عدلیہ ریاست کا اہم ترین ستون ہے کیونکر عدالت ہی وہ حقیقت ہے جس پر کائنات کا نظام حیات قائم ودائم ہے عدل کے بغیر نظام زندگی قائم رکھنا نا ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے دنیا میں زمین وآسمان کے بعدتمام چھوٹے بڑے ستارےاور سیارےحتی کہ تمام ذرات میںعدالت کا ر فرما ہے اگر یہ عدل وتوازن ذرا سا بھی بگڑجائے تو نظام کائنات تہہ وبالا ہوجائے گا ۔ بل الانسان علی نفسہ بصیرہ کے تحت انسانی جسم اور اس کا نظام اللہ تعالیٰ کے نظام توازن وعدل کی بہترین مثال ہے۔
بدنِ انسان کے نظام توازن میں خلل پیدا ہونے سے انسان بے شمار مہلک امراض کا شکار ہوجاتاہے ایسے ہی کانئات کا نظام قمری اور شمسی توازن اور عدالت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا تو پورا نظام حیات،معاشرتی،سماجی اور سیاسی نظام عدالت وتوازن کے بغیر کیسے کامیاب ہوسکتاہےلہٰذا پُر امن معاشرے کے قیام کے لیے پُر سکون انسانی زندگی کے لیے دنیا وآخرت میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نظام زندگی بھی عدالت وتوازن کے مستحکم ستونوں پر قائم ہو، تاکہ بدامنی،بے سکونی اور تباہی وبربادی سے محفوظ رہ سکے اسی ضرورت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام ورسل علیہم السلام کو مبعوث فرما کر اپنی مخصوص راہنمائی اور ہدایت کا انتظام کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل علیہم السلام کی بعثت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا :

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۚ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْهِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ وَرُسُلَهٗ بِالْغَيْبِ ۭاِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ (الحدید:25)

یقیناً ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (ترازو) نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں اور ہم نے لوہے کو اتارا جس میں سخت ہیبت اور قوت ہے اور لوگوں کے لئے اور بھی بہت سے فائدے ہیں اور اس لئے بھی کہ اللہ جان لے کہ اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد بےدیکھے کون کرتا ہے بیشک اللہ قوت والا زبردست ہے۔
مزید فرمایا :

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلّٰهِ شُهَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ ۡ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا ۭاِعْدِلُوْا ۣ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ۡ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (المائدۃ : 8)

اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے عدل کیا کرو جو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔
جبکہ ہم تو مسلمان ہیں ہمارا اللہ کی عدالت پر پختہ یقین بلکہ اس کے بغیر ہمارا ایمان ہی مکمل نہیں ہوسکتا اور ہمیں حکم بھی ہے ۔

وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ (البقرۃ : 48)

اس دن سے ڈرتے رہو جب کوئی کسی کو نفع نہ دے سکے گا اور نہ شفاعت اور نہ سفارش قبول ہوگی اور نہ کوئی بدلہ اس کے عوض لیا جائے گا اور نہ مدد کیے جائیں گے۔
ہر انسان اپنے اعمال کا خود ذمے دار اور جوابدہ ہوگا اس کا کوئی وزیر،مشیر اور وکیل نہیں ہوگا اللہ چاہے تو اپنے حقوق معاف کر دے گا مگر حقوق العباد میں کوتاہی کبھی معاف نہیں کرے گا۔اسلام تو پوری دنیا میں عدل وانصاف کا نظام قائم کرنے کے لیے آیا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان جو کہ اسلام کے نام پرحاصل کیاگیاہے اس میں عدل وانصاف کا بول بالا ہونا چاہیے تھا مگر یہاں پر غیروں کا قانون نافذ ہے اور وہ بھی زبوحالی کا شکار ہے جس کی واضح مثالیں پاکستانی نظام عدل میں دیکھنے کو ملتی ہیں جو کہ اتنا مہنگا اور پیچیدہ ہے کہ اس نظام کو بیلنے سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ ہمارا عدالتی نظام بیلنا ہے اس کے دروازے پر قدم رکھنے والے ہر شخص کا وہ حال کرتا ہے جو بیلنا گنے کے ساتھ کرتاہے یہ مظلوموںکا پھوک تک نچوڑلیتاہے گھر بار جاندار سب کچھ بِک جاتاہے کیونکہ مقدمہ کے اخراجات،وکیلوں کی فیسیں ، عدالتی عملے کی بخشش وغیرہ اور انصاف پھر بھی نہیں ملتا۔پاکستانی نظام عدل کی زبوں حالی کا جائزہ لینے کے لیے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی مثال پیش کرتے ہیں جوکہ ڈاکٹر توصیف احمد خان کے کالم سے ماخوذ ہے۔

قانونی نظام کی زبوں حالی کا ایک اور دل دہلا دینے والا واقعہ سپریم کورٹ سے بری 2 بھائیوں کو ایک سال پہلے پھانسی ہوچکی تھانہ صدر صادق آباد رحیم یار خان کی حدود میں گاؤں رانجھے میں عبد القادر اور اس کے بیٹے کے قتل کے بعد بیٹی سلمیٰ کو بھی قتل کردیاگیا تھا۔ ملزمان غلام فرید کو دوبار قید،غلام قادر اور غلام سرور کو ٹرائل کورٹ سے 3، 3 بار سزائے موت کا حکم دیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بینچ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سپریم کورٹ کے جسٹس راجہ فیاض اور جسٹس فیاض پرویز نے 10 جون 2010 کو عبد القادر اور اکمل کی حد تک سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا جب کہ سلمیٰ کے معاملے پر اپیل باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کر لی گئی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی نقول ہائی کورٹ ، وزارت داخلہ اور محکمہ داخلہ پنجاب کو ارسال کر دی گئی تھیں۔ سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں فل بینچ نے 6 اکتوبر کو مقدمے کی سماعت کے دوران گواہوں کے بیانات میں تضادات کی بنا پر غلام قادر اور غلام سرور کو بری کر دیا مگر پتہ چلا کہ ان دو افراد کو 13 اکتوبر 2015ء کو ڈسٹرکٹ جیل رحیم یار خان میں پھانسی دیدی گئی تھی۔ غلام قادر اور غلام سرور اپنی رہائی کا فیصلہ سننے کے لیے اس دنیا میں موجود نہیں تھے۔ ان کے لواحقین انصاف کے حصول کے لیے احتجاج کررہے ہیں۔
گزشتہ ماہ لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی بینچ نے قتل کے ایک ملزم جمیل کی رہائی کا حکم دیاتھا۔ جمیل 19 سال جیل میں رہنے کے بعد دو سال قبل جہلم جیل میں انتقال کرگیا تھا جمیل کی رہائی کے لیے کوششیں کرنے والے اس کے والد اور چچا بھی یہ خوش خبری سننے کے لیے دنیا میں موجود نہیں تھے۔ انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ صرف غلام قادر، غلام سرور اور جمیل ہی اس نظام کا شکار نہیں ہوئے بلکہ کئی اور غریب بھی بے گناہ ہونے کے باوجود پھانسی پر لٹکا دیے گئے یا جیلوں کی سزائے موت کی کھولی میں مرگئے۔ وکلاء اس پورے معاملے کو عدالتی نظام اور سزائے موت پر جلدی عملدرآمد کو قرار دیتے ہیں۔ کراچی میں طویل عرصہ سے سرکاری وکیل کے فرائض انجام دینے والے شاہد علی ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ان دو افراد کی سزائے موت کو غیر سنجیدگی،نااہلی اور انسانی جان کو اہمیت نہ دینے کی بدترین مثال قرار دیاجاسکتاہے۔
تعزیراتِ پاکستان کے تحت قتل کی دفعات کے ملزمان کا مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں چلتاہے پھر ملزمان ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کا حق ہوتاہے اگر کوئی ملزم اپیل کرنے کی حیثیت نہیں رکھتا تو جیل سپرنٹنڈنٹ ملزمان کی عرض داشت متعلقہ ہائی کورٹ میں بھجواتا ہے ہائی کورٹ کے فیصلے تک سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہوتا اگر ہائی کورٹ میں سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا جائے تو ملزم کو سپریم کورٹ میں اپیل کا حق ہوتاہے اگر سپریم کورٹ بھی ملزم کی اپیل مسترد کر دے تو مجرم صدر پاکستان کو اپیل کرنے کا حق ہوتاہے۔جب صدر پاکستان مجرم کی اپیل مسترد کردیتے ہیں تو وزارتِ قانون اس کی اطلاع صوبائی محکمہ داخلہ اور ٹرائل کورٹ کو دیتاہے پھر ٹرائل کورٹ کا جج ملازم کو ریڈ وارنٹ جاری کرتاہے اور متعلقہ جیل کے سپریٹنڈنٹ کو خط لکھتا ہے کہ مجرم کو سزائے موت دینے کی تاریخ طے کی جائے اور قریبی رشتے داروں سے آخری ملاقات کا اہتمام کیاجائے۔ جیل سپریٹنڈنٹ مجرم کو اپنی وصیت لکھنے کا مشورہ دیتا ہے اور مجرم کی آخری خواہش معلوم کی جاتی ہے پھر مجرم کو رات کے آخری پہر تختہ دار پر لٹکا کر پھانسی گھاٹ کا لیور کھینچا جاتاہے مجرم کے گلے میں پھندا ڈالنے اور پھانسی گہاٹ کا لیور کھینچنے کے لیے ایک علیحدہ شخص کو ملازم رکھا جاتاہے۔ شاہد علی کا کہنا ہے کہ ان بدقسمت ملزمان کو سزائے موت دینے کے لیے اس طریقہ کار پر عملدرآمد نہیں ہوا۔شاید سپریم کورٹ کا پھانسی کی سزا معطل کرنے کا حکم متعلقہ دفاتر تک نہیں پہنچایا متعلقہ افسران نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہیں پڑھا۔ پھر اس بات کا بھی امکان ہے کہ ملزمان کے وکلاء اور جیل سپریٹنڈنٹ نے ان بدقسمت افراد کو صدرسے رحم کی اپیل بھیجنے کا مشورہ نہیں دیا اگرچہ دونوں افراد ناخواندہ تھے تو ان کے وکیل اور جیل سپریٹنڈنٹ کو یہ اپیل صدر کو بھجوانی چاہیے تھی۔ پھر ہر ڈسٹرکٹ جج کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ضلع کی جیلوں کا معائنہ کرے۔ ڈسٹرکٹ جج کے ساتھ متعلقہ مجسٹرینوں کی بھی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ جیل کے دورے کے دوران قیدوں کی مشکلات کا جائزہ لیں اور جیل حکام کو مسائل کے حل کا پابند کریں پھر جن ملزموں کے مقدمات طویل عرصے سے زیر التواء ہوتے ہیں ان کی وجوہات کا پتہ چلایا جائے جن کی وجہ سے یہ مقدمات طویل عرصے سے زیر التواء ہیں۔ اسی طرح پھانسی پانے والے مجرموں کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو عرض داشتیں بھجوانے کو یقینی بنانے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد صدر کو رحم کی اپیل بھیجنے کے لیے متعلقہ عملے کو پابند کیا جائے ۔ڈسٹرکٹ جج صاحبان جیلوں کی صورتحال کے بارے میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو رپورٹ دینے کے پابند ہوتے ہیں۔
غلام قادر،غلام سروراور جمیل کے مقدمات میں ثابت ہوگیا کہ سزائے موت پر عملدرآمد کے بعد باعزت بری ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کے فیصلے سے فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ ان بےگناہ افراد کی پھانسی کے بعد سپریم کورٹ کو پورے عدالتی نظام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو سزائے موت پر عملدرآمد کے بارے میں خود حقائق کا جائزہ لیناچاہیے۔ غلام قادر اور غلام سرور کے سزائے موت کے ذمے دار افراد کا محاسبہ ہونا چاہیے اورانصاف کے حصول میں رکاوٹوں کا خاتمہ ہونا بھی بہت ضروری ہے ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے