں۔ لین دین اور ما لی معا ملا ت کی اساس بھی یہی نو ٹ ہیں،اس لئے بعض علما ء تو اس کو عر فاً ثمن تک کا در جہ دیتے ہیں جس طر ح کہ سو نا چا ندی اپنی اصل کے اعتبارسے ہی ثمن ہیں ۔لیکن کر نسی کی تمام تر اہمیت کے با وجود اسے بعینہٖ سو نا چا ندی کی طرح بطو رِ ثمن سمجھ کر سو نا چا ندی وا لا حکم ا س پر لا گو کرنا بعض علما ء کے نزدیک صحیح نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سو نا اور چا ندی دونوں کا زکوٰ ۃ کے لئے نصا ب متعین ہے جب کہ کر نسی نوٹوںکی زکوٰۃ ادا کر نی ہو تو اس کے لئے کو ئی متعین نصاب نہیں ہے، نہ ہی اس کا تعین ممکن ہے۔ کیونکہ کر نسی نوٹو ں کی زکوٰ ۃ کے لئے پہلے سو نے یا چا ندی (بہ اختلا فِ علما ء ) کے متعین نصا ب کی کر نسی کے اعتبا ر سے قیمت متعین کی جا ئے گی اور پھر اس کے بعد اس کی زکوٰۃ ادا کی جا ئے گی، جس میں ہر سا ل کمی بیشی کا امکا ن ہی نہیں، ایک حقیقت اور وا قعہ ہے ۔
مثلاً اگر کر نسی نو ٹو ںکے لئے سو نے کے نصا ب کو بنیا د بنایا جا ئے (جیسا کہ علا مہ یو سف قرضاوی وغیر ہ علما ء کا خیال ہے) تو سا ڑھے سا ت تو لے سو نے کی قیمت کر نسی کے اعتبا ر سے ہو گی ۔اتنی ما لیت کے کر نسی نو ٹ اگر کسی کے پا س زائد از ضر ورت ایک سا ل تک مو جو د رہیں تو پھر ڈھا ئی فی صد کے حساب سے زکوٰ ۃ ادا کی جا ئے گی، مثا ل کے طو ر پر اس وقت سو نا۶۰۰۰ روپے فی تو لہ ہے تو ۴۵ہزار کے کرنسی نو ٹو ں پر زکوٰ ۃ ( شر و طِ مقررہ کے مطا بق) اس کے ما لک پر عا ئد ہو گی، اس سے کم پر زکوٰ ۃ نہیں ہو گی، لیکن سا ل دو سا ل بعدسو نا ۶کی بجا ئے ۷ہزار روپے فی تو لہ ہو جا ئے تو پھر ۴۵ہزار روپے پر بھی زکوٰۃ عا ئد نہیں ہو گی ۔پھر یہ رقم اس سے بھی زیا دہ ہو گی تب قابل زکوٰۃ ہو گی۔ یو ں سو نے کے اُتا ر چڑھا ئو کے سا تھ کر نسی نو ٹو ں کی شر حِ نصا ب میں بھی ردّو بدل ہو گا ۔
یہی صو رتحا ل کر نسی نو ٹو ں کی زکوٰۃ چا ندی کے نصا ب سے و ا بستہ کر نے کی صو رت میں بھی پیش آئے گی۔جیسا کہ پا ک و ہند کے علما ء نے چا ندی کے نصا ب کو ہی کر نسی نو ٹو ں کی زکوٰ ۃ کے لئے بنیا د بنا یا ہو ا ہے اور اس اعتبا ر سے سا ڑھے با ون تو لہ چا ندی کی قیمت اس کا نصا ب ہے۔ اگر اتنی چا ندی ۶ہزار کرنسی نو ٹو ں میں آتی ہے تو۶ہزار کی رقم کرنسی نو ٹو ں کے لئے زکوٰ ۃ کا نصاب ہو گی۔ اگر ۷ہزار میں ساڑھے با ون تو لہ چا ندی آئے گی تو ۷ ہزا ر روپے ہو گا، ۸ہزار میں آئے گی تو ۸ہزار نصاب ہو گا۔
اس سے یہ با ت و ا ضح ہو جا تی ہے کہ سو نے چا ندی کی طرح کر نسی نو ٹو ں کا کو ئی متعین نصاب نہیں ہے، اس لئے شر عی طو ر پر یہ سو نا چا ندی کی طرح ثمنیت کے حا مل نہیں سمجھے جا سکتے اور جب ان کی حیثیت با لکل سو نے چا ندی کی طرح نہ ہوئی تو اُصو لی طو ر پرلمبے مالی معا ہدات میں کمی بیشی کا جو از تسلیم کیا جا نا چا ہئے تا کہ کسی ایک فر یق کو نقصا ن نہ ا ٹھا نا پڑے ۔
بنا بر یں حکو مت اگر کو ئی ایسا قا نو ن یا اُصو ل وضع اور متعین کر تی ہے کہ جس کی رو سے ما لی معاہدات میں کر نسی کی قیمت کے اُتار چڑ ھا ئو کا اعتبا ر کیا جا سکے تو شرعاً اس کی گنجا ئش معلو م ہو تی ہے کیونکہ ایک عرصہ گز ر جا نے کے بعد کر نسی کی قیمت میں خا طر خو اہ کمی آجا تی ہے جس سے بعض دفعہ بہت سے لو گو ں کو خا صا نقصا ن بر دا شت کر نا پڑتا ہے۔ اسی طرح اند رونِ ملک عا م لو گو ں کو بھی خسا رہ برداشت کر نا پڑتا ہے جب کہ کچھ دو سرے لو گو ں کو خا ص منفعت حا صل ہو جا تی ہے ظا ہر با ت ہے کہ یہ صو رتحال لا ضَرَر ولا ضِرار (موطأ امام ما لک، کتا ب ا لبیو ع) کے خلا ف ہے۔
اسلام کے اس اصو ل کا تقا ضا یہ ہے کہ جب کہ کر نسی کی قیمت مسلسل گر رہی ہے تو اس کے لئے حکو مت کو ئی ایسا اصول اور ضا بطہ بھی تجو یز کرے جس سے اس سے پیدا ہو نے والے نقصا ن کی تلافی بھی بآ سا نی ہو سکے ۔
مذ کو رہ با لا وضا حت سے رٹ گزار کے مو قف کی اصو لی تائید ہو تی ہے کہ ۲۳ سا ل میں ز مین کی قیمت میں سو فی صد ہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیا دہ اضا فہ ہو گیا ہے۔ اس لئے قا نو نِ حق شفعہ کی زیر بحث شق کو اس طر ح تبد یل کر نے کی ضرو رت ہے جس سے خریدار کو نقصا ن نہ اُٹھانا پڑے۔ اس مو قف میں بظا ہر شر عاً کو ئی قبا حت نظر نہیں آتی کیو نکہ اس طرح ایک فریق کے نقصان کا ازالہ مقصو د ہے جو مستحسن امر ہے ۔تا ہم یہ با ت یا د رکھنی چا ہئے کہ حکومت کی طر ف سے جب تک اس کے لئے کو ئی اصول اور ضابطہ تجویز نہیں کر دیا جا تا، اس وقت تک عا م لین دین عا م معمول اور عر ف کے مطابق کر نا ضر وری ہے اور وہ عرف فی ا لحا ل یہی ہے کہ جتنی تعداد کے کر نسی نو ٹو ں میں سو دا طے ہو ا تھا یا معا ہد ہ ہو ا تھا، اتنی ہی تعداد کے نوٹ وصول کر نے کا فریق ثا نی حقدار ہو گا۔ کر نسی کی قیمت میں کمی کا اعتبا ر نہیں ہو گا کیو نکہ کسی اصول اور ضابطے کے بغیر مذ کو ر ہ اجا زت مفا سد ِکثیرہ اور نزا عات کا باعث ہو گی تا ہم عدا لتیں خصوصی کیسو ں میں مذکو رہ شر عی گنجا ئش کی روشنی میں کر نسی کی قیمت میں کمی سے پیدا ہو نے والے نقصان کے اِزالے کا فیصلہ کر سکتی ہیں جیسا کہ زیر بحث مقد مہ میں بھی اس کی گنجا ئش معلو م ہو تی ہے ۔
سوال نمبر7: اگر سود یا مارک اَپ کی تمام اقسام اسلامی احکامات کے خلاف قرار دے دی جائیں تو آپ فنانسنگ کے کیا طریقہ ہائے کار تجویز کرتے ہیں:
( الف) تجارت اور صنعت کی فنانسنگ
(ب) بجٹ کے خسارے کی فنانسنگ
(ج) بیرونی قرضوں کا حصول
(د) اسی نوعیت کی دیگر ضروریات اور مقاصد
جواب: اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سود یا مارک اَپ کی تمام قسمیں حرام ہیں۔ لیکن اس کے لئے متبادل صورتیں کیا یا کیا کیا اختیار کی جاسکتی ہیں؟ یہ بہت تفصیل طلب مسئلہ ہے۔ اسے یہاں بیان نہیں کیا جاسکتا، علاوہ ازیں علماء اس کی تفصیلات بھی کماحقہ بیان نہیں کرسکتے، کیونکہ یہ ان کا میدان نہیں ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ علماء اور ماہرین معیشت باہم مل کر اس کا حل تلاش اور متبادل تجویز کرسکتے ہیں۔ بلکہ بہت سے حل اور تجاویز پہلے بھی مرتب ہوچکی ہیں جو کتابوں اور رپورٹوں کی شکل میں موجو دہیں۔ خود اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس مسئلے کے حل کے لئے ماہرین معیشت کے مشوروں سے ایک رپورٹ تیار کی تھی جوموجود ہے، اس کے علاوہ بھی اسلامی بنکاری یا اسلامی معیشت کے نام سے بہت سی کتابیں تحریر شدہ موجود ہیں، جن میں اسی مسئلے پر بحث کی گئی ہے کہ سودسے بچ کر کس طرح ہم اپنے اقتصادی ڈھانچے کو استوار کرسکتے ہیں۔ نیت اگر صاف ہو اور سود سے بچنے کا جذبہ اور داعیہ قوی ہو، تو ابتدائی طور پر ان خاکوں اور تجاویز کو سامنے رکھ کر غیر سودی نظام کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ ابتداء میں یقینا مشکلات آئیں گی، صدیوں سے بنے بنائے نظام کی جگہ ایک نیا نظام قائم کرنا بلاشبہ جان جوکھوں کا کام ہے، لیکن جو قومیں عزم اور جذبے سے سرشار ہوتی ہیں، وہ مشکلات کو خاطر میں نہیں لاتیں، بلکہ تیشہ فرہاد سے جوئے شیرنکال کر دکھا دیتی ہیں۔ ہم بھی اگر ابتدائی مشکلات سے گھبراتے اور ڈرتے رہے، جو یقینا پیش آئیں گی، تو کبھی بھی یہ معرکہ سر نہیں کرسکیں گے۔ اس کے لئے پھر صدیاں بھی ناکافی ہوں گی۔ لیکن ہم اللہ پر بھروسہ کرکے اور ایمانی عزم و جذبہ سے سرشار ہو کر یہ تہیہ کر لیں کہ ہم نے اس سودی نظام سے نجات حاصل کرنی ہے۔ تو یقینا چند سالوں میں بھی ہم اس میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بھی وعدہ ہے کہ ’’جو ہماری راہ میں کوشش کرتا ہے ہم اس کیلئے راہیں کھول دیتے ہیں۔‘‘ ﴿وَالَّذينَ جـٰهَدوا فينا لَنَهدِيَنَّهُم سُبُلَنَا﴾(العنكبوت:69)
تاہم اس میں کامیابی کے لئے بیک وقت دو محاذوں پر ہمیں سخت محنت اور جدوجہد کرنی پڑے گی۔ ایک محاذ قوم کی اِصلاح و تربیت اور کردار سازی کا ہے، جس سے ہمارے حکمران بالکل ہی غافل ہیں۔ حالانکہ اسلام کا پودا اسلام کی سرزمین پر ہی نشوونما پاسکتا ہے، غیر اسلامی آب و ہوا میں ہرگز نہیں پنپ سکتا۔ اس وقت ہماری قوم سچائی، امانت و دیانت اور دیگر اَخلاقی خوبیوں سے یکسر محروم ہے۔ الا ماشاء اللہ اور اسلامی نظامِ معیشت کا پودا سچائی اور امانت و دیانت کی سرزمین پر ہی لگ سکتا ہے، جب تک قوم کے اندر یہ وصف اور خوبی پیدا نہیں ہوگی، اس وقت تک غیر سودی نظام کا پودا یہاں لگ سکتا ہے نہ نشوونما ہی پاسکتا ہے۔ اس کے لئے تعلیمی نصاب بدلنا ہوگا، تعلیمی اداروں میں اسلامی روح پھونکنی ہوگی، اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن ان سب کا قبلہ درست کرنا ہوگا، ان سب کا قبلہ اس وقت بالکل مخالف سمت میں ہے۔
دوسرے نمبر پر اسلامی معیشت کے اُصولوں پر اپنے بنکاری نظام کو استوار کرنا ہے، ا س سلسلے میں اب تک فکرونظر کے دائرے میں جو کام ہوا ہے، اس سے استفادہ کیا اور اسے بنیاد بنایا جائے۔ لیکن چونکہ عمل کا میدان، فکر و نظر سے مختلف ہے۔ ممکن ہے عمل کے میدان میں نئی صورتیں پیش آئیں، جن کا حل پہلی رپورٹوں اور خاکوں میں نہ ہو۔ تو اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دل میں اخلاص ہو اور جذبہ صادق ہو، تو قدم قدم پر رہنمائی ملتی رہے گی، راستے میں پہاڑ آئیں گے تو وہ بھی راستہ دینے پر مجبور ہوں گے،سمندر آئیں گے توانہیں بھی عبور کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ مخالفتوں کی بادِ تند بھی اپنا رخ بدل لے گی اور اغیار کی سازشوں کے طوفان بھی آہنی عزم کی چٹان سے ٹکرا کر ختم ہوجائیں گے۔ شرط صرف ایک ہی ہے: ایمان، عزم اور قوت ِعمل سے سرشاری۔

﴿وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعلَونَ إِن كُنتُم مُؤمِنِينَ ﴾( آل عمران:139)

سرمایہ کاری کی چند متبادل صورتیں:ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ بنک موجودہ سودی طریقہ چھوڑ کر اگر نفع نقصان کی بنیاد پر مضاربت کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس میں کامیابی کی کوئی اُمید نہیں۔ کیونکہ اس طرح اکثر لوگ کاروبار میں نقصان ظاہرکرکے بنک کی ساری رقم ہڑپ کر جائیں گے۔
موجودہ حالات میں بنک والوں کی یہ بات ایسی نہیں کہ اسے اہمیت نہ دی جائے اور اسے یوں ہی مذاق میں اُڑا دیا جائے، بلکہ قومی اَخلاق کی پستی اور کردار کی زبوں حالی اس انتہا کو پہنچی ہوئی ہے کہ بنک والوں کی بات کو ردّ نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اس کے باوجود ہم عرض کریں گے کہ قوم کو اس اَخلاقی پستی سے نکالنے کی ذمے داری بھی تو حکومت کی ہے، وہ اس طرف بھی بھرپور توجہ دے تاکہ اِقتصاد و معیشت کی بنیاد بھی صحیح ہوسکے۔
لیکن تعلیم و تربیت اور اصلاح ، یہ وسیع المیعاد پروگرام ہے، اوّل تو اس کی طرف کسی کی توجہ ہے نہ مستقبل قریب میں بظاہر کسی حکومت سے اس بارے میں اچھی اُمید ہی وابستہ کی جاسکتی ہے۔ اس لئے بنک کے لئے فی الحال کچھ متبادلات ہیں، جن پر بنک سرمایہ کاری کرکے لاکھوں، کروڑوں کا نفع حاصل کرسکتا ہے۔
مثلاً جس صنعت و کارخانے وغیرہ کے لئے بنک رقم مہیا کرے، تو بنک اس کی مؤثر نگرانی کے لئے اپنے چند آدمی بھی اس میں رکھوا سکتا ہے، یہ نگرانی اور بندوںکی تقرری معاہدے کا باقاعدہ حصہ ہو، تو بنک کے ساتھ فراڈ کرنا ممکن نہیں رہے گا۔
(2) بنک قابل کاشت زمینیں خرید کر ان پر سرمایہ کاری کریں اور مزارعت یا نقد ٹھیکے پر وہ زمینیں کاشت کرنے والوں کو دیں۔ یہ مزارعت اور نقد ٹھیکہ جائز ہے، بنک اس کاروبار کے ذریعے سے معقول آمدنی حاصل کرسکتے ہیں۔
(3) اسی طرح ملک میں زمینوں کا ایک بہت بڑا حصہ بیکار پڑاہوا ہے، وہ زمینیں بنجر یا ریگستانی ہیں۔ لیکن اگر ان پر سرمایہ کاری کی جائے ، تو وہ قابل کاشت ہوسکتی ہیں۔ بہت سے لوگوں نے ذاتی طور پرایسا کیا ہے تو واقعی اس کے بہت مفید نتائج سامنے آئے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ’’جنگ‘‘ کے ایک کالم نگار جاوید چوہدری کا ایک کالم بعنوان… ’’چولستان کے دکھ کون سنے گا‘‘… شائع ہوا ہے، چولستان بہاولپور کا ایک صحرائی اور ریگستانی علاقہ ہے۔ اس علاقے میں ایک صاحب نے چند مربع زمین لے کر اس میں جو جنت ِارضی بسائی ہے، وہ حکومت اور بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے والوں، دونوں کے لئے لمحہ ٔ فکریہ اور دعوتِ غور ہے۔ چونکہ ہم نے یہ تجویز پیش کی ہے او راس کی ایک عملی مثال ہمارے سامنے آئی ہے، ا س لئے اس کالم کا یہ متعلقہ حصہ ملاحظے کے لئے پیش خدمت ہے… کالم نگار لکھتے ہیں:
’’چولستان سے واپسی پر ایک عجیب منظر دیکھا۔ ریت کے ٹیلوں، چھدری جھاڑیوں اور آوارہ بگولوں کے عین درمیان جنت کا ایک ٹکڑا تھا۔ زمین پر سبزہ بچھا تھا، گھنے درخت آسمان کی طرف منہ اُٹھائے کھڑے تھے، کپاس بار تھی اور ایک چھوٹی سی نہر ساتھ ساتھ بہہ رہی تھی۔ ہم لوگ وہاں رک گئے۔ میں نے جنت کے رکھوالے سے مالک کا نام پوچھا، اس نے کولہوں پر ہاتھ رکھ کر جواب دیا ’’یہ سیٹھ عقیل الرحمن کے مربعے ہیں‘‘۔ یہ نام میرے لئے جانا پہچانا تھا میں نے اپنے ساتھیوں سے سیٹھ صاحب کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا سیٹھ عقیل الرحمن قومی اسمبلی کے رکن ہیں، حکام کی مہربانی سے چولستان سے ساٹھ ستر مربع اَراضی حاصل کی۔ اسے ہموار کیا اورمیلوں دور بہتی نہر کا پانی کاٹ کر ریت کو سونا بنا لیا۔ جب یہ داستان سنائی جارہی تھی تو میں سیٹھ عقیل الرحمن کا حوالہ یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میں ان سے واقف ہوں یا میں نے اُن کے بارے میں سن رکھا ہے۔ ابھی داستان جاری تھی کہ میرے دماغ میں روشنی کا گولہ پھٹا اور میں نے اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا :کہیں یہ سیٹھ صاحب وہی تو نہیں ہیں ساتھی نے ہاتھ چھڑا کر جواب دیا ہاں وہی سیٹھ عقیل الرحمن ہیں جو وزیراعظم کو ساتھ لے کر پہنچے، محکمہ آبپاشی کے افسر طلب کرائے اور انہیں پانی چوری کرانے کے جرام میں ہتھکڑیاں لگوا دیں میں نے حیران ہو کر پوچھا کیا ان کی زمینوں کو سیراب کرنے والا یہ پانی جائز ہے؟ میرے ساتھی نے قہقہہ لگایا اور ٹوپی سیدھی کرتے ہوئے بولا چودھری صاحب !نا سمجھ بچوں جیسے سوال نہ کیا کریں!!
سیٹھ عقیل الرحمن کی تشکیل کردہ جنت سے آگے نکل کر میں نے سوچا ،اگر نہر سے پانی کی پتلی سی لکیر نکل کر صحرا کے دوزخ میں فردوس کا یہ ٹکڑا تخلیق کرسکتی ہے تو ایک ذرا سی بڑی آبی لکیر پورے صحرا کو جنت کیوں نہیں بنا سکتی؟ صدیوں سے جگہ بدلتے ٹیلوں اور برسوں سے بوندوں کو ترستے بگولوں نے سرگوشی کی ‘‘بنا سکتی ہے ،بناسکتی ہے …لیکن اس لئے ایک دور تک سوچنے والا لیڈر چاہیے۔ میں نے کہاہمارے پا س ایسا لیڈر ہے تو سہی’’ ٹیلے قہقہ لگا کر بولے ’’نہیں نہیں جس لیڈر کے پاس مہر اقبال جیسے لوگوں کے زخموں پر پھائے رکھنے کا وقت نہ ہو وہ لاکھوں سال کی منتظر زمینوں کا دکھ سننے کیلئے فرصت کہاں سے لائے گا۔‘‘ (روزنامہ جنگ ، لاہور :۴؍ ستمبر ۱۹۹۹ء)
(4) اسی طرح کمپنیوں کے شیئرز ہیں ۔اس میں بھی کاروباری شرکت کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ اس میں اصل خرابی سٹے کا جز شامل ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر قانونی طور پر اس خرابی کو شامل ہونے سے روک دیا جائے، تو شیئرز کے کاروبار سے بھی بنک بہت منافع حاصل کرسکتے ہیں۔
یہ سرمایہ کاری کی چند مثالیں ہم نے اس لئے دی ہیں کہ اگر مضاربت میں کامیابی کا فی الحال امکان نہیں ہے تو سرمایہ کاری کا یہ واحد میدان نہیںہے، بلکہ سرمایہ کاری کا میدان بہت وسیع ہے اور بہت سی جائز متبادل صورتیں سوچی اور اختیار کی جاسکتی ہیں۔ اگر سود سے بچنے کا عزم قوی اور داعیہ سچا ہو، تو بہت سی راہیں نکل سکتی ہیں اور اس حرام کاری و حرام خوری سے قوم کو بچایا جاسکتا ہے ورنہ ع
خوئے بدرا حیلہ ٔ بسیار!
اور اس خوئے بد اور حیلوں بہانوں کا علاج کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ آپ متبادلات کے ڈھیر لگا دیں، خاکوں پر خاکے اور رپورٹوں پر رپورٹیں تیار کرکے دے دیں، ان سے ردّی میں تو اضافہ ہوگا، عمل و اقدام کا کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوگا۔ گویا ہمارا اصل مسئلہ متبادل اَساس کا نہیں ہے، وہ تو موجود ہے اور اسے ہم اپنے عزم اور قوتِ عمل سے مزیدبہتر اور سازگار بنا سکتے ہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ کہ ہمارے اندر ایمانی عزم کی کمی ہے او رہم حرام خوری سے بچنے کا کوئی جذبہ اور داعیہ ہی نہیں رکھتے۔
سوال نمبر 8: اگر آپ کے خیال میں سود کی تمام اقسام شرعی طور پر حرام ہیں تو حقیقت سے اس کے خاتمے کے لئے آپ کیا طریقہ کار تجویز کرتے ہیں، کیا آپ موجودہ اقتصادی نظام کو فوراً ختم کردیں گے یا قومی معاشی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تدریجی عمل تجویز کریں گے؟ اگر آپ تدریجی عمل کو ترجیح دیتے ہیں تو آپ اس مقصد کے لئے کیا حکمت ِعملی تجویز کرتے ہیں جو قرآن و سنت کے تقاضوں کے مطابق ہو؟
جواب: حکمت ِعملی کے طور پر تدریج کی اہمیت و ناگزیریت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن تدریج کے نام پر عملی اقدامات سے گریز کی تائید بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہی تدریج مرحوم ضیاء الحق نے بھی اختیار کئے رکھی، جس سے قوم کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس لئے تدریج تو ضروری ہے، کوئی نظام بھی راتوں رات نافذ نہیں ہوسکتا۔ ایک بنے بنائے نظام کو، جس کی جڑیں بڑی گہری اور وسیع ہو، اسے اُکھیڑ کر ایک نیا نظام استوار کرنا، پھر اس کی نشوونما اور استحکام کے لئے آب و ہوا بھی اس کے موافق بنانا (جیسا کہ پہلے اشارہ کیا گیا) ایک مناسب تدریج اور حکمت ِعملی کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن اس کے لئے ہمہ جہتی اقدامات، گو تدریج کے ساتھ ہوں، نہایت ضروری ہیں، اس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ کسی ایک شعبے میں جزوی یا نیم دلانہ اقدامات سے کچھ نہیں ہوگا، یہاں تو مکمل آپریشن اور سرجری کی ضرورت ہے، جب تک قوم اس عمل جراحی سے نہیں گزرے گی، کسی بھی شعبے میں کامیابی ممکن نہیں۔
سوال نمبر9: اگر تمام معاملات خلافِ شرع ہیں تو ماضی میں کئے گئے معاملات اور معاہدات کا کیا کیا جائے گا؟ خاص طور پر حکومت پچھلے غیر ملکی قرضوں کے معاملے میں کیا طریق کار اختیار کرے گی؟
جواب: جہاں تک اندرونی معاہدات اور معاملات کا تعلق ہے، ان میں سود کا لینا اور دینا فوراً ممنوع قرار دیا جائے۔ تاہم کسی کی اصل رقم پر زَد نہ پڑے، وہ ہر صورت میں واپس کی جائے۔ یا پھر یہ رقم مالکوں کی اجازت کے ساتھ غیر سودی معاملات میں شرعی طریقوں کے مطابق استعمال میں لائی جائے اور اس کے نفع نقصان میںان کو شریک کیا جائے۔ اگر حکومت نے غیر سودی نظام قائم کرنے میں اِخلاص کا ثبوت دیا، تو قوم بھی اس کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہوگی، کیونکہ قوم اپنی تمام تر کمزوریوں اور بدعملیوں کے باوجود اسلامی نظام کی خواہش مند اور اس کے لئے جذباتی وابستگی رکھتی ہے۔ اس کی اکثریت میںاب بھی اسلام کے لئے قربانی کا جذبہ اور داعیہ موجودہے، بدقسمتی سے اب تک کوئی حکمران بھی ان کے اس جذبے سے فائدہ نہیں اُٹھا سکا، بلکہ سب نے ان کا استحصال ہی کیا ہے، اس لئے قوم حکمرانوں سے مایوس ضرور ہے، لیکن اللہ سے مایوس نہیں ہے، وہ اب بھی کسی مسلمان مردِ غیب کی منتظر ہے، جس مقتدر ہستی میں ا ب بھی ان کو امید کی کوئی کرن نظر آئے گی، وہ اس پر اپنا مال ہی نہیں، دل وجان بھی فدا کرنے کے لئے تیار ہوگی۔ کاش کوئی مردے از غیب پیدا ہو اور ‘کارے بکند، کے مصداق کچھ کرکے دکھائے۔
جہاں تک بیرونی قرضوں کا تعلق ہے،یہ ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہیں، جن کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ان قرضوں نے ہم سے ہماری خودی چھین لی ہے، ہماری آزادی کو گروی رکھ دیا ہے، اور ہمیں خوئے غلامی میں پختہ تر کردیا ہے۔ ان کا سلسلہ یکسر اور فوری طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔ تاہم ان کی بھی اصل رقم کی ادائیگی ضروری ہے اور سود کی عدم ادائیگی کا فوری اعلان کردینا چاہئے۔ ہمارے سامنے کئی ملک ہیں جنہوں نے عالمی بنک اور آئی ایم ایف کے قرضے دینے سے بالکل انکار کردیا ہے، صرف سود ہی نہیں، بلکہ اصل رقم بھی دینے کے لئے وہ تیار نہیں ہیں۔ جب دوسرے بعض ممالک اتنی جرأت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں، تو کیا ہمارے اندر اتنی جرأت بھی نہیں کہ ہم صرف سود ادا کرنے سے انکار کردیں جو سراسر ظلم ہیں، ہم ظلم کے خلاف بھی لب کشائی نہیں کر سکتے؟ اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں کرسکتے؟ غیر ملکی قرضوں کی دلدل سے نکلنے کا یہی واحد طریقہ ہے کہ ہم ایک تو خود انحصاری کی پالیسی اپنائیں اور ایک پیسہ بھی قرض نہ لیں اور دوسرے، اس جرأتِ گفتار اور قوتِ کردار کا مظاہرہ کریں کہ سود دینے سے انکار کردیں۔ اگر ہم نے اپنے اندر یہ جرأت اور قوت پیدا کرلی، تو غیر ملکی طاقتیں ہمارا کچھ نہیں کرسکتیں۔ ہمارا موقف عدل و انصاف کے مطابق ہوگا، ا س لئے جیت ہماری ہی ہوگی، نہ کہ قرض دینے والی طاقتوں کی، جو دراصل ظالم اور کمزور قوموں کا خون چوس لینے والی ہیں۔
سوال نمبر 10: کیا قرض دینے والا قرض سے متعلق منافع حاصل کرنے کا وقت اور اس کی شرح مقرر کرسکتا ہے جبکہ قرض لینے والا یہ کہہ رہا ہو کہ وہ مطلوبہ روپیہ کمانے اور بروقت رقم لوٹانے کے قابل ان شاء اللہ ہوجائے گا اور اگر اس کے بعد قرض لینے والا رقم کی ادائیگی میں تاخیر کرے تو گارنٹی دینے والا منافع، بونس یا تلافی کے لئے زائد رقم دے سکتا ہے۔ اگر اس صورت حال میں انشورنس کا نظام متعارف کرایا جائے تو اس کی کیا صورت ہوگی اور اس کا جواز ہوگا؟
جواب: یہ سوال کئی سوالات کو متضمّن ہے… اس میں پہلی با ت تو یہ ہے کہ قرض دینے والا قرض پر کوئی متعین منافع لے ہی نہیں سکتا، تو اس کی شرح مقرر کرنے کا کیا سوال؟ البتہ قرض کی واپسی کے لئے وقت کا تعین کیا جاسکتا ہے، کیونکہ یہ تو قرض دینے والے کا حق ہے کہ وہ اپنی رقم کی واپسی کے لئے وقت کی تعیین اور تاکید کرے۔ لیکن اس رقم پر چونکہ متعین منافع سود کی ذیل میں آتا ہے، اس لئے اس کی شرح کا تعین نہیں کیا جاسکتا، اگر کیا جائے گا تو یہ معاملہ سودی بن جائے گا۔
اسی طرح گارنٹی دینے والا بھی اصل رقم کی واپسی کی گارنٹی دیتاہے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ لیکن منافع کی گارنٹی دیتا ہے، تو یہ سود کی گارنٹی دینا ہے جو ناجائز ہے۔
اس میں تیسرا مسئلہ انشورنش کے نظام کا ہے، انشورنس کی آج کل بے شمار قسمیں ہیں: قرض کے تحفظ کے لئے انشورنس کا کوئی نظام تجویز کیا جاتا ہے، تو ایسا کرنا جائز ہوگا بشرطیکہ اس کا طریق کار شریعت کے خلاف نہ ہو۔ لیکن اگر اس کا مقصد سودی قرضوں کا تحفظ ہے تو یہ ناجائز ہوگا۔
نیز اس سوال سے اگر مقصد یہ ہے کہ قرضوں کی بروقت ادائیگی نہ کرنے سے دائن کو افراطِ زر کی وجہ سے جو نقصان ہوسکتا ہے، اس کے اِزالے کے لئے کوئی ضابطہ بنایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب اثبات میں ہے۔ اس کے لئے یقینا ضابطہ بنایا جاسکتا ہے بلکہ بنایا جانا چاہئے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں قرضوں کی وصولی ایک نہایت سنگین مسئلہ ہے۔ دائن تو ضرورت پر قرض دے کر ایک احسان کرتا ہے، لیکن ہماری قوم سخت احسان فراموش ہے، وہ حسن قضاء کی بجائے قرضہ ہی ہڑپ کرجانے کی کوشش کرتی ہے، علاوہ ازیں دوکانداروں اور سرمایہ داروں میں بھی قرضوں کی عدم ادائیگی کا رجحان عام ہے، اس عادتِ بد کی وجہ سے بہت سے صنعت و حرفت سے وابستہ افراد، جو محدود سرمائے کے حامل ہوتے ہیں، اپنا کاروبار ہی بند کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ا س لئے قرضوں کی بروقت ادائیگی کے لئے اگر کچھ اصول اور ضابطے تجویز کر لئے جائیں تو ان سے یقینا ان خرابیوں کے ازالے میں مدد مل سکتی ہے۔اس کے لئے ایک تو تحریری معاہدہ ضروری قرار دیا جائے، جیسا کہ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
دوسرے بروقت ادائیگی نہ کرنے میں جو نقصان ہوسکتا ہے، اس کا ازالہ افراطِ زر کی روشنی میں کیا جائے یا قرضوں کو کسی مستحکم چیز سے وابستہ کردیا جائے، مثلاً چاندی یا سونے کی قیمت سے یا کسی مضبوط کرنسی سے۔ مثلاً کسی نے پچاس ہزار روپے چھ مہینے یا سال کے وعدے پر لئے، تو اس کے لئے ضابطہ بنایا جاسکتا ہے کہ جس تاریخ کو قرض دیا گیا، اس روز پچاس ہزار اتنے تولے سونے کی مالیت کے حامل تھے، یا اس کے اتنے ڈالر یا پونڈ آتے تھے، ادائیگی کے وقت اتنے ہی تولے سونے کی رقم یا اتنے ہی ڈالر یا پونڈ کی شکل میں وصولی کی جائے۔ کاروباری قرضوں پربالخصوص ان ضابطوں کا اطلاق کیا جائے، تاکہ کاروباری لوگ بلاوجہ محدود سرمایہ رکھنے والے لوگوں کو پریشان کرنا چھوڑ دیں او ربروقت رقم کی ادائیگی کردیں اور ادھار بھی کرنا ہو تو اسے زیادہ لمبا نہ کریں۔
اس ضابطے سے یقینا قرضوں کے ڈوب جانے کے امکانات میں بھی کمی آئےگی اور چھوٹے موٹے کاروباریوں کی مشکلات بھی کم ہوں گی۔ اس کے لئے پھر ایک عدالت کا قیام بھی ناگزیر ہوگا، جہاں ان معاملات کا فیصلہ ہوسکے۔ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے