الحمد لله علم الإنسان والصلاة والسلام على رسول الله صلي الله عليه وسلم الذي بلغ الرسالة وأدى الأمانة ونصح الامة وتركها على محجة البيضاء ليلها كنهارها لا يزيغ عنها إلا هالك أما بعد

ذیلی سطور میں ہم حصول علم کے ضروری آداب ،خوبیاں اور خامیاں سے متعلق بات کریں گے۔ ان شاء اللہ
1 اخلاص وللہیت
طالب علم پر سب سے پہلے یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس مقدس پیشے سے منسلک ہونے کے بعد، ریاکاری یا دنیوی مقاصد کے حصول کے بجائے خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول کو پیش نظر رکھے لیکن بہت ہی کم طلبہ ایسے ہوتے ہیں جو حصولِ علم سے عارضی مفادات کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی چاہتے ہیں (إلا من رحم ربی ) (السیر 11/316)
اپنی طاقت کے مطابق اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ نیت میں حصول رضائے الٰہی کے سوا کسی اور امر کا شائبہ نہ ہو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے ساتھ اس کی سوچ کے مطابق ہی معاملہ فرماتا ہے اگر سوچ ہی بری ہو تو پھرنتائج بھی برے برآمد ہوتے ہیں جب طالب علم میں صدقِ نیت ہو تو اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا فرماتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ(العنكبوت:69)

اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انھیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گےیقیناً اللہ نیکوکاروں کا ساتھی ہے ۔
2مدارس وشیوخ سے استفادہ کیا جائے
علم دین کا یہ کمال ہے کہ اس کی اشاعت وابلاغ کے لیے ہر شہر میں علمی مراکز قائم ہیں ہمیں دور دور کی سفری مشکلات نہیں اٹھانا پڑتیں یہ علم دین ہی کا خاصہ ہے کہ اس کی تعلیم بالکل مفت فراہم کی جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ان مدارس وجامعات میں شیوخ واساتذہ کا وجود بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے جو صرف اسلامی تعلیمات کی تدریس واشاعت میں مگن رہتے ہیں لہٰذا ہمیں ان مدارس واساتذہ کرام کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے ان کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اگر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دیگر شہروں میں جانا پڑے توحصول علم کے متلاشی کو اس سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ مدارس وجامعات ہی ایسے علمی مراکز ہیں جو انسان کو ضلالت وجہالت کے اندھیروں سے نکال کر روشنی عطا کرتے ہیں لہٰذا ان علمی مراکز ومدارس کی طرف رختِ سفر باندھنا بھی باعث حصول جنت ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ (مسلم:2699)

’’جو شخص حصول علم کے لیے رختِ سفر باندھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتاہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ علم کے نور سے خود کو منور کرنے کی خاطر سفر کرنا گویا جنت کی جانب سفر کرنا ہے اسی طرح علماء واساتذہ کا وجود بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کی قدر کرنا چاہیے ان کے علم سے استفادہ کرنا چاہیے اور ان کے علمی تجربات اور اخلاقیات سے زیادہ سے زیادہ سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ علم کی بقا انہی کے وجود سے ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنْ الْعِبَادِ وَلَکِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّی إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمٌ اتَّخَذَ النَّاسُ رُئُوسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا (صحيح البخاري كتاب العلم باب كيف يقبض العلم ، حديث :100)

’’بیشک اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں
(کے سینوں سے) نکال لے بلکہ علماء کو موت دیکر علم کو اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو جاہلوں کو سردار بنالیں گے اور ان سے (دینی مسائل) پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسرں کو بھی گمراہ کریں گے۔ ‘‘
اس لیے دین کے حقیقی علماء کی رحلت سے پہلے ان کی حیات ووجود کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور ان سے علوم وفنون میں استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ انہی کے ذریعے سے علم کا ابلاغ ہوتا ہے اور ان کے چلے جانے سے علم بھی اُٹھ جاتاہے۔
3 علمی مجالس میں شرکت کی جائے
علم محض پڑھنے سے ہی نہیں آتا بلکہ سننا بھی حصول علم کا ایک بڑا ذریعہ ہے علمی مجالس میں شرکت کرنے سے احاطۂ علم میں بہت اضافہ ہوتاہے لہٰذا یسی مجالس جن میں علمی موضوعات زیر بحث ہوں اُن میں شرکت کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اختلافی مسائل پر ہونے والے مباحثے ومناظرے میں بھی شرکت کرنی چاہیے اس سے فریقین کے دلائل کا علم حاصل ہوتا ہے اور پھر ان دلائل کے پیش نظر صحیح اور راجح موقف متعین کرنے میں کوئی دقت لاحق نہیں ہوتی طرفین سے پیش ہونے والی احادیث وآثار ان کی صحت وضعف ، وجوہ ترجیح وتعلیل اور ان کےمآخذ کا علم حاصل ہوتاہے ان کے علاوہ بھی دیگر بہت سے علمی فوائد کے حصول کے لیے ایسی علمی مجالس میں شرکت کا اہتمام نہایت ضروری ہے ۔
4 محنت اور کوشش سے کام لیا جائے
صرف ذوق وشوق رکھنا یا مسلسل حاضر رہنا حصول علم کے لیے کافی نہیں بلکہ اس کے لیے انتہائی محنت اور جدوجہد بھی ضروری ہے کیونکہ کوئی بھی مقصد بغیر کدوکاوش کے حاصل کرنا ناممکن ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى (النجم:39)

’’اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔‘‘
یعنی اگر کسی کام کے لیے محنت وکوشش سے کام نہ لیا جائے تو اس میں قطعاً کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی اور جس کام کے لیے جدوجہد کی جائے وہ کام ضرور ہوکر رہتاہے۔
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

إنما العلم مواهب، يُؤتيه الله من أحب من خلقه، وليس يَناله أحد بالحسَب، ولو كان لعلة الحسب لكان أولى الناس به أهل بيت النبي صلى الله عليه وسلم (الحث على طلب العلم ص 78)

’’علم ایک وہبی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے اپنے محبوب بندے کو ہی عطا فرماتا ہے یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ کوئی اسے حسب ونسب کی بنیاد پر حاصل کر سکے کیونکہ اگر علم حسب ونسب کی بدولت حاصل ہوتا تو تمام لوگوں کی نسبت نبی کریم ﷺ کے اہل بیت اس کے زیادہ حق دار ہوتے۔‘‘
یعنی اگر علم حسب ونسب کی بنا پر حاصل ہوتا تو آپ  ﷺ کے چچا اور دادا اس سے کیوں محروم رہے؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل خاص ہوتا ہے لیکن وہ بھی اس شخص کے لیے ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند فرمائے لہٰذا اللہ تعالیٰ کی نظر میں محبوب وپسندیدہ بننے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اوامر کی اتباع اور نواہی سے اجتناب کے ساتھ حصول علم کا ذوق وشوق، خلوص نیت اور محنت وکوشش سے بھی کام لیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کی اس عطا کے حق دار بن سکو۔
امام اسماعیل الجرجانی رحمہ اللہ ہر رات میں مختلف علوم وفنون پر محیط 90 اوراق لکھا کرتے تھے۔
ان لوگوں کے عزائم اور ہمتیں پہاڑ کی مانند مضبوط ہوا کرتی تھیں نہ تو انہیں عیش وآرام کی چاہت ہوتی، نہ مال ودولت کی حرص ہوتی، اور نہ ہی دنیوی خواہشات ان پر غالب آتی تھیں بلکہ انہوں نے تمام تر امور سے قطع نظر ہوکر خود کو فقط تعلیم وتعلّم کے لیے وقف کر رکھا تھا اور لیل ونہار کے تمام اوقات اسی کام میں مشغول رہتے۔
ہر طالب علم جب حصول علم کے لیے صدقِ نیت کے ساتھ محنت کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے پیش آنے والی تمام مشکلات آسان فرما دیتاہے تمام رکاوٹیں دور کر دیتا ہے اور منازل علم کی طرف راہنمائی فرماتاہے ۔
موجودہ دور میں حصول علم کے لیے بہت زیادہ وسائل وسہولیات میسر ہیں ہم اگر چاہیں تو اسلاف کے طرزِ عمل کے مطابق خود کو ڈھال سکتے ہیں لیکن اس کے لیے بلند ہمتی، عزم صمیم، خلوص نیت، محنت،جدوجہد اورشوق ورغبت جیسی صفات کا ہونا ضروری ہے۔
بقول شاعر ؎
شوق ہو راہنما تو کوئی چیز نہیں مشکل
مگر شوق بڑی مشکل سے راہنما بنتا ہے
5 مکمل انہماک ودلچسپی سے پڑھا جائے
سبق کا وقت شروع ہوجائے تو مکمل یکسوئی کے ساتھ اس میں متوجہ رہنا چاہیے ، ذہن کو دوسرے معاملات وامور میں الجھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ شیطان چونکہ علومِ دینیہ اور طلبائے دین کا دشمن ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ طلباء کے ذہنوں کو دیگر معاملات میں الجھائے رکھے لیکن اُس کے شر سے بچنے کے لیے ذہن کو اپنے مقصد میں محو ومگن رکھنا چاہیے۔
امام شعبی رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے کیسے علم حاصل کیا ؟ تو انہوں نے جواب دیا ۔
بنفي الاعتماد، والسير في البلاد، وصبر كصبر الحمار وبكور كبكور الغراب (الرحلة في طلب الحديث ص 196)
’’خود پر اعتماد نہ کرنے،مختلف شہروں کا سفر کرنے، گدھے کے صبر کی طرح صبر کرنےاور کوے کی طرح صبح سویرے جاگنے سے۔‘‘
امام فرعانی رحمہ اللہ ذکر کرتے ہیں کہ ہم عبد بن الفصل رحمہ اللہ کی مجلس حدیث میں شریک تھے اور وہ ہمیں پڑھا رہے تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی ہم میں سے کسی نے اس طرف توجہ نہ دی جب اس نے مسلسل دستک دینا شروع کر دی تو امام صاحب نے ایک شاگرد سے فرمایا کہ دیکھ کون ہے؟ اگر کوئی اصحاب رائے میں سے ہو تو دروازہ کھول دینا لیکن اگر اصحاب حدیث میں سے کوئی ہوتو دروازہ مت کھولنا۔
حاضرین مجلس میں سے کسی نے پوچھا کہ کیا صاحب حدیث اس کے زیادہ لائق نہیں کہ اس کے لیے دروازہ کھولا جائے؟ تو انہوں نے فرمایا نہیں ، اس لیے کہ اصحاب الحدیث کو بخوبی علم ہے کہ درسِ حدیث کے دوران حدیث پڑھنے اور سننے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں ہوسکتا تو پھر بھی وہ دروازہ کھٹکھٹائیں تو ان کی سزا یہی ہے کہ ان کے لیے دروازہ کھولا ہی نہ جائے لیکن اصحاب رائے اس بارے میں معذور ہیں انہیں احادیث کا ہی صحیح طور پر علم نہیں ہوتا تو پھر آداب حدیث سے وہ کیسے واقف ہوں گے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ ذکر کرتے ہیں کہ جب عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ حدیث کا سبق پڑھا رہے ہوتے تو ان کے طلباء اور شاگرد ایسے بیٹھے ہوتے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوںیا جیسے وہ نماز میں مشغول ہوں۔
اسی طرح احمد بن سنان رحمہ اللہ انہی کے متعلق ذکر کرتے ہیں کہ ان کی مجلس میں لوگ اس قدر انہماک سے بیٹھے ہوتے کہ نہ کوئی مسکراتا، نہ کوئی کھڑا ہوتا حتی کہ کوئی قلم کی بھی آواز پیدا نہ ہونے دیتا اور اس طرح سبق کی طرف متوجہ ہوتے کہ جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں اور اگر آپ کسی کو مسکراتا یا بات کرتا دیکھ لیتے تو جوتا پہنتے اور مجلس سے اُٹھ کر چلے جاتے۔ ( السیر 9/201۔202)
اس لیے کہ ایسی مجلس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکینت نازل ہوتی ہے اور رحمت ان پر سایہ فگن رہتی ہے اور اس میں سنجیدگی اور متانت کے خلاف کوئی بھی فعل آداب مجلس کے خلاف ہےامام مہدی رحمہ اللہ کسی بھی بے ادبی ہونے پر مجلس سے تشریف لے جایا کرتے تاکہ علم کا ادب واحترام برقرار رہ سکے اور رحمت وسکینت سے محرومی نہ ہوجائے انسان جب کسی بھی کام میں سنجیدگی اختیار کر لیتا ہے اور اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مکمل انہماک ودلچسپی سے کام لیتا ہے تو وہ ضرور اس میں کامیاب ہوجاتا ہے اگر وہ مال ودولت کے حصول میں دلچسپی لے تو وہ ضرور دولت مند بن جائے گا اگر اخروی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے عبادت وریاضت کا اہتمام کرنے لگے تو ضرور نجات سے ہمکنار ہوگا اور اسی طرح اگر وہ حصول علم میں انہماک ودلچسپی اختیار کرلے تو علم کے اس مقام پر فائز ہوگا جہاں اسے سب لوگ رشک کی نگاہ سے دیکھیں۔
6 مایوس ونااُمید نہ ہوا جائے
بہت سے طلبہ جب کئی کئی ماہ یا سالہا سال محنت کرنے کے باوجود علوم وفنون میں مہارت حاصل نہیں کر پاتے تو مایوس ونااُمید ہوجاتے ہیں اور محنت کرنا چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ جب کوئی طالب علم خلوص نیت اور شوق ومحنت سے اپنے کام میں مگن ہو تو اسے قطعاً نااُمید نہیں ہونا چاہیے کیونکہ محنتی شخص کبھی بھی ناکام نہیں ہوتا بلکہ کامیابی اس کے قدم ضرور چومتی ہے ایسے طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لیے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول قابل توجہ ہے وہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں :

مكثت في كتاب الحيض تسع سنين، حتى فهمته (طبقات الحنابلة 1/268)

’’ میں نے کتاب الحیض کو سمجھنے میں نو برس صرف کیے۔‘‘
لہٰذا ایسے طلبہ کو پریشان ہوکر نا اُمیدی نہیں اختیار کر لینی چاہیے اللہ تعالیٰ نے عام طور پر تمام انسانوں کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے کوئی شخص معمولی محنت سے کام لیتا ہے اور کامیاب ہوجاتاہے اور بعض نہ ذہانت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ ہی محنت کی زحمت گوارہ کرتے ہیں تو وہ ناکامی کا منہ دیکھتے ہیں لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض طلبہ شدید محنت کے باوجود بھی کوئی سبق یا بحث جلد سمجھ نہیں پاتے تو ایسے طلبہ کو نا اُمید ہوکر اس سبق کو ادھورا نہیں چھو|ڑ دینا چاہیے بلکہ اپنی محنت جاری رکھنی چاہیے کہ خلوص ومحنت ہی کی بدولت اللہ تعالیٰ تمام مشکلات آسان فرما دیتاہے۔
امام شنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے ایک مسئلہ کی وضاحت نہیں ہورہی تھی بہت کوشش کے باوجود میں ناکام رہا لیکن میں عزم کیے ہوئے تھا کہ اس مسئلہ کو ضرور سمجھ کر رہوں گا، چنانچہ میں مسلسل اسی میں مشغول رہا اور میرا خادم شمع لے کر میرے سر پر کھڑا رہا حتی کہ ساری رات بیت گئی اور فجر طلوع ہوگئی تب کہیں میرا اشکال زائل ہوا اور میں اُس مسئلے کو سمجھ گیا۔
7 اساتذہ کا ادب واحترام کیا جائے ۔
طالب علم پر اساتذہ کا ادب واحترام واجب ہے کیونکہ اساتذہ کے ادب واحترام سے وہ کچھ حاصل ہوتاہے جو کتب سے حاصل نہیں ہوپاتا طالبعلم کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ وہ اساتذہ کے ادب کا لحاظ نہ رکھے اسی طرح استاد کے کلام کو اپنے فہم ناقص کی وجہ سے غیر مفید سمجھنا یا اپنا علم جتلانے کے لیے ان سے بحث ومباحثہ کرنا شقاوت وبدبختی کا باعث بلکہ جہالت سے نکال کر علم وہدایت کی راہ دکھلانے والوں کا خود کو ہمیشہ احسان مند اور ان کے احسانات وعنایات کا قرض دار سمجھتے رہنا چاہیے اور ہر دم ان کی تعریف وتحسین میں لب کشار رہنا چاہیے ،سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا میں اس کا غلام ہوں اگر وہ مجھے بیچ بھی ڈالے تو میں برانہ مانوں۔
محمد بن محمد الخادی استاد کے ادب واحترام کے متعلق کہتے ہیں کہ
رأيــت أحــق الحــق حــق المعلـم
وأوجبــه حفظـا علـى كـل مسـلم
’’میری رائے میں استاد کا حق تمام حقوق سے بڑھ کر ہے اور اس کا پاس ولحاظ رکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔‘‘
شیوخ واساتذہ کی تکریم وتعظیم کی تعلیم نبی مکرم ﷺ نے بھی دی ہےبلکہ ان کی بے ادبی کرنے والوں کو اپنوں میں شمار ہی نہیں فرمایا :

ليس من أُمتي من لم يُجِلَّ كبيرَنا، ويَرحَمْ صغيرَنا، ويعرِفْ لعالمِنا (صحیح الترغیب 1/24 ، حدیث:101)

’’وہ شخص میرا امتی ہی نہیں جو بڑوں کی عزت نہ کرے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور عالم کا حق نہ پہنچانے۔‘‘
عالم کا حق پہچاننے سے مراد یہ ہے کہ ان سے پیش آتے وقت ان کی عزت وتوقیر کی جائے ان سے بات کرتے وقت ادب واحترام ملحوظ رکھا جائے اور ان کی عدم موجودگی میں اگر ان کا تذکرہ ہو تو اچھے الفاظ سے ان کا ذکر کیاجائے۔
استاد کی خدمت کرنا بھی آداب وتعظیم میں شامل ہے طالب علم کو استاد کے حکم کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کے کہے بغیر ان کے کام نمٹا دینے چاہئیں کیونکہ جو تمہیں علم کی دولت سے مالا مال کرتاہے ان کی خدمت کرنا ان کے احسان کے شکریے کی ایک ادنیٰ سی صورت اور فلاح دارین کا ذریعہ بھی ہے اس لیے خدمتِ اساتذہ کو اپنا شعار بناناچاہیے۔
خلیفہ ہارون الرشید رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے کو امام اصمعی رحمہ اللہ کی خدمت میں حصول علم کے لیے بھیجا وہ اپنے استاد کا بہت خدمت گزار ثابت ہوا ایک دن خلیفہ امام صاحب کی مجلس میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ وہ وضو فرما رہے ہیں اور ان کا بیٹا برتن ہاتھ میں لیے پانی ڈال رہا ہے تو خلیفہ کہنے لگا امام صاحب! کیا آپ اسے یہ ادب سکھلا رہے ہیں اپنے استاد کا ؟ اسے تویہ چاہیے تھا کہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالتا اور دوسرے ہاتھ سے آپ کے پاؤں دھوتا۔اساتذہ کی خدمت کے ذریعے ان کی دعائیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ان کی دعائیں کامیابی وکامرانی کے دروازے کھولتی ہیں۔ اسی طرح اساتذہ کی بددعا سے بھی بچنا چاہیے کہ وہ کامیابیوں میں رکاوٹ بنتی ہے علوم وفنون میں مہارت ، اساتذہ کی نظر میں وقار اور ان کی دعاؤں سے عمل زندگی میں کامیابی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر وثواب حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ کی موجودگی اور عدم موجودگی میں ان کا ادب کیا جائے۔
کتنی محبتوں سے پہلے سبق پرا یہ
میں کچھ نہ جانتا تھا سب کچھ مجھے سکھایا
8 تعلیم میں دلچسپی نہ لینا
تعلیم کا مقصد واضح اور متعین نہ ہو تو حصول علم میں دلچسپی اور شوق پیدا نہیں ہوتا۔ نصاب ونظام تعلیم کی یہ سب سے بڑی خامی ہے یہ سبب اور خامی موجود ہو تو حصول علم میں رغبت ختم ہوجاتی ہے یعنی کلاس میں حاضر نہ ہونا ،یا حاضر تو ہونا مگر اسباق میں دلچسپی نہ لینا یا اسباق کو سننا اور یاد نہ رکھنا، یا آج کا کام کل پر ٹالے رکھنا، یا نصابی کتب کے بجائے غیر نصابی کتب ورسائل کے مطالعے کا غیر معمولی شوق رکھنا۔ یہ تمام عوامل عمل تعلیم کو شدید متأثر کرتے ہیں۔ دورانِ تعلیم اس کا احساس نہیں ہوپاتا اس کا احساس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس وقت ہوتاہےجب ہم عصر لوگ تعلیم سے فراغت پاکر اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی اور اس طرف پیش قدمی کر چکے ہوتے ہیں ۔ ایک شاعر کہتا ہے

إِذَا أَنْتَ لَمْ تَزْرَعْ وَأَبْصَرْتَ حَاصِدًا
نَدِمْتَ عَلَى التَّفْرِيطِ فِي زَمَنِ الْبَذْرِ

’’جب آپ نے بیچ نہیں بویا تو کٹائی کے دنوں میں فصل کے پکنے اور کاٹنے کی امید لگانا، اپنی سستی پر شرمندہ ہونے کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘
9 علم پر عمل نہ کرنا
علم پر عمل نہ کرنا علم کی برکات کے زائل ہونے کا سبب ہے اور روزِ قیامت یہ عمل اس شخص کے خلاف حجت ہوگا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایسے عمل سے متنبہ فرمایا ہے:

كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُون

’’اللہ کے ہاں یہ بہت بڑا جرم ہے کہ تم لوگوں کو جو بات کہہ خود اس پر عمل نہ کرو۔‘‘(الصف:3)
اسلاف رحمہم اللہ جس شوق ورغبت اور محنت سے علم حاصل کرتے، اس پر عمل کرنے کے لیے اس سے بھی کہیں بڑھ کر حریص رہتے تھے۔سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سے کوئی شخص جب دس آیات سیکھ لیتا تو اس وقت تک آگے نہ بڑھتا جب تک ان دس آیات کے معانی ومفاہیم کو خوب سمجھ نہ لیتا اور ان میں بیان گئے گئے احکامات پر عمل نہ کرلیتا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ علم انسان کی عملی کیفیت دیکھتا ہے اگر وہ اس پر عمل نہ کرتا ہو توعلم اس سے رخصت ہوجاتاہے۔

العلم بلا عمل كالسحاب بلا مطر

معلوم ہوا کہ علم اور عمل دونوں لازم وملزوم ہیں اگر دونوں کا وجود ہو تو حصول برکات، رفعت ونجات کا باعث بنتا ہے اور اگر علم تو ہو لیکن اس پر عمل نہ ہو تو یہی علم انسان کے لیے وبال بن جاتاہے دین کا علم ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت اور لازوال دولت ہے اس دولت کی بھی مال کی طرح زکاۃ ادا کرنا واجب ہے اور اس کی زکوٰۃ اس پر عمل کرنا اور دوسروں کو اس کی تعلیم دینا ہے جیسا کہ شیخ الدعوۃ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

اعْلمْ رَحِمَكَ اللهُ أَنَّهُ يَجِبُ عَلَيْنَا تَعَلُّمُ أَرْبَع مَسَائِلَ:المسألة الأُولَى: الْعِلْمُ: وَهُوَ مَعْرِفَةُ اللهِ، وَمَعْرِفَةُ نَبِيِّهِ ـ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ـ، وَمَعْرِفَةُ دِينِ الإِسْلامِ بالأَدِلَّةِ.المسألة الثَّانِيَةُ: الْعَمَلُ بِهِ المسألة الثَّالِثَةُ: الدَّعْوَةُ إِلَيْهِ.المسألة الرَّابِعَةُ: الصَّبْرُ عَلَى الأَذَى فِيهِ(الاصول الثلاثة للشيخ محمد بن عبد الوهاب )

’’ اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے جان رکھو کہ چار مسائل کو اچھی طرح جاننا ہر مسلمان مرد وعورت پر واجب ہے ،پہلا مسئلہ: علم حاصل کرنا ، دوسرا اس علم پر عمل کرنا ، تیسرا : اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا، چوتھا مسئلہ : اس دعوت میں پیش آنے والی تکالیف پر صبر کرنا۔ ‘‘
قارئین کرام !مذکورہ بالا نقاط حصول علم کی خوبیوں سے متصف ہوکر اور خامیوں سے بچ کر انبیاء کے وارث بننے میں کوئی چیز مانع نہیں۔
اللہ رب العزت سے استدعا ہے کہ وہ ہمارے سینوں کو علم نافع اور عمل صالح سے آراستہ فرمادے۔

إنہ ولی ذلك والقادر علیہ
۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے