دین اسلام کے ضابطوں پر عمل کرنے کی وجہ سے جرائم کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے جب ہم ان کو پس پشت ڈال دیتے ہیں تو معاشرہ اخلاقی لحاظ سے زوال پذیر ہوجاتاہے۔ معاشرہ میں شتر بے مہار آزادی کی وجہ سے اگر کوئی لڑکی آشنا سے ناجائز تعلقات قائم کر لیتی ہے یا گھر سے بھاگ کر اُس سے نکاح کر لیتی ہے تو بعض اوقات اس کے خاندان کا کوئی فرد غیرت کے جذبہ سے مشتعل ہوکر لڑکی کوقتل کر دیتاہے جب مقدمہ کی عدالتی کارروائی شروع ہوتی ہے تو مدعی عام طور پر قاتل کو معاف کر دیتاہے۔
کچھ عرصہ قبل اداکارہ قندیل بلوچ کو ایک واقعہ کی آڑ میں میڈیا میں پذیرائی دی گئی اتفاقاً اس کے بھائی نے غیرت کے نام پر اُسے قتل کر دیا ان ہی دنوں دو تین لڑکیاں غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔ عوام کے ایک حلقہ کی طرف سے سخت قانون کا مطالبہ کیا گیا چنانچہ پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کے لیے ورثاء کو معافی دینے یا دیت وصول کرنے کے حق سے محروم کر دیا۔
معاشرہ میں حرص،عداوت یا اشتعال کی وجہ سے قتل وغارت کے واقعات رونما ہوتے ہیں اگر ہر شہری انتقام لیناخود شروع کر دے تو ریاستی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے دین اسلام غیرت کے نام پر خاندان کے کسی فرد کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ عدالت کو اختیار دیا ہوا ہے کہ وہ مجرم کو جرم کی نوعیت کے لحاظ سے شرعی سزا دے ۔ جناب! اسی طرح مسلم ریاست میں پارلیمنٹ کو اللہ کے قائم کر دہ حکم میں ترمیم کرنے کا اختیار نہیں کہ وہ ورثاء کو معافی دینے یا دیت کے حق سے محروم کر دے چنانچہ حکومت کو چاہیے کہ وہ غیرت کے نام پر قتل وغارت کی روک تھام کے لیے اعتدال کی راہ اختیار کرے۔
مسلم ریاست کا کوئی فرد یا عورت مرجائے تو اُس کی وراثت کسی ایک وارث کے نام منتقل نہیں ہوتی بلکہ تمام شرعی وارثوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ اسی طرح قتل غیرت میں معافی دینے کا اختیار مقتولہ کے ایک مدعی کو نہ دیا جائے بلکہ جائیداد کی تقسیم کی طرح اس کے تمام شرعی ورثاء کو اختیار دیا جائے تاکہ اسلامی قانون کی خلاف ورزی نہ ہو۔
اختلاف فطر ی امر ہے چونکہ مقتولہ کے بھائی بہن ماں باپ سب کا معاف کر دینے پر اتفاق مشکل امر ہے اس بنا پر غیرت کے نام پر قتل کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے اگر ورثاء بھائی بہن والدین حالات وواقعات کی مناسبت سے اتفاق رائے سے قاتل کو معاف کر یں یا دیت وصول کر لیں تو حکومت کو اللہ کی طرف سے معافی کا اختیار سلب کرنے کا کوئی حق نہیں۔
غیرت کا قتل اخلاقی خیانت کے جرم کا رد عمل ہے اس کو فروغ دینے والے فحاشی،عریان وبے حیائی کے ذرائع کا سد باب بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
دیہاتی ماحول میں چرواہا اپنی بھیڑ بکریوں کی نگہداشت کرتاہے کہ کوئی بھیڑیا آکر اس کی بکریوں کو اٹھا نہ لے یا اُس کی بکری کسی کی فصل کو تباہ نہ کرے اسی طرح والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی پرورش کے دوران نگہداشت کرے کہ وہ غیر محرم رشتوں سے تنہائی میں ملنے سے اجتناب کرے اور وہ بیہودہ کلچر ماحول میں مبتلا نہ ہوں اولاد بالغ ہوجائے تو اُن کے نکاح میں تاخیر کرنا سماجی برائیوں کا سبب بنتا ہے چنانچہ اس فرض کی انجام دہی کا جلد اہتمام کرنا چاہیے۔
افزائش نسل کے لیے مرد عورت کا بندھن فطری امر ہے۔
ہندوثقافت میں ولی خود مختار ہے جس سے چاہے بیٹی کا عقد کرے بیٹی کی مرضی کو دخل نہیں۔
مغربی معاشرہ میں لڑکی کا والد یا سرپرست بے اختیار ہے لڑکی اپنی ازدواجی زندگی گزارنے میں آزاد ہے جس سے چاہے بندھن کا رشتہ قانونی طور پر پیوست کرے یا بغیر عقد کے کسی سے تعلقات قائم کرے اس پر قانونی طور پرکوئی گرفت نہیں۔
اسلام کے اصول وضوابط میانہ روی پر مبنی ہیں ولی کو لڑکی پر جبر کا اختیار نہیں نہ ہی کنواری لڑکی بغیر ولی کے نکاح کر سکتی ہے البتہ ولی نکاح کا معاملہ طے کرنے کے لیے لڑکی کی رضامندی حاصل کرنے کا پابند ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ولی کو نسبت طے کرنے سے قبل لڑکا کی سیرت صورت تعلیم رہائش اور روزگار کو مدنظر رکھ کر اہل خانہ سے مشورہ کرے اور لڑکی سے براہ راست یا بالواسطہ رضامندی حاصل کرے باہمی اتفاق رائے سے نکاح کا معاملہ طے کرنے میں کسی قسم کی ندامت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا البتہ زبردستی فیصلہ ٹھونسنے سے بعض اوقات لڑکی راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے پھر خاندانی غیرت جوش میں آجاتی ہے لڑکی قتل ہوکر قبر کے تاریک گڑھے میں پہنچ جاتی ہے جبکہ غیرت مند جیل کی کوٹھری میں معافی کا منتظر بن جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اسلامی اصول اپنانے کی توفیق دے تاکہ غیرت کا اظہار کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ آمین
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے