عیسائیت میں شراب نوشی کی حرمت :

جس طرح شراب اسلام میںحرام ہے ویسے ہی وہ عیسائیت میں بھی حرام ہے ، نشے کی روک تھام سے متعلق جماعت کے سربراہان جو کہ متحدہ عرب جمہوریہ کی جانب سے عیسائیت کے مذہبی پیشوا بھی ہیں انہوں نے ایک فتوی جاری کیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
’’ تمام الہامی کتابوں میں انسان کیلئے یہ فیصلہ سنایا گیا ہے کہ وہ نشہ سے دور رہے، اسی طرح شام کے کیتھولک کنیسہ کے رئیس نشہ کی حرمت سے متعلق کتاب مقدس سے نصوص پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس قول کا خلاصہ یہ ہے کہ اجمالی طور پر نشہ ہر کتاب میں حرام قرار دیا ہے، چاہے وہ انگور سے ہو یا ان تمام چیزوں سے جیسے گندم، کھجور،شہد، سیب وغیرہ
اور اس سے متعلق عہدنامہ جدید کے وہ شواہد جس میں پولس اہل أفس کے نام رسائل میں کہتا ہے کہ (5:8)

ولا تسكروا بالخمر الذي فيه الخلاعة

شراب نوشی مت کرو وہ جو مجنون کردے اور نشہ کی مخالطت سے منع کیا۔ (إکوہ :11)
اور اس کی تاکید کی کہ نشہ آسمانوں کی بادشاہت کا وارث نہ بنائے گا۔ (غلاہ :21) ( إکوہ 6:9:10)

شراب کے مضر اثرات :

ڈاکٹر عبد الوہاب خلیل صاحب کے قلم سے لکھے ہوئے مجلہ التمدن الإسلامی کی تلخیص جس میں انہوں نے شراب کے نفسی،بدنی اور اخلاقی نقصانات ذکر کیے اور ساتھ ہی اس کے انفرادی اور جماعت پر مرتب ہونے والے برے اثرات کا ذکر کیا ، کہتے ہیں : جب ہم نے تمام ماہرین سے سوال کیا ، چاہے ان کا تعلق دینیات،طب، اخلاقیات ، اجتماعیت اور اقتصادیات سے ہو اور ان کی نشہ کے استعمال کی بابت رائے لی تو انہوں نے ایک ہی جوا بدیا : اور وہ کلی طور پر اس کے استعمال کی ممانعت تھی کیونکہ اس کے بہت ہی خطر ناک نقصانات ہیں۔
علماء دین کہتے ہیں: یہ حرام ہےاور یہ حرام صرف اس بنا پر ہے کہ یہ برائیوں کی ماں ہے۔
اور ماہرین طب کہتے ہیں ’’بے شک یہ عظیم خطرات میں ہے جو نوع انسانی کو ڈراتی ہے ، نہ صرف اس سے (کہ اس کا استعمال) فوراً خطرناک نقصانات میں ڈال دیتاہے بلکہ اس کے دور رساں نقصانات سے بھی۔ بے شک اس کا استعمال (ایسی خطر ناک بیماریوں)کیلئے راہ ہموار کر لیتا ہے جس کا ضرر کبھی کم نہیں ہوتا اور وہ بیماری سَل (تب دق) کی ہے۔
اور شراب بدن کو کمزور کر دیتی ہے اور اس کی قوت مدافعت کو گھٹا دیتی ہے اور جلدکو کمزور بنا دیتی ہے جس سے مختلف قسم کے امراض جسمانی اعضاء پر اثر انداز ہوتے ہیں اور خاص طور پر جگر (کیونکہ) یہ اعصاب پر شدید نقصان دہ ہوتی ہے۔ اس لیے یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ اکثر اعصابی امراض کا اہم سبب یہی ہوتاہے اور اس سے پیدا ہونے والی عظیم بیماریاں جنونیت، دل کی سختی اورجرم کی طرف مائل ہونا ہے۔ اور اس کے استعمال کا صرف یہ ایک ضرر نہیں ہے بلکہ اس کے بعد کے بھی کئی نقصانات ہیں، جیسے یہ سختی،ناداری اور کمزوری کا سبب ہے اور اسی طرح یہ افلاس، مسکنت اور ذلت کا جرثومہ بھی۔یہ جراثیم جس قوم میں بھی داخل ہوئے انہیں مادی، معنوی،بدنی وروحی، جسمانی اور عقلی طور پر تباہ کردیا۔
اور ماہرین اخلاقیات کہتے ہیں کہ انسان اپنی عفت، شرافت،مروت اور عزت کا محافظ ہے اور ایسی ہر وہ شے جو اسے ان صفات حمیدہ سے محروم کرتی ہوں ان سے گریز لازمی ہے۔
اور ماہرین اجتماعیت کہتے ہیں کہ انسانی معاشرہ ایک نظام وتربیت پر قائم رہے اور ایسی شے کا استعمال جو اس نظام میں خلل واقع کرتی ہو اس کا عدم استعمال ضروری ہے، کیونکہ اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا اور بگاڑ تفرقہ کو جنم دیتاہے اور تفرقہ دشمنی کو پروان چڑھاتاہے۔
اور ماہرین اقتصادیات کہتے ہیں کہ ہر ایک درہم جو ہم اپنے فائدےکیلئے خرچ کرتے ہیں تو وہ ہمارے لیے اور ہماے وطن کیلئے ہے اور ہر وہ درہم جو ہم اپنے نقصان میں خرچ کرتے ہیں تو وہ ہمارے لیے بھی خسارہ ہے اور ہمارے وطن کیلئے بھی تو کیسے یہ ملین روپے جو فضول میں نشہ آور اشیاء کے استعمال پر خرچ ہورہے ہیں اور جو ہمیں مالی طور پر پیچھے کر رہے ہیں اور ہماری مروءت اور شان کو ختم کررہے ہیں۔
اس بنیاد کو اگر ہم مد نظر رکھیں تو ہماری عقل ہمیں شراب نوشی سے روکنے کا حکم صادر کرے اور جب اس زمرے میں حکومت ان ماہرین کی آراء کو قبول کر لے تو اُسے اس مسئلہ کی بابت زیادہ جستجو کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی او رہم نے اُسے بغیر کسی مشقت میں پڑے اور مال خرچ کئے بغیر اس مسئلہ کا حل بتادیا ہے جبکہ تمام ماہرین اس کے مضر ہونے پر متفق ہیں اور حکومت تو عوام سے ہوتی ہے اور عوام حکومت سے ضرر اور تکالیف دور کرنے کا مطالبہ کرتی ہے اور حکومت اپنی رعیت کی بابت جوابدہ ہے۔
اور نشہ آور اشیاء کی ممانعت سے افراد معاشرہ طاقتور اور صحیح وسالم جسم کی مانند ہوجائیں گے جو مضبوط عزیمت اور پختہ عقل رکھتے ہوں گے اور یہ ملک میں مستوی صحت کو بلند کرنے کے اہم وسائل میں سے ایک ہے اور اسی طرح یہ اجتماعی ، اخلاقی اور اقتصادی مستوی کو بلند کرنے کی پہلی اینٹ ہے اگرچہ بہت سی وزارات کا اہتمام ماند پڑ جائے اور خاص کر وزرات عدل کا ، تو عدلیہ اور جیلوں تک پہنچانے والے (راستے) کم پڑجائیں اور اس کے بعد یہ جیلیں خالی ہو جائیںاور اسے مختلف اجتماعی اصلاحات کیلئے استعمال کیا جائے، اور یہی تو تہذیب وتمدن ہے اور یہی قوت وطاقت ہے اور یہ ترقی ورفعت ہے اور یہی قوموں کے بلند ہونے کا معیار ومیزان ہے اور یہی حقیقی اور اصلی تعاونی اشتراکیت ہے یعنی ہم ضرر اور تکالیف کو ختم کرنے کیلئے مشارکت اور تعاون کریں اور عملی جدوجہد کا باب بڑ ا وسیع ہے۔

وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ

اور ان سے کہو کام کرتے رہو پس تمہارے اعمال کو اللہ اور اس کا رسول اور مومنین دیکھیں گے۔ ‘‘اھ
اور یہ بیان کردہ وہ نقصانات ہیں جن کے ثبوت میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے جسے بہت سے ترقی یافتہ ممالک نے شراب نوشی اور دوسری نشہ آور اشیاء سے روکنے کیلئے اپنایا ہے اور ان میں سرفہرست ملک جس نے اس کی روک تھام کیلئے کوششیں کیں وہ امریکہ ہے جسے سید ابو الاعلی مودودی نے اپنی تنقیحات میں ذکر کیا ہے جو کہ درج ذیل ہے :
’’امریکی حکومت نے شراب کی ممانعت کی اور اسے اپنے ملک میںجاری کیا اور اس کیلئے تمام دور حاضر کے وسائل استعمال کیئے ، جیسے میگزین، محاضرات ، تصاویر اور سینما تاکہ اس کے استعمال سے روکا جائے اور اس کے مفاسد اور نقصانات بتلائیں جائیں اور وہ اس کا اندازہ لگاتے ہیں کہ ملک میںشراب نوشی کی روک تھام پر 60 ملین ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کر دی ہے ، اور جو کتابیں اور پمفلٹ نشر کیے وہ 15 بلین صفحات پر مشتمل تھے اور حکومت نے (شراب نوشی) کی تحریم کے قانون کو نافذ کرنے پر چودہ برس میں 250 ملین جنیہ خرچ کر دیئے اور اس دوران 300 لوگوں سے ہاتھ دھونا پڑا، اور 5,32,335 افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا اور اس دوران جرمانے 16 ملین جنیہ ہوئے اور ان تمام کاموں پر تقریباً 404 ملین جنیہ خرچ ہوئے لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود بھی امریکی قوم کو سوائے چالان بھرنے اور اس نشے میں سرکش ہونے کے کچھ حاصل نہ ہوا یہاں تک 1933ء میں حکومت اس قانون کو معطل کرنے پر مجبور ہوگئی اور اس نے اپنے ملک میں شراب نوشی کی مکمل اجازت دے دی۔ انتہی
بے شک امریکہ ان تمام کوششوں کے باوجود عاجز آگیا اس کے برعکس اسلام جس نے امت کی تربیت کی اساس دین پررکھی اور ان کے نفوس میں ایمانِ حق کی آبیاری کی اور ان کے ضمیر کو اچھی تعلیم اور اسوئہ حسنہ پر زندہ رکھا اور اس کےعلاوہ اور کوئی کام نہ کیا اور نہ ہی اس طرح کی محنت شاقہ کی بلکہ یہ کلمہ اللہ رب العزت کی طرف سے صادر ہوا اور لوگوں نے اُسے مطلق طور پر قبول کیا۔
بخاری ومسلم میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ’’ہمارے لیے شراب اس فضیخ کی ہی مانندتھی جسے تم لوگ فضیخ( انگور کا شربت)  کہتے ہو۔میں اپنے گھر میں کھڑا ابو طلحہ، ابو ایوب (انصاری) اور دوسرے اصحاب رسول اللہ ﷺ کو شراب پلا رہا تھا، تو ایک شخص آیا پس اس نے کہا کیا تم لوگوں کو خبر پہنچی ہے؟ تو ہم نے کہا :نہیں ، اس نے دوبارہ کہا ، شراب حرام ہوچکی ہے، پس کہا : اے انس ان مٹکوں کو پھینک دو، سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بارے میں کسی نے نہیں پوچھا: (کہ کب یہ حکم نازل ہوا) اور نہ ہی اس شخص کی خبر کے بعد اس کی طرف لوٹے اور اس طرح ایمان اس کے ماننے والوں کا ہوتاہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے