حج وعمرہ کےآداب

توحید: تمام عبادات کی بنیاد توحید ہی ہے،نیت کرنے سے وطن واپس لوٹنے تک سارے کا سارا حج توحید ہی کا سبق دیتا ہے۔ اس لیے اپنے آپ کو شرک و بدعت سے پاک رکھیں کیونکہ شرک کرنے سے عمل ضائع ہو جاتا ہے، قرآن میں رسول اللہﷺ سے بھی فرما دیا گیا:

لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (الزمر:65)

کہ بلا شبہ اگر تونے شریک ٹھہرایا تو یقیناً تیرا عمل ضرور ضائع ہو جائے گا اور توں ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں سے ہو جائے گا۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ کتنے ہی عمرہ کرنے والے اور حاجی شرک و بدعت والے کام کر رہے ہوتے ہیں، جیسے : اللہ کے علاوہ کسی سے دعا کرنا،مصیبت اور پریشانی دور کرنے کے لیے فوت شدگان سے مدد مانگنا،اور یہ عقیدہ رکھنا کہ یہ نیک لوگ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں گے اور ہماری ضرورتیں اللہ کے سامنے پیش کرتے ہیں،اسی لیے وہ قبروں اور مزاروں پر نذریں مانتے ہیں اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں،یہ ان مشرکین کا عقیدہ ہے جن کے ساتھ نبی اکرمﷺ نے لڑائی کی۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللهِ (یونس:18)

اور وہ اللہ کے سوا ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچاتی ہیں اور نہ انہیں نفع دیتی ہیں اور کہتے ہیں یہ لوگ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔
کچھ لوگ حج و عمرہ پہ آکر بھی جادو،نجومی کے پاس جانا،کسی بھی ذریعے سے غیب کی خبریں دینے والے کے پاس جانا،جیسے: لکیریں لگا کر،ہاتھ دیکھ کر،جانور اڑا کر،گنتی کے الفاظ لکھ کر،ماں کا نام پوچھ کر، نقصان یا تکلیف سے بچاؤ کے لیے تعویذ لٹکانا،یا دھاگہ باندھنا،اللہ کے علاوہ کسی کے لیے نذر ماننا،لڑائی جھگڑے کے وقت دین کوبرا بھلا کہنا اور اس کا مذاق اڑانا،صحابہ کرام اور امہات المومنین پر لعن طعن کرنا،نبی ،ولی،کعبہ ،ایمانداری ،عزت اور حسب و نسب کی قسم اٹھانا، جب کہ اللہ کے علاوہ کسی کی قسم اٹھانا شرک ہے۔نبی مکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللهِ فَقَدْ أَشْرَكَ (ابو داود:3251)
فَقَدْ كَفَرَ وَ أَشْرَكَ(احمد:6072)

اخلاص: تمام اعمال صرف اللہ کی رضا کے لیے کریں۔ (بخاری:1) ذرہ برابر بھی کوئی دکھاوا وغیرہ اور شہرت حاصل کرنے کی نیت نہ ہو، حدیث قدسی میں ہے:اللہ تعالی فرماتا ہے:

أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ (مسلم:1015)

اتباع سنت: کسی بھی عبادت کے قبول ہونے کے لیے اسے نبی کریمﷺ کے طریقے کے مطابق ہونا شرط ہے۔
کوئی بھی عمل اگر ان دو بنیادی چیزوںسے خالی ہے،تو اللہ تعالی کے ہاں قابل قبول نہیں ہو گا ۔(مسلم :2985)
تقوی:دین کے ہر معاملے کے ساتھ تقوی ہی کا تعلق ہے،یہ پورے دین کا محور اور اس کی بنیاد ہے، قرآن میں اس کاذکر اکثر بڑی بڑی عبادات اور ارکان اسلام کے ساتھ کیاگیا ہے۔ اسی لیے سفر میں زیادہ سے زیادہ نیک
اعمال کریں اور گناہ کے کام کرنے اور لوگوں سے مانگنے
سے بچیں، حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:

كَانَ أَهْلُ اليَمَنِ يَحُجُّونَ وَلاَ يَتَزَوَّدُونَ، وَيَقُولُونَ: نَحْنُ المُتَوَكِّلُونَ، فَإِذَا قَدِمُوا مَكَّةَ سَأَلُوا النَّاسَ

اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرما دی:

وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى(بخاری:1523)

اپنے گھر والوں کو تقوی کی نصیحت کرے اور حج سے
واپس آنے تک کی مدت کے کھانے پینے اور دیگر
ضروریات زندگی کا انتظام کر کے جائے۔
حلال کمائی:حج و عمرہ کے اس مبارک عمل کے لیے حلال کمائی سے ہی خرچ کریں،ورنہ ساری محنت ضائع ہو جائے گی ، حرام کمائی سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ حاصل کر لے تاکہ اس کی دعا قبول ہو سکے،کیوں کہ حج و عمرہ کے سارے سفر میں دعاؤں کا بہت زیادہ اہتمام ہے،نبی ﷺ کا فرمان

أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} وَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ} ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ، يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ؟ (مسلم :1015)

توبہ : گناہوں اور اللہ اس کے رسول کی نا فرمانیوں سے توبہ کرے تاکہ اس کا حج و عمرہ قبول ہو جائے، اللہ تعالی کا فرمان ہے

: إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (المائدہ:27)

پیارے رسولﷺ نے فرمایا:

مَنْ حَجَّ لِلهِ فَلَمْ يَرْفُثْ، وَلَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ(بخاری:1521)

سچی توبہ یہ ہے کہ جس کسی پر بھی کسی طرح کی ظلم و زیادتی کی ہے کسی کا حق چھینا ہے اسے واپس کیا جائے اور اس سے معافی مانگی جائے، کیں کہ پتہ نہیں کی اس سفر سے واپسی ہو گی کہ نہیں۔ہر سال کتنے ہی حاجی اور عمرہ کرنے والے جاتے ہیں اور واپس نہیں لوٹتے۔ نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا اہتمام کرے،اور حرام چیزوں کر ہمیشہ کے لیے خیرآباد کہہ دے،جیسے:سگریٹ نوشی، گانے سننا،غیبت کرنا،ملاوٹ کرنا وغیرہ
اچھا ساتھی: کوشش کریں کہ کسی نیک آدمی کے ساتھ سفر کریں جو سنت رسولﷺ سے محبت کرنے والا ہو۔ جمعرات کے دن صبح کے وقت سفر کرنا مستحب ہے کیوںکہ آپﷺ اکثر ایسے ہی کرتے تھے۔(بخاری:2950)
احکام سیکھنا: حج و عمرہ اور سفرکے احکام و مسائل سیکھے، اور اگر کہیں کوئی مسئلہ سمجھ میں نہ آئے تو اہل علم سے ضرور پوچھیں۔
صبرکرنا: اس مبارک سفر میں کہیں کوئی پریشانی یا مشکل پیش آئے تو صبر کریں اللہ تعالی بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا۔
اللہ کے شعائر کی تعظیم: قرآن میں ہے :

وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوب

اور جو اللہ کے نام کی چیزوں کی تعظیم کرتا ہے تو یقیننا یہ دلوں کے تقوی سے ہے۔( الحج:32)
اچھا اخلاق :ہمیشہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں،اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے نقصان کچھ نہیں۔ ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ ہر کسی سے ملیں۔

تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ (ترمذی:1956)

نئی زندگی کا عزم: حج و عمرہ میں اللہ تعالی کے ساتھ یہ پکا وعدہ کریں کہ باقی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزارنے کی بھر پور کوشش کروں گا۔
حقوق العباد کی ادائیگی :ایک شخص کے ذمے دوسرے شخص کا جو حق ہے اگر اسے ادا نہ کیا جائے تو وہ اللہ کے ہاں اس کا جواب دہ ہوتا ہے۔اس لیے اس مبارک سفرکی روانگی سے پہلے ،بندوں کے حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنائیں۔(مسلم :2581)
فحش گو کلام،لڑائی جھگڑا اور کوئی بھی گناہ کا کام کرنے سے ہر وقت ہی اجتناب کریں۔

فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ (البقرۃ:197)

محرم اور عدت:عورت خاوند یا محرم (عاقل ،بالغ) کے ساتھ ہو اور عدت کے ایام میں نہ ہونا شرط ہے۔ (الطلاق:1)(بخاری:1862)
حج کے مقاصد
رضائے الہی کا حصول:آپﷺ حج میں یہ دعا کر رہے تھے: اللہم حجۃ لا ریاء فیھا ولا سمعۃ اے اللہ! اس حج کو دکھاوے اور شہرت سے پاک کر دے (ترمذی:327)
توحید کا درس:حج کے تمام امور احرام، نیت ِحج،تلبیہ، طواف،سعی کے اعمال،عرفات کے میدان میں دعا، کنکریاں مارتے وقت تکبیر پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اول تا آخر توحید کا درس اور اس کی تربیت ہے،جیسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا

{ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي }

(انعام:79) اور اللہ تعالی نے اپنے حبیب علیہ الصلاۃ و السلام سے فرمایا

{ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي }

(انعام:162) لہذا اگراس میں خرابی ہوئی تو بڑے سے بڑا عمل بھی ضائع ہو جائے گا۔چناں چہ اللہ تعالی نے نبی اکرمﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا

{لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُك}

(الزمر:65) رسول اللہﷺ نے اپنے صحابی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:

لَا تُشْرِكْ بِاللهِ شَيْئًا وَإِنْ قُتِلْتَ وَحُرِّقْتَ
(مسنداحمد:22075)

اللہ پر توکل کرنا :حجاج کرام اپنا گھر بار اور کاروبار تجارت وغیرہ سب کچھ اللہ کے بھروسے پر چھوڑ کر اور اسی ذات پر توکل کرتے ہوئے اس مبارک عمل کے لیے نکل پڑتے ہیں۔
تزکیہ نفس:اس سفر میں ہر قسم کی تکلیف اور پریشانی برداشت کرنی پڑتی ہے بلکہ دوسروں کی تکلیف سے اپنے ہاتھ اور زبان کو روکنا پڑتا ہے۔پھر ہر قسم کی لغو اور فضول گفتگو سے باز رہنا بھی ضروری ہے ان سب پابندیوں سے تزکیہ نفس یعنی نفس کی پاکیزگی ہوتی ہے۔
مساوات و اتحادکا نمونہ: قوم وطن اور رنگ ونسل وغیرہ ہر قسم کے فرق کو چھوڑ کر ایک ہی لباس پہننا،ایک ترانہ{لبیک اللھم لبیک}پکارنا،پھر ایک وقت میں ایک ہی رخ پر جانا اتفاق و اتحاد اور مساوات کا عملی ثبوت ہے۔
بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تو رانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
احترام باہمی:احرام کی پابندیوں میں سے زبان اور جذبات پر کنٹرول بہت اہم اور ضروری ہے،جس سے ہمیں احترام و عزت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا درس ملتا ہے۔
اتباع سنت پر عمل:حج کے بارے میں نبی مکرم ﷺ نے فرمایا تھاکہ خُذُوْا عَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ جس سے حج سمیت ہر معاملہ زندگی میںاتباع سنت کی اہمیت واضح ہو گئی۔آپ ﷺکی فرمانبرداری حقیقت میں اللہ تعالی کی فرمانبرداری ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالی نے قرآن مجید میںکچھ اس طرح بیان کیا ہے

{مَنْ یُطِعِ الرَّسُوْل فَقَدْ اَطَاعَ اللّہَ}

(النساء:80 ) جو رسول کی فرمانبرداری کرے تو بے شک اس نے اللہ کی فرماں برداری کی اور آپ علیہ السلام نے بھی فرمایا:

مَنْ اَطَاعَنِی فَقَدْ اَطَاعَ اللہِ۔۔۔(بخاری:7137)

اوریاد رکھیں اتباع سنت سے رو گردانی گمراہی ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے:

{وَ مَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِیْنَا}(احزاب:36)

اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی کرے سو یقیناً وہ گمراہ ہو گیا،واضح گمراہ ہونا۔
نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:

فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ
(بخاری:5063)

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
خُذُوْا عَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْپر عمل کرتے ہوئے ایک ہی وقت میں منیٰ ٹھہرنا ،عرفات پہنچنا،مزدلفہ کی رات سو کر گزارنا،تہجد کی نماز ادا نہ کرنا،اور 10ذوالحجہ کو پہلے اور دوسرے جمرے(پہلی اور دوسری دیوار)کوچھوڑ کر صرف بڑے جمرے عقبہ(تیسری دیوار)کو سات کنکریاںایک ایک کر کے مارنا، حقیقت میں یہ سب اتباع سنت ہی ہے اور یہی چیز دین کی اصل روح ہے۔ نیز حج کے اس سفر میں ایثار و یکجہتی،نبی ﷺکاحقیقی امتی بننا،نظم و ضبط،اخوت،امن وسلامتی،دعوت و جہاد پوشیدہ ہیں۔
۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے