سِلسلةُ رُباعیّات الجامع الصحیح للبخاری
بَاب مَنْ أَجَابَ الْفُتْيَا بِإِشَارَةِ الْيَدِ وَالرَّأْسِ
ہاتھ کے اشارے سے کسی شخص کا فتویٰ دینے سے متعلق بیان

بَاب مَنْ أَجَابَ الْفُتْيَا بِإِشَارَةِ الْيَدِ وَالرَّأْسِ

اس شخص کا بیان جو ہاتھ کے اشارے سے فتوی کا جواب دے

12-85- حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ سَالِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يُقْبَضُ الْعِلْمُ وَيَظْهَرُ الْجَهْلُ وَالْفِتَنُ وَيَكْثُرُ الْهَرْجُ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْهَرْجُ فَقَالَ هَكَذَا بِيَدِهِ فَحَرَّفَهَا كَأَنَّه يُرِيدُ الْقَتْلَ .

مکی بن ابراہیم ،حنظلہ بن ابی سفیا ن،سالم ،ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ،نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا آئندہ زمانے میں علم اٹھا لیا جائے گا اور جہل اور فتنے غالب آجائیں گے اور ہرج پھرعرض کیا یا رسول اللہ ہرج کیا ہے ؟آپﷺ نے ہاتھ سے تِرچھا اشارہ کر کے فرمایا اس طرح ،گویا آپ کی مراد (ہرج سے ) قتل تھی۔
معانی الکلمات :
یقبض :اٹھا لیا جائےگا ،
یظہر :ظاہر ہوگا
الفتن :فتنہ کی جمع
یکثر :کثرت ہو جائے گی
ھرج :فتنہ ،مراد قتل
ترا جم الرواہ:
1۔نام و نسب :مكي بن إبراهيم بن بشير بن فرقد
کنیت:ابو السکن
رتبہ :امام البخاری کے کبار شیوخ میں سے ہیں اور امام ترمذی ،امام ابو داؤد ،اور نسائی ان سے روایت کرتے ہیں ،امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ ہیں ۔
ولادت :126ہجری
وفات :214ہجری کو بلخ میں ہوئی ۔
2۔حنظلہ بن ابی سفیان بن عبد الرحمٰن بن صفوان بن امیہ بن خلف الحمحی المکی
عبدا للہ بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والدامام احمد بن حنبل سے حنظلہ بن ابی سفیان کے بارےمیں پوچھا توا نہوں نے فرمایا ثقہ،ثقہ ۔
حنظلہ بن ابی سفیان کا رتبہ امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ صحۃا ور امام الذھبی رحمہ اللہ کے ہاں الاثبات تھے۔اور کہا جاتا ہے کہ مکہ میں حدیث کے امام تھے ۔
وفات :حنظلہ بن ابی سفیان کی وفات 151ہجری میں ہوئی ۔
3۔نام و نسب :سالم بن عبد اللہ بن عمربن الخطاب القرشی العدوی المدنی الفقیہ
کنیت: ابو عمریا حفص، کہاجاتاہےکہ ابو عبداللہ یا ابو عبید اللہ
ولادت:سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میںآپ کی ولادت ہوئی ۔
وفات :106ہجری میں ہوئی ۔
تشریح گزشتہ حدیث میں ملاحظہ فرمائیں ۔

بَاب مَنْ بَرَكَ عَلَى رُكْبَتَيْهِ عِنْدَ الْإِمَامِ أَوِ الْمُحَدِّثِ

امام یا محدث کے پاس ( ادب سے) دو زانو بیٹھنے کا بیان

13-93- حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ فَقَامَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ فَقَالَ مَنْ أَبِي فَقَالَ أَبُوكَ حُذَافَةُ ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ فَقَالَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا فَسَكَتَ

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انھیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انھیں انس بن مالک نے بتلایا کہ ( ایک دن) رسول اللہ ﷺ گھر سے نکلے تو عبداللہ بن حذافہ کھڑے ہو کر پوچھنے لگے کہ اے اللہ کے رسول ﷺحضور میرا باپ کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : حذافہ پھر آپ ﷺ نے بار بار فرمایا کہ مجھ سے پوچھو، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دو زانو ہو کر عرض کیا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے، اور محمد ﷺکے نبی ہونے پر راضی ہیں ( اور یہ جملہ ) تین مرتبہ ( دہرایا ) پھر ( یہ سن کر ) رسول اللہ ﷺخاموش ہو گئے۔

وروى بألفا ظ مختلفة وسندهما واحد أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ فَصَلَّى الظُّهْرَ فَقَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَذَكَرَ السَّاعَةَ فَذَكَرَ أَنَّ فِيهَا أُمُورًا عِظَامًا ثُمَّ قَالَ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ شَيْءٍ فَلْيَسْأَلْ فَلَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَخْبَرْتُكُمْ مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا فَأَكْثَرَ النَّاسُ فِي الْبُكَاءِ وَأَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي فَقَامَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ السَّهْمِيُّ فَقَالَ مَنْ أَبِي قَالَ أَبُوكَ حُذَافَةُ ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ فَقَالَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا فَسَكَتَ ثُمَّ قَالَ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ فَلَمْ أَرَ كَالْخَيْرِ وَالشَّرِّ(رقمه:540)

ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم سے شعیب نے زہری کی روایت سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ جب سورج ڈھلا تو نبی اکرمﷺ حجرہ سے باہر تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر منبر پر تشریف لائے۔ اور قیامت کا ذکر فرمایا۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت میں بڑے عظیم امور پیش آئیں گے۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا کہ اگر کسی کو کچھ پوچھنا ہو تو پوچھ لے۔ کیونکہ جب تک میں اس جگہ پر ہوں تم مجھ سے جو بھی پوچھو گے۔ میں اس کا جواب ضرور دوں گا۔ لوگ بہت زیادہ رونے لگے۔ آپ ﷺ برابر فرماتے جاتے تھے کہ جو کچھ پوچھنا ہو پوچھو۔ عبداللہ بن حذافہ سہمی کھڑے ہوئے اور دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ میرے باپ کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے باپ حذافہ تھے۔ آپ اب بھی برابر فرما رہے تھے کہ پوچھو کیا پوچھتے ہو۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ ادب سے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور انھوں نے فرمایا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے مالک ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمدکے نبی ہونے سے راضی اور خوش ہیں۔ ( پس اس گستاخی سے ہم باز آتے ہیں کہ آپ سے جا اور بے جا سوالات کریں ) اس پررسول اللہ ﷺ خاموش ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ابھی ابھی میرے سامنے جنت اور جہنم اس دیوار کے کونے میں پیش کی گئی تھی۔ پس میں نے نہ ایسی کوئی عمدہ چیز دیکھی ( جیسی جنت تھی ) اور نہ کوئی ایسی بری چیز دیکھی ( جیسی دوزخ تھی)۔

وروى بسند آخرحدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ قَالَ حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ صَلَّى لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَقِيَ الْمِنْبَرَ فَأَشَارَ بِيَدَيْهِ قِبَلَ قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ ثُمَّ قَالَ لَقَدْ رَأَيْتُ الْآنَ مُنْذُ صَلَّيْتُ لَكُمُ الصَّلَاةَ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ مُمَثَّلَتَيْنِ فِي قِبْلَةِ هَذَا الْجِدَارِ فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ ثَلَاثًا ( رقمه : 749 )

ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ہلال بن علی نے بیان کیا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے۔ آپ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ہم کو نماز پڑھائی۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے قبلہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ابھی جب میں نماز پڑھا رہا تھا تو جنت اور دوزخ کو اس دیوار پر دیکھا۔ اس کی تصویریں اس دیوار میں قبلہ کی طرف نمودار ہوئیں تو میں نے آج کی طرح خیر اور شر کبھی نہیں دیکھی۔ آپ نے قول مذکور تین بار فرمایا۔

وروى بسند آخرحدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ رَضِي اللَّه عَنْه سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَحْفَوْهُ الْمَسْأَلَةَ فَغَضِبَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ لَا تَسْأَلُونِي الْيَوْمَ عَنْ شَيْءٍ إِلَّا بَيَّنْتُهُ لَكُمْ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ يَمِينًا وَشِمَالًا فَإِذَا كُلُّ رَجُلٍ لَافٌّ رَأْسَهُ فِي ثَوْبِهِ يَبْكِي فَإِذَا رَجُلٌ كَانَ إِذَا لَاحَى الرِّجَالَ يُدْعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَبِي قَالَ حُذَافَةُ ثُمَّ أَنْشَأَ عُمَرُ فَقَالَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الْفِتَنِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا رَأَيْتُ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ كَالْيَوْمِ قَطُّ إِنَّهُ صُوِّرَتْ لِيَ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ حَتَّى رَأَيْتُهُمَا وَرَاءَ الْحَائِطِ وَكَانَ قَتَادَةُ يَذْكُرُ عِنْدَ هَذَا الْحَدِيثِ هَذِهِ الْآيَةَ ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ) (رقمه:6362)

ہم سے حفص بن عمر حوضی نے بیان کیا، کہاہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے سوالات کئے اور جب بہت زیادہ کئے تو رسول اللہﷺ کو ناگواری ہوئی ، پھر آپﷺ ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا ، آج تم مجھ سے جو بات پوچھو گے میں بتاؤںگا ۔ اس وقت میں نے دائیں بائیں دیکھا تو تمام صحابہ سراپنے کپڑوں میں لپیٹے ہوئے رورہے تھے ، ایک صاحب جن کا اگر کسی سے جھگڑا ہوتا تو انہیں ان کے باپ کے سوا کسی اور کی طرف ( طعنہ کے طورپر ) منسوب کیا جاتا تھا۔ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! میرے باپ کون ہیں؟رسول اللہﷺنے فرمایا کہ حذافہ ۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا ہم اللہ سے راضی ہیں کہ ہمارا رب ہے، اسلام سے کہ وہ دین ہے ، محمدﷺ سے کہ وہ سچے رسول ہیں ، ہم فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، آج کی طرح خیروشر کے معاملہ میں میں نے کوئی دن نہیں دیکھا ، میرے سامنے جنت اور دوزخ کی تصویر لائی گئی اور میں نے انہیں دیوار کے اوپر دیکھا ۔ قتادہ اس حدیث کو بیان کرتے وقت سورۃ مائدہ کی ) اس آیت کا ذکر کیا کرتے تھے ” اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے متعلق نہ سوال کرو کہ اگر تمہارے سامنے ان کا جواب ظاہرہوجائے تو تم کو برالگے۔ “
سیدناعمررضی اللہ عنہ کے عرض کرنے کی منشا یہ تھی کہ رب، اسلام کو دین اورمحمدؐ کو نبی مان کر اب ہمیں مزید کچھ سوالات پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ لوگ عبداللہ بن حذافہ کو کسی کا بیٹا کہا کرتے تھے۔ اسی لیے انھوںنے آپ سے اپنی تشفی حاصل کرلی۔سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے دوزانو ہوکر بیٹھنے سے ترجمہ باب نکلا اورثابت ہوا کہ شاگرد کو استاد کا ادب ہمہ وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ باادب بانصیب بے ادب بے نصیب، سیدنا عمر رضی اللہ کا مؤدبانہ بیان سن کر آپﷺ کا غصہ جاتا رہا اور آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔
اس حدیث میں کچھ سوال وجواب کا بھی ذکر ہے۔ آپ ﷺکو خبر لگی تھی کہ منافق لوگ امتحان کے طور پر آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں اس لیے آپﷺ کو غصہ آیا اورفرمایا کہ جو تم چاہو مجھ سے پوچھو۔ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو لوگ کسی اورکا بیٹا کہتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے تحقیق چاہی اورآپﷺکے جواب سے خوش ہوئے۔ لوگ آپ کی خفگی دیکھ کر خوف سے رونے لگے کہ اب اللہ عذاب آئے گا یا جنت ودوزخ کا ذکر سن کر رونے لگے۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے آپ کا غصہ معلوم کرکے وہ الفاظ کہے جن سے آپ کا غصہ جاتا رہا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے