عَلَامَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ

انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے

3-17- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ جَبْرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ آيَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ

یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے شاہد کے طور پر ذکر کی جو کہ رباعی ہے۔

وروى بسند آخر حَد َّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ جَبْرٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِي اللَّه عَنْه به (کتاب مناقب الانصار باب حب الانصار، رقم الحديث: 3784 )

معانی الکلمات :
آيَةُ : علامت ، نشانی
حُبُّ : محبت کرنا
الْإِيمَانِ : لغوی معنی تصدیق کرنا
الْأَنْصَارِ: مددگار ، رسول اکرم ﷺ کے وہ اصحاب جنہوں نے مدینہ منورہ میں آپ ﷺ اور مہاجر صحابہ کی مدد کی ۔
النِّفَاقِ : پھوٹ ، دشمنی ، ظاہر میں دوست باطن میں دشمن (إظھار الإيمان وإبطان الکفر)
بُغْضُ : نفرت کرنا ، عداوت رکھنا
ترجمہ : ہمیں حدیث بیان کی ابوالو لید، ان کو شعبہ نے، اُن سے عبداللہ بن جبرروایت کرتے ہیں کہ میں نے سنا سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم ﷺ سے (نقل کرتے ہیں) کہ آپ ﷺ نے فرمایا انصار سے محبت کرنا ایماندار ہونے کی نشانی ہے اور انصار سے دشمنی رکھنا منافق ہونے کی علامت ہے۔
Translation:
The Prophet said, “Love for the Ansar is a sign of faith and hatred for the Ansar is a sign of hypocrisy.”
تراجم الرواۃ:
1نام ونسب: ابو الوليدھشام بن عبد الملک الباھلی الطیالسی کبار حفاظ حدیث میں سے ہیں بصرہ سے ان کا تعلق ہے۔
کنیت: ابو الولید۔
محدثین کے ہاں رتبہ:امام ، حافظ، شیخ الاسلام
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابو الولید متقن تھے ۔ امام احمد بن عبد اللہ العجلی فرماتے ہیں کہ ابو الولید ثقہ اور ثبت سے متصف تھے۔امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نےابو زُرعہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ابو الولید ’’ادرک نصف الاسلام کان إماماً فی زمانہ جلیلاً عند الناس (الجرح والتعدیل ۹/۶۶) نصف اسلام کے عالم ہونے کے باوجود وہ لوگوں کےہاں جلیل القدر امام بھی تھے۔
پیدائش:133ھجری ۔
وفات:227 ھجری میں ہوئی۔
2 نام ونسب : عبد اللہ بن عبد اللہ بن جابر بن عتيکاور کہا جاتا ابن جبر بن عتیک الانصاری المدنی اور ان کا تعلق بنی معاویہ سے ہے۔
محدثین کے ہاں رتبہ : اسحاق بن منصور اور عباس الدوری امام یحییٰ ابن معین سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں انہیں ثقہ قرار دیتے ہیں اور اسی طرح عبد الرحمن بن ابی حاتم اور امام نسائی بھی ان کی تعدیل کی ہے۔اور ابن حبان رحمہ اللہ انہیں کتاب الثقات میں ذکر کیاہے۔
(تہذیب الکمال فی أسماء الرجال للمزي)
3 شعبہ بن الحجاج
4اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا تعارفحدیث نمبر 2 میں گزر چکا ہے۔
تشریح :
انصار اہل مدینہ کا لقب ہے جو انھیں مکہ سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کی امداد واعانت کے صلہ میں دیاگیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور آپ کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادبھی مدینہ تشریف لے آئی تو اس وقت مدینہ منورہ کے مسلمانوں نے آپ کی اور دیگر مسلمانوں کی جس طرح امداد فرمائی۔ تاریخ اس کی نظیرپیش کرنے سے قاصرہے۔ ان کا بہت بڑا کارنامہ تھا جس کو اللہ کی طرف سے اس طرح قبول کیا گیا کہ قیامت تک مسلمان ان کا ذکر انصار کے معزز نام سے کرتے رہیں گے۔ اس نازک وقت میں اگراہل مدینہ اسلام کی مدد کے لیے نہ کھڑے ہوتے تو عرب میں اسلام کے ابھرنے کا کوئی موقع نہ تھا۔ اسی لیے انصار کی محبت ایمان کا جزو قرار پائی۔ قرآن پاک میں بھی جابجاانصار ومہاجرین کا ذکر خیرہوا ہے ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَــصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ(سورۃ الانفال72)

جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے ان کو پناہ دی اور مدد کی یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔
اور فرمایا:

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ (سورۃ الأنفال : 74)

جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد پہنچائی۔ یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔

انصار کے مناقب وفضائل میں اور بھی بہت سی احادیث مروی ہیں۔ جن کا ذکر موجب طوالت ہوگا۔ انصار کے فضائل کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے خود اپنے بارے میں فرمایا لَوْلاَ الهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الأَنْصَارِ ( بخاری) اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں بھی اپنا شمار انصار ہی میں کراتا۔ اللہ پاک نے انصار کو یہ عزت عطا فرمائی کہ قیامت تک کے لیے رسول رحمت ﷺان کے شہرمدینہ میں ان کے ساتھ تشریف فرما رہے ہیں۔ ایک بار آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر سب لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو میں انصارہی کی وادی کو اختیار کروں گا۔ (صحیح البخاری 3779،صحیح مسلم 1059)اس سے بھی انصار کی شان ومرتبت کا اظہار مقصود ہے۔اسی لیے تو انصار سے محبت کو ایمان کا درجہ دیا گیاہے اور انصار سے نفرت کو نفاق کا نام ، نیک اور صالح لوگوں سے محبت کرنا ایماندار ہونے کی علامت ہے اور صالح لوگوں سے نفرت،بغض اور عداوت بے ایمان ہونے کی پکی نشانی ہے۔
جیسا کہ فرمان نبوی ﷺ ہے :

عَنِ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَنْصَارُ لَا يُحِبُّهُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُهُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ فَمَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللَّهُ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللَّهُ (صحیح البخاری :3783)

سیدنا براءرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: انصار سے صرف مومن ہی محبت رکھے گا اور ان سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا ۔ پس جو شخص ان سے محبت رکھے اس سے اللہ محبت رکھے گا اور جوان سے بغض رکھے گا اس سے اللہ تعالیٰ بغض رکھے گا۔
معلوم ہوا کہ انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے اور ان سے دشمنی رکھنا بے ایمان لوگوں کا کام ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے