وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ

اور ان کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں خواہ خود فاقہ سے ہوں۔[سورة الحشر – الآية 9]
اللہ تعالی نے انسانوں کی تخلیق اس انداز سے فرمائی ہے کہ ہر شخص زندگی کے ہر موڑ پر یا تو کسی کی مدد کررہا ہوتا ہے یا پھر کسی سے مدد لے رہا ہوتا ہے۔ انسان کے لئے اکیلا رہنا بہت ہی مشکل و دشوار ہے، اسی لئے اللہ تعالی نے کچھ لوگوں کو جسمانی طاقت اور کچھ کو علمی صلاحیتوں سے نوازا ہے ، نیز کسی کو امیر اور کسی کو غریب بنایا تاکہ امیر پیسہ لگائے اور غریب محنت کرکے کارخانوں کو چلائے۔
انسانی معاشرے میں کئی قسم کے معاملات ہوا کرتے ہیں، جن کی بنیاد خیر خواہی پر ہے۔ یہاں تک کہ تجارت میں بھی اگر خیرخواہی سے کام نہ لیا جائے تو بہت سارے دینی و دنیاوی نقصانات سامنے آتے ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالی نے خیرخواہی کرنے والوں کو کامیابی کی ضمانت دی ہے۔
1ـ جذبۂ ایثار اور خیرخواہی محبت ، برکت اور کامیابی کا راز ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.

اور ان (مہاجرین) کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں خواہ خود فاقہ سے ہوں اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں ۔[سورة الحشر – الآية 9]
وضاحت: انصار کا مہاجرین کے لیے ایثار اور فے میں ان کا حصہ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی کمال فضیلت بیان فرمائی جو مسلمانوں کے ہجرت کرکے مدینہ آنے سے پیشتر بیعت عقبہ کی رو سے ایمان لاچکے تھے اور انہوں نے مہاجر مسلمانوں کو آتے ہی اپنے گلے سے لگا لیا تھا۔ اور مہاجرین کی آباد کاری کے سلسلہ میں وہ مثال قائم کی جس کی مثال پیش کرنے سے پوری دنیا کی تاریخ قاصر ہے۔ ان اولین انصار نے مہاجرین کو اپنی جائیداد، گھر بار اور نخلستانوں میں شریک کر لیا۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت انصار مدینہ نے آپ سے عرض کیا : ہم میں اور ہمارے مہاجر بھائیوں میں کھجور کے درخت تقسیم کر دیجئے تو آپ نے فرمایا : ایسا نہیں ہوسکتا (جائیداد تمہاری ہی رہے گی) تب انصار مہاجرین سے کہنے لگے۔ اچھا ایسا کرو ۔ درختوں کی خدمت تم کرو ۔ ہم پیداوار میں تمہیں شریک بنا لیتے ہیں ۔ تب مہاجر کہنے لگے بہت خوب! ہم نے سنا اور مان لیا۔ [بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط فی المعاملۃ]
اس سے اگلا ایثار یہ تھا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ مہاجرین تو کھیتی باڑی نہیں جانتے۔ تو انصار نے اس معاملہ میں بھی اپنے مہاجر بھائیوں کی مدد کی۔ تاہم نصف پیداوار انہیں دینا قبول کر لیا۔ اور اب جب بنونضیر کے اموال فے تقسیم کرنے کی باری آئی تو انصار نے از خود یہ کہہ دیا کہ یہ اموال مہاجرین میں تقسیم کردیجئے۔ اور ہمارے پہلے نخلستان ہی ہمارے پاس رہنے دیجئے۔ (یعنی اب ان میں مہاجرین شریک نہ ہوں گے) بلکہ اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہم ان میں سے بھی دینے کو تیار ہیں ۔ یہ تھا وہ ایثار جس کی بنا پر ان کا درجہ بہت بلند ہوگیا تھا۔ اور اللہ نے بطور خاص ان انصار کی تعریف فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے بطور حق یہ ارشاد فرمایا کہ ایسے ایثار کرنے والے انصار کا بھی اموال فئے میں خاص طور پر خیال رکھا جائے۔ لیکن وہ از راہ ایثار اپنے اس حق سے اپنے مہاجر بھائیوں کے حق میں دستبردار ہوگئے اس ایثار نے مہاجرین کے دل میں جو مقام حاصل کیا تھا وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :
’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے (آخری وقت) وصیت کی کہ : میرے بعد جو خلیفہ ہو وہ مہاجرین کا حق پہچانے اور انصار کا بھی حق پہچانے۔ جنہوں نے نبی کریم ﷺکی ہجرت سے پہلے مدینہ میں جگہ پکڑی اور ایمان کو سنبھالا۔ خلیفہ کو لازم ہے کہ ان میں سے جو نیک ہوں اس کی قدر کرے اور برے کی برائی سے درگزر کرے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)
اور مہاجرین کی آمد پر جس قدر خوشی انصار کو ہوتی تھی وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتی ہے :
مہاجرین کی آمد پر انصار کی خوشی :۔’’سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (مدینہ میں) آپ کے اصحاب میں سے سب سے پہلے سیدنامصعب بن عمیر اور سیدناعبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہما ہمارے پاس آئے۔ وہ دونوں ہمیں قرآن پڑھاتے رہے۔
پھرسیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اورسیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ آئے پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیس آدمی اپنے ساتھ لیے ہوئے آئے۔ پھر ان کے بعد آپﷺ تشریف لائے۔ مدینہ والے اتنے خوش کبھی بھی نہ ہوئے تھے جتنے خوش آپ کی تشریف آوری سے ہوئے۔ بچے بچیاں تک یوں کہہ رہے تھے۔ دیکھو! یہ اللہ کے رسول تشریف لائے ہیں ۔ میں آپ کی آمد سے پہلے ہی سورۃ اعلیٰ اور اس جیسی کئی سورتیں پڑھ چکا تھا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ الاعلیٰ)
انہیں دنوں ایک انفرادی واقعہ بھی پیش آیا : جس میں ایک انصاری نے کمال ایثار کا ثبوت دیا تھا۔ محدثین اس واقعہ کو بھی اس آیت کی تفسیر میں لائے ہیں ۔ اور وہ حدیث یوں ہے :
انصار کے ایثار کا ایک منفرد قصہ :’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص آپ ﷺکے پاس آیا اور کہنے لگا : یارسول اللہﷺ !میں بہت بھوکا ہوں، آپﷺ نے اپنی بیویوں کے ہاں سے پتہ کرایا لیکن وہاں کچھ نہ نکلا۔ پھر آپ نے صحابہ کو کہا :کوئی ہے جو اس رات اس شخص کی مہمانوازی کرے۔ اللہ اس پر رحم کرے۔ایک انصاری (ابوطلحہ رضی اللہ عنہ) نے کہا : یارسول اللہ ﷺ! میں اس کی مہمانوازی کروں گا اور اس شخص کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی (ام سلیم رضی اللہ عنہا) سے کہا :’’یہ شخص رسول اللہﷺ کا (بھیجا ہوا) مہمان ہے لہٰذا جو چیز بھی موجود ہو اسے کھلاؤ‘‘ وہ کہنے لگیں : اللہ کی قسم! میرے پاس تو بمشکل بچوں کا کھانا ہے۔ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اچھا یوں کرو ۔ بچے جب کھانا مانگنے لگیں تو انہیں سُلا دو ۔ اور جب ہم دونوں (میں اور مہمان) کھانا کھانے لگیں تو چراغ گل کر دینا۔ اس طرح ہم دونوں آج رات کچھ نہیں کھائیں گے۔(اور مہمان کھا لے گا) چنانچہ ام سلیم نے ایسا ہی کیا۔ صبح جب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺنے فرمایا کہ فلاں مرد (ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ) اور فلاں عورت (ام سلیم رضی اللہ عنہا ) پر اللہ عزوجل بہت خوش ہوا اور اسے ہنسی آگئی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔

وَيُؤْثِرُوْنَ عَلَی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۝ۚ [الحشر :9 ، بخاری۔ کتاب التفسیر]

جبکہ اس کے برعکس ایک وہ شخص ہے جس کے بارے میں قرآن کریم کی اسی آیت میں شح کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
لفظ شح کے لغوی معنیٰ:
شُحَّ میں دو باتیں پائی جاتی ہیں ۔ ایک مال و دولت جمع کرنے میں حریص ہونا، دوسرے مال و دولت خرچ کرنے میں انتہائی بخیل ہونا اور جس شخص میں یہ دونوں قباحتیں جمع ہوجائیں اسے شحیح اور شحاح کہتے ہیں۔ اب ایسے شخص میں تنگ نظری، تنگ ظرفی، سنگدلی، بےمروتی وغیرہ جیسی صفات پیدا ہوسکتی ہیں اور ان کا ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے۔ اگرچہ مال و دولت سے محبت ہر انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ لیکن اس طرح دولت کے پیچھے اندھے ہوجانا اور دولت کا پجاری بن جانا انتہائی بُری خصلت ہے۔ جس سے اللہ ہی بچا سکتا ہے۔ اسلام اس بری عادت کے علاج کے لیے انفاق فی سبیل اللہ، صدقات اور ایثار کی راہ دکھاتا ہے جس سے سماحت، وسعت نظر، ہمدردی، مروت اور اخوت کے جذبات فروغ پاتے ہیں ۔ گویا شح سے نجات پاجانا ہی بہت بڑی کامیابی ہے اور جنت میں لے جانے کا سبب بنتی ہے۔
نوٹ: لین دین کے معاملات میں مندرجہ بالا آیت ایک اصول کا درجہ رکھتی ہے۔
2ـ دین تو نام ہی خیرخواہی کا ہے:
اسی لئے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:

’’اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَةُ‘‘

’’دین تو خیرخواہی ہے‘‘
وضاحت: صرف حقوق اللہ کی ادائیگی ہی مکمل دین نہیں بلکہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور خیرخواہی سے کام لینا بھی دین کاہی ایک اہم حصہ ہے۔
3ـ خیرخواہی کی بدولت اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے:
رسول مکرم ﷺ کا فرمان ہے:

وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ

’’اللہ تعالی اس وقت تک بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے‘‘( ابن ماجه (1/ 82)
وضاحت: اللہ کی مدد کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب ہر شخص ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ رکھے گا تو ہر طرف اور ہر وقت ہر کسی کی مدد کے لئے کوئی نہ کوئی شخص تیار رہے گا۔ اس طرح معاشرے میں کوئی بھی فرد بے یار و مددگار نہیں رہے گا۔
4ـ خیرخواہی کی بدولت برکتیں بھی نازل ہوتی ہیں اور ضرورتیں بھی پوری ہوتی ہیں:
سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
’’ایک شخص نے کسی سے زمین خریدی اور خریدار کو اس زمین سے سونے کاگڑھا ملا، اس نے بیچنے والے سے کہا کہ آپ یہ سونا لے لیجئے ، میں نے تو صرف زمین خریدی تھی سونا نہیں، بیچنے والے نے کہا کہ میں نے تو آپ کو زمین اس میں جو کچھ ہے سب ہی بیچ دیا تھا (لہٰذا یہ سونا آپ کا ہے) ۔ فرمایا کہ پھر وہ دونوں فیصلہ کروانے کے لئے کسی شخص کے پاس گئے تو اس نے پوچھا کہ کیا آپ دونوں کی کوئی اولاد ہے؟ ایک نے کہا کہ میرا ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا کہ میری ایک بیٹی ہے۔ اس نے کہا کہ اس لڑکے کا نکاح اس لڑکی سے کردیں اور اس مال کو آپس میں ہی خرچ کرلیں اور صدقہ بھی دے دیجئے گا‘‘۔ [بخاری]
وضاحت: خیرخواہی کی بدولت مال بھی ان کے پاس رہا اور بیٹے اور بیٹی کا نکاح بھی ہوگیا۔
نیز صحیح مسلم میں ایک واقعہ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
ایک شخص نے چٹیل میدان میں ایک بادل سے آواز سنی کہ فلاں کی کھیتی پر پانی برسادو تو وہ بادل ایک باغ کے قریب برسا جہاں سے سارا پانی اس باغ میں چلا گیا، اس شخص نے باغ کے مالک سے نام پوچھا تو اس نے وہی نام بتایا جو پوچھنے والے نے آسمان سے سنا تھا، اسے بہت تعجب ہوا اور اس کا راز پوچھا تو باغ والے نے بتایا کہ وہ باغ کےپھل کے تین حصے کرلیتا ہے۔ ایک حصہ ضرورت مندوں کے لئے،دوسرا حصہ اپنے گزر بسر کے لئے اور تیسرا حصہ اسی باغ میں لگادیتا ہے۔ [مسلم]
وضاحت: ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنے سے اللہ کی طرف سے پانی بھی میسر ہوگیا جوکہ زراعت کے لئے ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے باغ میں سے کوئی کمی ہونے کی بجائے برکتیں ہی برکتیں نازل ہوتی رہیں۔
5ـ خیرخواہی جنت میں جانے کا سبب ہے:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

لَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلاً يَتَقَلَّبُ فِي الْجَنَّةِ فِيْ شَجَرَةٍ قَطَعَهَا مِنْ ظَهْرِ الطَّرِيْقِ كَانَتْ تُؤْذِي الْمُسْلِمِيْنَ۔

’’میں نے ایک شخص کو جنت میں کروٹیں بدلتے ہوتے دیکھا، اس کی نیکی یہ تھی کہ اس نے راستے میں آنے والے ایک ایسے درخت کو کاٹا تھا جس سے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی تھی۔ (مسلم)
(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے