اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں ہیں ان نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہدایت اور ایمان ہے جس کا شکر ہر مسلمان پر واجب ہے ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انسان ہمیشہ اللہ کی نعمت کے شکر اور گناہوں سے توبہ واستغفار کا محتاج رہتا ہے کیونکہ وہ ہر وقت اس کی نعمتوں سے مستفید ہوتا رہتاہے۔ نعمتوں کے شکرپہ جو چیز ابھارتی ہے وہ ہے ان پہ غوروفکر ان کا استحضار اور عدم غفلت بہت سے لوگ راحت وآرام کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ۔ اچھا گھر اچھی سواری ،اچھا روزگار سب کچھ ہی میسر ہوتاہے مگر بہت سارے یہ سب نعمتیں پا کر متکبر بن جاتےہیں وہ کبھی منعم حقیقی کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ کبھی انہوں نے ان چیزوں کو نعمت سمجھا ہی نہیں حالانکہ اگر یہی نعمتیں خدانخواستہ چھن جائیں تو پھر احساس نعمت ہو ،بے گھر افراد گھر جیسی نعمت کی اہمیت جانتے ہیں ، بے روزگاری کی سختی سے بے روزگار افراد ہی آشنا ہیں، بھوکے پیٹ کو کھانے کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے، بدامنی کے شکار معاشرے کو نعمتِ امن کی اہمیت کا احساس ہوتاہے اس لیے اللہ تعالیٰ لوگوں کو یاد دلاتے ہیں کہ

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ ۭ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰهِ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ڮ فَاَنّٰى تُـؤْفَكُوْنَ (فاطر:3)

’’لوگو! تم پر جو انعام اللہ نے کئے ہیں انہیں یاد کرو ۔ کیا اللہ کے سوا اور کوئی بھی خالق ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی پہنچائے؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں الٹے جاتے ہو ۔‘‘
انہی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت نعمتِ وطن ہے جہاں آزادی کے ساتھ ہم رہ رہے ہیں آزادی کی انہترویں سالگرہ منائی جارہی ہے ۔ 14 اگست 1947ء کو لا إلہ إلا اللہ کی بنیاد پہ وجود میں آنے والا ملک الحمد للہ ایک شان سے ایٹمی پاور کے ساتھ مسلم امت کا فخر بن کر کھڑا ہے اس کو توڑنے کی بہت سی سازشیں دم توڑ چکی ہیں ، ڈرانے والے اب خود ڈر رہے ہیں اگرچہ سازشوں کا سلسلہ رُکا نہیں مگر علاج بھی جاری ہے عرب دنیا کے ساتھ رابطہ مزید مضبوط ہوچکا ہے۔ عربوں پہ امریکہ کی بے وفائی آشکار ہوچکی ہے۔ ورلڈ آرڈر کا علمبردار افغانستان میں بُری طرح ناکام ہوچکا ہے اور اب مرگ برامریکہ کا نعرہ لگا کر آزادی قدس کی ریلیاں نکالنے والوں کا امریکہ واسرائیل کی گود میں کھیلنا سب کے سامنے آچکا ہے ۔ نفاق کی دھول چھٹ رہی ہے ، پاکستان کے اندر بھی الحمد للہ بدامنی کا عفریت کچلا جا چکا ہے، کرپشن کا خاتمہ امن ایکشن پلان کا حصہ قرار د ےکر امن ودفاع کے ذمہ دار ادارے بہت سی کامیابیاں قوم کی جھولی میں ڈال کر سرخرو ہوئے ہیں ، وطن کے سیاسی مہاتما تو اپنے ازلی دشمن کی خوشنودی کے لیے مسئلہ کشمیر تک کو بھُلا کر مودی سے بغل گیر ہورہے تھے مگر گجرات کا قاتل منہ میں رام رام کیے بغل میں چھری چھپائے ہوئے تھا،کشمیر میں جو ستم ڈھایا ہے کشمیری نوجوانوں کا خون بے دردی سے بہا کروادی کو لہو رنگ کر دیا گیا ہے۔ شکاری گنوں سے پولیس اور فوج بے گناہ نہتے کشمیریوں کو شکار کر رہی ہے ، گذشتہ چند ہفتوں میں برہان مظفر وانی سمیت بیسیوں کشمیری نوجوان شہید کیے جاچکے ہیں اور یہت سے متوالے ہندو بربریت کے مقابلے میں شہادت کی قبا پہننے کو تیار بیٹھے ہیں ۔ جمہوریت وآزائ اظہارِ رائے کے چمپئن خاموش ہیں۔ انسانیت پر بدترین ظلم پر انسانی حقوق کا علمبردار امریکہ اپنا وزن ظالم کے پلڑےپس یوں کہہ کر ڈال رہا ہے کہ یہ پاکستان اور ہندوستان کا داخلی مسئلہ ہےلیکن کشمیری حریت پسندوں کی تحریک آزادی عروج پر ہے اگرچہ بنیادی انسانی حقوق بھی غصب کر لیے گئے ہیں۔ ٹیلی فون ، انٹرنیٹ،اخبارات پر پابندی اور مسلسل کرفیو آٹھ لاکھ ہندو فوج ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے مگر جتیندر سنگھ کے نزدیک کشمیر پہر بھی کوئی تنازع نہیں اور یہی موقف پوری ہندسرکار کا ہے وہ اسے اٹوٹ انگ قرار دیتے آئے ہیں نیز وقت گزاری کے لیے مذاکرات کا ڈول بھی ڈالتے رہتے ہیں لیکن یہ صرف کا ایک فضول مشغلہ ہے جسے بھارت اپنائے ہوئے ہے۔پاکستان بارہا اس موقف کا اعادہ کر چکا ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دیا جائے لیکن یہ بات بھارت سمجھنے کے لیے تیار نہیں اسی وجہ سے یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ کشمیر قرار داد مذمت سے نہیں بالکل ہندو کی مرمت سے آزاد ہوگا اب تو بھارت کے حامی روسی ذرائع ابلاغ بھی اس اندیشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ تجزیہ کچھ زیادہ بعید از امکان بھی نہیں کہ جس ظلم کو بھارت روارکھے ہوئے ہے اس میں خود پاکستان کی اپنی بقا کا بھی مسئلہ ہےکیونکہ بھارت کشمیر سے پھوٹنے والے آبی سوتوں پر مسلسل بند باندھ کر پاکستان کو بنجر کر دینا چاہتا ہے وہ کشمیری مسلمانوں کی مسلسل نسل کشی سے اکثریتی مسلم آبادی کو اقلیت میں بدلنے کی سازش کر رہا ہے۔روسی نیوز ایجنسی اسپوٹنک نے باوجود بھارتی ہمنوا ہونے کے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ کشمیری آبادی پاکستان میں موجود اپنے بھائیوں سے ملنا چاہتی ہے کشمیر کی تقسیم لارڈماؤنٹ بیٹن اورجواہر لال نہرو کی باہمی سازش تھی کہ ستر فیصد مسلم آبادی کا الحاق اہل کشمیر کی مرضی کے خلاف بھارت سے الحاق ایک سنگین غلطی تھی جس کا اب ازالہ ہونا چاہیے مگر یہی بات امریکہ کی سمجھ میں نہیں آرہی امریکہ کے جمہوریت اظہار رائے اور انسانی حقوق کے پیمانے اپنے لیے کچھ اور اور دوسروں کے لیے کچھ اور ہیں وہ جہاں چاہےانسانی حقوق کی بدترین پامالی کو سند جواز فراہم کرکے اسرائیل کو فلسطینی نہتے مسلمانوں پہ  ظلم ڈھانے کے لیے تھپکی دے اور اور چاہے تو مشرقی تیمور کو آزادی رائے کے نام پر ریاست کے خلاف بغاوت کی تائید کرے بلکہ ریاست میں الگ ناجائز ریاست بنوادے۔امریکہ اپنی اس غیر منصفانہ روش کی وجہ سے پوری دنیا کے اندر نفرت کی علامت بنتا جا رہا ہے۔ ترکی کی جمہوری حکومت کے خلاف حالیہ بغاوت کے پیچھے بھی امریکی سازش کارفرما ہے۔ فتح اللہ گولن کے حامی بغاوت میں ملوث پائے گئے ہیں ترک حکومت نے امریکہ سے باغی فتح اللہ گولن کی حوالگی کے لیے خط لکھ رکھا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ اگر وہ گولن کو حوالے نہیں کرتا تو پھر یہ بات طے شدہ ہے کہ امریکہ اس بغاوت کا سرپرست ہے۔ ترکی عوام نے انتہائی بالغ نظری اور سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت سی جانوں کی قربانی دے کر نہ صرف ترکی بلکہ عالم اسلام کے مفادات کی حفاظت کرتے ہوئے اس عالمی سازش کو ناکام بنایا یہ سب کچھ کیونکر ممکن ہوا اس میں صدر طیب اردگان کی محنت واخلاص بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ خدمت عوام نے انہیں عوام کے دلوں میں جگہ دی۔ طیب اردگان اپنے کردار کی وجہ سے نہ صرف ترک عوام بلکہ پورے عالم اسلام میں ایک ہیرو کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کے ظلم کے خلاف سب سے پہلے شدید احتجاج طیب اردگان نے کیا ، برما کے مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کے لیے خود اپنی بیگم کے ساتھ برما کا دورہ کیا۔ اہل غزہ کی مدد کے لیے بحری جہاز روانہ کیا جسے اسرائیل نے نشانہ بنایا تو اردگان نے اسے نہ صرف معافی مانگنے پر مجبور کیا بلکہ اس معافی کو غزہ کا محاصرہ ختم کرنے سے مشروط کیا ، مسلمانوں کی عقیدتوں کی محور سرزمین حرم کے تحفظ کے لیے مملکت سعودی عرب سے اردگان نے تعلقات مضبوط بنائے اور یہی چیز استعمار کو کھٹکتی ہے۔سرزمین حرمین میں ماہ مقدس کے اختتام پہ دھماکے استعماری ایجنٹوں ہی کی کارروائی ہے جو امت مسلمہ کے قلب پہ حملہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے منافقین کو اس ظلم سے باز آنا چاہیے۔ اردگان نے ترکی کے اسلامی تشخص کو بتدریج بحال کرنے کی راہ پر ڈالا یہی وجہ ہے کہ جب وہاں ایک فوجی ٹولے نے بغاوت کا علان کیا تو عوام نے فوجیوں کے اس گروپ کی بغاوت ناکام بنا کر یہ واضح کر دیا کہ اب وہ اسلام کے علاوہ کسی ازم کو قبول نہیں کریں گے ۔2003ء سے لیکر اردگان کا مسلسل تین دفعہ عوام کا اعتماد حاصل کرنا اسی بات کا غماز ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اردگان نے عوام کی خدمت اپنا نصب العین بنایا ، ملک کی مجموعی پیداوار GDPمیں 64 فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا جو ایک معجزے سے کم نہیں۔ طیب اردگان جب اقتدار میں آئے تو ترکی 24 ارب ڈالر کا ائی ایم ایف کا مقروض تھا ۔ اردگان نے دس سال کے عرصہ میں نہ صرف یہ قرضہ اتاردیا بلکہ آئی ایم ایف کوآبرومندانہ انداز میں قرض دینے کی پیشکش بھی کردی ۔ 2002 میں ترکی کے سنٹرل بینک میں زر مبادلہ کے ذخائر 25.5 ارب ڈالر تھے جو اب تقریباً ڈیڑھ کھرب کے قریب جا پہنچے ہیں۔ طیب اردگان کی حکومت سے پہلے ترکی میں کل 26 ایئر پورٹ تھے مگر اب ان کی تعداد 50 کے قریب ہے۔ اردگان نے 13 ہزار 3 سو کلو میٹر طویل قومی شاہراہیں بنوائی ہیں۔ ہر شہری تک طبی سہولیات پہنچانے کے لیے خصوصی ’’گرین کارڈ‘‘ جاری کیے گئے ہیں۔ یہ کارڈ ان لوگوں کے لیے ہیں جو مہنگا علاج نہیں کرواسکتے۔ 2002ء میں ترکی میں 88 یونیورسٹیاں تھیں مگر اب ان کی تعداد بڑھ کر 186 ہوچکی ہے۔ آج سے تقریباً 20 سال پہلے 222 ترکی لیرا ایک ڈالر کے برابر تھا آج ایک ڈالر کی قیمت پونے تین لیرا ہے۔طیب اردگان نے تعلیم وصحت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے تعلیم وصحت کا بجٹ بڑھا کر دفاع سے بھی زیادہ کر دیا اور اساتذہ کی تنخواہیں بڑھا کر ڈاکٹروں کے برابر کر دیں اور عام ملازمین کی تنخواہوں میں 300 فیصد اضافہ کردیا تو جن کی تنخواہ 340 لیرہ سے شروع ہورہی تھی اسے بڑھا کر 957 لیرہ کر دیاگیا۔ قرآن کی تعلیم کے لیے بچوں کا 12 سال کی عمر کو پہنچنا ضروری تھا اس قانون کو ختم کیا بچوں میں دینی رجحان بیدار کرنے اور ترغیب کا ایک عجیب انداز اختیار کیا، ترکی میں سات سال کی عمر کو پہنچنے والے دس ہزار بچوں کی ریلی نکای یہ ننھے منے بچے اس عزم کا اظہاکر رہے تھے کہ اب وہ نماز کی ادائیگی کے ساتھ حفظ قر|آن کریم شروع کریں گے۔ اردگان کی بہت سی کامیابیوںمیں یہ چند ایک کامیابیاں ہیں جو اردگان نے خدمت عوام کے جذبہ کے تحت محنت واخلاص کے ذریعے سمیٹیں اور نہ صرف ترکی عوام بلکہ عالم اسلام کے مسلمانوں کے دلوں میں جگہ بنائی اور ہمارے موجودہ حکمرانوں کے لیے بھی سبق ہے جن کی طیب اردگان کے ساتھ بہت گہری ذاتی دوستی ہے جس کا اظہار ترکی حکومت نے میٹرو بس منصوبہ میں سو بسیں تحفہ دے کر کیا طیب اردگان کی بیٹی کی شادی میں وزیر اعظم نواز شریف بطور گواہ موجود تھے سوچنے کی بات ہے کہ اگر یورپ کا مرد بیمار سیکولر ترکی اپنے عظیم الشان ماضی کی طرف لوٹتے ہوئے اسلامی کی راہ پر چل کر مختصر عرصہ میں حیران کن ترقی کر سکتاہے تو لا إلہ إلا اللہ کے نعرہ کے ساتھ حاصل کیا گیا وطن اسلامی نظام کے ساتھ کیوں ترقی نہیں کرسکتا؟عوام محبت کرتی ہے خالی نعروں سے نہیں بلکہ ملکی ترقی دیکھ کر خدمت عوام سے مگر یہاں تو معاملہ برعکس اور تقابل ترکی حکومت سے کیا جارہاہے اس حکومت نے اپنے اس تین سالہ دور میں گذشتہ قرضوں کا ریکارڈ توڑ دیا مہنگائی کا تناسب تمام صوبوں میں بڑھا ہے مگر پنجاب تمام صوبوں سے پہلے نمبر پر ہے مہنگائی میں لوڈ شیڈنگ حد یہ ہے کہ رمضان المبارک میں بھی یہ سلسلہ عروج پر رہا قدرتی وسائل سے مالا مال زرعی ملک میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ یقیناً اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کے مترادف ہے۔ سرزمین پاکستان اپنی انہترویں سالگرہ آزادی پہ پھر سے وعدہ یاد دلا رہی ہے کہ اے ارباب اختیار اے وطن کے باسیو! تمہارے اوپر تمہارے آباء واجداد کا ایک قرض ہے وہ وعدہ جو انہوں نے اپنے رب سے کیا تھا کہ اس ارض پاک پر رب کا قانون نافذ کریں گے ابھی تک شرمندہ ایفاء ہونے کا منتظر ہے کہیں قومی نفاق اس اجتماعی قومی وعدہ خلافی کی وجہ سے تو نہیں ہے کہ رب تعالیٰ نے فرمایا ہے :

فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِيْ قُلُوْبِهِمْ اِلٰى يَوْمِ يَلْقَوْنَهٗ بِمَآ اَخْلَفُوا اللّٰهَ مَا وَعَدُوْهُ وَبِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ (التوبۃ :77)

’’پس اس کی سزا میں اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا اللہ سے ملنے کے دنوں تک، کیونکہ انہوں نے اللہ سے کئے ہوئے وعدے کے خلاف کیا اور کیونکہ وہ جھوٹ بولتے رہے۔‘‘
ہم اقتدار کے ایوانوں اور تمام اسٹیک ہولڈرز تک یہ آواز پہنچانا چاہتے ہیں اسلام کا نفاذ آپ حضرات کی ذمہ داری ہے اور یہی وطن کی بقا کی ضامن ہے اور آزادی اسی وعدے کی مرہون منت ہے۔ آزادی کی قدر کیجیے نعمت کی قدر کیجیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے