نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا:

كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْمِلَّةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُشَرِّكَانِهِ (سنن الترمذي:2138)

ہر بچہ ملت پہ پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اس کو یہودی، عیسائی یامشرک بنادیتےہیں۔
ایک دوسری حدیث میں ملۃکی جگہ فطرۃ کالفظ ہےاور اصل میں ان دونوں کا مطلب ایک ہی ہے جو کہ اسلام ہے جیساکہ محدثین نےاس کی وضاحت کی ہے کیونکہ یہاں فطرت سے مراد وہ وعدہ ہے جو اللہ رب العزت نے عالم ارواح میں ہم سب سے لیا تھا کہ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْاور ہم سب نے اسکے جواب میں کہا تھا کیوں نہیں اے رب العالمین۔
یہی بچہ جو کہ اصلا مسلمان اور مومن ہوتا ہے جب ہوش سنبھالتا ہے تو اپنے والدین اور اردگرد رہنے والوں کی نقل کرنے لگ جاتاہے اور ان ہی جیسا بن جاتا ہے اس حدیث اور اسکی تشریح کی روشنی میں یہ بات بہت واضح ہو جاتی ہے کہ بچوں کی تربیت کی کیا اہمیت ہے!
ہمارے معاشرے میں بچے ذرا سا ہوش سنبھالتے ہی سکولوں میں داخل کر دئیے جاتے ہیں اور والدین سے بھی زیادہ اثر بچے اپنے اسکولز کے ٹیچرز اور اردگرد کے بچوں کا لیتے ہیں اور یہیں سے بچوں کی وہ ذہنی نشوونما ہوتی ہے جس سے انکے رحجانات کا تعین ہوتا ہے۔
پاکستان میں حالیہ کچھ عرصے سے اپنوں اور اغیار کا خاص نشانہ ہمارا نظام تعلیم ہے کیونکہ یہی وہ نسل نو ہے جو کل کلاں اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالیں گے اور کیونکہ زمانہ طالب علمی وہ دور ہوتا ہے جس میں اذہان ہر نئی چیز کو قبول کرتے ہیں اور اگر مناسب وقت پہ رہنمائی نا کی جائے تو یہ نئے خیالات اور نظریات ذہن کے مستقل مکین ہو جاتے ہیں اور اس نوخیز دماغ کو کسی نا کسی فتنے کی آماجگاہ بنا دیتے ہیں ۔نعوذ باللہ من ذلك
گزرے چند برسوں میں جدید تعلیمی اداروں اور وہاں پڑھنے والے طلبا کے لیے جو نیا فتنہ بھرپور طریقے سے آیا ہے وہ سیکولرازم اور لبرل ازم ہے جس کی انتہا الحاد ہے اور یہی اس تحریر کا موضوع گفتگو ہے۔
یقینا بہت سے اس بات سے چونک گئے ہونگے اور بہت سے ایسے ہوں گے جو اس سے اتفاق نہیں کر پا رہے ہونگے لیکن یہ فتنہ ہمارے در تک اچانک تو آیا نہیں کہ جس کے آنے کا معلوم ہو جاتا بلکہ اسکے پیچھے برسوں کی وہ پلاننگ موجود ہے جس کی وجہ سے یہ فتنہ اب زور آور ہو چکا ہے، اس پلاننگ میں نصاب پہ اثرانداز ہونا، معلمین کی ایسی کھیپ جو ان مقاصد کے لئے فائدہ مند ہو، پھر تعلیمی اداروں کا ماحول ایسا بنا دیا جانا کہ مذہب پہ عمل کرنا مشکل تر اور لہو و لعب کی محافل آسان تر لگیں اور ایک اور حربہ جو استعمال کیا گیا وہ این جی اوز کا تعلیمی اداروں میں بڑھتا ہوا رسوخ ہے۔
نصاب تعلیم کے حوالے سے دیکھا جائے تو قیام پاکستان کے فوری بعد لارڈ میکالے کے لائے گئے اس نظام تعلیم کو ہی پاکستان کا نظام تعلیم بنا دیا گیا جس کے بارے میں اس نظام کے بانی لارڈ میکالے نے خود کہا تھا کہ اس نظام تعلیم سے ہم ایسے افراد تیار کریں گے جو ہونگے تو ہندوستان کے رہنے والے ہونگے لیکن وہ وفادار انگریزوں کے ہونگے یعنی سادہ لفظوں میں کالے انگریز!
بدقسمتی سے پاکستان میں بھی وہی نظام تعلیم نافذ العمل رہا اور اسکے ساتھ ساتھ برطانوی دور کے چھوڑے ہوئے مشنری اسکولز جوں کے توں قائم رہے جن میں عیسائی تربیت یافتہ اساتذہ پڑھاتے تھے۔ مزید برآں ہماری اس سائیکی نے کہ انگلش زبان ہی ترقی کا زینہ ہے ہم نے امریکن سکول سسٹم اور برطانوی سکول سسٹم اپنے ہاں برآمد کیے۔ ان سسٹمز کے تحت چلنے والے سکولز میں نصاب مکمل طورپر غیر اسلامی ہے جس میں اردو اور اسلامیات کی کتب کو شامل تو کیا گیا لیکن ان میں ایسے اسباق شامل کیے گئے جو بجائے بچے کے نظریات مضبوط کرے بلکہ اس میں تشکیک پیدا کرتے ہیں۔ سکولز میں تو یہاں تک ہے لیکن یونیورسٹی لیول پہ آزادی اظہار رائے کے نام پہ کورس آوٹ لائن کے نام پہ عجیب گل کھلائے جاتے ہیں جہاں ایسی اسائنمنٹس اور پروجیکٹز شامل کیے جاتے ہیں جو الحاد کا پہلا قدم ہوتا ہے جو کہ تشکیک ہے۔ یہ نصاب عموما غیر ملکی این جی اوز، پاکستان میں کام کرنے والے آزادی اظہار رائے کے ادارے مل کر بناتے ہیں اور اس پہ عمل کرانے کے لیے اگلا مقصد ٹیچرز کی تربیت ہوتی ہے۔
کسی بھی نصاب کو عملی طور پہ کامیاب کرنے کے لیے یقینا ٹیچرز ہی کردار ادا کرتے ہیں۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں دیار غیر سے پڑھے ٹیچرز کو ترجیح دی جاتی ہے اور یہ معمار قوم اپنی حب الوطنی اور دین پہلے ہی یرغمال بنا کر آ چکے ہوتے ہیں یا پھر مقامی طور پہ تیار ٹیچرز کو بار بار ٹریننگ کے نام پہ این جی اوز سے تیار کروایا جاتا ہے جس سے انکے اذہان بھی کسی حد تک بدل ہی جاتے ہیں۔ نصاب اور ٹیچر دونوں جب بدل جاتے ہیں تو پھر تشکیک کا بیج با آسانی معصوم کونپلوں کے ذہن پہ نمو پانے لگتا ہے۔
عبدالوارث گِل صاحب ایک معروف مبلغ ہیںاور حقوق الناس ویلفیئر فاونڈیشن کےسربراہ ہیں گل صاحب عیسائیت سےاسلام کے دائرےمیںداخل ہوئے اور ان کو اس سفر میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا انہی مشکلات سے لوگوں کو بچانے کے لیے انھوںنےیہ مذکورہ تنظیم بنائی جو پاکستان میں موجود غیر مسلم اقلیتوں کو قبول اسلام کی دعوت اور انکو درپیش مشکلات کے حل اور الحاد کے خلاف کام کرتی ہے۔
ایسے کئی واقعات کے وہ شاہد ہیں بتانے لگے عیسائی کونونٹ سکول میں ٹیچرز کس طرح کرتے ہیں کہ ٹیچر نرسری کلاس میں داخل ہوئی اور کہنے لگی سب اپنے گاڈ سے چاکلیٹ مانگو، ہر بچہ اپنے اعتقاد کے مطابق مانگنے لگا لیکن چاکلیٹ نہیں ملی اب ٹیچر نے کہا کہ ہم یسوع مسیح علیہ السلام سے مانگتے ہیں بچوں نے آنکھیں بند کیں اور جیسا کہ پہلے سے انتظام موجود تھا اس دوران چھت سے چاکلیٹس گرنے لگیں اب اسکا نتیجہ کیا نکلنا ہے یہ قارئین خود ہی سوچ لیں۔
بچوں کے معصوم ذہنوں میں چونکہ اللہ عزوجل کا تصور یہی ہوتا ہے کہ وہ سنتا ہے اور فوری دیتا ہے انکے ساتھ اس طرح کی منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا جاتا ہے لیکن اس سے ذرا بڑھے بچوں کے ساتھ تھوڑے مختلف طریقے سے کام کیا جاتا ہے۔
گزشتہ برس ایک اسکول ٹیچر انوار احمد کی وڈیو تو سوشل میڈیا پہ ایکٹو بہت سے احباب نے دیکھی ہو گی جس میں وہ نہم کلاس کے بچوں کو پڑھاتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ یہ جنت، جہنم اور حوریں یہ سب مولویوں کی کارستانی ہیں حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ صرف ایک گورنمنٹ سکول میں پڑھانے والے ٹیچر کا طریقہ تدریس ہے اسی طرح کے ان گنت واقعات اب تعلیمی اداروں میں عام ہیں جو ہمیں معلوم نہیں ہیں۔
تشکیک جو کہ الحاد کی پہلی سیڑھی ہے اس طریقہ واردات کے لیے ہر طرح کے مضامین سے مددلی جاتی ہے آپ اسلامیات پڑھ رہے ہیں تو اسلامی تاریخ کے بارے ابہام پیدا کرنا یہ باور کرانا کہ مسلمان جب مضبوط تھے تو انھوں نے قتل عام کیا، احادیث کی سند کو مشکوک ٹھہرانا، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی عدالت کو غلط ثابت کرنا۔ ادبی مضامین کا تو اللہ ہی حافظ ہے کہ ناول اور افسانوں میں محبت وعشق کے نام پہ براہ راست اللہ سے شکوے شکایتیں اور جنگ کرنا، اسی طرح سوشل سائنس کے مضامین میں خاندانی نظام، غربت، معاشرے کے اندر بڑھتی عدم رواداری اور اس پہ مذہب کو قصوروار ٹھہرانا اور اس طرح منفی نفسیاتی رویوں کی وجہ اسلام پہ عمل کرنے کو ٹھہرانا۔
سائنس کے مضمون میں ڈارون کی تھیوری آد ایولوشن اس شدومد سے پڑھانا کہ کہیں نا کہیں پڑھنے والا اسکا قائل ہو جائے، تخلیق کے متعلق عجیب و غریب باتیں کرنا یہ سب وہ نکات ہیں جو ایک عام طالب علم کو آسانی سے الحاد کی طرف لےجاتےہیںاوراردگردمذہب کی مناسب راہنمائی نا ہونے کی وجہ سے یہی نظریات اس کو دین سے برگشتہ کرنے لگ جاتے ہیں یا پھر اس کا ایک اور ردعمل ہوتا ہے وہ کہ یونیورسٹیز کے طلباء شدت پسندی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ اپنے سوالوں کے جواب نا پا کے گالم گلوچ، دوسروں کو گمراہ اور کافر قرار دینے اور آخرکار خارجیت کی راہ لیتے ہیں۔ اس امر کی نشاندہی سندھ حکومت بھی کر چکی ہے کہ یونیورسٹیز کے طلبا اس قسم کی شدت پسندی کا شکار ہیں اور اسکی مثال صفورہ بس کیس کے نامزد ملزم بھی ہیں۔
تشکیک کے اس سفر میں آغاز ان باتوں سے کیا جاتا ہے کہ آپ کے ذہن میں جو بھی سوال ہے وہ پوچھیے، اگرچہ یہ ایک مثبت بات ہے لیکن اسکو بنیاد بنا کر مذہب کے خلاف سوال اٹھائے جاتے ہیں، اسی طرح کے ایک واقعہ کا میں خود شاہد ہوں کہ ہمارے لیکچرار نے کلاس میں اعلان کیا کہ آپ جو سوال پوچھنا چاہتے ہیں پوچھیے، ایک ساتھی نے فوری سوال کیا کہ احادیث کے بارے اکثر اعتراضات ہوتے رہتے ہیں انکا کیسے جواب دیا جائے۔ لیکچرار خود اسی قبیل سے تھے کہنے لگے بیٹا اب باتیں تو انکی ٹھیک ہوئی ہیں، دیکھیں نا امام بخاری نے بھی تو دو لاکھ احادیث ضائع کیں تھیں۔ اب اس سوال کو لے کے بہت دن ڈسکشن ہوتی رہی اور بہت سے طلبا کے ذہن میں بیٹھ گیا کہ امام بخاری نے احادیث ضائع کی ہیں اور احادیث کا جو مجموعہ ہم تک پہنچا ہے وہ قابل اعتبار نہیں ہے۔
تیسرا جو حملہ کیا گیا وہ این جی اوز اور اس قبیل کی تنظیموں کا حملہ تھا جو ریسرچ اور تفریح کے نام پہ تعلیمی اداروں میں اپنی تقریبات کرتی ہیں اور مختلف اوقات میں ٹریننگ سیشنز، پروگرامز کرتی ہیں اور ان اداروں میں ہونے والے مختلف حیا باختہ پروگرامز کو سپانسر کرتی ہیں، ان کا طریقہ واردات بھی غیر محسوس سا ہوتا ہے مثال کے طور پہ مختلف سوالنامے فل کروانا، جس میں عجیب و غریب

سوالات ہوتے ہیں، مثلاً آپ مذہب پہ کتنا عمل کرتے ہیں؟ آپ کو اللہ پہ کتنا یقین ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں موجودہ دین ہماری دنیاوی ضروریات کو سمجھتا ہے؟ اسی طرح یہ احساس پیدا کرنا کہ اسلام آوٹ ڈیٹ ہو چکا ہے، مذہب اور دنیاوی زندگی الگ معاملات ہیں۔ اسی طرح دینی موضوعات پہ سیمینار کا انعقاد اور ان میں ایسے لوگوں کو دینی اسکالرز کے نام پہ بلایا جانا جو خود اسی فکر کے ہوتے ہیں اور انکو اس طرح متعارف کروانا کہ یہ دین کی جدید تعبیر کو سمجھتے ہیں اور فرقہ واریت سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ وہ سب حربے ہیں جن کی مدد سے تشکیک، لبرل ازم کو فروغ دیا جاتا ہے اور یہی مراحل آخرکار الحاد پر منتج ہوتے ہیں۔ الا من رحم ربی!
اب کرنا کیا چاہیے یقینا اللہ کا یہ دین اسلام قیامت تک کے لیے آیا ہے اور اس نے غالب ہو کے رہنا اور ہمارا مقصد صرف یہ ہونا چاہیے کہ ہم اس دین کی سربلندی کے لیے کچھ کر جائیں۔
سب سے پہلا قدم تو گھر میں بچوں کی مکمل تربیت کا انتظام کیجیے انکے سوالات کا جواب دیجیے، اپنے بچوں کو اللہ عزوجل کا مکمل تعارف کروائیے، اسلام کے محاسن سے آگاہ کیجیے، نبی کریم ﷺکی بطور مبلغ قربانیوں سے انکو روشناس کروائیے، اسلامی تاریخ کا مطالعہ کروایں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے روشن کردار کا بتائیے، تدوین احادیث اور محدثین کی لازوال اور انتھک محنت سے انھیں آگاہ کریں۔
لیکن پھر بھی بہت سے اسلامی اسکولز موجود ہیں ان میں اپنی اولادوں کو بھیجیں، انکے نظریات و خیالات کا مکمل احتساب کریں، اگر آپ کو ایسے تعلیمی ادارے نہیں ملے اور آپ کی اولاد، بہن بھائی ایسے اداروں میں داخل ہیں تو انکی سرگرمیوں اور افکار پہ نظر رکھیں اور کم ازکم تعلیمی ادارے کے پراگندہ ماحول کا مداوا کرتے انھیں گھر اور مسجد میں بہتر ماحول فراہم کرنا ہو گا۔
اس کے علاوہ ایسے اداروں میں یقینا بہت سے اچھے لوگ موجود ہیں انھیں چاہیے کہ بطور معلم اپنے فرائض کا احساس کریں اور طلبا کی علمی اور نظریاتی بنیادیں مضبوط کریں، این جی اوز کے مدمقابل جو اسلامی علمی اور رفاہی تنظیمیں موجود ہیں اگرچہ وہ بہت کم ہیں لیکن انکا وجود غنیمت ہے اس لیے ان کی ہر ممکن مدد کریں۔
ان سب فتنوں نے اس لیے جگہ بنائی کیونکہ ہمارا اپنا رشتہ اللہ عزوجل اور اسکے دین سے مضبوط نہیں رہا اسکو مضبوط بنائیں اور اسکو مضبوط کرنے کے لیے مساجد جو کہ اللہ کے گھر ہیں انکو نوجوان نسل میں مقبول بنایا جائے، انکا ماحول اس طرح کا بنایا جائے کہ آج کا نوجوان ادھر آنا پسند کرے اور اسکا دل وہاں سکون محسوس کرے، وہاں ایسی سرگرمیاں شروع کی جائیں جو فرقہ واریت سے بالا تر ہو کر خالص قرآن وسنت کی تعلیمات پر مشتمل ہوں اور جدید ذرائع کو استعمال کرتے قرآن مجید کے ترجمہ اور تفسیر کو پڑھایا جائے، احادیث نبویہ کے دروس دئیے جائیں جس میں جدید نسل کے سوالات کے جوابات ہوں۔
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمارے نیک اعمال قبول فرمائے، ہمارے دلوں کو ایمان سے منور کرے اور الحاد، لبرل ازم اور اس قبیل کے سب فتنوں سے ہمیں بچائے، ہماری نسل نو کو دین کا صحیح معنوں میں خادم بنائے۔
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے