کائنات کے امام علیہ الصلاۃ والسلام نے قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بتلائی ہے

[بادروا بالأعمال فتنا كقطع الليل المظلم، يصبح الرجل مؤمنا ويمسي كافرا، أو يمسي مؤمنا ويصبح كافرا، يبيع دينه بعرض من الدنيا] (صحیح مسلم:۱۱۸)

یعنی : ’’ ان فتنوں سے پہلے پہلے جو تاریک رات کے حصوں کی طرح ( چھا جانے والے ) ہوں گے، (نیک) اعمال کرنے میں جلدی کرو ۔ (ان فتنوں میں ) صبح کو آدمی مو من ہو گا اور شام کو کافر یا شام کو مومن ہو گا توصبح کو کافر ، اپنا دین (ایمان ) دنیوی سامان کے عوض بیچتاہو گا۔‘‘
سوال یہ اٹھتا ہے کہ دنیاوی طور پر انسان تو انتہا درجے کی ترقی کرچکا ہے نت نئی ایجادات و تحقیقات وغیرہ ، بھلا یہ کیسے ممکن ہے انسانی شعور کا عالم ایسے ترقی یافتہ دور میں یہ ہو کہ وہ دن میں متعدد بار کفر و اسلام کی کشمکش میں رہےگا۔جواب اس کا یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: قرب قیامت علم اٹھ جائے گا اور علم اٹھنے کی کیفیت بھی بتلائی ، فرمایا کہ یہ علم لوگوں کے سینوں سے کھینچ کر نہیں نکالا جائے گا بلکہ یہ علم علماء کے چلے جانے سے ختم ہوجائے گا۔ اور پھر ایسا دور آئے گا کہ لوگ اپنا قائد و رہنما جہلاء کو بنالیں گے جو خود تو گمراہ ہوں گے ہی لوگوں کو بھی گمراہ کرڈالیں گے۔
اس حدیث میں واضح طور پر یہ بات بتلائی گئی ہے کہ لوگ جب علماء کا مقام کسی ایسے شخص کو دیں جو بظاہر دنیاوی طور پر بڑی بڑی ڈگریوں کا حامل ہو، ڈاکٹر و انجینئر ہوگا، لیکن علم و حی سے بالکل نا آشنا ہوگا۔ اور جب لوگ اس کو سردار بنا کر اس سے مشورے اور نصیحتیں طلبہ کریں گے تو یہی چیز گمراہی کا سبب بنے گی۔ کیونکہ عالم اپنی عقل سے جواب دینے کی بجائے صرف اور صرف قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کی عقل ان گہرائیوں تک نہیں پہنچ سکتی ، جو علم وحی میں موجود ہے۔ لیکن اس کے برعکس علم دین بالکل دور شخص جب انہیں چیزوں کو عقل پر پرکھے گا تو گمراہی یقینی ہے۔ اسی لئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ عقل کے دائرہ کار کی تحدید ان الفاظ میں کیا کرتے تھے کہ اگر دین عقل کا نام ہوتا تو موزوں کی بالائی جانب مسح نہ کیا جاتا بلکہ نچلی جانب کیا جاتا۔ اب یہ بات بظاہر غیر معقول ہے لیکن اس کے بعد اسے اپنایا اور جس میں امت کے لئے پیغام ہے کہ آپ کی عقل کا دائرہ کار ہے اور حد ہے جس سے وہ متجاوز نہیں ہوسکتی ، یہی وجہ ہے کہ ’’سلف ‘‘ اہل السنہ‘‘ یہ لقب اور تعارف بنا ان لوگوں کا جنہوں نے نقل (قرآن و سنت کی نصوص ) کو عقل کی جولانیوں پر ترجیح نہیں دی۔ اس کے علاوہ جتنے بھی فرقے وجود میں آئے وہ سب عقل کی جولانیوں کا نتیجہ تھے۔ کسی نے عقل کی بنیاد پر صفات الہیہ کا سرے سے انکار کردیا ، کسی نے عقل کی بنیاد پر صفات الہیہ کو مخلوق جیسا قرار دے دیا۔، کسی نے صفات الہیہ کومانا لیکن ان کی عقل کلی طور پر ان صفات الہیہ کو ماننے میں رکاوٹ بنی تو انہوں نے تاویل کا سہارا لے کر اپنی عقل کو بھی سمجھانے کی کوشش کی اور بزعم خویش صفات الہیہ پر ایمان لانے کی بھی۔ کوئی عقل کے گڑھے میں ایسا گرا کہ تقدیر کا انکار کردیا اور کسی نے عقلی جامہ ایسا پہنایا کہ بندے کو مجبور محض قرار دے دیا۔ کسی نے عقلانی فلسفہ کی بناء پر قرآن کو مخلوق کہہ ڈالا ،، پیغمبروں کے معجزات عقل سے با لا تر ہونے کی وجہ سے اس کا بھی انکار کردیا گیا، کسی کی عقل میں حدیث کا وجود کھٹکا تو اس کا بھی انکار کردیا گیا، کسی کی عقل کو موجودہ قرآن کے مختلف تراجم نہ بھائے تو اس محاذ کو بھی کھول لیا گیا۔
بہرحال یہ سب ’’سلف ‘‘ ’’ اہل السنۃ ‘‘ کے طریق سے بھٹک کر اعتزال کی مختلف شکلیں ہیں۔ جس کا سلسلہ امام حسن بصری رحمہ اللہ کے دور میں ان کے حلقہ سے علیحدگی اختیار کرنے والے واصل بن عطاء اور اس کے شاگرد عمرو بن عبید سے شروع ہوا اور تاحال جاری ہے۔
اس فکر کی تردید کرتے ہوئے امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ فهذا ديننا واعتقادنا ظاهرا وباطنا. ونحن براء إلى الله من كل من خالف الذي ذكرناه وبيناه ۔ ونسأل الله تعالى أن يثبتنا على الإيمان، ويختم لنا به. ويعصمنا من الأهواء المختلفة، والآراء المتفرقةوالمذاهب الردية مثل المشبهةوالمعتزلة، والجهمية والجبرية والقدرية وغيرهم، من الذين خالفوا السنة والجماعة، وحالفوا الضلالة ونحن منهم براء ، وهم عندنا ضلال وأردياء. وبالله العصمة والتوفيق ‘‘ ( متن عقیدہ الطحاویۃ )

یعنی :پس ظاہرا و باطنا یہ ہمارا دین و اعتقاد ہے نیز ہم ہر اس شخص سے اللہ کی طرف براءت کا اظہار کرتے ہیں جو اس دین کی مخالفت کرتا ہے جس کو ہم نے واضح طور پر بیان کردیا ہے، نیز ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ایمان پر ثابت قدم رکھے اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے اور ہمیں مختلف خواہشات اور مختلف آراء نیز غلط طریقوں سے محفوظ فرمائے، مثلاً مشبہ ، معتزلہ ، جہمیہ ، جبریہ، قدریہ وغیرہ سے دور رکھے جو سنت اور جماعت کی مخالفت کرتے ہیں اور گمراہی کے حلیف ہیں ہم ان سے براءت کا اظہار کرتے ہیں یہ تمام فرقے ہمارے نزدیک گمراہ اور بدترین ہیں ہم اللہ ہی دعا کرتے ہیں۔
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے عبدالملک رحمہ اللہ کو خط لکھا :

’’أما بعد فاتخذ الحق إماما ولا تكن ممن يقبله إذا وافق هواه ويدعه إذا خالف هواه فإذا أنت لم تؤجر فيما قبلت منه ولم تنج من الإثم فيما دفعت منه إذا خالفك‘‘ (ذم الکلام و اھلہ : 810، صفحہ نمبر 5/31، شرح عقیدہ طحاویہ للعبدالعز الحنفی : ۴۳۹)

یعنی:حق کو اپنا امام بنالو، اور ان لوگوں میں سے مت ہوجاؤ جو حق کو اس وقت قبول کرتے ہیں جب وہ ان کی عقل کے موافق ہو اور اگر وہ ان کی عقل کے خلاف ہو تو وہ حق کو چھوڑ دیتے ہیں اگر تو نے حق کو موافقت عقل کی بنیاد پر تسلیم کیا تو اس پر کوئی اجر نہیں اور مخالفت عقل کی بنیاد پر چھوڑ دیا تو تو تو گناہ گار ہے۔
اور اس فتنہ کے بارے میں امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ کا قول بھی ملاحظہ فرمائیں : ’’

وقعت الفتنة الأولى – يعنى مقتل عثمان – فلم تبق من أصحاب بدر أحدا ، ثم وقعت الفتنة الثانية – يعنى الحرة – فلم تبق من أصحاب الحديبية أحدا ثم وقعت الثالثة فلم ترتفع وللناس طباخ ‘‘ (صحیح بخاری:بعد از حدیث ۴۰۲۴)

یعنی:ہ پہلا فساد جب برپا ہوا یعنی سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا تو اس نے اصحاب بدر میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا ، پھر جب دو سرا فساد برپا ہوا یعنی حرہ کا ، تو اس نے اصحاب حدیبیہ میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا ، پھر تیسرا فساد برپا ہوا تو وہ اس وقت تک نہیں گیا جب تک لوگوں میں کچھ بھی خوبی یا عقل باقی تھی ۔
اور یہ عقل پرستی جو حقیقتاً بے عقلی ہے اسی کی کارستانیاں ہیں کہ یہ گمراہ فرقے وجود میں آئے، اس موقع پر امام کائنات کا فرمان ذہن نشین رکھا جائے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:’’

يأتي الشيطان أحدكم فيقول: من خلق كذا، من خلق كذا، حتى يقول: من خلق ربك؟ فإذا بلغه فليستعذ بالله ولينته ‘‘ (صحیح بخاری: ۳۲۷۶، صحیح مسلم : ۱۳۴)

یعنی : تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور تمہارے دل میں پہلے تو یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ فلاں چیز کس نے پیدا کی ، فلاں چیز کس نے پیدا کی ؟ اور آخر میں بات یہاں تک پہنچاتا ہے کہ خود تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا ؟ جب کسی شخص کو ایسا وسوسہ ڈالے تو اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے ، شیطانی خیال کو چھوڑ دے ۔
واضح ہوگیا کہ جب انسان عقل کی پیروی کرتا ہے تو حقیقتا وہ اس راہ سے شیطان کی پیروی کرنے لگتا ہے اور پھر وہ مرحلہ بھی آتا ہے کہ وہ عقل ، عقل کرتا انتہائی بے عقلی اور گمراہی کے دھانے پر جاپہنچتا ہے ، بلکہ بسا اوقات عام دیہاتی کی عقل بھی اس کی بے عقلی کو قبول نہیں کرتی مثال کے طور پر عمرو بن عبید معتزلی جو یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ خیر اللہ کی طرف سے اور کوئی نقصان دہ کام اللہ کی طرف سے نہیں۔ ایک دفعہ یہ اپنے حلقہ احباب میں بیٹھا تھا کہ ایک دیہاتی آیا اور کہنے لگا میری اونٹنی گم ہوگئی ہے اللہ سے دعا کرو کہ میری اونٹنی مل جائے ، اب عمرو بن عبید نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ ! بے شک تیرا ارادہ ہرگز یہ نہ تھا کہ اس کی اونٹنی گم ہو لیکن وہ گم ہوگئی، اللہ تو اس کی اونٹنی لوٹا دے۔ اعرابی نے یہ عجیب و غریب بے تکی اور بے عقلی پر مبنی بات سنی (جسے عمرو بن عبید نہ جانے کتنی بڑی معقول بات سمجھتا تھا) اعرابی نے جواب دیا : لا حاجۃ لی فی دعائک مجھے تیری اس بے تکی دعا کی ضرورت نہیں۔ عمرو بن عبید نے کہا: کیوں؟ دیہاتی نے ایسا جملہ کہا کہ اس عقل پرست کی عقل ٹھکانے آگئی ، کہ اگر اللہ کا معاذاللہ ارادہ یہ تھا کہ چوری نہ ہو اور پھر بھی وہ ہوگئی ۔ تو پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ اللہ مجھے لوٹانا چاہے مگر نہ لوٹا پائے۔ (شرح عقیدہ طحاویہ: ۱۸۲)
قارئین ! اس واقعے سے بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ عقل پرست جن باتوں کو عقل کے گھوڑے دوڑا کر معقول قرار دیتے ہیں وہ اتنی ہی بے تکی اور بے عقلی پر مبنی ہوتی ہے جس کی بے عقلی کو عام دیہاتی شخص بھی آسانی سے پہنچان سکتا ہے۔
خیر ان اعتزال پسند، منحرف مزاج ، شہوات کے پجاری قسم کے لوگوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ،جو مختلف صورتوں میں اپنی بد مستیوں میں مست ہوکر اسلامی مسلمات پر اپنی بے عقلی اور حماقتوں کے حملے کررہے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے نے یونانی فلسفے کو ویلکم کہا اور سب کچھ اسی کو بنا لیا وہ یقیناً معتزلہ تھے ، جنہوں نے اپنے مذہب کی بنیاد فلسفہ و کلام پر رکھی، اور آج یہ فکر پرویز ، غلام جیلانی برق ،امین احسن اصلاحی ، عنایت اللہ المشرقی ، سے ہوتا ہوا ، غامدی اور ڈاکٹر شبیر جیسے نامعقول قسم کے لوگوں کی صورت میں زندہ ہے، اور جہاں تک معاملہ ہے سلف کا انہوں نے فلسفہ کی مذمت کی ، مستقل طور پر اس کی مذمت میں کتابیں لکھیں ، اور وہ کس حد تک اس فلسفہ کے مخالف تھے چند ایک اقوال سے بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔
چند ایک اقوال امام لالکائی کی اصول اعتقاد سے ملاحظہ فرمائیں :

سیدنا عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’إياكم وأصحاب الرأي , فإنهم أعداء السنن , أعيتهم الأحاديث أن يحفظوها فقالوا بالرأي , فضلوا وأضلوا ‘‘

یعنی : اصحاب الرای یعنی عقل پرستوں سے بچنا کیونکہ وہ احادیث کے دشمن ہیں انہیں احادیث نے تھکا دیا ہے کہ انہیں یاد کریں تو انہوں عقل کو لےلیا اور خود بھی گمراہ ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
امام طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’

ما ذكر الله هوى في القرآن إلا عابه‘‘

یعنی: قرآن کریم میں اللہ نے جہاں بھی خواہشات کا تذکرہ کیا اس کی مذمت کی۔
امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عربی میں خواہشات کو اھواء کہتے ہی اس لئے کہ اس کی وجہ سے آدمی جہنم میں جا گرتا ہے۔ امام ابو العالیہ رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے نہیں معلوم کہ اللہ کی دو نعمتوں میں سے بڑی نعمت کون سی ہے ایک اللہ نے شرک سے نکال کر اسلام کی دولت سے مالا مال کردیا اور دوسری نعمت یہ ہے کہ اسلام کی دولت دے کر پھر خواہش پرستی سے محفوظ رکھا۔امام ابو الجوزاء رحمہ اللہ کہا کرتے تھے میرے بندر ، خنزیر ہوں مجھے قبول ہے لیکن کوئی عقل پرست ، خواہش پرست کا ساتھ نہیں چاہئے۔امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دجال کے بھی اکثر پیروکار خواہش پرستقسم کے لوگ ہوں گے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا

: ’’ لأن يبتلي الله المرء بكل ذنب نهى الله عنه ما عدا الشرك خير له من الكلام‘‘

یعنی اللہ تعالی سب سے پہلے شرک اور پھر فلسہ اور عقل پرستی سے محفوظ رکھے ۔ (مفہوما)
امام احمد رحمہ اللہ نے متکلمین کو زندیق قرار دیا۔ (تلبیس ابلیس )
امام ابو یوسف نے بھی علم الکلام کے ذریعے سے عقیدہ سیکھنے والے کو زندیق قرار دیا۔ (اصول الاعتقاد للالکائی )
امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ ما شيء أبغض إلي من علم الكلام‘‘ (سیر اعلام النبلاء : ۱۶/۴۵۷، الرسالۃ)
مجھے سب سے زیادہ نفرت علم الکلام سے ہے۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ کے ترجمے میں ان کا یہ قول پیش کرنے کے بعد حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’

’ قلت: لم يدخل الرجل أبدا في علم الكلام ولا الجدال، ولا خاض في ذلك، بل كان سلفيا‘‘

یعنی : میں یہ کہتا ہوں کہ کسی شخص کو علم الکلام اور بحث و جدل میں داخل نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی وہ ان میں غور و خوض کرے بلکہ اسے سلف صالحین کے منہج کو اختیار کرنا چاہئے۔‘‘ (ایضاً)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بیان تلبیس الجھمیۃ علم الکلام کے حوالے سے کئی ایک مقامات پر یہ لکھا علم الکلام کی مذمت اور باطل ہونے پر سلف اور ائمہ کا اتفاق ہے۔ (دیکھئے صفحہ ۱/۳۷۳، ۴۳۸، ۴/۶۲۴) نیز دیکھئے درء تعارض العقل والنقل : ۱/۳۰۹ ، ۲/۲۲۴ ،
بلکہ درء تعارض العقل والنقل میں تو شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے ان شخصیات کا بھی تذکرہ کیا اور جنہوں نے پہلے علم الکلام کو جائز قرار دیا اور پھر بعد میں اس سےرجوع بھی کیا اور اس کی مذمت بھی بیان کیا۔
ایک مقام پر لکھتے ہیں

: ’’هذا علم الكلام قد أفضى بأربابه إلى الشكوك، وأخرج كثيراً منهم إلى الإلحاد بشم روائح الإلحاد من فلتات كلامهم، وأصل ذلك كله أنهم ما قنعوا بما قنعت به الشرائع (درء تعارض العقل والنقل :۸/۴۹)

اسی عقل پرستی نے اہل کلام کو شکوک وشبہات میں داخل کیا اور پھر انہیں الحاد کی طرف نکال دیا، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی رائے اور کلام کو ترجیح دی اور شریعت پر قناعت نہیں کی۔(مفہوما)
بہرحال اس باب میں مزید اقوال جمع کئے جاسکتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے جب انسان شرعی نصوص کو چھوڑنے کی جرأت کرتا ہے اور اپنی عقل کو کافی سمجھتا ہے تو پھر وہ الحاد اور بے دینی کے گڑھے میں گرتا چلا جاتا ہے۔ اللہ اس فتنے سے ہمیں محفوظ رکھے اور سلف صالحین کے منہج صافی پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے