پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلیے ہیں، وہ بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، میں معمولی اور ڈھیروں سب نعمتوں پر اسی کی حمد اور شکر بجا لاتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ بہت عظمت اور کرم والی ذات ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ خیرِ عام کے داعی ہیں۔ اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے ۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں؛ کیونکہ تقوی آخرت کیلیے زادِ راہ، تنگ حالات میں قوت، اور آزمائش کے وقت تحفظ کا باعث ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ [آل عمران: 102]

اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔
اللہ تعالی نے انسان کو بہترین انداز سے پیدا فرمایا، اسے خوبرو بنانے کے ساتھ کامل دل بھی عطا فرمایا، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَاأَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ [الانفطار: 6 – 8]

اے انسان ! تجھے اپنے رب کریم سے کس چیز نے بہکا دیا جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے ٹھیک ٹھاک کیا اور تجھے متوازن بنایا پھر جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا ۔
انسان کی خوبصورتی دل کے صاف ہونے سے تکمیل کے زینے عبور کرتی ہے اور صاف دل ظاہری خوبصورتی کا حسن دوبالا کر دیتا ہے، نیز یہی دل کی صفائی رنگ روپ کو بار آور بنانے والا جوہر ہے۔
اگرچہ لوگ رنگ روپ کو ہی اہمیت دیتے ہیں اور اسی تک ان کی دوڑ دھوپ ہوتی ہے؛ لیکن اللہ تعالی کی نظر انسان کے دل پر ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’اللہ تعالی یقینی طور پر تمہاری صورت اور دولت کو نہیں دیکھتا وہ تو تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے۔‘‘
دل کا تعلق اللہ تعالی کے ساتھ جس قدر مضبوط ہو گا اتنی ہی لوگوں میں محبت اور شہرت پائے گا، لہذا جس بندے کا دل اللہ کی محبت سے معمور ہو تو زمین و آسمان میں کہیں بھی دلوں میں جگہ بنا لے گا، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’یقیناً جس وقت اللہ تعالی کسی بندے سے محبت فرمائے تو جبریل کو بلا کر فرماتا ہے: ’’میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو‘‘اس پر جبریل بھی اس سے محبت کرتا ہے، پھر آسمان میں صدا لگاتا ہے: اللہ تعالی فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو” اس پر اہل آسمان بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر پوری زمین پر اس کی مقبولیت پھیلا دی جاتی ہے۔‘‘
لوگوں کے ظاہر اور باطن سب کو قیامت کے دن حساب کتاب میں شامل کیا جائے گا، فرمان باری تعالی ہے:

وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا [الإسراء: 36]

’’جس بات کی تمہیں خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ؛ کیونکہ کان ،آنکھ اور دل سب سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔‘‘
اتنی گہرائی والا یہ فہم مسلمان کو اپنے دل کی اصلاح کرنے پر مجبور کر دیتا ہے، اور دل کی اصلاح کیلیے بنیاد یہ ہے کہ معبود کی عبادت خالص نیت کے ساتھ کی جائے؛ کیونکہ نیت ہی بندگی کا راز ہے۔
اللہ کی بندگی میں ظاہری رنگ روپ کے اہتمام کو شامل کرنے کا ذریعہ بھی اتباع اور اقتدا ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ [آل عمران: 31]

کہہ دو: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو تو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔
عبادت مسلمانوں کی ظاہری اور باطنی ہر دو طرح سے تربیت کرتی ہے؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت پر غور و فکر کرنے والے کو ظاہری اور باطنی ہر دو پہلوؤں کا اہتمام واضح ملے گا، مثلاً: مسلمان نماز میں اپنے پروردگار کے سامنے سیدھی صفیں باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں، بلکہ شریعت نے صف بندی کو نماز کے قیام میں شامل کیا ہے؛ کیونکہ آپ ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ لوگوں کو صفیں سیدھی کرنے کا حکم دیتے اور فرماتے :’’اللہ کے بندو! تم اپنی صفیں سیدھی کر لو، وگرنہ اللہ تمہارے چہروں کو ایک دوسرے سے موڑ دے گا۔‘‘
اسی طرح ہم ظاہری طہارت اور باطنی پاکیزگی کا اہتمام مناسک حج میں بھی واضح دیکھتے ہیں؛ چنانچہ مسلمان کا حج بیت اللہ کیلیے گھر سے چلنا اللہ تعالی کے حکم کی ظاہری اور باطنی تعمیل کی اعلی ترین منظر کشی ہے؛ پھر حج کیلیے خاص لباس، نیت، تلبیہ اور ذکرِ الہی اس مفہوم کو مزید تقویت دیتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ [البقرة: 197]

حج کے مہینے مقرر ہیں اس لئے جو شخص ان میں حج لازم کر لے وہ حج میں بیہودگی، گناہ اور لڑائی جھگڑا نہ کرے، تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالی باخبر ہے اور اپنے ساتھ زادِ راہ لے لو سب سے بہتر زادِ راہ تقوی الہی ہے اور اے عقلمندو ! مجھ سے ڈرتے رہو۔
ایسے ہی حبیب اور مصطفی ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر اسلام میں باطن کی قدر و قیمت ہمارے سامنے رکھی کہ اللہ تعالی کی نظریں تمہارے باطن پر ہیں، آپ نے فرمایا: لوگو! یقیناً تمہارا پروردگار ایک ہے، تم سب کا والد بھی ایک ہے۔ سن لو! کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر ، نہ کسی گورے کو سیاہ پر نہ ہی کسی سیاہ کو گورے پر تقوی کے بغیر فوقیت حاصل نہیں ہے۔

إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمْ [الحجرات: 13]

یقیناً اللہ تعالی کے ہاں تم میں سے معزز ترین وہی ہے جو اعلی متقی ہے۔
مسلمان کو تمام گناہوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے چاہے ان کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے، فرمانِ باری تعالی ہے:

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ [الأعراف: 33]

آپ کہہ دیں: میرے پروردگار نے ظاہری اور باطنی تمام فحش کاموں کو حرام قرار دیا ہے۔
یہ یقینی بات ہے کہ ظاہری صفائی اور باطنی پاکیزگی پورے مسلم معاشرے کو پاک صاف کر سکتی ہے، اس سے اخلاقیات اور سلوکیات میں بہتری آسکتی ہے۔
ہر مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی سے ظاہری اور باطنی دونوں طرح کا تعلق ہوتا ہے، چنانچہ مسلمان جب بھی اپنے بھائی سے ملتا ہے تو ظاہری طور پر خندہ پیشانی سے ملتا ہے اور ساتھ ہی باطنی طور پر سچے دل سے اس کیلیے دعائیں کرتا ہے، خیر سگالی جذبات کے ساتھ محبت کا اظہار بھی کرتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’کوئی بھی مسلمان آدمی اپنے بھائی کیلیے پیٹھ پیچھے دعا کرے تو فرشتہ لازمی کہتا ہے کہ:تمہیں بھی یہ سب کچھ ملے۔‘‘
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے ظاہری طور پر دیگر مسلمان محفوظ رہیں نیز حسد اور کینے جیسی بیماری سے باطنی طور پر محفوظ ہوں، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’حسد، دھوکا دہی، بغض اور نفرت مت کرو، کوئی بھی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اپنے بھائی کو ظلم، تذلیل، دروغ گوئی اور تحقیر کا نشانہ نہیں بناتا۔‘‘
اسلامی اخوت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنے بھائی کی ظاہری طور قلم اور کلام کے ذریعے مدد کریں ، نیز باطنی طور پر قلب و ذہن کے ذریعے بھی مدد کریں۔ ہر مسلمان پر مسلمانوں کے مسائل کی اپنے مال، اثر و رسوخ، اظہار رائے اور اللہ سے دعا کے ذریعے تائید کرنا واجب ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ

یقیناً ہم نے آپ سے پہلے امتوں کی جانب رسول بھیجے تو ہم نے انہیں تنگی اور سختی میں پکڑ لیا تا کہ وہ گڑگڑا کر دعائیں کریں۔[الأنعام: 42]
اگر مسلمان کوئی حکم صادر کرنا چاہیے تو اسے اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ لوگوں کی جاسوسی کرے اور ان کے خلاف تاک میں رہے، اللہ تعالی کو دلوں کے بھیدوں کا علم ہے چنانچہ ان کا حساب بھی وہی ذات لے گی جس کے سامنے کوئی خفیہ ترین چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی نہ دے دیں پھر نمازیں قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں، اگر وہ یہ سب کام کر لیں تو وہ مجھ سے اپنی جان اور مال محفوظ کر لیں گے ، ما سوائے اسلامی حقوق کے، نیز ان کا حساب اللہ تعالی کے ذمے ہو گا۔‘‘
اس لیے مسلمانوں کے ضمیر پر شک کرنا ان کی نیتوں پر حکم لگانا حقیقت میں مسلمان کی عزت اور احترام سے متصادم ہے، یہ مسلمانوں کے مقام اور مرتبے کو ٹھیس پہنچانے اور ان کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کی طرف لے جائے گا؛ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: پوری دنیا کی تباہی اللہ تعالی کے ہاں ایک مسلمان کے قتل سے ابتر ہے۔
اس لیے رسول اللہ ﷺ اسلام کا دعوی کرنے والے منافقین کے ساتھ مسلمانوں جیسا ہی برتاؤ کرتے تھے، اور ان پر اسلام کے احکامات لاگو کرتے تھے، حالانکہ کچھ کی منافقت کے بارے میں آپ کو علم بھی تھا۔
ایمان کے اثرات آزمائش میں ظاہر ہوتے ہیں: ظاہری طور پر صبر کی صورت میں اور باطنی طور پر امیدِ اجر کی صورت میں؛ لہذا مسلمان اپنے آپ کو بے قابو نہیں ہونے دیتا ، نہ ہی اللہ تعالی کے ساتھ ادب و احترام کا پیمانہ لبریز ہونے دیتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا [اپنے لخت جگر ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقع پرفرمان ہے: آنکھیں اشکبار ہیں اور دل افسردہ ہے، پھر بھی ہم وہی بات کریں گے جو ہمارے پروردگار کو پسند ہو گی: ابراہیم! ہم تمہاری جدائی پر یقیناً غم زدہ ہیں۔‘‘
جنت کی جانب دوڑ دھوپ میں کامیابی قلبی امور پر موقوف ہے تاہم ظاہر کی اہمیت بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ سبقت لے جانے والے اور بلند درجات پانے والے قلبی امور کی وجہ سے آگے نکل جاتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ

جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اس پر ڈٹ گئے تو ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں۔ نہ ڈرو اور نہ غم کھاؤ ، بلکہ اس جنت کی خوشی خبری سن لو جس کا تم وعدہ دئیے گئے ہو۔[فصلت: 30]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن کریم کو بابرکت بنائے، اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو اس کی حکمت بھرئی نصیحتوں سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اسی ذات کیلیے ہیں جس نے ہمیں اسلام کے ذریعے ہدایت دی، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہی بادشاہ اور انتہائی گہرا علم رکھنے والا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اللہ کے بندے ہیں ، نماز، روزہ اور قیام میں آپ کا کوئی ثانی نہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد: میں تمام سامعین اور اپنے آپ کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں۔
اللہ تعالی کی یہ وسیع رحمت ہے کہ انسان کیلیے ایمانی اڈے قائم فرمائے جہاں پر انسان رک کر ایسی چیزیں حاصل کر سکتا ہے جن سے قلبی تزکیہ ہو اور ظاہر کی نشو و نما ہو، ایسے ہی عظیم اور بابرکت ایام جن میں اجر و ثواب بڑھ جاتا ہے عشرہ ذو الحجہ کے دن ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ [الفجر: 1، 2]

قسم ہے فجر کے وقت کی اور قسم ہے [عشرہ ذو الحجہ کی]دس راتوں کی۔
اور انہی ایام کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (ان ایام میں کئے ہوئے عمل سے بڑھ کر کوئی بھی عمل نہیں ہے) تو صحابہ کرام نے عرض کیا: جہاد بھی افضل نہیں ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جہاد بھی افضل نہیں ہے، ما سوائے اس صورت کے کہ: کوئی شخص اپنا مال اور جان جوکھوں میں ڈالے اور ان میں سے کچھ بھی واپس نہ آئے۔‘‘(بخاری)
انہی ایام کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان ایام میں کثرت سے اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ، اور الحمد للہ کا ورد کرو۔
چنانچہ عشرہ ذوالحجہ سمیت تمام ایام تشریق میں ہر وقت تکبیرات کہنا مسنون ہے کہ عشرہ ذوالحجہ شروع ہوتے ہی آخری یوم تشریق تک تکبیرات کہیں[انہیں تکبیرات مطلق کہتے ہیں]، جبکہ نمازوں کے بعد کی تکبیریں یوم عرفہ کو فجر کی نماز سے لیکر آخری یوم تشریق کے دن سورج غروب ہونے تک جاری رہتی ہیں[انہیں تکبیرات مقید کہتے ہیں]۔

الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله، والله أكبر الله أكبر ولله الحمد

اس عشرے کے اعمال میں قربانی ذبح کر کے قرب الہی کی جستجو بھی شامل ہے، جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: یوم النحر [دس ذو الحجہ عید الاضحی] کے دن کئے ہوئے اعمال میں سے اللہ کے ہاں قربانی سے زیادہ کوئی محبوب عمل نہیں۔
اسی عشرے کے اعمال میں غیر حجاج کیلیے یوم عرفہ کا روزہ بھی شامل ہے، اس دن کا روزہ افضل ترین روزہ ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: یوم عرفہ کے متعلق مجھے اللہ سے امید ہے کہ یہ گزشتہ اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔
اللہ کے بندو! رسولِ ہُدیٰ پر درود پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں تمہیں اسی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجو۔ [الأحزاب: 56]

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے