دنیا ایک بستی کی مانند ہوتی جارہی ہے جس میں لوگ ایک دوسرے کے قریب تر آتے جارہے ہیں، کوئی واقعہ دنیا کے کسی بھی کونے میں وقوع پذیر ہو، اس کی خبر اور براہِ راست اس واقعہ کو کسی بھی جگہ سے دیکھا اور سنا جاسکتا ہے۔علی ہذا القیاس انسانی افکار، نظریات، اور فتنے پہلے جس رفتار سے پھیلتے تھے اس کی بہ نسبت آج کے دور میں کئی گنا تیزی سے پھیل رہے ہیں،حق اور باطل کی کشمکش روزِ اول سے ہی جاری ہے اور اس ترقی یافتہ دور میں بھی یہ کشمکش اپنے عروج پر ہے۔
نورِ الہی کی شمع بجھانے کے لئے ہردور کی شیطانی قوتوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، مگر یہ شمع روشن ہی رہی کیونکہ اسے ربّ کائنات نے روشن رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ (الصف:8)

اور اللہ اپنے نور کو کمال تک پہچانے والا ہے گو کافر برا مانیں ۔
حق و باطل کی اس کشمکش میں جہاں کفر کے سامنے اسلام ، توحید شرک کے مقابل اورسنت بدعت کے سامنے مد مقابل ہیں یہاں ایک اہم میدان میں دہریت یعنی ملحدین کے مدِ مقابل بھی مسلمان کھڑے ہیں ۔
ملحدین در اصل ایک ایسے راستے کی جانب بھٹک گئے ہیں جس کی سمت انہیں خود نہیں پتہ، وہ عقل کی بنیاد پر چل پڑتے ہیں جہاں عقل رک ہوجاتی ہے وہاں یہ خود بھی حیران ہوکر مزید بہک جاتے ہیں۔
عصر حاضر میں یہ فتنہ انتہائی خطرناک انداز میں نوجوانوں اوردینی علوم میں کم فہم لوگوں کو بہت تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ جس کے لئے ہر قسم کے پلیٹ فارم کا استعمال ہو رہا ہے۔ انٹرنیٹ اور میڈیا سمیت کئی دیگر ذرائع کو بخوبی استعمال کرتے ہوئےملحدین کے گروہ ہمارے درمیان یہ فتنہ پھیلا رہے ہیں چونکہ دنیا ایک بستی نما ہے لہٰذا ایسے افکار اور نظریات کو پھیلانے میں کوئی خاص محنت نہیں کرنی پڑتی۔آیئے ذرا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔

سوشل میڈیا

انٹرنیٹ کی دنیا جب سے وجود میں آئی، ترقی کی نہ رکنے والی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے جس کا خمیازہ انسانیت کو اخلاقیات میں گراوٹ، مذہب سے دوری و بیزاری،بد امنی و بےچینی اور مختلف صورتوںمیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ دینِ اسلام کو اس سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہےگوکہ اس کے مثبت فوائد کا انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کا نقصان بہر حال فائدے سے کئی گنا زیادہ ہے ۔

وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا (البقرۃ:219)

لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ ہے۔
سوشل میڈیادیگر فتنوں کی طرح فتنہ الحاد کا مضبوط ذریعہ تصور کیا جائے تو غلط نہ ہوگا،اسی نیٹ ورک کے ذریعے فتنہ الحاد اپنے زور و شور کے ساتھ پھیل رہا ہے، اسکی زَد میں ہر قسم کا انسان آرہا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو، برصغیر خاص کر ہمارے ملک پاکستان میں اردو دان طبقے کے لئے یہاں مقامی لوگ کچھ بیرون ملک اور اپنے ملک میں بھی بیٹھ کر اس فتنے کو پھیلانے میں سرگرم ہیں جن کے متعلق پچھلے دنوں کافی خبریں گرم رہی تھیں، پھر ان کا کیا بنا؟ یہ کسی کو نہیں پتہ چلاکیونکہ یہ فتنہ اپنے لپیٹ میں کئی وزیروں، مشیروں اور دیگر اہم عہدیداران کو بھی لے چکا ہے۔ اس لئے ان گستاخی کے مرتکب بلاگرز اور الحاد پھیلانے والے خبیث لوگ جانے پہچانے ہونے کے باوجود قانون کی گرفت میں نہ آسکے۔
سوشل میڈیا پر تشکیک پھیلانے کے لئے باقاعدہ پیجز بنائےگئے ہیں، بلاگرز اپنے بلاگ میں دینِ اسلام کے احکامات کا کھلے عام انکار کرتے ہیں۔ اور انہی کے کچھ کارندے غیر محسوس انداز میں شکوک و شبہات کو مختصر اور ناقص پوسٹ بناکر شئیر کردیتے ہیں جسے پڑھ کردین میں کم عقل رکھنےو الا شک و شبہ میں پڑ جاتا ہے، پھر وہ شخص کسی عالم کے پاس جاتے ہوئے بھی ڈر محسوس کرتا ہے کہ کہیں مجھے گستاخ نہ قرار دیا جائےاس طرح سوشل میڈیا کےذ ریعے یہ پہلا وار ملحدین کا کامیاب ہوجاتا ہے اور اس طرح ان کے بچھائے گئے جال میں شکاری آ جاتے ہیں۔ علمائے کرام سے خاص التماس ہے کہ نوجوان نسل کے شکوک و شبہات کو انتہائی حکمت و دانائی سے حل کرنے کی کوشش کریں۔
ایک صورت یہ بھی دیکھی گئی ہے کچھ مذہبی شعائر کی گستاخی کے پوسٹ بناکر اس پر بڑا سا لکھ دیتے ہیں کہ سبحان اللہ کہہ کر شئیر کریںجیسے پچھلے دنوں ایک سلائی مشین کی تصویر کافی گردش کرتی رہی جس پر لکھا تھا کہ ’’یہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ہے‘‘ سبحان اللہ کہہ کرشئیر کریں حالانکہ وہ سلائی مشین اسی صدی کی بنی ہوئی تھی۔ اسے شئیر کرنے کا مقصد بھی ’’شکاری ‘‘ہیں کہ لوگ بہک کر شئیر کردیتے ہیں اور اپنی عقیدت و محبت میں یہ سوچ کر کہ شاید انہی کی ہو، پھر مزید پوسٹ دیکھنے کیلئے اس کے اصل پیج پر بھی جاتے ہیں، اس پیج کو لائک کرتے ہیں پھر وہ اس جال میں غیر محسوس طریقے سے آجاتا ہے اور مزید پوسٹ دیکھ کر شکوک و شبہات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
کچھ براہِ راست شعائر کا مذاق اڑاتے ہیں وہ ایک الگ عنوان ہے مگر الحاد کا انجکشن مسلم نسل میں داخل کرنے کے لئے ظاہری حلیہ، نام مسلمانوں کے جیسا رکھ کر اس قسم کی حرکات کرتے ہیں۔
ہم سب پر فرض ہے کہ اس قسم کی ہر چیز پر نظر رکھیں اور ایک دوسرے کو آگاہ رکھیںاور امر بالمعروف نہی عن المنکرکا فریضہ کسی بھی موقع پر ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
شکوک و شبہات کی پوسٹ جہاںشئیر کی گئی ہوں وہیں اس کے جوابات کا لنک شئیر کردیں یا اسے ٹیگ Tagکردیں تاکہ اس شک والے پوسٹ کے ساتھ آپ کا لنک بھی منسلک ہو اورشاید کوئی بھٹکنے سے بچ جائے۔ !

ویب سائٹس اور خبر رساں ادارے

انٹرنیٹ کی دنیا میں ویب سائٹس ایک لائبریری یا مرجع اور ایک دوکان کی حیثیت رکھتی ہیں جہاں دوکاندار جتنی چیزیں رکھنا چاہے رکھ سکتا ہے پھر اس سائٹ پر آنے والا اس سے استفادہ کرتا ہے۔ جہاں دیگر بہتر فوائد کیلئے کئی ویب سائٹس ہیں اسی میدان میں انسانیت کی بگاڑ کیلئے بھی ناعاقبت اندیش لوگوں نے اپنی ویب سائٹس بنائی ہوئی ہیں۔ ملحدین نے بھی اس میدان کا بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے آئے روز اس میں مضامین ، تبصرے اور حالات سے متعلق اپنی بنائی گئی خبریں شائع کرتے ہیں جو بظاہر تو سادی ہوتی ہیں مگر ان خبروں سے عام آدمی ضرور متاثر ہوتاہے۔جیسے ایک مشہور ویب سائٹ پر خبر کی شکل میں یہ آرٹیکل موجود ہے کہ ’’قاہرہ کے ریلوے اسٹیشن پر چلتے پھرتے مذہبی فتوے لیجئے‘‘ اس خبر کو بناتے ہوئے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ ان مذہبی پیشواؤں کو دوسرے کام کرنے چاہیے، مسجدوں تک محدود رہنا چاہئے، پرتشدد کاروائیوں کو روکنا چاہئے۔ وغیرہ۔
حالانکہ دیگر ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے پروڈکس کے لئے دنیا کے ہر کونے میں اسٹال لگاتی ہیں، سائن بورڈز، ٹی وی اشتہار کے ذریعے گھرگھر گھستی ہیں، دیگر غلط کام کے ادارے اپنے ناپاک عزائم کے لئے ہر قسم کے حربے استعمال کرتے ہیں ۔ اس پر ان ملحدین کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی، بس جہاں دین اسلام کا نام آنےسے ان کے تن میں آگ سلگنے لگتی ہے۔
قارئین کرام ! ہمارے سامنے یہ ایک مثال ہے، اس قسم کے لاکھوں عجیب و غریب مضامین بناکر ملحدین ویب سائٹس پر نشر کرتے ہیں۔ اس کے سب سے بڑے آلہ کار بی بی سی ، سی این این سمیت بڑے بڑے نشریاتی ادارے بھی ہیں، جنہیں اسلام کے خلاف چھوٹی سے چھوٹی خبر پہاڑ بناکرپیش کرنے کی بہت ہی مہارت ہے۔جبکہ اسلام کی اچھائی کی کوئی خبر ہو تو ان سب کے چہرے دوسری طرف پھرجاتے ہیں اور اس کی اشاعت میں یہ سخت تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ شام، فلسطین، عراق، میں جاری مظالم سے متاثر ہونے والے لاکھوں عورتیں،بچے انہیں نظر نہیں آتے،لیکن کسی جگہ اسلام کے نام پر کوئی فساد برپاہوکر کوئی عورت یا مرد مرجائے تو اسے یہ نشریاتی ادارے، ملحدین کی ویب سائٹس، سوشل میڈیا، موم بتی مافیا فوراً متحرک ہوجاتے ہیں۔چترال میں ایک امام مسجد نے ایک شخص کو گستاخی پر لوگوں کے نرغے سے بچایا، مذکورہ بالا مافیا اس خبر میں بھی دینِ اسلام کی بدنامی کی خبر ڈھونڈتا رہا بالآخر یہ خبر مل گئی کہ مشتعل اسلام پسندوں نے امام صاحب کے گھر کو آگ لگائی۔ العیاذ باللہ۔ اگر یہ امام صاحب بچا نہ پاتے تو خبر اس طرح بننی تھی کہ ایک پیش امام کے ورغلانے پر ہجوم مشتعل ہوا اوربندے کو قتل کردیا۔ وغیرہ۔
میڈیا /ذرایع ابلاغ
کچھ دنوں پہلے انڈیا کے ایک ٹی وی چینل پر ہونے والی مباحثہ کی ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس کا عنوان کچھ یوں تھا کہ کائنات کا وجود، اللہ تعالیٰ کی موجودگی؟اس میں ایک بظاہر مسلمان سائنسداں کا تعارف پیش کیا گیا جس کا نام رضا گوہر تھا، مباحثے میںاس شخص پر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ دنیا کے معرض وجود میں آنے کے 101 لوگوں کے نظرئیے واضح کر رہا تھا کہ فلاں کا یہ کہنا ہے ، فلاں کے نزدیک دنیا میں پہلے یہ ہوا، پھر آبادی ہوئی، پھر یہ سسٹم خود بخود بنتا گیا، وغیرہ وغیرہ۔ وہ اپنی علمیت سے یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا کہ گویا دنیا کا کوئی خالق نہیں، یہ سب چیزیں خودبخود بنی ہیں، سسٹم خود چل رہا ہے۔اور آخر میں یہ بھی کہہ دیا کہ میں کسی خدا کو نہیں مانتاجو دنیا کے ظلم کو طاقت کے باوجود روک نہیں رہا۔ انسان کی تخلیق کے بارے میں عجیب و غریب کہانیاں اور اٹکل لگا رہا تھا۔ اس شخص نے زندگی میں کبھی ایک آیت کو بھی نہیں پڑھا تھا ورنہ اسے تخلیق کے بارے میں بہت سی باتوں میں قرآن کریم سے رہنمائی مل جاتی!
یہ ایک پروگرام کا حال تھا،اردو دان طبقے کو گھیرنے کے لئے یہ عمل بھی شروع ہوچکا ہے۔ اس قسم کے سیکڑوں پروگرامز مختلف ٹی وی، اور ویب چینلز کے ذریعے نشر کئے جاتے ہیں۔جس میں ایک دنیاوی علم رکھنے والے کو بلاکربات کی جاتی ہے اور اس کے مقابل کسی ایسے بندے کو لائیں گے جس سے یا تو اپنی پوری بات کی نہیں جاتی ہوگی، یا اسے سمجھانا نہیں آتا ہوگا اور اگر اتفاق سے یہ دونوں صفات ہوںتو اسے بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جائے گا۔ اس طرح انسانوں میں دہریت اور الحاد کو راسخ کیا جارہا ہے۔
ان کا عمومی نظریہ ہے کہ یہ دنیا خود بخود بنی، اور ساری چیزیں بس ایک آٹو سسٹم کے تحت چل رہا ہے۔

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ (المؤمنون:115)

کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یونہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے۔
اس کے علاوہ فلموں، ڈراموں، گانوں میں ایسے جملے اور منظر کشیاں کی جاتی رہی ہیں جس میں لوگوں کا الحاد اور بےدینی کے لئےذہن سازی کی جاتی ہے۔ اور ایسے واقعات بناکر پیش کرتے ہیں جسے دیکھنے والا تو فلم / ڈرامہ سمجھ کے دیکھتا ہے مگر وہ واقعہ لاشعوری طور پر اس کے دل و دماغ میں اپنا اثر چھوڑ چکا ہوتا ہے۔
اس قسم کے کچھ ڈرامے پاکستانی چینلز بھی دکھاتے ہیں۔ مگر ہمارے حکمران اور ذمہ دار ادارے آنکھیں بند کرکے خوابِ خرگوش میں مگن رہیںگے تو وقت ایسا بھی آئےگا ہمارے معاشرے کا حال بھی انہی ذرائع ابلاغ کی بدولت مغربی معاشرے کی طرح مادر پدر آزاد اور دین و مذہب سے دورہوگا۔

فلاحی ادارے

یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پاکستان کے انتہائی پسماندہ علاقوں میں جہاں ہم نہیں پہنچ پاتے، یہ فلاحی ادارے پہنچ کر اپنا مشن پورا کرچکے ہوتے ہیں۔ جن میں کافی سارے ادارے غیر مسلموں کی زیرنگرانی چل رہے ہوتے ہیں، جن کا بظاہر مقصد تو انسانیت کی خدمت ہے مگر وہ اپنے عقائد اور نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔ آج سے پندرہ سال قبل ایک کتابچہ دیکھنے کو ملا جو ہمارے گاؤںبلتستان میں تقسیم کیا گیا تھا، اسے پڑھنے کے دوران حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ کتابچہ وہاں کی مقامی زبان ’’بلتی‘‘ میں تھا جس میں عیسایت کی تبلیغ کی گئی تھی۔ابھی گذشتہ دنوں یوٹیوب پر عیسائت کی تبلیغ والی ویڈیو کا بلتی ترجمہ بھی دیکھا۔
بلتی زبان میں ہماری اپنی مذہبی کتب کا ترجمہ ہم نے اس انداز سے نہیں دیکھا ، مگر یہ فلاحی ادارے کی آڑ میں اپنے مشن میں ہم سے کتنا آگے ہیں یہ اس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔
اسی طرح دیگر اسلام مخالف مشنریز سے متعلق پچھلے دنوں میں وزارتِ داخلہ پاکستان کی جانب سے باقاعدہ پابندی کا اعلان کیا گیا تھا کہ یہ غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
ان سب کے علاوہ جن ذرائع سے الحادہمارے گھروں میں داخل ہورہا ہے ان میںمختلف جرائد، رسائل، کتب کے علاوہ بہت سے شعرا کے اشعارشامل ہیں۔
بہترین علاج یہ ہے کہ دینِ اسلام کا مکمل فہم حاصل کیا جائے۔سلف صالحین کی منہج سے مکمل آگاہی حاصل کی جائے، ہم خود اور اپنی نسلوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم سے لازمی طور پر روشناس رکھیںتاکہ ملحدین کے ناپاک اور خطرناک ہتھکنڈوں سے بچ سکیں۔
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے