روزہ ارکان اسلام کاایک اہم رکن ہے۔
ارشاد الٰہی ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(بقرة:183)

’’اے ایمان والو !تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ۔‘‘
اللہ تعالی نےماہ رمضان کی فضیلت اجاگر فرمائی۔چونکہ رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے۔اسلئے اسےتمام مہینوں میں سےامتیازی حیثیت عطافرمائی۔

 چنانچہ فرمان الٰہی ہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ  ۭ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ  ۭ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ۡ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (بقرة:185)

’’ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اور روزہ رکھنا چاہے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں وہ چاہتا ہے تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس طرح کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو ۔‘‘

روزہ کا مقصد :

روزہ کا سب سے بڑا مقصد تقوی کا حصول ہے اور تقویٰ انسان کےاخلاق وکردار کے سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کرتاہے۔

لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ

’’روزے کے ذریعے تم پرہیز گار بن جاؤ گے۔‘‘
روزے سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے روزہ پاکیزگی اور یارسائی کی عملی مشق ہے جس کے ذریعے سے لوگ روحانی بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کرتے ، اپنے آپ کو خوبیوں سے آراستہ کرتے اور تقویٰ واصلاح نفس کے بلند درجات پہ فائز ہوتے ہیں۔
مسلم معاشرے کی تربیت اور تزکیۂ نفس میں رمضان المبارک کے اثرات واضح ہیں بنابریں شارع علیہ السلام نے نفلی طور پر بھی مختلف دنوں اور تاریخوں میں روزہ رکھنے اور اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب حاصل کرنے کی ترغیب دلائی ہے اور روزے کی برکت حاصل کرنے کے لیے سارا سال یہ مشق جاری رکہی جاسکتی ہے تاکہ جیسے ہی کوئی مسلمان اپنی نفسانی خواہشات کا کنٹرول اور دل کی سختی کو دور کرنے کی ضرورت محسوس کرے تو اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کے حصول کے لیے روزہ رکھ سکتاہے۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سےر وایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، بَعَّدَ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا

’’جس آدمی نے اللہ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے ستر(70) سال کی کی مسافت کے بقدر دور فرمائیں گے۔ (صحیح بخاری ، الحدیث : 2840 ۔ سیرت النبی ﷺ ڈاکٹر علی محمد صلابی ،جلد 2۔ ص:305۔306)
حافظ ابن القیم (م751ھ) روزہ کے مقصد درج الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ :
’’ روزہ کا مقصودیہ ہے کہ نفس انسانی خواہشات اور عادتوں کے شکنجہ سے آزاد ہوسکے اس کی شہوانی قوتوں میں اعتدال اور توازن پیدا ہو اور اس کے ذریعہ سے وہ سعادت ابدی کے گوہر مقصود تک رسائی حاصل کرسکے اور حیات ابدی کے حصول کے لیے اپنے نفس کا تزکیہ کرسکے ۔ بھوک اور پیاس سے اس کی ہوس کی تیزی اور شہوت کی حدت میں تخفیف پیدا ہو اور یہ بات یاد آئے کہ کتنے مسکین ہیں جو نان شبینہ کے محتاج ہیں وہ شیطان کے راستوں کو اس پر تنگ کر دے اور اعضاء وجوارح کو ان چیزوں کی طرف مائل ہونے سے روک دے جن میں کہ دنیا وآخرت دونوں کا نقصان ہے اس لحاظ سے یہ اہل تقویٰ کی لگام، مجاہدین کی ڈھال، اور ابرار ومقربین کی ریاضت ہے۔
( زاد المعاد 1/152)
روزہ کے مقاصد پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے حافظ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
’’ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :

اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ

’’روزہ ڈھال ہے۔‘‘
چنانچہ ایسے شخص کوجو نکاح کاخواہش مند ہو مگر استطاعت نہ رکھتا ہو روزے رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے اور اس کو اس کا تریاق قرار دیا گیا ہے مقصود یہ ہے کہ روزہ کے مصالح اور فوائد چونکہ عقل سلیم اور فطرت صحیحہ کی رو سے مسلمہ تھے۔ اس لیے اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی حفاظت کی خاطر محض اپنی رحمت اور احسان سے فرض کیا ہے ۔ ( زاد المعاد 1/152)
امام الہند مولانا ابو الکلام آزادرحمہ اللہ ( م 1958ء) روزہ کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’پس روزہ وہ ہے جو ہمیں پرہیزگاری کا سبق دے روزہ وہ ہے جو ہمارے اندر تقویٰ اور طہارت پیدا کرے روزہ وہ ہے جو ہمیں صبر وتحمل شدائد وتکالیف کا عادی بنائے ، روزہ وہ ہے جو ہماری بہیمی قوتوں اور غضبی خواہشوں کے اندر اعتدال پیدا کرے، روزہ وہ ہے جس سے ہمارے اندر نیکیوں کا جوش ،صداقتوں کا عشق، راستبازی کی شیفتگی اور برائیوں سے اجتناب کی قوت پیدا ہو یہی چیز روزہ کا اصل مقصود ہو اور باقی سب کچھ بمنزلہ وسائل وذرائع کے ہے۔ (ارکان اسلام ، ص:284)
رمضان کو روزہ کے ساتھ کیوں مخصوص کیاگیا؟
وہ کون سا مقدس مہینہ تھا جس میں کلام الٰہی بندوں کو پہنچنا شروع ہوا وہ ماہ رمضان تھأ۔

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ (بقرۃ :185)

’’ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں ‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے رمضان میں روزے فرض کیے ہیں اور ان دونوں کو ایک سلاتھ لازم وملزوم قرار دیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان دو برکتوں اور سعادتوں کا اجتماع بڑی اہمیت کا حامل ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا اور گم کردہ راہِ انسانیت کو صبح صادق نصیب ہوئی ۔
حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (م 1176ھ) فرماتے ہیں کہ :
’’کسی اور مہینہ کی تعین ہونا ہی تھی تو اس کے لیے اس مہینہ سے بہتر کوئی مہینہ نہ تھا جس میں قرآن مجید نازل ہوا ملت مصطفوی کی بنیاد زیادہ مستحکم ہوئی مزید براں یہ کہ شب قدر کا امکان بھی زیادہ تر اسی مہینہ میں ہے۔(حجۃ اللہ البالغہ 2/37)

حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :

’’اس مہینہ کو قرآن مجید سے خاص مناسبت ہے اور اسی مناسبت کی وجہ سے قرآن مجید اسی مہینہ میں نازل کیاگیا یہ مہینہ ہر قسم کی خیروبرکت کا جامع ہے آدمی کو سال بھر میں مجموعی طور پر جتنی برکتیں حاصل ہوتی ہیں وہ اس مہینے کے سامنے اس طرح ہیں جس طرح سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ،اسی مہینہ میں تسکین باطنی کا حصول پورے سال اطمینان باطنی کے لیے کافی ہوتاہے اور اس میں انتشار اور پریشان خاطری بقیہ تمام دنوں بلکہ پورے سال کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے قابل مبارک  ہیں وہ لوگ جن سے یہ مہینہ راضی ہوگیا اور ناکام وبد نصیب ہیں وہ لوگ جو اس کو ناراض کرکے ہر قسم کی خیر وبرکت سے محروم ہوگئے۔ (مکتوبات امام ربانی 1/8)

مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :

’’ہم کو صاف بتا دیا گیا کہ مفروضیت صیام ورمضان صرف اس لیے ہے کہ ہم کو اس عطائے ناموس فرقان وھدیٰ(قرآن) پر خدا کا شکر بجا لائیں اور اس کے نام کی تقدیس کریں پس کون مسلم ہے جو خدا کے اس احسان اکبر اور نعمت عظیمہ کے شکر کے لیے تیار نہیں اور اس کی تقدیس کے لیے آمادہ نہیں اس کی تقدیس وتمجید میں خود کو فراموش کرو اور اس کے کلام کی عظمت کو یاد کرو ۔ (ارکان اسلام ص : 227)

روزہ کی فضیلت :

ارشاد نبوی ﷺ ہے :

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

’’جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان واحتساب کے ساتھ رکھے اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دے گا ۔ (صحیح بخاری)

لا حاصل روزہ :

رسول اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :

مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ

’’جو شخص روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ (صحیح بخاری)
اللہ تعالیٰ کے ہاں روزہ کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات ومنکرات سے بھی زبان وذہن اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور گناہ کی باتیں اور گناہ والے اعمال کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی پرواہ نہیں ۔ ( معارف اہلحدیث 4/112)
مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
پھر کتنے لوگ ہیں جو روزہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ایک سچے صائم کی پاک اور ستھری زندگی بھی انہیں نصیب ہے آہ میں ان لوگوں کو جانتا ہوں جو ایک طرف تو نمازیں پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں دوسری طرف لوگوں کا مال کھاتے، بندوں کے حقوق غصب کرتے ۔ عزیز واقارب کے فرائض پامال کرتے، بندگان الٰہی کی غیبتیں کرتے ان کو دکھ اور تکلیف پہنچاتے طرح طرح کے مکر وفریب کو کام میں لاتے ہیں یعنی اپنے دل کے شکم کو تو گناہوں کی کثافت سے آسودہ اور سیر رکھتے ہیں جب کہ ان کے جسم کا پیٹ بھوکا ہوتاہے کیا یہی وہ روزہ دار نہیں جن کی نسبت فرمایا کہ
كم من صائم ليس له من صوم إلا الجوع والعطش (صحيح البخاري)
’’ کتنے ہی روزہ دار ہیں جنہیں ان کے روزے سوا بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔‘‘ (ارکان اسلام ص : 285)
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ (م1999ء) لکھتے ہیں کہ :
شریعت اسلامی نے روزہ کی ہیئت اور ظاہری شکل پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کی حقیقت اور اس کی روح کی طرف بھی توجہ دی ہے اس نے صرف کھانے پینے اور جنسی تعلقات ہی کو حرام نہیں کیا بلکہ ہر اُس چیز کو حرام اور ممنوع قرار دیا ہے جو روزہ کے مقاصد کے منافی اور اس کی حکمتوں اور روحانی واخلاقی فوائد کے لیے مضمر ہے اس نے روزہ کو ادب وتقویٰ،دل اور زبان کی عفت وطہارت کے حصار میں گھیر دیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ :
تم میں سے کوئی روزہ سے ہو تو نہ بدکلامی اور فضول گوئی کرے نہ شوروشر کرے اگر کوئی اس کو گالی دے اور لڑنے جھگڑنے پر آمادہ ہو تو یہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں۔ (صحیح بخاری)
یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :
’’جس نے جھوٹ بولنا اوراس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو الله تعالیٰ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ۔ (صحیح بخاری)
وہ روزہ جو تقویء اور عفاف کی روح سے خالی اور محروم ہو وہ ایک ایسی صورت ہے جس کی حقیقت نہیں ایسا جسم ہے جس کی روح نہیں۔
حدیث میں آتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ :
’’کتنے روزہ دار ہیں کہ جن کو ان کے روزہ سے سوائے بھوک اور پیاس کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا اور کتنے ایسے عبادت گزار ہیں جن کو اپنے قیام میں شب بیداری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ (صحیح بخاری  بحوالہ : ارکان اربعہ ، ص:286)

اعتکاف :

ارشاد الٰہی ہے :

وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ(بقرۃ:187)

’’جبکہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں صاحب احسن البیان فرماتے ہیں کہ
’’عاکفون فی المساجد‘‘ سے استدلال کیا گیا ہے کہ  اعتکاف کے لئے مسجد ضروری ہے چاہے مرد ہو چاہے عورت۔ نبی اکرمﷺ کی بیویوں نے بھی مسجد میں اعتکاف کیا اس لئے عورتوں کا اپنے گھروں میں اعتکاف میں بیٹھنا صحیح نہیں ہے البتہ مسجد میں ان کے لئے ہرچیز کا مردوں سے الگ انتظام کرنا ضروری ہے تاکہ مردوں سے کسی طرح اختلاط نہ ہو جب تک مسجد میں معقول محفوظ اور مردوں سے بالکل الگ انتظام نہ ہو عورتوں کو مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے یہ ایک نفلی عبادت ہے جب تک پوری طرح تحفظ نہ ہو اس نفلی عبادت سے گریز بہتر ہے ۔‘‘ (احسن البیان ص:75۔76)
اعتکاف رمضان کے آخری عشرہ میں مسنون ہے ، اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہر طرف سے یک سو اور سب سے منقطع ہوکر بس اللہ تعالیٰ سے لَو لگا کے اُس کے درپر(یعنی کسی مسجد کے کونہ میں) پڑجائے اور سب سے الگ تنہائی میں ، اس کی عبادت اور اسی کے ذکر وفکر میں مشغول رہے یہ خاص اس کی عبادت ہے اس عبادت کے لیے بہترین وقت رمضان المبارک اور خاص کر اس کا آخری عشرہ ہی ہو سکتا تھا۔ اسی لیے اسی کو اس کے لیےانتخاب کیاگیا۔
مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
’’ہر مسلم آبادی میں چند نفوس مسلم کے لیے ضروری ہے کہ اواخر عشرہ رمضان میں مسجد کے ایک گوشہ میں شب وروز محویت اتباع نبوی، تلاوت کتاب عزیز، تفکر خلق سماوات وارض ذکر نعم الٰہی تذکر اسمائے حسنیٰ اور تحیت وتسلیم ادائے صلوٰۃ میں اس طرح بسر کریں کہ ان اوقات محدودہ کا کوئی لمحہ تذکر وتفکر سے خالی نہ ہو تاکہ ان اشخاص مقدسہ کا جلوہ اس کی آنکھوں میں پھرجائے۔ (ارکان اسلام ، ص:231)

 اعتکاف کا مقصد :

 اعتکاف رمضان کے فوائد ومقاصد کی تکمیل کے لیے ہے اگر روزہ دار کو رمضان کے پہلے حصے میں وہ سکون قلب ، فکر وخیال کی مرکزیت، انقطاع الی اللہ کی دولت، رجوع الی اللہ کی حقیقت اور اس کے درِ رحمت پہ پڑا رہنے کی سعادت حاصل نہیں ہوسکی تو اعتکاف کے ذریعہ وہ اس کا تدارک کرسکتا ہے۔ ( ارکان اربعہ ص 294)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ ( م 751ھ) فرماتے ہیں کہ :
’’ اعتکاف کی روح اور اس سے مقصود یہ ہے کہ دل اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہوجائے اور اس کے ساتھ جمعیۃ باطنی حاصل ہو۔ اشتعال بالخلق سے رہائی نصیب ہو اور اشتعال بالحق کی نعمت میسر آئے اور یہ حال ہوجائے کہ تمام افکار وترددات اور ہموم ووساوس کی جگہ اللہ کا ذکر اور اس کی محبت لے لے ہر فکر اس کی فکر میں ڈھل جائے اور ہر احساس وخیال اس کے ذکر وفکر اور اس کے رضا وقرب کے حصول کی کوشش کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے مخلوق سے اُنس کیے بجائے اللہ سے اُنس پیدا ہو، اور قبر کی وحشت میں جب کوئی اس کا غم خوار نہ ہوگا یہ اُنس اس کا زاد سفر بنے یہ ہے اعتکاف کا مقصد جو رمضان کے افضل ترین دنوں یعنی آخری عشرہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ ( زاد المعاد 1/178)
حکیم الامت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ( م 1176ھ) لکھتے ہیں :
’’چونکہ مسجد میں اعتکاف جمعیت خاطر،صفائی قلب، ملائکہ سے تشبّہ اور شب قدر کے حصول کا ذریعہ، نیز طاقت وعبادت کا بہترین مرقع ہے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کو عشرہ اواخر میں رکھا ہے اور اپنی امت کے محسنین وصالحین کے لیے اس کو سنت قرار دیا ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ 2/42)
رسول اللہ ﷺ نے اس پر ہمیشہ مداومت فرمائی
اور مسلمانوں نے بھی ہر دور میں اس کی پابندی کی
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے یہاں تک کہ آپ نے رحلت فرمائی پھر آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ  کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن نے اعتکاف کا معمول قائم رکھا۔
صحیح بخاری میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر رمضان میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے جس سال آپ ﷺ نے انتقال فرمایا تو آپ ﷺ نے بیس دن اعتکاف کیا۔
لیلۃ القدر (شب قدر)
فرمان الٰہی ہے :

اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ  وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ  لَيْلَةُ الْقَدْرِ ڏ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ سَلٰمٌ    ڕهِيَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ(سورة القدر)

’’یقیناً ہم نے اس شب قدر میں نازل فرمایا  تو کیا سمجھا کہ شب قدر کیا ہے؟  شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں (ہر کام) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل علیہ السلام) اترتے ہیں ۔ یہ رات سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر طلوع ہونے تک رہتی ہے ۔‘‘
اس میں ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے اور ہزار مہنیے 83 سال 4 مہینے بنتے ہیں یہ امت محمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا کتنا احسان عظیم ہے کہ مختصر عمر میں زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے کیسی سہولت عطا فرمائی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت ورحمت سے اس رات کو رمضان کے آخری عشرہ میں پوشیدہ رکھا ہے تاکہ مسلمان اس کی جستجو میں رہیں جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

تَحَرَّوْا لَيْلَةَ القَدْرِ فِي الوِتْرِ، مِنَ العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ

’’شب قدر کو تلاش کرو رمضان کے آخری دس راتوں میں طاق راتوں میں ۔ ‘‘ (صحیح البخاری)
مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ یہ وہ شب ہے جس میں اقوام عالم کی کئی قسمتوں کا فیصلہ ہوا یہ وہ شب ہے جس میں برکات ربانی ہم پر سب سے پہلی بارش ہوئی ، یہ وہ شب ہے جب اُس سینہ میں جو خزینہ نبوت تھا۔ کلام الٰہی کے اسرار سب سے پہلے منکشف ہوئے اور رحمت ہائے آسمانی نے زمین میں نزول کیا۔ ( ارکان اسلام ، ص 229)
شب قدر کی خاص دُعا :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ :
’’ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون سی رات شب قدر ہے تو میں اسی رات اللہ تعالیٰ سے کیا دعا مانگوں آپ ﷺ نے فرمایا یہ عرض کرو ۔

 اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي

’’اے میرے اللہ تو بہت معاف کرنے والاہے اور بڑا کرم فرما ہے اور معاف کردینا تجھے پسند ہے پس تو میری خطائیں معاف فرما دے۔ (جامع ترمذی، ابن ماجہ)
روزہ میں اسلام کا اصلاحی کردار
اسلام نے جس طرح دوسرے تمام فرائض وعبادات اور مناسک میں اپنا اصلاحی کردار ادا کیا ہے اس طرح اس نے روزہ کے مفہوم، آداب واحکام اور اس کی شکل اور طریقۂ کار میں اپنا یہ اصلاحی وانقلابی کردار ادا کیا ہے اور اس بات نے روزہ کو بہت آسان وخوشگوار فطرت سلیم سے بہت قریب، متعدد روحانی واجتماعی فوائد کا حامل اور معاشرہ پر پوری طرح اثر انداز کردیا ہے۔
شریعت اسلامی نے نہ روزہ نفس کو ایذا پہنچانے اور تکلیف میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بنایا ہے اور نہ اس کو اللہ تعالیٰ کا عذاب قرار دیا ہے قرآن وحدیث میں ایک لفظ بھی ہم کو ایسا نہیں ملتا جس سے اس کا اشارہ نکلتا ہو اس نے اس کو ایک ایسی عبادت کے طور پر پیش کیا ہے جس کا مقصد اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے۔
صائم (روزہ رکھنے والا) مجسمۂ نیکی ہے وہ کسی کی غیبت نہیں کرتا کسی کو بُرا نہیں کہتا کسی کو گالی گلوچ نہیں دیتا۔جھوٹی بات نہیں کہتا لا یعنی اور فضول باتوں سے پرہیز کرتا ہے اپنا وقت ذکر الٰہی میں گزارتا ہے یا خاموش رہتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کو حرزِ جان بنائے رکھتا ہے کہ
’’ تم میں سے جب کسی کے روزے کا دن ہو تو بدگوئی کرے نہ شوروغل کرے اگر کوئی اسے بُرا کہے یا اس سے آمادہ شمشیرزنی ہو تو اس سے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ (صحیح بخاری)
اسلام نے روزہ کو ہر قسم کی طبقہ داری، قید اور بندش سے آزاد ہوکر بالکل عام کر دیا اور اعلان کر دیا ۔

 فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ (بقرۃ185)

’’تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہے۔‘‘
اسلام نےمعذوروں اور بیماروں کو سہولت بہم پہنچائی ہے قدیم مذاہب میں لوگ اس سے مستثنیٰ نہ تھے۔

وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ

 ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے ۔
دوسری جگہ آتا ہے :

وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ (بقرۃ:184)

اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔
جو شخص ایک کی بجائے دو تین مساکین کو کھانا کھلا دے تو اس کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ (احسن البیان ص:73)
مولانا ابو الکلام آزاد (م 1958ء) فرماتے ہیں :
روزہ داروں میں بوڑھے،کمزور، معذور، بیمار ہر قسم کے لوگ ہوتے تھے اسلام سے پہلے مذاہب میں ہم اس قسم کے معذور اصحاب کے لیے کوئی استثناء نہیں پاتے اسلام نے ان تمام اشخاص کو مختلف طریق سے مستثنیٰ کردیا۔
فرمان الٰہی ہے :

 فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ

’’ جوبیمار ہو یا مسافر ہو وہ ایام رمضان کے علاوہ اور دنوں میں قضا روزے رکھ لے اورجن کو روزہ رکھنا مشکل ہووہ ہر روزہ کے بدلے ایک دن کا کھانا ایک مسکین کو دے دیں۔(بقرۃ : 184)
حالتِ سفر میں رسول اکرم ﷺ روزے بھی رکھے ہیں اور افطار بھی کیا ہے حسب اختلاف حالات لیکن اگر کوئی شخص باوجود ضعف وعدم تحمل شدائد صوم سفر میں روزے رکھے تو اسلام میں یہ ثواب کا کام نہیں شمار ہوگا۔
صحیح بخاری میں سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے تو ایک بھیڑ دیکھی اور دیکھا کہ ایک آدمی کو سایہ کئے ہوئے لوگ کھڑے ہیں پوچھا کیا ہے لوگوں نے کہا ایک روزہ دار ہے آپ ﷺ نے فرمایا ’’ سفر میں اس طرح روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے۔‘‘ (ارکان اسلام ص 246)
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( م 1999ء) لکھتے ہیں کہ:
’’بہت سے مذاہب میں اس قدر غلو اور تشدد تھا کہ 40۔40 روز تک غذا کی ممانعت کر دی گئی تھی بعض مذاہب میں اس قدر آزادی اور توسع سے کام لیا گیا کہ صرف گوشت کھانا ممنوع قرار دیا گیا اور باقی ہر چیز جائز کر دی گئی لیکن اسلام کا حکیمانہ قانون اس تشدد وغلو اور ضرورت سے زائد توسع وآزادی دونوں کے خلاف ہے اسلامی روزہ ایک معتدل اور عادلانہ روزہ جس میں نہ جسم کو ایذا پہنچانے اور اپنے آپ کو زندہ درگور کردینے کی اجازت ہے اور نہ لگام کو ہاتھ سے چھوڑ دینے اور خیالی جنت میں رہنے کی۔‘‘ ( ارکان اربعہ ، ص:301)

صدقہ فطر :

صدقہ فطر کی مقدار کا بیان :
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کے لیے کھجوروں کا یا ’’جو‘‘ کا ایک صاع مسلمانوں میں سے ہر غلام اور آزاد ، مرد اور عورت ، بچے اور بڑے سب پر فرض فرمایا اور لوگوں کو نماز(عید) کے لیے نکلنے سے پہلے ادا کرنے کا حکم دیا ہے ۔ (صحیح بخاری مترجم حدیث نمبر 716، ص:435)
نماز عید سے پہلے صدقہ فطر دے دینا چاہیے :
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں عید الفظر کے دن ایک صاع کھانا (محتاجوں) کو دیا کرتے تھے اور ہمارا (کھانا)جَو ،خشک انگور، پنیر اور کھجور تھا۔ (صحیح بخاری مترجم ، حدیث نمبر 717 ، ص: 435)
صدقہ فطر آزاد اور غلام دونوں پر واجب ہے :
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر ایک صاع کھجوریں یا ایک ’’جو‘‘ ہر مسلمان مرد ،عورت،آزاد اور غلام سب پر فرض کردیا ہے۔ (صحیح بخاری مترجم حدیث نمبر 718، ص: 436)

فطرانہ کی فرضیت :

ڈاکٹر علامہ علی محمد صلابی لکھتے ہیں کہ
رمضان المبارک 2ہجری میں اللہ تعالیٰ نے (صدقہ) فطرانہ فرض فرمایا یہ مسلمانوں میں سے ہر آزاد، غلام ،مرد ، عورت ، چھوٹے اور بڑے پر فرض قرار دیاگیاہے، سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس کی حکمت بیان فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے صدقہ فطر روزہ دار کو کوتاہیوں سے پاک کرنے اورغریبوں اورمسکینوں کے لیے رزق کی فراہمی کی غرض سے فرض قرار دیا ہے جس شخص نے اسے نماز عید سے پہلے ادا کیا وہ صدقہ فرض اور جس نے بعد میں ادا کیا ہ عام نفلی صدقہ کہلائے گا۔ (سنن ابی داؤد ، حدیث نمبر 1609۔ سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر 1827)

فطرانہ کے فوائد :

اس حدیث میں صدقہ فطر کی فرضیت کی حکمت میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں۔

۱۔ کوتاہیوں سے پاکیزگی :

اس پہلی بات کا تعلق رمضان سے ہے انسان فطرتاً غلطی کوتاہی اور بے فائدہ یا نقصان دہ گفتگو وغیرہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے یہ وہ برائیاں ہیں جن سےعام طور پر کوئی بھی انسان بچ نہیں سکتا تو رمضان کے اختتام پر روزے دار کو ان آلائشوں سے پاک کرنے کے لیے اس پر فطرانہ فرض کر دیا گیا۔

۲۔ مساکین کے لیے فراہمی رزق :

اس دوسری بات کا تعلق رمضان کے بعد آنے والی عید ’’عید الفطر‘‘ کے ساتھ ہے۔ اس دن محتاجوں کے رزق کی فراہمی سے اس دن کی خوشیاں تمام امت تک پہنچ جاتی ہیں اور سارا مسلم معاشرہ خوش اور مسرور نظر آتا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے اس مبارک دن میں کسی محتاج کو سوال اور کسی سے عطیہ مانگنے کی عار سے بچنے کے لیے ہر ایک مسلمان پر صدقہ فطر واجب کر دیا اور یہ فقراء اور مساکین کے علاوہ کسی کا حق نہیں ہے۔۔۔۔ مساکین کے لیے بطور خوراک ہے۔
نبی کریم ﷺ نے صدقہ فطر کی مقدار زیادہ مقرر نہیں فرمائی مبادالوگ ادا کرنے سے قاصر رہ جائیں بلکہ مقدار اتنی کم رکھی کہ ہر فرد سہولت سے ادا کر سکے اور یہ صدقہ فطر علاقے کی عام استعمال ہونے والی خوراک سے دینا مشروع ہے۔
بظاہر معمولی نظر آنے والی اس خوراک سے کم از کم عید کا دن تو بے فکری سے گزار سکتے ہیں اس لحاظ سے یہ دین کتنا عظیم ہے۔ (سیرۃ النبی ﷺ از علامہ علی محمد صلابی ، جلد 2 صفحہ : 306۔307)
۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے