حمد وثناء کے بعد :

فرمان الٰہی ہے :

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (النور:63)

فرمان نبوی ﷺ ہے :

بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا (صحیح مسلم186)

انحراف کی دو صورتیں ہیں ایک عملی انحراف اور دوسرا فکری انحراف۔ فکری انحراف عملی انحراف سے زیادہ خطرناک ہوتاہے ایک شخص اگر نماز نہیں پڑھتا تو یہ عملی کفر ہے لیکن اگر فکری طور پر نماز کو مانتا ہی نہیں تو یہ اعتقادی کفر ہے ایسا انسان ملت اسلامیہ سے خارج ہے۔ ایک شخص عملاً کسی کو قتل کر دیتا ہے تو یہ عملی انحراف ہے لیکن اگر کسی کو حلال سمجھ کر قتل کرتاہے تویہ فکری انحراف ہے اور یہ زیادہ خطر ناک اور کفر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے قتل وغارت گری کی خبردی ہے ’’ یہ دنیا کے دن ختم نہیں ہوں گے جب تک یہ منظر آپ نہ دیکھ لیں۔‘‘
اس وقت تک یہ دنیا کےدن ختم نہیںہوںگے جب تک یہ کیفیت نظر نہ آئے کہ قتل و غارت گری ہوگی اورقاتل کو معلوم نہیں ہوگا کہ وہ کس کو قتل کر رہا ہے اور مقتول کو معلوم نہیں ہو گا کہ وہ کیوں قتل ہو رہا ہے اور ایک حدیث کے الفاظ ہیں کہ اگر قتال کی یہ صورت دیکھ لو تو دجال کا انتظارکرنا وہ آج بھی آسکتا ہے اور کل بھی آسکتا ہے معنی قتل وغارت گری کی یہ صورت بڑی بھیانک ہے اور یہ قیامت کی قریبی علامات بن سکتی ہیںجب قتل وغارت گری کی یہ صورت عام ہوجائے تو دجا ل کا ظہور و خروج قریب ترین ہوجائے گا لیکن قتل وغارت گری اگر اس فکر کے ساتھ کی جائے کہ فلاںشخص کو قتل کرناحلال ہے جیسے آج کل مذہبی ، سیاسی اور لسانی گروہ بندی ان گروہ بندیوں میں تعصب کا عالم یہ ہے کہ دوسرے گروہ و جماعت کاخون بہاناجائز سمجھا جاتا ہےخواہ وہ اختلاف لسانی بنیادوں پر ہو یا مذہبی بنیا د پر ہو ، سیاسی بنیاد پر ہو یہ کفر ہے قتل کرنا فسق وفجور ہے لیکن قتل کو جائز سمجھ کرکرنا یہ کفر ہے،عملی انحراف بخشش کے قابل ہے کیااللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے 100افراد کے قاتل کو معاف نہیںکیا ؟یہ حدیث کے الفاظ ہیں اس نے 99قتل کیے تھے اور ظلم و بربریت میں کیےکوئی قصاص میں نہیں کیے تھے ظلم وبربریت میںایک اور قتل کرد یامفتی صاحب کا ،  جس نے علم کے بغیر فتوی دے دیا تو اس نے کہا چلیں مجھے بھی ایک قتل چاہیے تھا تاکہ سو پورے ہوجائیں اسے بھی قتل کر دیا تو یہ ظلم میں تھا بربریت میں تھا اللہ تعالیٰ نے معاف کیا ا سکو بلکہ اس کے جنت کے داخلے کی تدبیریں فرمائیں جو اس کی توبہ کی زمین تھی اس کو قریب کر دیا اور معصیت کی زمین کو دو رکر دیا اس کو اس طرح گرایا کہ اس کا پاؤں معصیت کی زمین کے قریب تھا اور اس کا دل توبہ کی زمین کے قریب تھا تو دل کے مقام پر فیصلہ ہوا یہ اشرف الآراء ہے کہ سو افراد کے قاتل کو معاف کر دیا گیا لیکن اگر فکری انحراف ہو کہ فلاں پارٹی ، فلاں گروہ کے بندے کو قتل کرنا حلا ل ہے یہ فکری انحراف ہے ایسا اگر ایک بھی قتل کروگے تو کفر ہوگا اور کفر ناقابل معافی گناہ ہے تو یہ
فرق ہے عملی اور فکری انحراف میں عملی انحراف قابل بخشش
ہے لیکن فکری انحراف جو کہ کفر ہے اور کفرناقابل بخشش گناہ ہے ایک انسان کافر ہوجائے اس کی نیکی اس کی توبہ اللہ قبول نہیں کرتا جب تک کفر کو ترک نہ کر دے اور کفر کو ترک کرکے توبہ کرے ۔
آج کا دور انتہائی خطر ناک ہے کیونکہ نبی علیہ السلام نے صحیح بخاری کی ایک حدیث میں فتنوں کے وقوع کی خبر دی ہے اور یہ بتایا کہ ان فتنوں کی یلغار دل پر ہوگی، یہ دل فکر ، عقیدہ کا مرکز ہے، منہج کے فہم کا مرکز ہے۔ سیدناحذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
کہ فتنے دلوں پر پیش کیے جائیں گے اور وہ ایک دو فتنے نہیں ہوں گے بلکہ وہ فتنے چٹائی کی مانند ہوں گے کہ جیسے چٹائی بہت سے تنکوں سے بنتی ہے کہ ایک تنکا پھر دوسرا تنکا پھر تیسرا تنکا ساتھ جوڑتے جاتے ہیںپھر آخر میں دھاگے کو کھینچ کر چٹائی کی شکل بناتے ہیں فرمایا کہ انسان کے دل پرفتنوں کی یلغار ہوگی۔ پھرفرمایا
جس دل نے اس فتنے کو قبول کر لیا اس فتنے کے بدلہ اس دل میں ایک سیاہ نشان لگا دیا جاتاہے
یہ اس چیز کی علامت ہے کہ یہ دل جو ہے وہ فکری انحراف کا شکار ہوچکا ہے ۔ایک سیاہ نشان اور فتنہ کوئی ایک دو تو نہیں ہوگے یہ تو چٹائی کے تنکوں کی طرح لائن بہ لائن آئیں گے دل پہ یہ یلغار کریں گے حملہ آور ہوں گے اورجو دل ان فتنوں کو قبول کرتا گیا اس پر ایک سیاہ نشان ، سیاہ نقطہ لگا دیا جائے گا دوسرے فتنہ پر دوسرا نشان ، تیسرے فتنہ پہ تیسرا نشان …
اور جس دل نے ان فتنوں کا انکار کیا ۔ اس دل میں ایک نور کا نشان لگا دیا جائے گا جو چمکتا ہوگا جو اس بات کی علامت ہوگا کہ یہ دل منہجی طور پر استقامت پر قائم ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اس دل کو کوئی چیز نقصان نہیں دے سکتی ، کوئی تحریک،کوئی بربریت، کوئی طاغوتی طاقت اس دل کو نقصان نہیں دے گی جس دل میں ایک فکری اور منہجی انسان ہے جو ان فتنوں کا انکار کرتاہے تو وہ دل جو فتنوں کوقبول کر لیتا ہے فرمایا یہ دل سیاہ اور الٹے پیالے کی مانند ہوگا بڑی خطر ناک مثال ہے گلاس میں پیالے میں کوئی چیز ہو پانی ہو ، دودھ ہو۔ اس کو آپ الٹا دیں سارا دودھ گر جائے گا معنی جو ایمان ہے وہ ختم ہوجائے گا اب الٹے گلاس میں الٹے پیالے میں آپ کوئی چیز داخل کرسکتے ہیں ؟پانی یا دودھ داخل کرسکتے ہیں ؟ جو دودھ تھا وہ بھی گر گیا اور آئندہ اس میں کچھ داخل نہیں ہوگا۔ ہاں اگر سیدھا ہو تو امکان ہے، الٹا ہو تو کوئی امکان نہیں ۔ بڑی خطرناک تشریح ہے کہ جو دل فتنوں کو قبول کرے گا وہ ایک تو سیاہ ہوجائے گا دوسرا وہ اس الٹے پیالے کی مانند ہوگا کیونکہ ایمان کی جو رونق دل کے اندر ہے وہ اگر گرگئی ؟اور چونکہ اب اس میں مزید کوئی چیز داخل بھی نہیں ہوسکتی،کیونکہ پیالہ الٹا ہے۔ یہ ہے فتنوں کی یلغار انسان کے دل پر اور میں یہ سمجھتا ہوں واللہ اعلم ہر گناہ ہر معصیت جو انسان کے سامنے آتی ہے وہ ان فتنوں کی وجہ سے آتی ہے اور واقعی یہ فتنہ کی چٹائی کے تنکوں کی طرح ہے یکے بعد دیگر آرہی ہے ہر جگہ فتنے گھروں میں فتنے،مسجدوں میں فتنے، ہر جگہ فتنے وہ لوگ جو ان فتنوں کا باعث بنتے ہیں ان کو قبول کرتے ہیں فتنوں کا وہ اقرار واعتراف کرتے ہیں اس حدیث کی رو سے ان کے دل سیاہ ہونے لگے ہیں جب پورا سیاہ ہوجائے گا فتنے قبول کرکرکے پھر وہ الٹے پیالے کی مانند ہوں گے جو ان کے اندر ایمان ہے وہ نکل جائے گا اور آئندہ وہ ایمان ان کے اندر داخل ہو ہی نہیں سکتا یہ اس امت کا المیہ ہے یہ امت فتنوں سے دو چار ہوگی لہٰذا جو فکری اور منہجی انحراف ہے اس سے بچاؤ کی تدابیر کریں۔

تدابیر:

اور تدبیر کیا ہے ؟ تدبیر یہ ہے علم نافع اور حصول علم ۔ علم کا ہتھیار واحد ہتھیار ہے جو ہمیں ان فتنوں سے بچا سکتاہے دوسری کوئی چیز نہیں چار خوبیاں گنوائیں فرمایا کہ فتنے یوں تم پر یلغار کریں گے جتنے بھی فتنے ہیں ان کی دو قسمیں ہیں :
ایک ہے فتنہ شہوات اور ایک ہے فتنہ شبہات ۔
شہوات کا فتنہ آپ کے دل کی خواہشات مال کی محبت ہے تو حلال وحرام کی تمیز نہیں اور دل کی خواہش نعوذ باللہ من ذلک اگر زناکی طرف ہے تو وہ سوچ بندے پر غالب ہے ہمیشہ ایک ہی سوچ سوچتا ہے۔ یہ شہوات کا فتنہ ہے۔
اولاد کی محبت ہے تو ان کی ہرخواہش کو پورا کرنا حلال وحرام کا نہ سوچنا ،بیوی کی محبت ہے اتنا اس کو غالب کر لیا کہ بیوی کی ہر خواہش کو پورا کرنا ، حلال وحرام کی تمیز نہیں، گھر میں خیر بھی آرہی ہے شر بھی آرہا ہے یہ شہوات کے فتنے ہیں ان کا معاملہ ہلکا ہے۔ ایک ہے شبہات کا فتنہ، شبہات کا فتنہ علم کی کمی کی بناپر، کتاب وسنت سے دوری کی بناپر، دینی حقائق میں شبہات وارد ہوتے ہیں۔ حق واضح نہ ہو حق خلط ملط ہوجائے یہ ہے شبہات کا فتنہ۔
تو ہر قسم کا فتنہ دل پہ یلغار کرے گا جو اس کو قبول کرتا گیا وہ اس عذاب الیم سے دو چار ہوگا کہ اللہ اس کے دل کو سیاہ کرکے اس کے دل کو الٹا کر دے گا جو ایمان کی رمق تھی وہ نکل جائے گی اور آئندہ ایمان کا قطرہ بھی اس میں داخل نہیں ہوسکتا لیکن جو دل انکار کرے گا ۔
اس انکار کی بنیاد بھی علم ہو اور علم کی بنیاد علماء ہیں۔ کتابوں میں علم ہے لیکن وہ آپ کے لیے کافی نہیں ہے ، ایک ہے علم کا فہم ، کتابوںسے علم آپ کے سامنے آسکتا ہے ، علم کا فہم نہیں آسکتا یہ فہم آپ کو علماء دیں گے۔امام حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے : اپنے دور کے بہت بڑے تابعی ، محدث،فقہاء کے سردار فرمایا کرتے تھے :
فتنہ جب آتا ہے حملہ آور ہوتاہے تو ہر عالم اس کو پہچان لیتا ہے کہ یہ فتنہ ہے ، عالم اس کو پہچان لیتا ہے، جاہل نہیں پہچانتا کیونکہ جاہل تو ایک شئی کی رنگینی کو دیکھے گا ، بعض اوقات کوئی شئی اندر سے جھوٹی ہوتی ہے اور اوپر سے مرقہ سازی ہوتی ہے یعنی باطل پر حق کی ملمہ سازی، جہلاء کو نظر نہیں آتی ، علماء محسوس کرتے ہیں اور جب فتنہ پوری طرح تباہ کرکےواپس پلٹتا ہے پھر جاہل بھی پہچان جاتے ہیں کہ یہ فتنہ تھا۔ لیکن ایک جاہل اگرعلماء کی صحبت اختیار کرے اورآج کے پر فتن دور میں علماءسے تعلق رکھے تو پہلی یلغار پر علماء اس فتنہ کو پہچان لیں گے جہلاء بھی پہچان لیں گے بچاؤ آسان ہو گا ۔علم کے بغیر فتنہ نہیں پہچان سکے گا۔
اور سب سے بڑا فتنہ دجال کا فتنہ ہے اتنا بڑا فتنہ ہے کہ جناب محمد ﷺ ہر نماز میں فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ طلب کرتے تھے ہر نمازمیں جب نماز پڑھو تشہد میں چار چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرو اور یہ دعا مانگو

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَالِ

دجال کے فتنے سے پناہ مانگو جب دجال آئے گا تو اچھے خاصے لوگ اس کی گمراہی کے لپیٹے میں آجائیں گے ، دجال آئے گا کس دور میں جب عقل اکثر لوگوں کی گم ہوچکی ہوگی، دین کی کمزوری ہوگی اور لوگ تفرق کا شکار ہوں گے دجال انہی چیزں سے فائدہ اٹھائے گا اور چوتھی جو ہولناک چیز ہو گی وہ یہ کہ دنیا کی معیشت تباہ ہوچکی ہو گی اور دجال معیشت سے مالا مال ہوگا مسند احمد کی حدیث ہے دجال کی آمد سے تین سال قبل کا دور ہوگا پہلے سال اللہ رب العزت آسمانوں کی آدھی بارش روک دیں گے اور زمین کی آدھی فصل روک دیں گے ، دوسرے سال ، دو تہائی بارش ختم ہوجائے گی اور زمین کی جو دو تہائی پیداوار ہے وہ بند ہوجائے گی اور تیسرے سال آسمانوں کی پوری بارش رک جائے گی اور ایک قطرہ نہیں برسے گا پورا سال زمین سے ایک دانا نہیں نکلے گا معیشت تباہ وبرباد ہوچکی ہوگی اور لوگوں پر ایک فاقہ کشی کی کیفیت ہوگی بہت سے لوگ ہلاک ہوں گے، لوگ موت کے منہ میں پہنچ چکے ہوں گے، اس وقت دجال آئے گا دنیا کی صنعتوں سے مالا مال اشاروں سے بارش برسائے گا ، اشاروں سے اناج اگائےگا اور پھر یہ لوگ کس طرح اس کے فتنے کا شکار ہوں گے ،بڑا خطرناک فتنہ ہے ،بچے گا کو ن جسے اللہ توفیق دے اور خاص کر کے جو آج کے جہلا ء ہیں ہم نے ایسے کئی لوگ دیکھے ہیں جنکی زندگی لباس سے عاری گزرتی ہے نہ انکو لباس کا ہوش ہے،عقل سےبالکل بیگانہ ہے غلاظت کے ڈھیرمیں بیٹھے ہیں چاروں طرف کتے ،بلی اور جانوروں کی یلغار ہے اور لوگ انکو مشکل کشا مانتے ہیں ایسے لوگ جب دجال کو دیکھیں گے توکہیں گے جناب یہ تو پیران پیر ہے یہ تو اشاروں سے بارش برساتا ہے اشاروں سے اناج اگارہا ہے یہ تو بہت ہی پہنچاہوا اور بہت بڑا مشکل کشا ہے یہ لوگ جو ان بے ڈھنگ ملنگ لوگوں کو اپنا الٰہ مانتے ہیں دجال کو تو فور ا قبول کریں گے لیکن بچاؤکس کو حاصل ہوگا؟ جس کے پا س علم نافع ہوگا جب یہ دجا ل مدینے کے قریب پہنچے گا مدینے میں داخل ہو نے کے لیے وہ زمین جو اگنے کے قابل نہیں ہوگی اس تک پہنچے گا تو اس کو آگے ملا ئکہ نظر آئیں گے جو تلواریں لے کر کھڑے ہونگےکہ تو آگے بڑھ توذرا صحیح،تو دجال ملائکہ کے سے آگے نہیںجائے گااور وہیں رک جائے گاتین جھٹکے مدینے کو لگیںگے ان جھٹکوں سے وہ لوگ ڈر جائیں گے جن کے ایمان میں کمزوری ہوگی وہ ڈر جائیں گے اور مدینے سے بھاگ نکلیں گے لیکن جن کے دلوں میں ایمان کی استقامت ہوگی اور توحید کی پختگی ہوگی وہ مدینہ نہیں چھوڑیں گے گویا قرب قیامت مدینہ صاف ستھرا ہو جائے گا ،منافقین سے پاک صاف ہو جائے گا اور یہ لوگ مدینے سے نکل کر دجال کی فوج میں شامل ہوجائیں گے مدینے میں ایک ایسی شخصیت ہوگی حدیث میں آتا ہے کہ اس کا نام محمد بن عبد اللہ ہو گا جس کو آپ امام مھدی کہتے ہیں وہ دجال کے پاس آئیں گے اور اس کا کھلے عام انکار کریں گے دجال کہے گا تم کیسے انکار کرو گے میری طاقت اور قوت دیکھو میں اشاروں سے بارش برساتا ہوں اشاروں سے اناج اگا یا کروں گا اچھا کرو ،وہ کرنے میںکامیاب ہوجائے گا ،میں اشارے سے تم کو مار سکتا ہوں -مار کر دکھاؤ-تووہ اشارہ کرے گا اور وہ نیچے گر جائیں گے لوگ پریشان ہو جائیں گے کہ آپ اشارے سے مار بھی سکتے ہیں میں اشارہ سے زندہ بھی کرسکتا ہوں -تو کر کے دکھاؤ اشارہ کرے گا وہ زندہ ہو جائیں گے اور پیچھے جہلاء مزید ہو جائیں گے اور یہ محمد بن عبداللہ امام مھدی کھڑے ہو کر کہیں گے کہ میرا ایمان پہلے سے بڑھ گیا تووہی جھوٹا دجال ہے کیونکہ یہ ساری علامتیں اللہ کے پیغمبر ﷺ نے بیان فرمائیں ہیں ایک آنکھ سے کانا ہو گا ،ماتھے پر کافر لکھاہوگا،اناج پیدا کرنا، اشارے سے بارش برسانا ، اشارے سے مارنا و زندہ کرنا ، میرے پیارے پیغمبر ﷺ کا فرمان ہے کہ وہ ایسا کچھ کرے گا اور جب یہ کرے گا تو ایک بار کامیا ب ہوگا دوبارہ مارنا اور زندہ کرنا اس میں کامیاب نہیں ہوگا اب امام مھدی کہیں گےمجھے مار کے دکھاؤ اب وہ اشارہ کرے گا تو کچھ نہیں ہوگا اور پیارے نبی ﷺ کی حدیثیں ہم نے پڑھی کہ رب کو دنیا میں کوئی دیکھ ہی نہیں سکتا تم کیسے رب ہو کہ سارا دن نظر آرہے ہو چل پھر رہے ہو، رب کو تو قیامت کے دن دیکھنا ممکن ہوگا وہ بھی قیامت کی نگاہوں سے، دنیا کی نگاہوں سے نہیں ، دنیا کی نگاہیں کمزور ترین ہیں۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن وہ بصارت و قوت دے گا کہ جس بصارت سے اللہ کا دیدار ممکن ہے ، کیا ثابت ہوا ؟ کہ فتنوں سے بچاؤکی واحد اثاث علم نافع ہے۔اپنی نگاہوں سے فتنوں کا دور ہم دیکھ رہے ہیں ، قتل وغارت گری کی یہ کیفیت جو قرب قیامت کی علامت ہے کہ قاتل کو پتہ نہیں کہ وہ کس کو قتل کر رہا ہے اور مقتول کو پتہ نہیں کہ اس کا قاتل کون ہے ؟ کراچی میں اجتماعی جو قتل ہوتے ہیں ، دھماکے ہوتے ہیں کیا پتہ قاتل کو، کون کون مارا گیا ہے۔ ان مقتولین کو کیا معلوم ہمیں کون قتل کررہا ہے گویا جب قتل کی یہ کیفیت ہو تو دجال کا انتظار کرنا وہ آج آئے یا کل آئے۔ ……..اپنی توجہ آخرت کی استعداد پر مرکوز رکھیے اور یہ کوشش کریں کہ ہم فتنہ کا حصہ نہ بنیں۔ پیارے پیغمبر محمد مصطفیﷺ نے فرمایا کہ جب قتل وغارت گری کا فتنہ پھیل جائے تو اس سے اس طرح بچنا کہ رات کی تاریکی میں اپنی تلوار کو لے کر کسی پہاڑ پر چڑھ جانا پھر اس پر وار کرنا حتی کہ یہ تلوار دو ٹکڑے ہوجائے پھر اس کو نیام میں لے کرواپس آجانا دنیا سمجھے گی کہ آپ کے پاس تلوار ہے لیکن آپ کو پتہ ہے کہ یہ کندہے قتل نہیں کرسکتی۔دنیا ڈرے گی آپ سے دور رہے گی کہ تلوار ہے اس کے پاس اور آپ کسی فتنہ میں ملوث نہیں ہوسکتے کیونکہ آپ کو معلوم ہے کہ تلوار کند ہے۔ لوہے کی تلوار ختم کرکے لکڑی کی تلوار رکھ لو صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے کہ میرے پاس تلوار ہےمگر آپ کو معلوم ہے کہ لکڑی کی ہے قتل نہیں کر سکتی۔ اس طرح فتنوں سے بچیں حتی کہ نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے ’’ تم اللہ کا مقتول بند ہ بن جانا قاتل نہ بننا ‘‘ ایک حدیث میں ہے آدم کے جودو بیٹے تھے ان میںسے ایک بن جانا، قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا تو ان میں سے بہتر ہابیل تھا اس لیے ہابیل بن جانا قابیل نہ بننا اس طرح فتنوں سے بچاؤ کی آپ نے ترغیب دی ، تلقین کی ، کتنی خطر ناک چیز تھی کہ نبی ﷺ دعا کیا کرتے تھے،
یا اللہ جب تو بندوں میں فتنوں کا فیصلہ فرمالے تو مجھے فتنوں کی یلغار کے دور سے پہلے اٹھالے کتنی خطر ناک یہ حدیث ہے اور دانا انسان وہ ہوگا جو ان فتنوں سے اپنے آپ بچا کے رکھے گا۔ سوال کیا گیا  اللہ کے نبی ﷺ نجات کیا ہے ؟ فرمایا تین چیزیں نجات ہیں : اپنی زبان کو بند کر لو، تم فتنوں کی تشہیر نہ کرنا اپنی زبان کو بند کر لینا جبکہ ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہم بڑے شوق سےخبریں نشر کرتے ہیں سوشل میڈیا پر اور میڈیا بھی شیطان ہے جھوٹی وسچی ہر خبر آگے منتقل ہورہی ہے۔ ایک سے دس تک، دس سے سو تک فرمایا کہ تم فتنوں کے معاون کیوں بن رہے ہو اپنی زبان بند کر لو اور یہ سوچ کرکہ موت کسی بھی وقت آسکتی ہے اپنے گناہوں پر رونا شروع کر دو ، توبۃ نصوحۃ کر لو پتہ نہیں کیسا چل چلاؤ کا وقت ہے کل وہاں یلغارہے توآج یہاں ہوسکتی ہے گناہوں پر رو اور تمہارا گھر تمہارے لیے کافی ہے گھر کی چار دیواری کو اپنے لیے کافی سمجھو یعنی زیادہ وقت گھر میں گزارو اس کے دو فائدے ہیں ایک فتنوں سے دوری،اور دوسرا اپنے اہل وعیال پر نظر رکھو ان کی اصلاح کرو، ان کے درمیان رہنا،انکی اصلاح کرنا یہ نہ ہو کہ میں تو گھر میں ہوں یاگھر سے باہر اور بچے گھر سے باہر پھرنا شروع کردیں ، فتنوں کی

لپیٹ میں آجائیں۔نبی کریمﷺ کی حدیث ہے:

دجال کے ظہور کے وقت سب سے دانا انسان وہ ہوگا جو گھر سے نکلے تو اپنی عورتوں کو رسی سے باندھ کر نکلے تاکہ یہ باہر جھانکے بھی نہ۔ نکلنا تو دور کی بات ہے کہ عورتیں فتنہ جلدی قبول کرنے والی ہیں ، شبہات کا شکار ہوتی ہیں عقیدے کچے ہوتے ہیں فکر کمزور ہوتی ہے اورعقل میں ناپختگی ہوتی ہے عاقل اور دانا انسان وہ ہوگا جو اپنی خواتین کو رسی سے باندھ کر نکلے تاکہ نہ باہر جاسکیں نہ باہر جھانک سکیں اس قدر عافیت کی تعلیم آپ ﷺ نے دی ہے اس قدر تعلیم اور تاکید علم اور علم نافع کی طرف کی ہے ۔
آپ ﷺ کی حدیث آپ کی نبوت کی صداقت کی دلیل ہے آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ جزیرئہ عرب میں شیطان مصلون (نمازیوں) سے مایوس ہوچکا ہے کہ وہ اس کی عبادت کریںیعنی شرک،کفر سے مایوس ہوچکا ہے لیکن شیطان تحریف میں کامیاب ہوجائے گا ۔ تحریف کا معنی لوگوں میں بگاڑ،تفرق،اختلاف و انتشارپیدا کرنا ہے یہ چیز قابل غور ہےجزیرئہ عرب میں شیطان کی شرکیہ دعوت کو کوئی انسان قبول نہیں کرے گا اس سے مراد اجتماعی شرک ، ایک دو بندے اس کے شکار میں آسکتے ہیں مگر پورا جزیرئہ عرب جیسے پہلے شرک پر قائم تھا اب نہیں ہوسکتاکیونکہ ان کے عقیدے ٹھوس اور پختہ ہوچکے ہیں اب تحریف میں شیطان کامیاب ہوسکتاہے ، تحریف لوگوں میں بگاڑ پیدا کرنا، امن کو بگاڑ کر ایسا فتنہ بنانا کہ انتہائی ضعف اور کمزوری کا باعث بن جائیں، دینی قوت ختم ہوجائے گی اس تحریف اور بگاڑ کو دلوں کا کینہ اور بغض بنائے گا جس بناء پر لوگوں میں دوریاں ہوںگی حتی کہ بھائی بھائی سے دور ہوگا ، بیوی شوہر میںناچاقیاں،باپ بیٹے میں اختلاف ہوگا یہ تو مقدس رشتے ہیں لیکن شیطان اس میں کامیاب ہوگا یہاں ایک چیز قابل غور ہے کہ نبی کریم ﷺ نےمصلونکا لفظ کیوں استعمال کیا؟ لوگ کہہ دیئے ہوتے کہ لوگ اس کی عباد ت نہیں کریں گے معنی شیطان کا جو نشانہ ہیں وہ لوگ ہیں جو مسجدوں میں آتے ہیںاور ان مقدس جگہوں کو آباد کرتے ہیںشیطان ان میں تحریف زیادہ پیدا کرے گا تبھی تو آج مساجد میں فتنے ہورہے ہیں ،غیبتیں، ایک دوسرے کے خلاف آوازیں کسی جارہی ہیں یہ آپ کا فرمان کس قدر پورا ہوا کہ نمازی اس کی عبادت کریں یہ ممکن نہیں کہ اب شیطان آکر کہے کہ جاؤ جاکے فلاں قبر پر سجدہ کرو، آپ کریں گے ؟ نہیں ، کتنا مستحکم عقیدہ اور ٹھوس فہم توحید ہے کہ اس میں شیطان کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ شیطان کہے گا کہ چلو گیارہویں کی مجلس قائم کرو آپ کریںگے،نہیں کیونکہ آپ ان چیزوں سے نفرت اختیار کرچکے ہیں ،شیطان تحریف ،تفرق پیدا کرے گا جوکہ فتنوں کی جڑ ہے ،اس سے دعوت دین مانندپڑجاتی ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے ہماری کمزوری کا ایک ہی سبب بیان کیا ہےوہ ہے آپس کا اختلاف۔ وسائل کم ہوں،تعداد کم ہو کوئی پرواہ نہیں کیونکہ نہ ہم وسائل کےمحتاج اور نہ تعداد کے بلکہ آپس کا اختلاف اور تفرق ہماری کمزوری اور شیطان کی طاقت ہے۔اگر دین کمزور ہوگا تو دشمن کا کفر طاقت پکڑے گا اور وحدت،پختگی،اتفاق واتحاد، باہمی محبت تمہاری اصل طاقت ہےیہ تمہارے غلبہ کی داستان ہےجو مسجدوں سے دور ہیں ان میں ہوسکتا ہے آپس میں پیار ومحبت ہو ، محبت کی بنیادیں ہوں مگر جو مسجدوں میں داخل ہوگئے ان پر شیطان زیادہ وار کرےگا اب جو اس وار میں آگیا تو وہ اس کی تحریف کو قبول کر بیٹھا وہ شیطان کا چیلا بن گیا وہ شیطان کی خوشی کا باعث بن گیا۔ نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث ہے کہ جب صبح ہوتی ہے تو شیطان اپنے تخت پر بیٹھتا بھی نہیں کہ اپنے لشکر کو بھیج دیتا ہے جاؤ جاکر اللہ کے بندوں کو گمراہ کرکے آؤ اور شام کو رپورٹ پیش کرو، شام ہوتی ہے تو سارے اپنی اپنی رپورٹیں پیش کرتے ہیںکہ فلاں شخص حج کرنا چاہتا تھا میں نے اس سے کہا کہ تیرے یہ تین چار لاکھ روپے ہیں ضائع ہوجائیں گےاتنے مسائل پیدا کیے کہ اس کو حج سے روک دیا ۔ کہے گا تم نے کوئی خاص کام نہیں کیا۔ دوسرا کہے گا کہ فلاں بندہ نماز پڑھنے جارہا تھا میں نے اسے روک دیا ، مسجد سے دور کردیا کہے گا جاؤ ٹھیک ہے تو نے بھی کوئی خاص کام نہیں کیا۔ ایک آئے گااور کہے گا کہ میں فلاں گھر میںداخل ہوااس میں سے اس وقت تک نہ نکلا جب تک میاں بیوی کے درمیان ناچاقی نہ پیدا کر دی تفرقہ نہ پیدا کردیا ابلیس اسے قریب کرے گا سینہ سے لگائے گا کہ تم آج کے ہیرو ہو، یہ شیطان کا ہتھیار ہے اور جو اس ہتھیار میں آجائےوہ چیلہ بن جاتا ہے ۔
مسجد کا تذکرہ ہورہا تھا مسجد کی ایک انتظامیہ ہوتی ہےاس کو قبول کریں کہ انتظامیہ غلط ہے یا صحیح دو صورتیں ہیں :  اگر صحیح ہے تو تسلیم کرلیں اگر غلط ہے تو اس کی اصلاح کریں اس میں آپ کا بھی فائدہ اور ان کا بھی فائدہ ہے اگر تسلیم نہ کریں تو آپ پیچھے ہٹ جائیں اگر میں اسے بڑھاؤں،فتنہ بناؤں، انتشار پھیلاؤں تو میں اس سے بڑا مجرم ہوں ’’الفتنۃ أشد من القتل‘‘ فتنہ قتل سے بڑا گناہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذہبی لحاظ سے جو سب سے بڑی کوتاہی ہے وہ تفرقہ ہی ہے۔

وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ (الانفال:46)

تنازعہ، تفرقہ مت کرو ورنہ کمزور ہوجاؤ گے۔تنازع کا نقصان اللہ کے نبی کے دور میں بھی ہوا تھا، آپ گھر میں تشریف فرما تھے ، بڑے خوش ہوکر باہر نکلے، نبی کریم ﷺ کے دورسے زیادہ بابرکت دور کونسا ہوسکتا ہے ، اختلاف اور تفرقہ کی نحوست اس دور میں اثر انداز ہوئی۔ رسول اللہ نے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا کہ آج میں گھر میں تھا کہ نےمجھے میرے سامنے شب قدر کا تعین فرما دیا کہ وہ فلاں رات ہے بڑی نعمت والی تھی ، میں بڑا خوش گھر سے باہر نکلا تھا مگر جب مسجد میں آیا تو لوگ جھگڑ رہے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے جھگڑے کی نحوست کی وجہ سے مجھ سے شب قدر کا علم، میرے سینہ سے محو کر دیا ۔ اللہ نے وہ علم ہی چھین لیا ۔ مسجد جو بھی ہو وہ کوئی جھگڑے کی جگہ نہیں ہے اللہ کے ذکر اور عبادت کی جگہ ہے اللہ کے سامنے رونے، دروس،جمعہ کے خطبات کی جگہ ہےزمین کی سب سے بہترین جگہ مساجد ہیں اور ہم اس کو اکھاڑا بنالیں یہ خلاف منہج ہے یہ فکری انحراف ہے اور یہ فکری انحراف بہت بڑا نقصان ہے۔ تمہاری کمزوری انحراف ہے اس کی ایک ہی وجہ ہے وہ تمہارا اختلاف۔ شیر وشکرہو جاؤ،پیار ومحبت کی فضا قائم کرو تو یہ تمہاری قوت ہے تمہاری دعوتی قوت،عقائد کی پختگی ہے اور تفرق قابل قبول نہیں ۔ ایک سفر سے اللہ کے رسول ﷺ لوٹ رہے تھے اور صحابہ سائے کی تلاش میں ٹھہر گئے کسی کو سایہ ملاکسی کو دور تو کسی کوقریب جس کو جہاں جگہ ملی وہیں ٹھہر گئے شدت کی گرمی تھی ۔ نبی کریم ﷺ نے سب کو جمع کیا اور کہا تم اس طرح پھیل کر جداجدا کیوں بیٹھے ہو، میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں باہم ساتھ مل کر بیٹھا کرو صحابہ نے یہ بات ایسی پلے سے باندھی کہ جب کبھی سفر کرتے تو ایک جگہ پڑاؤ ڈالتے اور ایسے جڑ کربیٹھتے کہ ایک چادر ان کے لیے کافی ہوجاتی وہ تو اللہ کے نبی کی تعلیمات کو سینے سے لگانے والے تھے تو آج کی بات کا ماحصل یہ ہے کہ جو فکری انحراف ہے وہ عملی انحراف سے زیادہ خطر ناک ہے اور فکری اور منہجی انحراف کا ازالہ تعلق بالوحی ، تعلق بالکتاب والسنۃ،تعلق بالعلماء الربانیین ان کے ساتھ تعلق قائم کریںاللہ تعالیٰ نے علماء کے وجود کو خیر کا باعث قرار دیا

شَهِدَ اللهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ (آل عمران:18)

اس پر تین دلیلیں ہیں ایک یہ میں خود گواہی دیتا ہوں ، میں اکیلا ہوں اوردوسرا میرے ملائکہ تیسرا علماء کی گواہی ،جو عالم اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک لہ نہیں مانتا وہ بھلے ہی بہت بڑے آستانوں،جبے،قبے میں ہی کیوں نہ ہو وہ عالم نہیں ہے عالم ربانی وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی توحید پر گواہ ہو، توحید کو سمجھے، توحید پر درس دے ، توحید علماء کی شان ہے، اللہ تعالیٰ نے علماء کی توحید کو گواہ بنا کر بھیجا ہے اور پیارے پیغمبر کا فرمان ہے ’’العلماء ورثۃ الأنبیاء‘‘ علماء انبیاء کےوارث ہیں ، علماء انبیاء کا کام کرنے والے معنی جو عالم اس مشن پر قائم نہ ہو وہ عالم نہیں ، حقیقی عالم وہ ہے جو توحید پر قائم ہو ، انبیاء کے مشن پر قائم ،دین کا داعی، سچی لگن کے ساتھ ، اخلاص کے ساتھ ، مخلص ہو ۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے جس بستی میں عالم دین نہ ہو اس بستی کے رہنے والوں پر ہجرت کرنا فرض ہوجاتی ہے اس علاقے کو چھوڑ دو ایسے مقام پر جاؤ جہاں دین کے عالم موجودہوں ، فرمایا کرتے تھے کہ اس امت کو ڈاکٹر سے زیادہ ایک عالم کی ضرورت ہےڈاکٹر جسم کا معالج اور عالم روح کا معالج ہوتا ہے، جسم کا علاج اگر نہ بھی ہو تو چلو موت واقع ہوجائے گی لیکن اگر روح کا علاج نہ ہو ، روح کی موت دنیا وآخرت کی موت ہے اور جو ڈاکٹر علاج کرتا ہے بعض اوقات وہ علاج کسی عام شخص کو بھی معلوم ہوتاہے ہمارے گھر کی دادیاں ،نانیاں انہیں کئی نسخے معلوم ہوتے ہیں بچوں کا گھر بیٹھے بیٹھے علاج کر دیتی ہیں۔ لیکن شریعت تجربہ،مشورہ کا نام نہیں شریعت وحی الٰہی کا نام ہے جس کے حامل علماء کرام ہیں اسی لیے قرب قیامت علماء کا چلے جانا اور جہل کا پھیلنا علامت ساعہ میں سے ہے۔’’علم اٹھا لیا جائے گا اور جہل پھیل جائےگا‘‘ اللہ تعالیٰ علم علماء کے سینوں سے نہیں نکالے گا بلکہ علم کو اٹھائے گا علماء کے اٹھانےسے ۔ کتابوں میں تو سب کچھ ہوگا مگر علم نہیں ہوگا علم کیوں نہیں ہوگا؟ علم علماء کی وجہ سے ختم ہوجائے گا اسی لیے ان سے محبت ،ان سے لگاؤ، فتنوں سے بچاؤ کے لیےازحدضروری ہے تاکہ کوئی فکری ومنہجی انحراف پیدا نہ ہو اپنی اصلاح کیجیے فکرکی عقیدہ ومنہج کی ، اور عمل کی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا (الاسراء:74)

اے محمد ﷺ سنیے! اگر ہم آپ کو ثابت قدمی نہ دیتے تو ممکن تھا کہ آپ ان کفار کی طرف تھوڑا بہت مائل ہوجاتے ، ثابت قدمی ،پختگی ہم نے دی،اگر ہم ثبات واستقامت نہ دیتے تو آپ تھوڑا بہت صحیح ان کفار کی طرف مائل ہوجاتے اور اگرمائل ہوجاتے پھر ہم دنیا میں آپ کو ڈبل عذاب دیتے اور آخرت میں بھی ۔ ہم نے ہی آپ کو ثبات اور پختگی اور ثابت قدمی دے کربچایا، یہ اللہ کی توفیق سے ہی ممکن ہے اس کے بغیر نہیں یہ ثابت قدمی ایک نعمت عظمیٰ ہے تاکہ کوئی انحراف داخل نہ ہواور ثابت قدمی جو ہے وہ کتاب وسنت کے ساتھ تعلق جوڑنے میں اور توحید کے ساتھ وابستہ رہنے میں ہے

يُثَبِّتُ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ (ابراھیم:27)

اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ثابت قدمی قول ثابت کی برکت سے دیتا ہے ۔یہ قول ثابت توحید ہے لا الہ الا اللہ
اس کلمےکی گواہی کو سمجھو، اس کا فہم حاصل کرو جو کہ علماء کی مرہونِ منت ہے۔کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ میں اس کلمہ اس گواہی کو جانتاہوں جانتے ہو تو بتاؤ اس گواہی کی شرائط کو توڑنے والے کون کونسے مواقع ہیں؟ کچھ مواقع ہیںکہ انسان کلمہ پڑھ لیتا ہے مگر ان چیزوں کے ارتکاب سے کلمہ وایمان ٹوٹ جاتاہے سب کو معلوم ہے اس پر محنت کرو، یہ ثابت قدمی کی اساس ہے اور اس ثابت قدمی کا حقیقی فائدہ قیامت کے دن ہوگا، جہنم پر پل صراط نصب ہے اور اس پر سے لوگ گزر رہے ہیں قدموں کو استقرار نہیں ملے گا قدم ڈگمگائیں ،پھسلیں گے۔
ثابت قدمی اس کو ملے گی جس کو اللہ دے اور اللہ نے وعدہ فرمایا کہ

يُثَبِّتُ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ

ہم قول ثابت کی برکت سے ثابت قدمی دیں گے ایسی ثابت قدمی کہ لمبے پل صراط کے نیچے جہنم کی دہکتی آگ ہے اور اللہ ایسی ثابت قدمی دیں گے کہ بجلی کی کڑک کی طرح گزر جائیں گے، اس جگہ پر اس مکان پر اس کے دونو ں طرف نوک دار کنڈے ہیں لوگوں کو کھینچیں گے دونوں طرف تیز دھار جھاڑیاں ہیں پاؤں ذرا سا الجھا، جھاڑی میں پھنس گیا تو پھر نہیں نکلے گا بڑا ہی خطر ناک معاملہ ہے ثابت قدمی مطلوب ہے تو آج عقیدہ کی ثابت قدمی ، توحید کی ثابت قدمی،منہج کی ،فکرکی ثابت قدمی اس کی بنیادیں حاصل کرکے اپنانے کی کوشش کیجیے اور پھر یہ بات بھی نوٹ کر لیں کہ ’’الدعاء سلاح المؤمن‘‘ دعا مومن کا ہتھیار ہے‘‘اس کو استعمال کریں یہ ایک اللہ تعالیٰ کا عظیم تحفہ وانعام ہے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں، پوری رات دعائیں کریں اور خاص کرفتنوں کے دور میں اللہ تعالیٰ سے ثابت قدمی ، عقیدہ ،منہج،عمل ،فکر،دل کی ثابت قدمی کی دعائیں کیا کریںاور اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے

يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا (صحیح مسلم186)

فتنوں کی یلغار میں لوگ اپنے دین کو بیچ دیں گے دنیا کے معمولی مفاد کی خاطر ،اسمبلی ، سینٹ کی ایک سیٹ کی خاطر، تھوڑے سے مال کی خاطر اپنے دین کو بیچ دیں گے انسان صبح کو مومن شام کو کافر،شام کو مومن صبح کو کافر بن چکا ہوگا۔ لا الہ الا اللہ کافہم اس کی بنیادوں کے ساتھ یہ ایک واحد حقیقت ہے جو بندے کو ثابت قدمی پر قائم کرسکتی ہے بس اللہ تعالیٰ توفیق دے مجھے اور آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ ثابت قدمی عطا فرمائے۔ اللہ رب العزت عقیدہ کی محبت اور توحید کا فہم عطا فرمائے ۔ یا اللہ دلوں کے بغض ، نفرتیں، اختلافات ختم کر دے یا اللہ ہمیں انصار ومہاجرین کی جماعتوں کی طرح باہم شیروشکر بنادے اور ہمارے درمیان اتحاد، محبت پیدا فرمادے جو کہ ہمارے مشن کی طاقت، منہج ومسلک کی طاقت ہے۔

أقول قولی ھذا وأستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین من کل ذنب فاستغفروہ إنہ ھو الغفور الرحیم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے