بائیسواں اصول:

اِنَّہٗ مَنْ یَّتَّقِ وَیَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ (يوسف:90)

 ’’جوبھی پرہیزگاری اور صبر کرے تو اللہ تعالیٰ کسی نیکو کار کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘
کسی انسان کا اپنے خالق کے ساتھ معاملہ کرنے اور مخلوقِ خدا کے ساتھ معاملہ کرنے کے حوالے سے یہ اصول بہت مفید ہے۔ جس شخص کی محنت کا دنیا میں اعتراف نہ ہوتا ہو اس کے لیے بھی یہ بہت بڑا سہارا ہے۔ سیدنایوسف علیہ السلام کے واقعے کے پس منظر میں یہ اصول بیان ہوا ہے‘ جب ان کے بھا ئی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے عرض کیا:

یٰٓاَیُّہَا الْعَزِیْزُ مَسَّنَا وَاَہْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَۃٍ مُّزْجٰۃٍ فَاَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا اِنَّ اللّٰہَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْنَ قَالَ ہَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِیُوْسُفَ وَاَخِیْہِ اِذْ اَنْتُمْ جٰہِلُوْنَ قَالُوْا ئَ اِنَّکَ لَاَنْتَ یُوْسُفُ قَالَ اَنَا یُوْسُفُ وَہٰذَآ اَخِیْز قَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا اِنَّہٗ مَنْ یَّتَّقِ وَیَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لاَ یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ
(یوسف 88-90)

’’اے عزیز! ہم کو اور ہمارے خاندان کو دکھ پہنچا ہے‘ ہم حقیر سی پونجی لائے ہیں‘ پس آپ ہم کو پورے غلے کا ناپ دیجئے اور ہم پر خیرات کیجئے‘ یقینا اللہ تعالیٰ خیرات کرنے والوں کو بدلہ دیتا ہے۔ یوسف نے کہا :تم جانتے بھی ہو کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ اپنی نادانی کی حالت میں کیا کیا تھا؟ انہوں نے کہا :کیا واقعی تو ہی یوسف ہے؟ جواب دیا کہ ہاں میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے‘ اللہ نے ہم پر فضل وکرم کیا۔ بات یہ ہے کہ جوبھی پرہیزگاری اور صبر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ کسی نیکو کار کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘
ہم میں سے بہت سارے لوگوں کو تقویٰ کی تعریف آتی ہے‘ بلکہ ہم میں سے کوئی ایسا بھی ہوگا جسے تقویٰ اورصبر کی بہت ساری تعریفیں آتی ہوں گی اور وہ صبر کی بہت ساری قسموں کو بھی جانتا ہو گا‘ پھر بھی وہ صبر کے پہلے ہی امتحان میں فیل ہو جاتا ہے‘ اور جہاں کہیں صبر کرنے کا موقع ہوتا ہے تو اس کا عملی مظاہرہ کرنے میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ میرا کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ وہ گناہ سے بالکل ہی محفوظ ہوگا۔ میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب صبر کرنے اورتقویٰ کا موقع آتا ہے یا اس کی ضرورت ہوتی ہے تو اِلاّ ماشاء اللہ ہم میں سے اکثر اس پر عمل کرنے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ہم سب کو یاد ہے کہ تقویٰ کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا اور ممنوعہ کاموں سے بچنا۔ اور ہم سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس کام میں خود بھی صبر کرنا ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرنی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق اپنے نفس کو روک کر رکھنا ہوتا ہے۔ بے شک ان دونوں عظیم کاموں پر ضرورت کے موقع پر عمل کرنا ہی اونچے مقام کی بات ہے۔

تیئسواں اصول:

وَاْتُوا الْـبُـیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِہَا

’’اور گھروں کو ان کے دروازوں سے آؤ۔‘‘
یہ قرآنی اصول اہل جاہلیت کی ایک عادت کے حوالے سے بیان ہوا ہے۔ اُن کی عادت تھی کہ جب احرام باندھ لیتے (اور اس کے بعد کوئی ضرورت پیش آجاتی) تو گھروں میں دروازوں کے ذریعے نہ آتے اور اس کو بھی عبادت کا حصہ سمجھتے ‘اور اُن کا گمان تھا کہ یہ بھی ایک نیکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا یہ نیکی نہیں ہے‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اِسے مقرر نہیں کیا ہے ‘جیسا کہ آیت کے شانِ نزول میں بیان ہوا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّۃِ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْـبُـیُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِہَا وَلٰــکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِہَا وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَـعَلَّـکُمْ تُفْلِحُوْنَ  (البقرۃ189)

’’(اے نبیﷺ!) لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں کی عبادت کے وقتوں اور حج کے موسم کے لیے ہے۔ اور (احرام کی حالت میں) گھروں کے پیچھے سے تمہارا آنا کچھ نیکی نہیں‘ بلکہ نیکی والا وہ ہے جو متقی ہو۔ اور گھروں میں تو دروازوں سے آیا کرو‘ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔‘‘
جس خطا کی اصلاح کی خاطر یہ آیت ِ کریمہ نازل ہوئی اُس کی تو اس قرآنی اصول نے بہت شاندار طریقے سے اصلاح کردی۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری صورتوں میں یہ عظیم قرآنی اصول لاگو ہوتا ہے‘ جس میں فرمایا گیا: وَاْتُوا الْـبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِہَا ’’اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو‘‘۔ جو شخص اس ضمن میں علماء کرام کے فرمودات کو تلاش کرے ‘ یااس اصول کو عملاً نافذ کرنے کی صورتوں پر غور کرے تو اُسے بہت ساری صورتیں نظر آئیں گی۔ مثلاً:
(۱) اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا صحیح را ستہ ہے۔ جو اللہ تعالیٰ تک رسائی چاہتا ہو‘ اُسے وہی راستہ اپنانا چاہیے جو اُسے منزل تک پہنچا سکے‘ اور یہ کام اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اُس راستے کو نہ اختیار کرے جسے رسول اللہﷺ نے مقرر فرمایا ہے۔ چنانچہ جو کوئی اللہ کی کسی ایسی شکل میں عبادت کرے جسے اللہ تعالیٰ یا اللہ کے رسولﷺ نے مقرر نہیں کیا تو وہ اپنی منزل پر دروازے کے ذریعے نہیں آیا‘ بلکہ اس نے دین میں بدعت کا راستہ اختیار کیا اور اس کی ساری محنت مردود قرار پائی۔
(۲)لفظ اور معنی ٰکے عموم سے یہ بات لی جاسکتی ہے کہ ہر اہم کام کے لیے ضروری ہے کہ اس کے صحیح دروازے سے آیا جائے‘ اور اس تک پہنچنے کا یہی سب سے قریبی راستہ اور طریقہ ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اسباب و وسائل کے بارے میں اچھی طرح علم ہو‘ تاکہ طالب ِ  منزل اچھے ‘ قریب ترین ‘ آسان ترین اور جلد کامیابی تک پہنچانے والے راستے کا انتخاب کرے۔ اور اس بات میں کوئی فرق نہیں کہ معاملہ علمی ہے یا عملی‘ دینی ہے یا دنیاوی‘ اُس کا اپناذاتی معاملہ ہے یا دوسرے بھی اس میں شریک ہیں۔ اور یہی حکمت کا تقاضا ہے۔
(۳)علم ِ شرعی حاصل کرنا مقصود ہویا دنیوی علم حاصل کرنا ہو۔ اور یہی معاملہ رزق کمانے کا ہے۔ چنانچہ جو کوئی صحیح راہ پر چلا‘ محنت سے کام کیا‘ صحیح دروازے سے داخل ہوا اور منزل تک پہنچانے والے راستے کو اختیار کیا‘ یقیناوہ کامیاب وکامران ہو گا اور اپنی منزل پالے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِہَا ’’

اور گھروں کو ان کے دروازوں سے آؤ‘‘۔ اور جس قدر مطلوبہ کام اہم ہو گا اسی قدر اس اصول کی ضرورت زیادہ ہو گی‘ اور ضروری ہو گا کہ منزلِ مقصود کو پانے کے لیے سب سے زیادہ صحیح اور سیدھے راستے کو اپنایا جائے۔
(۴)اس قرآنی اصول پر عمل کرنے کی ایک شکل لوگوں سے بات کرنے کی صورت میں ہوتی ہے۔ آیت کریمہ ہماری راہنمائی کر رہی ہے کہ مؤمن کی ذمہ داری ہے کہ وہ بات کرنے میں مناسب طریقہ اختیار کرے ‘مناسب موضوع کا انتخاب کرے جس کا بیان کرنا اچھا ہو ‘ مناسب وقت کا انتخاب کرے‘ جس شخص یا جن لوگوں کے سامنے بات کرنی ہے ان کے مرتبے کا دھیان رہے۔ کیونکہ ہر جگہ کے لحاظ سے بات کا انداز اپنا ہوتا ہے‘ ہر موقع کے لحاظ سے گفتگو ہوتی ہے ‘ اور ہرکام کا ایک مقام ہوتا ہے۔لہٰذا جو شخص علم یا مقام کے اعتبار سے کسی بڑی شخصیت سے گفتگوکرے تو اُس سے اِس طرح بات نہ کرے جس طرح عام آدمیوں سے بات کرتا ہے۔اس سلسلے میں فیصلہ کن چیز حکمت ودانائی ہے اور جس کو حکمت ودانائی عطا ہو گئی اُسے بہت بڑی خیر مل گئی۔
(۵)اس قرآنی قاعدے پر عمل کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ معاشرتی اور خاندانی مشکلات ومسائل حل کرنے کے لیے مناسب طریقے اپنائے جائیں۔ جانچ پڑتال اور غور وفکر کے بعد مشکلات کا مناسب حل نکالا جائے ‘ اس آیت کریمہ نے ان تمام باتوں کی طرف ہماری راہنمائی کی ہے۔جس کسی نے ان اصولوں کی خلاف ورزی کی اس کی مشکلات بڑھ گئیں اور ان کا حل بھی مشکل ہو گیا۔
ہر حال میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہر قسم کی مشکلات اورپریشانیوں میں قرآنِ حکیم اور سنت ِرسول اللہ ﷺ سے راہنمائی حاصل کریں اور اس بات پر مکمل یقین رکھیں‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فر مایا ہے:

اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ(الاسراء: ۹)

’’بلاشبہ یہ قرآن سب سے زیادہ سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے‘‘۔اور یہ راہنمائی ہر کام میں ملتی ہے۔ عقائد میں ‘ حلال وحرام کے احکام میں ‘معاشرتی‘ اقتصادی اورسیاسی مسائل میں۔ لیکن اصل کوتاہی ہمارے اپنے اندر ہے کہ ہم مشکلات میں اپنے رب کی کتاب سے راہنمائی حاصل کرنے میں سستی وکوتاہی کا شکار ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ ہمیں اپنی کتاب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے‘ اس کی راہنمائی پر عمل کرنے کی تو فیق دے ‘اور اس کے نور سے روشنی حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین!
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے