مجموعہ علما اھل الحدیث کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت نہیں بلکہ گوجرانوالہ کے ایک نوجوان خطیب حافظ ارشد محمود حفظہ اللہ نے اپنے رفقاء کرام سے مشاورت کے بعد ایک واٹس اپ گروپ تشکیل دیا اور اس واٹس اپ گروپ کی ایک مشاورتی کمیٹی ہے اس مشاورتی کمیٹی نے اس مجموعہ کے قوانین وضع کیے اور باقاعدہ اجازت کے ساتھ پورے پاکستان سے بلا تخصیص و تفریق صرف علماء کرامحفظھم اللّٰہ کو اس میں شامل کیا جن میں سے قابل ذکر درج ہیں :
حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ جامعہ سلفیہ۔
حافظ شریف حفظہ اللہ مرکز التربیہ۔
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ۔
مفتی عبیداللہ عفیف حفظہ اللہ۔
شیخ عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ وار برٹن۔
شیخ یونس بٹ حفظہ اللہ وفاق المدارس السلفیہ۔
شیخ ابتسام الٰہی ظہیر حفظہ اللہ ابن العلامہ احسان الٰہی ظہیر (رحمہ اللہ)
شیخ عبدالمالک مجاھد حفظہ اللہ دار السلام ریاض۔
شیخ سیف اللہ خالد حفظہ اللہ دار الاندلس لاہور۔
شیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ۔
شیخ احسان الحق شہباز حفظہ اللہ۔
شیخ اسحاق زاھد حفظہ اللہ۔
حافظ عابد الٰہی حفظہ اللہ بیت السلام ریاض۔
ڈاکٹر عبدالرحمن یوسف حفظہ اللہ راجوال۔
قاری محمد یعقوب شیخ حفظہ اللہ تحریک حرمت رسول۔
قاری صہیب احمد میر محمدی حفظہ اللہ مدیر کلیۃ القرآن۔
الشیخ القاری ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ۔
ڈاکٹرشاہ فیض الابرار صدیقی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ۔
شیخ ابو عبدالمجید محمد حسین بلتستانی حفظہ اللہ۔
شیخ عبدالحفیظ روپڑی حفظہ اللہ۔
شیخ ابو بکر قدوسی حفظہ اللہ بن عبدالخالق قدوسی رحمہ اللہ مکتبہ قدوسیہ لاہور۔
محترم سلمان اعظم حفظہ اللہ اھل حدیث یوتھ فورس پاکستان۔
ڈاکٹر طاہر محمود حفظہ اللہ۔
شیخ عبید الرحمن محسن حفظہ اللہ راجوال۔
شیخ ضیاء الرحمن المدنی ابن الشیخ محمد ظفر اللہ( رحمہ اللہ الموسس جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی و غیرھم شامل ہیں حفظھم اللہ تعالی وسلمھم و حفظھم من شر الشیطان الانسی والجنی۔
اوراس مجموعہ کی مجلس شوری درج ذیل اراکین پر مشتمل ہے:
شیخ عبدالمنان راسخ حفظہ اللہ۔
شیخ رفیق طاہرحفظہ اللہ۔
شیخ عبدالماجد حفظہ اللہ۔
شیخ عبدالمنان ثاقب حفظہ اللہ۔
شیخ حافظ ارشد محمود حفظہ اللہ جو کہ مدیر مجموعہ بھی ہیں۔
اس سے قبل دو اجلاس منعقد ہو چکے تھے الحمدللہ سہ ماہی تیسرا اجلاس جو 28 جنوری 2016 بروزجمعرات بوقت 10:00 بجے صبح ولئ کامل حافظ محمد یحی عزیز میرمحمدی رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ کے گاؤں ‘‘میرمحمد’’ قصورکی عظیم دینی درسگاہ ‘‘روضۃ القرآن الکریم’’ میں منعقد ہوا۔نقیب محفل کے فرائض میزبان مجلس فضیلۃ الشیخ قاری صہیب احمد میرمحمدی حفظہ اللہ نے سرانجام دئیے، اجلاس کا آغاز 10:11منٹ پرفضیلۃ الشیخ قاری ابراھیم میرمحمدی حفظہ اللہ نے اپنی پرسوزآواز میں سورۃ النحل کے آخری رکوع کی تلاوت سے کیا۔
اور اس کے بعد قاری صہیب احمد حفظہ اللہ مدیر کلیۃ القرآن الکریم میر محمد نے ایجنڈے کے متعلق بریفنگ دی ،ایجنڈا میں تین اہم ترین موضوعات شامل تھے جو درج ذیل ہیں۔
1دعوت دین میں منھج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم طریقہ کار و اسالیب اور اصول و ضوابط۔
22سوشل میڈیا کے استعمال کے اصول و ضوابط اور فوائد حاصل کرنے کے آسان ذرائع۔
3نیشنل ایکشن پلان کے مضمرات افادیت اور انکی فکری و مثبت رخ کے ثمرات۔
اوراس کے بعد مجموعہ علماء اھل الحدیث کے قیام کے مقاصد سے اختصار کے ساتھ آگاہ کیا۔اور باقاعدہ اجلاس سے قبل مختصرتعارفی نشست ہوئی جس کا آغاز استاذ الاساتذہ حافظ مسعود عالم حفطہ اللہ نے کیا۔
موضوع اول: دعوت دین میں منہج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم طریقۂ کارواسالیب اوراسکے اصول وضوابط۔
تعارف کے بعد باقاعدہ اجلاس کا آغاز ہو جس میں قاری صہیب احمد حفظہ اللہ نے اپنی تعارفی گفتگو میں دعوت دین کے آغاز کے حوالے سے دار ارقم کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس مدرسے کا نصاب قرآن مجید اور معلم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تلامیذ صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین تھے اور یہاں سے دعوت دین کے اھداف کا تعین فرائض رسالت یعنی۔

يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ

کی روشنی میں کیا جا سکتا ہے۔اور دعوت کے تمام پہلوؤں کواختیارکیا یعنی فرداً بھی دعوت دی اور اجتماعی بھی ، عورتوں، بچوں اوربوڑھوں کو بھی دعوت دی، خود بھی گئے ، بلاکر بھی دعوت دی، اکیلے بھی گئے اور صحابہ کو بھی ساتھ لے کر گئے، کفارکو خطوط بھی لکھے۔
وفاق المدارس السلفیہ فیصل آباد کے مدیر شیخ یونس بٹ حفظہ اللہ نے اس علمی مذاکرے کا آغاز کیا کہ دعوت دین کے دو ھدف ہونے چاہیے
ایک یہ کہ: غیر مسلم کو مسلمان بنایا ہے
دوم یہ کہ :مسلمان کی اصلاح کرنی ہے۔
اور مسلمان کی اصلاح حکمت پر مبنی دعوت سے ہی ممکن ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں منافقین کے نفاق واضح اور ثابت ہو جانے کے باوجود ان پر حکم نہیں لگایا ان کی تکفیر و تفیسق سے اجتناب کیا اور مزید یہ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین سے لا علمی میں کوئی شرکیہ کام سرزد ہو ا بھی تو انہیں دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیا۔یعنی کافر اور مشرک کو مسلمان بنائیں نہ کہ مسلمان پر حکم لگا کر اسے دین سے متنفر کریں۔
مجموعہ علما اھل الحدیث کے ایڈمن حافظ ارشد محمود حفظہ اللہ نے اس گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ دعوت دین کے طرق و اسالیب قرآن مجید نے بیان کر دیے ہیں اور ہمیں ان اصولوں کے ذریعے ہی دعوت دینی چاہیے :
اصل اول:

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ  مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ [التوبة: 128]

داعی کو مدعوین کے لیے خیر خواہ ہونا چاہیے۔
اصل دوم:

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ [آل عمران: 159]

داعی کو درشت مزاج نہیں ہونا چاہیے ورنہ مدعوین نہ صرف داعی سے بلکہ دین سے بھی متنفر ہو جاتے ہیں
اصل سوم:

ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ [النحل: 125]

داعی کی دعوت حکمت و مصلحت پر مبنی ہونی چاہیے۔
حافظ ارشد محمود حفظہ اللہ کی گفتگو کے آخری حصے سے شیخ عبدالمنان راسخ نے ایک خوبصورت فائدہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ: دعوت دین میں سب سے اہم ترین بات داعی اور مدعو کے مابین تعلق اور رشتہ ہے جو خیر خواہی پر مبنی ہونا چاہیے اور اس کا تعلق دنیاوی مفادات کا حصول نہ ہو۔اور مزید کہا کہ دلائل میں اختلاف کے باوجود اختلاف رائے کو برداشت کیا جائے اور مدعو کے ساتھ سیرت طیبہ کی روشنی میں تعامل کیا جائے۔یہاں تک کہ مدعوکی بے رخی اورنظراندازی سے صرف نظرکرے اور ہروقت دعوت کے لئے تیاررہے
اس کے بعد کراچی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے استاد ڈاکٹرشاہ فیض الابرار صدیقی (جو بطور خاص اس اجلاس میں شرکت کے لیے کراچی سے تشریف لائے تھے ) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: حالات حاضرہ کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں فقہ الدعوۃ پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور اس حوالے سے ایک اہم ترین قدم یہ کہ ہمیں اپنے مدارس میں دعاۃ کی تیاری کے لیے شعبہ جات قائم کرنے چاہیے کیونکہ ہمارے طلبا نصوص اور متون کو تو یاد کر لیتے ہیں لیکن ان کی تطبیق فقہ الواقع کی روشنی میں کرنا بسا اوقات مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتی ہے اور اسی وجہ سے ہمارے نوجوانوں میں فکری گمراہی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور آخر میں انہوں نے ایک خوبصورت بات کہہ کر اپنی گفتگو ختم کی کہ داعی کو مدعو کے ساتھ رابطہ مستقل بنیادوں پر قائم رکھنا چاہیے کہ دعوت کے بعد اصلاح اور رہنمائی کا مرحلہ بھی مدعو کو درپیش ہوتا ہے۔
محترم انجنئیر عبدالقدوس سلفی حفظہ اللہ اسلام آباد سے تشریف لائے تھے انہوں نے کہا: نبوت سے ماخوذ اسالیب دعوت میں غیر مسلمین سے تعلقات اس بنیاد پر ہونے چاہیے کہ انہیں اسلام کی طرف لایا جائےلہٰذا فلاحی خدمات کی بنیاد پر بھی دعوت دی جا سکتی ہے اور دوسری بات انہوں نے یہ کی : ایک داعی میں وہ خوبیاں ہونی چاہئیں جورسول اللہ ﷺ میں خدیجہ رضی اللہ عنھا نے بیان کی

كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ

اور اس حوالے سے مدعوین کے ذاتی مسائل میں دلچسپی لی جائے۔
محترم حافظ عبدالسلام صاحب (گوجرانوالہ ) نے کہا: داعی کو کردارکا صاف اوراجلاہونا چاہئے تاکہ اس کا عمل بھی لوگوں کیلئے دعوت بنے جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں اپنے کردار کو اپنی دعوت پر دلیل بنایا کہ بدترین مخالفین بھی صادق اور امین کے نام سے جانتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی بیان کیا گیا ہے:
أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟ , قَالُوا: نَعَمْ مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا’’ ‘‘فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ (صحيح البخاري (6/ 111)
اہل حدیث یوتھ فورس کے نمائندے محترم حافظ سلمان اعظم حفظہ اللہ نے داعی کی صفات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ داعی کو صبراورمستقل مزاجی سے دعوت دینی چاہئے اور ایک اہم بات انہوں نے یہ کہ ہمیں اپنے طریقہ کار میں تبدیلی لانا ہو گی کہ ہمیں مساجد سے نکل کر بازاروں، گلی کوچوں، چوراہوں اورچورستوں میں بیٹھنے اورآنے جانے والوں کوبھی دعوت دینی چاہئے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقامی میلوں میں جایا کرتے تھے۔
محترم حافظ عرفان اسعد حفظہ اللہ بھکر نے انفرادی دعوت پرخصوصی توجہ دینے کے لیے کہا کہ اس وقت عصر حاضر کی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے فوائدبہت زیادہ ہیں اورجہاں ضرورت محسوس ہو اور موقع ملے تو اجتماعی دعوت کا بھی اہتمام کیا جائے۔
محترم ھشام الٰہی ظہیر حفظہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے احوال بیان کیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر شخص کو دعوت دی غریب کو امیرکو بھی حتی کہ بااثرافراد کو بھی، ہمیں بھی دعوت کا دائرہ کار بااثر افراد تک بڑھاناچاہئے اسکے فوائد زیادہ ہیں۔ایک شخص کی تبدیلی بہت سے افراد کی تبدیلی کا حتی کہ مکمل علاقے کے افراد کی تبدیلی کا سبب بنتی ہے۔
ڈاکٹرطاہرمحمود حفظہ اللہ نے کہا: تعلیم برائے دعوت اورتعلیم برائے اصلاح وتربیت کا اہتمام کرنا چاہئے ، سکول،کالجزاوریونیورسٹیزمیں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو اپنی دعوت میں اولین ترجیح دینی چاہئے۔دعوت میں میڈیا کا بھرپوراستعمال کیاجائے۔لوگوں کیلئے ماہانہ، ہفتہ وار فہم القرآن ، فہم حدیث کی کلاس کا اھتمام مساجد سے باہرکیاجائے۔
فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس حوالے سے ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی کہ داعی کو حالات حاضرہ سے مکمل واقفیت ہونی چاہئے ، موجودہ دورکے علوم کے حوالے سے واقفیت بھی بہت ضروری ہے، اسے ہمہ جہت مطالعہ کا عادی ہونا بھی ضروری ہے، اور ہرطرح کے موضوع اوراس کے دلائل سے آگاہی ضروری ہے۔
اس موضوع پر آخری گفتگوقاری محمد یعقوب شیخ حفظہ اللہ نے کی انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنا موقف واضح انداز میں پیش کرناچاہئے لیکن انداز نرم ، شائستہ اورچاشنی والاہونا چاہئے۔دعوت دلائل ادلہ اور نصوص سے مزین ہونی چاہئے، غیرمسالک عوام اورعلماء کو بھی محبت اورپیاربھرے اندازمیں دعوت دینے کی ضرورت ہے۔
اس اجلاس کا دوسرا اہم موضوع سوشل میڈیاکے استعمال کے اصول وضوابط سے متعلق تھا۔
اس موضوع پر گفتگو کو آغاز محترم رفیق طاہرحفظہ اللہ جو کہ مجموعہ علمااھل الحدیث کی مشاورت کمیٹی کے رکن بھی ہیں اور سوشل میڈیا پر کافی دسترس اور خدمات انجام دے رہے ہیں اس حوالے سے انہوں نے اپنی ایک ویب سائٹ بھی بنائی ہوئی ہے انہوں نے کہا:
سوشل میڈیا کی موجودہ دور میں اہمیت واضح اظہر من الشمس ہے کہ جیسےدعوت دین کے لیے ایک داعی اپنے اردگرد لوگوں کو دعوت دیتا ہے اسی طرح سوشل میڈیابھی دعوت کیلئے ایک وسیع میدان ہے جس کے ذریعے ہم اپنی بات ایک بہت بڑی تعداد تک پہنچا سکتے ہیں اورپھراستعمال کے حوالے سے کچھ نکات بیان کئے:
ا۔ سوشل میڈیاپرموجود لوگ مستقل مزاج نہیں ہوتے۔
۲۔ سوشل میڈیاپرموجود لوگ لمبی تحریریں نہیں پڑھتے90فیصد لوگ بمشکل 5سطروں والی تحریر پڑھتے ہیں۔لہٰذا لمبی تحریروں سے اجتناب کیا جائے کیونکہ سکرین پر نگاہیں جما کر پڑھنا بہت مشکل ہوتا ہےلہٰذا بہترین بات وہ ہے جو مدلل ہو اور مختصر ہو۔
۳۔ اگر کوئی طویل پیغام دینا بھی ہے تو مختلف اوقات میں دیں ، صبح ،دوپہر،شام یا اس طرح وقفے وقفے سے پیغام بھیجیں۔
۴۔ سب سے لمباآرٹیکل 800 الفاظ پرمشتمل ہوتاہے اس سے زائد الفاظ پرمشتمل تحریرنہ لکھی جائے۔
۵۔ سادہ تحریرکی بجائے تصویرزیادہ دیکھی جاتی ہے اورشئیربھی ہوتی ہے لہٰذا اپنی تحریرکوتصویری شکل میں پیش کریں۔
سوشل میڈیا کے حوالے سے گفتگو میں معروف مکتبہ قدوسیہ لاہور کے مدیر محترم ابوبکرقدوسی حفظہ اللہ نے کہا: سوشل میڈیا کے تین ٹولز سب سے زیادہ مشہور ہیں ایک واٹس اپ جس کا دائرہ کار بہت محدود ہوتا ہے اور دوسرا ٹویٹر جو کہ عوامی مزاج نہیں رکھتا اور تیسرا فیس بک جو کہ حقیقی معنوں میں عوامی سوشل میڈیا ہے۔سوشل میڈیا بھی معاشرتی اتار چڑھاو سے متاثر ہوتا ہےلہٰذا اگر تحریراس مسئلہ سےمتعلق ہوجس کی معاشرہ میں یا سوشل میڈیاپربحث چل رہی ہو تووہ تحریر لمبی ہونے کے باوجود پڑھی جاتی ہے، سوشل میڈیا کے جتنے بھی ٹولزہیں ان میں فیس بک واحد ٹول ہے جہاں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک دعوت پہنچائی جاسکتی ہے۔اس لئے اس پرتوجہ دی جائے لیکن ہمیں اپنارویہ اعتدال والابناناچاہئے اور انتہا پسندی سے اجتناب کیا جائے۔
اورمزید انہوں نے اپنی تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا : موجودہ مسائل سے متعلق فیس بک پرصفحات بنائے جائیں اورانکی نگرانی کیلئے علماء کی ایک ٹیم ہونی چاہئےجو وہاں لکھی جانے والی تحریروں کی کانٹ چھانٹ کریں۔
محترم ھشام الٰہی ظہیرحفظہ اللہ نے اس حوالے سے کہا کہ سوشل میڈیاکا مطلب ہے براہ راست لوگوں سے مخاطب ہونا، یہاں پہ آپکا مخاطب کوئی بھی ہوسکتاہےلہٰذا جو بھی بات کی جائے یہ امر مدنظر رکھا جائے کہ اس کے اثرات سے ایک بہت بڑا طبقہ متاثر ہوسکتا ہے اور فیس بک کے استعمال کرنے والوں کو ایک مفید مشورہ دیا کہ اپنا ٹیگ آپشن بند کریں کیونکہ جب دوست کوئی چیز اپ لوڈ کرتے ہیں تووہ آپ کو ٹیگ کردیتے ہیں اورآپ کے دیگردوست یہی سمجھتے ہیں کہ وہ تحریر،تصویر یا ویڈیو آپ نے اپ لوڈ کی ہے جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا۔اور سب سے اہم بات یہ کہ کوئی بھی چیزتحقیق کئے بغیرآگے شئیرنہ کی جائے کم ازکم گفتگومیں مکمل مسئلہ کا جواب دیا جائے۔
حافظ ارشد محمود حفظہ اللہ نے کہا: کسی بھی تصویر یا پیغام کو لائک کرنے سے قبل یہ دیکھ لیا جائے کہ یہ کس طرف سے پیغام لکھا گیا ہے کیونکہ بسااوقات تخریب کارانہ سوچ رکھنے والے ایسی باتیں جان بوجھ کر شئیر کرتے ہیں اور اس کے بعد جو جو انہیں لائک کرتا ہے پھر وہ نگرانی کی زد میں آ جاتا ہے
نوجوان محقق اور مورخ حافظ ابویحیٰ نورپوری حفظہ اللہ نے فیس بک کے حوالے سے سب سے اہم نکتہ یہ بیان کیا کہ فتنہ پردازوں کی کوئی بھی پوسٹ جو عام حالات میں اچھی ہواوراس میں کوئی فتنے والامواد نہ ہوتوبھی اس کو لائک اورشئیرنہ کریں۔کیونکہ وہ آپ کے لائک اور شئیرسے آپ کے دوستوں تک رسائی حاصل کرسکتاہے اوران کی گمراہی کا سبب بن سکتاہے۔ نیزاپنے دوستوں کی لسٹ تحقیق کے ساتھ مرتب کریں۔کوئی دوستی کی درخواست آئے توپہلے اسکی چھان بین کریں۔
محترم انجینئرسلمان علی حفظہ اللہ نے کہا : سوشل پروقت کا ضیاع بہت ہوتاہے، لہٰذااپنے وقت کو کارآمد بنائیں، لمباعرصہ غائب نہ رہیں بلکہ وقتاً فوقتاً اچھی اچھی باتیں اورچیزیں اپ لوڈ کرتے رہیں۔کسی بھی جگہ اپنی رائے پیش کرنے سے عارمحسوس نہ کریں ہوسکتاہے آپ کی رائے کسی کیلئے ہدائت کا ذریعہ بن جائے۔اس پر قاری صہیب احمد حفظہ اللہ نے سوشل میڈیا کے حوالے سے اس امر پر زور دیا کہ سوشل میڈیاکی مہارت رکھنے والے افراد کوچاہئے کہ وہ قواعد وضوابط کے کلپس ترتیب دے کرتمام کوبھیجیں تاکہ اچھے اندازمیں ان ٹولز کا استعمال کیا جاسکے۔
محترم محسن جاوید حفظہ اللہ نے ایک تجویز یہ پیش کی کہ فیس بک پربھی ‘‘مجموعہ علماء اھل الحدیث’’ بنایا جائے اورواٹس ایپ پرہونے والے مسئلہ کی تلخیص وہاں بھی پیش کردی جائے۔
سوشل میڈیا کا استعمال گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ لا محالہ وسعت اختیار کرتا جا رہا ہےلہٰذا اس حوالے سے نوجوان نسل کی تربیت بہت زیادہ ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیسے ممکن ہے اس حوالے سے قارئین جلد ہی اس کی عملی شکل دیکھ لیں گے کہ سوشل میڈیا ز کے ٹولز کے استعمال پر ویڈیو کلپس ترتیب جا رہے ہیں جو جلد ہی مجلہ اسوہ حسنہ کی ویب سائٹ اور جامعہ ابی بکر کے فیس بک صفحات پر پیش کیے جائیں گے۔جدیددنیاوی تعلیم یافتہ طبقہ سوشل میڈیا سے بہت زیادہ رہنمائی لیتا ہے یا مسجد یا مدرسہ آنا مناسب نہیں سمجھتےلہٰذا اس حوالے سے مختصر گفتگو کے ویڈیو کلپس تیار کیے جائیں
اجلاس کا تیسرا مرحلہ انفرادی اوراجتماعی تربیت میں منھج نبویﷺ اوراس کے فی زمانہ اسالیب
راجوال سے پروفیسرعبیدالرحمٰن محسن حفظہ اللہ اس موضوع پر گفتگو کا اغاز کیا تو ان کی گفتگو سابقہ اور موجودہ موضوع دونوں پر ہی محیط تھی انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کا استعمال ضرور کیا جائے لیکن دعوت دین میں ان لوگوں کو نہ بھولا جائے جو ہمارے اردگرد ہیں کہ ہمیں ان لوگوں کی فکر تو ہو جو ہم سے سینکڑوں اور میلوں دور رہتے ہیں لیکن اپنا گھر بار اور خاندان وغیرہ کو بھول جائیں مزید انہوں نے رسول اللہ علیہ وسلم کے ایک انتہائی خوبصورت فرمان کا ترجمہ اور مختصر وضاحت کی (جزاہ اللہ خیرا)

‘لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِي يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ بِيضًا، فَيَجْعَلُهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَاءً مَنْثُورًا’’

اورنصیحت فرمائی کہ ہمیں اپنی خلوت وجلوت میں اللہ سے ڈرناچاہئے۔ اوربس سوشل میڈیا پر ہی توجہ مرکوز نہیں کرنی چاہئے بلکہ زندہ انسانوں کودعوت دینے میں بھی آگے بڑھیں کیونکہ کردارکی تبدیلی کے امکانات دوافرادکی باہم ملاقات میں زیادہ ہوتے ہیں۔اس کیلئے فہم قرآن کورسز، نائٹ کلاسز، ماہانہ کلاسز، ایک گھنٹہ کلاسزکا اھتمام کرنا چاہئے۔خود میں تحمل اورتواضع کوپیداکریں اوراخلاق کواعلیٰ بنانے کی کوشش کریں۔
محترم رفیق طاہرحفظہ اللہ علماء کی کسرنفسی (تربیت کرنے میں)بعض اوقات طلبہ میں بے ادبی کو جنم دیتی ہے، اسکی مثال یوں سمجھئے کہ ایک استاد کسی طالب علم کی بے تکلفی اوربے ادبی کواس لئے برداشت کرتاہے کہ یہ میرے ساتھ بات کررہااس لئے کوئی حرج نہیں اس سے طالب علم کو مزیدہمت اورشیطانی مدد ملتی ہے جس سے وہ بے ادب بن جاتاہے۔اسی طرح طلبہ کی غلطیوں سے چشم پوشی بھی درست نہیں ، بات کو ہمیشہ مثبت انداز میں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
محترم عبدالمنان راسخ حفظہ اللہ طلبہ میں ذکراللہ کی معرفت کواجاگرکیاجائے اس سے ان کے کردارمیں غیرمعمولی تبدیلی آئے گی۔عموماً اذکار پڑھے جاتے ہیں ان میں اللہ کی کیا صفات اورتعریف بیان کی جارہی ہے یا کیا مانگا جارہاہے اس سے نابلد ہوتے ہیں۔اس حوالے سے انہوں نے شیخ عبدالرزاق العباد کی معروف کتاب فقہ الادعیہ کے مطالعہ پر زور دیا
وقت کی کمی کے پیش نظر اس مرحلے کی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے قاری صہیب احمد حفظہ اللہ نے کہا کہ حق گوئی کا التزام کریں ، دلائل کے ساتھ گفتگوکریں لیکن جیتنے کی تمنا ترک کردیں۔تعبیراچھی کرلیں تواس سے بھی کافی مشکلات کم پڑجائیں گی، یا پھرکچھ وقت کیلئے خاموشی ہی اختیار کرلیں۔
اجلاس کاتیسراموضوع: نیشنل ایکشن پلان کے مضمرات، افادیت اورانکے فکری ومثبت رخ کے ثمرات۔
۱۔ سانحہ پشاور کے بعد حکومت نے دہشت گردی میں ملوث سزائے یافتہ مجرموں کی پھانسیوں پرعمل در آمد شروع کیا۔
۲۔ ماضی میں کمزور قوانین کے باعث مجرمان سزاؤں سے بچتے رہےلہٰذا فوجی افسران کی سربراہی میں اسپیشل ٹرائل کورٹ (فوجی عدالتیں) قائم کئے جائے گے۔ان خصوصی عدالتوں کی مدت 2 سال ہوگی۔
۳۔ ملک بھر میں کسی قسم کی عسکری تنظیموں اور عسکری جتھوں کی اجازت نہیں ہوگی۔
۴۔ انسداد دہشت گردی کے ادارے نیکٹا کو مضبوط اور فعال بنایا جارہاہے۔
۵۔ نفرت انگیز تقاریر، دہشت گردی اور فرقہ واریت کو فروغ دینے والے اخبارات ،میگزین اور اس طرح کے دیگر چیزوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے گی۔
۶۔ دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کی ہر قسم کی مالی امداد کے راستے بند کئے جائے گے اور مالی طور پر دہشت گردوں کی مدد کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
۷۔ کسی تنظیم پر پابندی کے بعد اس تنظیم کو کسی اور نام سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
۸۔ دہشت گردی کے خلاف اسپیشل فورس قائم کیا جائے گا۔
۹۔ مذہبی انتہا پسندی کو روکا اور اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
۱۰۔ دینی مدارس کے رجسٹریشن اور ضابطہ حدود کا اہتمام کیا جائے گا۔
۱۱۔ پرنٹ اور الیکٹرونک دونوں میڈیا پر دہشت گردوں کی نظریات کی تشریح کرنے پر مکمل پابندی ہوگی۔
۱۲۔ جنگ کے متاثرین کی بحال کوجلد ازجلدیقینی بنایا جائے گا اور قبائلی علاقہ جات میں تنظیمی اصلاحات کئے جائیں گے۔
۱۳۔ دہشت گردوں کے معاشرتی نیٹورکس کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔
۱۴۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر دہشت کی فروغ کی روک تھام کے لیے فوری طور پر اقدامات کئے جائیں گے۔
۱۵۔ ملک کے ہر حصے کے طرح پنجاب میں بھی انتہا پسندی کیلئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی جائے گی۔
۱۶۔ کراچی میں جاری آپریشن کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
۱۷۔ وسیع تر سیاسی مفاہمت کیلئے تمام اسٹیک ہولڈر کی طرف سے حکومت بلوچستان کو مکمل اختیارات دیئے جائے گے۔
۱۸۔ فرقہ واریت کو فروغ دینے والے عناصر کے خلاف فیصلہ کن کاروائی ہوگی۔
۱۹۔ افغان پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے ساتھ ساتھ ایک جامع پالیسی تشکیل دی جائے گی۔
۲۰۔ تمام صوبوں کے استخباراتی اداروں کو دہشت گردوں کے مواصلات تک رسائی دی جائی گی۔
گزشتہ ہفتے مجموعہ علماء اہل حدیث میں نیشنل ایکش پلان کے حوالے سے دو روزہ گفتگو کا اہتمام کیا گیا تھا، اس تمام گفتگو کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کے سامنے اس نیشنل ایکشن پلان کی روشنی میں مستقبل کیلیے منصوبہ بندی، تعلیمات اور سفارشات پیش کی جا رہی ہیں جو کہ راقم (رفیق طاہر)نے مرتب کی ہیں۔
اللہ تعالی اس گفتگو میں حصہ لینے والے تمام مشایخ کو جزائے خیر سے نوازے۔
نیشنل ایکشن پلان درحقیقت پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے مل کر ترتیب دیا ہے اور اس کا اصل اور اہم ھدف دہشت گردی کا خاتمہ ہے اس حوالے سے انہوں ملکی حالات کے پیش نظرحکومت نے کچھ قواعد وضوابط مرتب کئے ہیں جن کا مقصد ملکی سالمیت ہے اورانہیں نیشنل ایکشن پلان کا نام دیاگیاہے۔اس اہم موضوع پرمجموعہ علماء اھل الحدیث کے اجلاس میں مختلف شیوخ نے اپنے خیالات عالیہ کا اظہارکیا۔ اور درج ذیل باتیں منظور کی گئی
نیشنل ایکشن پلان کو من وعن لاگو کروانے کی ضرورت ہے۔
mنیشنل ایکشن پلان کی شقوں سے خیر ہم نے خود پیدا کرنی ہے کوشش یہ ہو کہ قانون سے تصادم کے بغیر حق بات لوگوں تک پہنچائی جائے، اور یہ ایک سنہری موقع ہے کہ کتاب و سنت کے منہج کو لوگوں میں فرقہ واریت سے پاک انداز میں عام کیا جائے۔
mاپنی تقریر، تحریر، اور گفتگو میں شستہ اور شائستہ زبان استعمال کی جائے، صرف اس لیے نہیں کہ قانون سخت ہے، بلکہ اس سے پہلے اس لیے کہ اللہ تعالی کے سامنے اپنے ہر لفظ کا جوابدہ ہونا ہے۔
mنیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں الحاد اور لا دینیت کو شتر بے مہار نہیں چھوڑا جائے گا۔
mاخلاقی برائیوں (فحاشی، عریانی، جھوٹ، بدعنوانی، دھوکہ دہی، حق تلفی، ملاوٹ وغیرہ) کی روک تھام کیلیے مؤثر اور جامع منصوبہ بندی درکار ہے، نیز ان برائیوں کو محض برائی کی وجہ سے ختم نہ کیا جائے بلکہ ساتھ میں یہ بات بھی اجاگر کی جائے کہ یہ بھی عقیدہ توحید میں شامل ہے، اللہ تعالی کی فرمانبرداری کا حصہ ہے، اس طرح سے ہم عقیدہ توحید کا پرچار غیر محسوس طریقے سے بھی کر سکیں گے۔
mلاؤڈ اسپیکر کے بارے میں ضابطہ اخلاق پر اپنے علاقے میں مکمل عمل درآمد کروایا جائے، اور لاؤڈ اسپیکر پر سوائے اذان اور عربی خطبہ کے کچھ بھی نہ ہونے دے، اگر کوئی صلاۃ یا کچھ اور پڑھنے کی کوشش کرے تو فوری 15 پر مطلع کریں، قریبی تھانے میں اطلاع کرنے کا فائدہ کم ہی ہوتا ہے، اس لیے 15 کو ترجیح دی جائے۔
mگلی محلے اور راستوں میں رکشے وغیرہ پر چلتے گانے اور ڈیک بھی بلند آواز سے چل رہے ہوں تو پھر بھی اس کی اطلاع بھی 15 کو کریں۔
mٹیلی فون کالز، سماجی رابطے کی ویب سائٹس کو محتاط انداز میں استعمال کیا جائے، اور شنید ہے کہ 800 کے قریب ایسے الفاظ ہیں جن کے بولنے پر فوری خود کار طریقے سے ریکارڈنگ شروع ہو جاتی ہے۔
mاگر کسی سے ماضی میں ایسی کوئی نفرت آمیز گفتگو، تحریر، یا تقریر ہوئی ہے تو وہ ڈی سی او کے سامنے پیش ہو اقرار نامہ والا اسٹام جمع کروائے نیز جماعت کے ذمہ داران کو بطور شہود شامل کر کے گرفتاری سے بچ سکتا ہے۔
mاور اگر کسی مواد پر غلط پابندی لگائی گئی ہے تو قانونی چارہ جوئی کے ذریعے پابندی کو ختم بھی کروایا جا سکتا ہے۔
mاگر کسی نے علمی انداز کیساتھ شائستہ اور شستہ زبان میں رد لکھا ہے تو وہ متحدہ علما بورڈ کو پیش کر کے پہلے اجازت حاصل کرے اور پھر کتاب بلا خطر نشر کی جا سکتی ہے۔
mکتاب متحدہ علما بورڈ کو ارسال کرنے کیلیے: حافظ فضل الرحیم اشرفی (چیئرمین متحدہ علما بورڈ) علی ہجویری کمپلیکس لاہور فون: 04299238871 04237248788
mاگر کسی کتاب میں ہیٹ میٹریل موجود ہے تو متحدہ علما بورڈ کی نشاندہی کی روشنی میں اسے ختم کر کے کتاب چھاپنے کی اجازت لی جا سکتی ہے۔
mاگر کوئی کتاب ناشرین چھاپنے سے کترا رہے ہیں تو اس کتاب کو چھاپنے کیلیے اجازت نامہ متحدہ علما بورڈ سے لیا جا سکتا ہے۔
mکبار اہل علم کے طرز تالیف و تقریر سے اپنے لیے رہنمائی ضرور لیں۔
mتحریر کے میدان میں دار السلام کی دو کتب متحدہ علما بورڈ کے سامنے پیش کی گئی اور انہوں نے ان پر کوئی اعتراض نہیں لگایا بلکہ انداز تحریر کو علمی اور مثبت قرار دیتے ہوئے قابل اشاعت قرار دیا ہے، چنانچہ اس حوالے سے دارالسلام کے ذمہ داران سے بھی معاونت اور رہنمائی لی جا سکتی ہے۔
mتکفیر معین اور اقامت خلافت کے حامل خود ساختہ نظریوں اور تنظیموں سے بالکل اجتناب کیا جائے۔
mضابطہ اخلاق میں شامل “مستند مفتی” کی اصطلاح سامنے رکھتے ہوئے فتوی نویسی کیلیے باقاعدہ سے کورس کروائے جائیں۔
mعلماء اور خطبا کیلئے ٹریننگ/ ریفریشر کورسز ترتیب دئے جائیں جن میں اسالیب دعوت و خطابت پر باقاعدہ ورکشاپس ہوں۔
mمیڈیا پر گفتگو کیسے کی جائے اور میڈیا پراپیگنڈہ کا مسکت جواب دینے کیلیے افراد تیار کیے جائیں، اس کے لیے پیغام ٹی وی ہمارے لیے ایک اچھا تربیتی پلیٹ فارم ثابت ہو سکتا ہے۔
mوفاق المدارس السلفیہ کو اپنے ماتحت اداروں کو ایک سرکولر جاری کرنا چاہئے کہ وہ اپنے اساتذہ و طلبہ پرنظر رکھیں کہ کہیں وہ ایسی گھناونی سرگرمیوں میں ملوث تونہیں اوردو یا تین دن کی تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے جو ہرشہر میں ہوں اوروہاں کے تمام مدارس کے اساتذہ کی تربیت کی جائے۔
mاپنی تحریروں اورتقاریرکو ایسی چیزوں سے بالکل پاک رکھیں جن سے غیرملکی عناصرکو مدد ملتی ہو اورحکومت اور فوج کے خلاف نظریات ظاہرہوتے ہوں۔
mمحترم ابوبکرقدوسی حفظہ اللہ: نیشنل ایکشن پلان کی حدود کو دیکھا جائے اوران پرعمل کو یقینی بنایا جائے اگرکوئی متنازعہ کتاب سامنے آئی تو اس کی 4 عدد کاپیاں کرواکے مکتبہ قدوسیہ پربھیجیں ہم اس کو بین کروانے کیلئے علماء بورڈ میں پیش کریں گے اور اسکی مکمل پیروی کریں گے
آخر میں پیغام ٹی وی چینل کے پروڈیوسر محترم عاصم حفیظ حفظہ اللہ نے سوشل میڈیا کے حوالے سے اعداد و شمار پر مبنی معلوماتی پریزنٹیشن پیش کی جس میں انہوں نے کہا: میڈیا معاشرتی تبدیلی کا ہتھیارہے ، امریکہ میں جیسے نیوورلڈ آرڈر کا ادارہ ہے ویسے ہی نیوورلڈ انفارمیشن آرڈر کا ادارہ ہے۔ذرائع ابلاغ کا استعمال ہرایک کیلئے یکساں ممکن ہے، اس کا میسج بھی جلد لوگوں تک پہنچ جاتاہے اوریہاں اپنی بات کے اظہار کا موقع ملتا ہے۔ مزید انہوں نے مدارس میں ذرائع ابلاغ کے استعمال کی تعلیم دی جانی چاہئے اس حوالے سے میڈیا ورکشاپس ہونی چاہئیں۔میڈیا پر آنے والی مباحث کو جمع کرکے انہیں علماء کے سامنے پیش کر کے ان سے انکی رائے معلوم کر کے لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔میڈیا کی تعلیم اپنے نظریات کے پرچار کیلئے بھی ضروری ہے۔
٭حکومت سے مطالبہ:
mحکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ سیاست اور صحافت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کیلیے بھی ایک ضابطہ اخلاق تیار کیا جائے، اور اگر پہلے سے موجود ہے تو اسے فعال کیا جائے۔
mنیشنل ایکشن پلان کی تمام تر اصطلاحات اور تشریحات سب کی سب قومی اخبارات اور ویب سائٹس پر قومی اردو زبان میں (یونیکوڈ فارمیٹ میں) رکھی جائیں
————-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے