ابتدائے آفرینش سے اب تک کتنے انسان آئے ہیں اور کتنے چلے گئےماہرین بھی اندازہ نہیں لگا سکتے اور کوئی کتاب ان کے نام محفوظ نہیں کرسکی بعض ماہرین کو یہ کہنا پڑا کہ ممکن ہے ہمارے درودیوار بھی انسانوں کے جسموں سے بنے ہوں لیکن کچھ انسان ایسے بھی گزرے ہیں جن کے خاندان، علاقے اور مدفن تک کو ہم نہیں جانتے لیکن ان کے تعلق باللہ ، اعلیٰ اخلاق وکردار، خدمتِ خلق اور دین متین کی خدمت کی وجہ سے وہ آج بھی ہمارے دلوں میں ایسے زندہ ہیں جیسے بذاتِ خود ہمارے اندر موجود ہیں ان کے اقوال وافعال کی عزت وتکریم اپنے آباؤ اجداد اور دوست واحباب سے کہیں بڑھ کر ہے۔
ایسی عظیم ہستیوں میں سے میرے محسن ومربی ، میرے شیخ ، شیخ التفسیر والحدیث مولانا محمد عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ ہیں جنہیں لوگ رہتی دنیا تک یاد کرتے رہیں گے اور تاریخ کے اوراق ان کے لیل ونہار کو محفوظ رکھیں گے۔ (ان شاء اللہ)
وفات سے لے کر آج تک ان کے حالات لکھنے کا سوچتا رہا لیکن کیا قلم کروں ، کہاں سے شروع کروں اور کیسے ہمت کروں؟؟؟ آخر آج بہت کرکے لرزتے ہوئے قلم سے کچھ بے ترتیب جملے وکلام لکھ رہا ہوں اور سعادت مندی کی بیساکھی کے سہارے ہمت باندھ رہا ہوں۔
1 نام ونسب :
استاد محترم کا نسب نامہ یہ ہے : محمد عبد اللہ امجد چھتوی بن مولانا عبد العزیز بن جلال الدین ، قوم راجپوت ، فیروزپوری
2 ولادت ومسکن :
شیخ محترم کی ولادت باسعادت (قومی شناختی کارڈ کے مطابق) 1940 ہے آپ ہندوستان کے معروف ضلع فیروزپور کے علاقہ بینکانیر میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرکے ضلع فیصل آباد کے مشہور قصبہ ستیانہ بنگلہ کے مشرق میں واقع گاؤں 36 گ ب میں سکونت اختیار کی اس وجہ سے آپ کو ’’چھتوی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ یہ گاؤں قیام پاکستان سے لے کر اب تک بہت سے علماء وصلحاء کا مسکن ومرجع رہا ہے۔
3تعلیم :
شیخ موصوف ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے آپ کے والد محترم مولانا عبد العزیز رحمہ اللہ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں اپنے گاؤں کے بچوں اور بچیوں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرتے رہے ہیںاور ناظرہ قرآن، احوال الآخرت، زینت الاسلام اور دیگر علمی وتربیتی کتب کی تعلیم باقاعدگی سے دیتے رہے ہیں حتیٰ کہ عید کے دن بھی چھٹی نہ کرتے تھے اور گندم کی کٹائی کے ایام میں طلباء کو گاؤں کے متصل کھیت میں درخت کے نیچے کلاس لگاتے تھے۔ ایسے مذہبی اور علم دوست آدمی اپنی اولاد کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں اس لیے شیخ موصوف نے ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے والد محترم سے حاصل کی پھر مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے اوڈانوالہ(ماموں کانجن) تشریف لے گئے ابتدائی تین سال کے بعد ملک کی معروف دینی درسگاہ جامعہ محمدیہ(اوکاڑہ) میں علمی تشنگی بجھانے کے لیے تشریف لے گئے۔1957 میں اسی جامعہ سے سندِ فراغت حاصل کی۔
آپ کے معروف اساتذہ کرام میں چند مندرجہ ذیل ہیں :
شیخ الحدیث حافظ محمد عبد اللہ بڈھیمالوی، مولانا عبدہ الفلاح، مولانا پیر محمد یعقوب قریشی، مولانا محمد صادق خلیل، حافظ محمد بھٹوی، حافظ محمد اسحاق، مولانا عبد الرؤوف رحمہم اللہ اجمعین
4 درس وتدریس :
شیخ محترم نے جامعہ محمدیہ (اوکاڑہ) سے 1957ء میں فراغت حاصل کی تو مولانا معین الدین لکھوی نے تدریس کے لیے شیخ موصوف کو جامعہ میں استاد رکھ لیا۔
1960 میں تدریس کے لیے پنجاب کا معروف ادارہ کلیۃ القرآن(فیصل آباد) میں تشریف لےگئے اور چار سال تک اسی ادارہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دیئے پھر 1964 میں امیر جماعت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے حکم پر جامعہ سلفیہ (فیصل آباد) تشریف لے گئے ادھر جامعہ محمدیہ(اوکاڑہ) والے اپنے ادارہ میں لانے کے لبے بہت کوشاں تھے آخر کار شیخ موصوف کے استاد محترم مولانا عبدہ الفلاح اور مولانا معین الدین لکھوی کے اصرار پر دوبارہ جامعہ محمدیہ تشریف لے آئے اور 1967 میں اپنے شیخ عبدہ الفلاح کی جگہ صحیح البخاری کی تدریس شروع کر دی اور صحیح البخاری کی تدریس کایہ سلسلہ زندگی کے آخری دن تک جاری رہا۔
جامعہ محمدیہ ( اوکاڑہ) میں تقریبا 16 سال تدریس فرمائی پھر جامعہ اشاعت الاسلام 149 ای بی (عارف والا) میں 12 سال تک تدریس کی اور 1992 میں مرکز الدعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ میں تشریف لائے اور 14 اگست 2017 تک صحیح البخاری اور دیگر کتب اسی ادارہ میں پڑھاتے رہے۔
5 طرز زندگی :
بفضل اللہ تعالیٰ راقم الحروف کو 26 سال تک شیخ محترم کے زیر سایہ درس وتدریس کا شرف حاصل ہے جس دن استاد محترم ستیانہ بنگلہ میں تشریف لائے تھے تو سب سے پہلا درس بلوغ المرام کی کلاس کا دیا تھا جس میں بندئہ خاکسار، ذرہ بے مقدار کو حاضری کا شرف حاصل ہوا تھا اور زندگی کے آخری دن صحیح البخاری کا درس دے رہے تھے تو درس کا کچھ حصہ سننے کا بھی شرف حاصل ہوا ہے جب آخری دن طلباء کو صحیح البخاری کا درس دے رہے تھے اور میں دیگر اساتذہ کرام کے ہمراہ کلاس میں گئے تو شیخ محترم اس آیت کریمہ

لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (البقرۃ:177)

کی ترکیب نحوی اور تفسیر بیان کر رہے تھے۔
لمبی رفاقت وصحبت کے دوران میں نے شیخ محترم کو اسم بامسمیٰ پایا آپ حقیقتاً عبد اللہ اور امجد تھے کتاب وسنت اور سلف کے منہج پر سختی سے کاربند تھے اور طرز زندگی عین تعلیمات اسلامیہ کے مطابق رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ فقہی مسائل کا استنباط کرنے اور اپنے موقف کو دلائل سے ثابت کرنے میں ان کا ثانی نہیں دیکھا ۔ فی البدیع درس وتدریس اور فتوی اس انداز میں فرماتے کہ سننے والا سمجھتا کہ آپ اس موضوع پر اسپیشل تیاری کرکے آئے ہیں ۔ مجھے جب کبھی بھی قرآن،حدیث،عربی گرائمر،اصول حدیث، اصول فقہ، وراثت اور ادب وغیرہ کی پیچیدگی محسوس ہوتی تومیں شیخ محترم سےپوچھ لیتا تو آپ چند الفاظ میں ایسا حل فرماتے جیسے ابھی کتاب سے یہ مقام پڑہ کر آرہے ہیں بعض اوقات کوئی مسئلہ درپیش ہوتا اور بذریعہ فون پوچھتا تو سوال کی تکمیل ہونے سے پہلے مکمل جواب دے دیتے اور ساتھ کئی کتب کا حوالہ دے دیتے کہ مکمل تفصیل وہاں سے پڑھ لیں۔ بہت سارے سفروں میں رفاقت کا شرف حاصل ہوا تو دورانِ سفر کام جمع شدہ مسائل کا حل پوچھ لیا جاتا تو شیخ محترم خوش گوار ماحول میں حل فرماتے جاتے میں کبھی کبھی مخالف دین کے اعتراضات پیش کر دیتا تو وہ بڑی وجاہت سے جواب دیتے اور ساتھ ہی اعتراض پر چند اعتراضات کر دیتے جس کا میرے پاس کوئی جواب نہ ہوتا تو پھر خود اس کا جواب بھی دے دیتے۔
اگر میں سوال نہ کرتا تو خود ہی کوئی اپنا یا قریبی اسلاف کا واقعہ سنانا شروع کردیتے خصوصاً جس علاقہ سے گزر رہے ہوتے تو وہاں کا پیش آمدہ واقعہ بڑی دلچسپی سے سناتے۔
اور سفر میں ساتھیوں کا بہت خیال رکھتے باربار کھانے پینے کا بھی پوچھتے رہتے ایک دن دورانِ سفر گفتگو کے دوران اپنا سرخ عربی رومال مجھےدے دیا میں نے کہا رومال نہیں بلکہ ٹوپی دیں شیخ محترم نے سیاہ رنگ کی جناح کیپ پہن رکھی تو فوراً اتار کر مجھے دے دی ، مجھے اس پر شرمندگی ہوئی لیکن میں نے جناح کیپ پکڑ کر کہا ’ ’ اب یہ میری ہوگئی لیکن اب آپ کو دیتا ہوں پھر کبھی لے لوں گا شیخ محترم فرمانے لگے میں نے حقیقتاً دل سے دی ہے(آج مجھے جناح کیپ دینے کی تعبیر سمجھ آئی ہےاور علم آگے کچھ نہیں لکھ رہا …. )
دوران سفر جب کسی اسٹاپ سے گزرتے تو شیخ خود بھی نظریں گھما کر دیکھتے اور ہمیں بھی کہتے دیکھ کوئی طالب علم یابارش میں کوئی آدمی کھڑا ہوتو سوار کرلیں کبھی کبھی ہم عرض کرتے کہ استاد جی حالات درست نہیں ہیں اس طرح راہگیر کو سوار نہ کیا کریں وہ ہنس کر فرماتے ہم سے کسی نے کیا لے لینا ہے کسی بے چارے کا بھلا ہوجائے گا۔
بعض مدرسین تدریس کے حوالہ سے اچھی گفتگو کر لیتے ہیں لیکن خطابت میں کامیاب نہیں ہوتے لیکن استاد محترم کو اللہ تعالیٰ نے یہ ملکہ عطا فرمایا تھا کہ مجلس ، موقع محل اور حاضرین کے حالات کے مطابق بہترین گفتگو فرماتے تھے خطاب کے افتتاح پر اکثر سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوتا اور تقریر سے زیادہ وقت سوال وجواب کی نشست میں صرف ہوجاتا لیکن بغیر کسی گبھراہٹ وتنگی کے عمدہ اسلوب میں جواب دیتے جاتے۔ طلباء واساتذہ کرام کی بہت تکریم کرتے تھے ناظم ادارہ سے کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو طلباء واساتذہ اپناملجا وماوی شیخ محترم کو سمجھتے اور ان کی خدمت میں اپنا مسئلہ پیش کرکے مطمئن ہو جاتے کہ اب مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ میں نے اپنے ناقص قلم سے آپ کے کون کون سے اوصاف حمیدہ درج کروں مختصر یہی ہے کہ آپ بیک وقت عظیم مفسر، محدث، فقیہ،محقق،مدرس،مفتی،خطیب ، مناظربھی تھے۔
6جماعتی وملی سرگرمیاں :
شیخ موصوف صاحب جس طرح دعوت وتبلیغ اور درس وتدریس میں ہمہ وقت سرگرم رہتے تھے اسی طرح جماعتی سرگرمیوںمیں بڑے ذوق واہتمام سے حصہ لیتے تھے۔ اور جماعتی کام کو بہت ترجیح دیتے اس سلسلہ میں بعض اوقات طویل سفر اور اخراجات بھی برداشت کرنا پڑتے تو گریز نہ کرتے تھے اس سلسلہ میں آپ کی خدمات کی ایک لمبی فہرست ہے جنہیں اب بیان نہیں کیا جاسکتا۔
1953 میں تحریک ختم نبوت میں آپ نے بھر پور حصہ لیا اس وقت شیخ موصوف جامعہ محمدیہ(اوکاڑہ) کی چوتھی کلاس میں جاکر داخل ہوئے تھے تو مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ نے ان کے ذمہ لگایا کہ ختم نبوت کے موضوع پر تم نے جمعہ کا خطبہ دیناہے شیخ موصوف نے معذرت کی کہ میں اس سال اس جامعہ میں آیا ہوں اور اساتذہ کرام کی موجودگی میں کیسے خطبہ دے سکتا ہوں لیکن لکھوی رحمہ اللہ نے حکم دیا کہ تم نے ہی جمعہ پڑھانا ہے چنانچہ استاد محترم نے اس انداز میں خطبہ دیا اور حکومت کی غلط پالیسی کا رد کیا کہ دوران خطبہ میں گرفتاری کے آرڈرجاری ہوگئے اس طرح 1974 میں تحریک ختم نبوت کے سلسلہ میں واضح الفاظ میں اپنا موقف بیان کیا اور کتاب وسنت کے دلائل عوام کے سامنے رکھے اور اس سلسلہ میں تین مرتبہ شیخ محترم کوجیل بھی جانا پڑا۔1977 میں تحریک نظام مصطفیٰ میں بھی بھر پور حصہ لیا اور عوام کو اس مقصد کے لیے تیار کیا۔
7 أنت ترید وأنا أرید واللہ یفعل ما یرید
14 اگست 2017کا دن بڑے تزک واحتشام سے گزر چکا تھا اور 15 اگست کادن آنا چاہتا تھارات کو سوتے وقت دیر تک میں قیام پاکستان اور اپنے اسلاف کی قربانیوں ومصائب کا نقشہ بنا کر ذہن میں گھما رہا تھا اور اسلاف کی بے شمار قربانیوں سے بے وفائی پر افسوس بھی کر رہا تھا اور انہی خیالات میں مسنون اذکار بھی پڑھنا جاری تھا اور نیند کا غلبہ ہوگیا صبح تقریباً 10:3 بجے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی میں الارم کی گھنٹی سمجھ کر بند کر دی چند لمحات بعد شعور بیدار ہوا اور اس نے آگا کیا کہ یہ آلارم والی گھنٹی نہیں ہے چنانچہ اُٹھ بیٹھا اور موبائل کو چیک کیا تو مرکز الدعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ کے ناظم تبلیغ مولانا نصر اللہ صاحب کی کال تھی یہ دیکھ کر پریشانی ہوئی کہ اس وقت کال کیوں؟ خیر ہو ، جلدی سے فون کیا تو آگے سسکیاں بندھی رونے کی آواز تھی وہ مجھے بتلانے کے لیے استاد جی کا لفظ بولتے اور سسکیاں غالب آجاتیں اور لمبا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ میرے دل نے فوراً دبے الفاظ میں کہا : دو میں سے ایک نہیں ، اتنے میں مولانا نصر اللہ رحمہ اللہ نے ہمت باندھ کر بتلایا کہ استاد محترم چھتوی صاحب رحلت کرگئے ہیں ۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون
پھر کیا ہوا یہ وہ جانتا ہے یا میں جانتا ہوں۔
جی ہاں ! یہ 15 اگست 2017 کی سحری 45:2 بجے کا وقت تھا جس وقت شیخ محترم تہجد اور تلاوت قرآن کے لیے بیدار ہوتے تھے لیکن آج زندگی کی بیداریوں کا ثمرہ پانے کے لیے ہمیشہ کی نیند سوگئے تھے آناً فاناً خبر اندرون وبیرون ملک پھیل چکی تھی اور عصر کے بعد نماز جنازہ کا وقت مقرر کر دیا گیا جسے استاد محترم کی زندگی میں مجھے سعادت کے کئی کام نصیب ہوئے اس طرح ذات الٰہی نے یہ سعادت بھی نصیب فرمائی کہ غسل دینے کا موقع ملا۔ غسل کے وقت تن سے کپڑے اتارنے کی ہمت نہ ہورہی تھی آنسووں کےساتھ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا ، میری یہ کیفیت دیکھ کر دوسرے ساتھی نے تعاون کروایا(اللہ اسے جزاء خیر عطافرمائے) دورانِ غسل میں نے کیا کچھ محسوس کیا اس سے زبان اور قلم دونوں معذرت خواہ ہیں۔
بس اتنا ہی عرض کر دیتا ہوں کہ جب معاون ساتھی دیگر اعضاء کو غسل دیتے تو میں چہرہ سے ہاتھوں میں لیے ہونٹوں کو تکتا اور زندگی بھر جن ہونٹوں سے قال اللہ تعالیٰ ، قال رسول اللہ ﷺ ادا ہوتا رہا مجھے اس وقت بھی یہی الفاظ ہونٹوں سے نکلتے محسوس ہو رہے تھے مجھے محسوس کیوں نہ ہوں، شیخ محترم کی وفات کے دنمجھے خواب میں ملے کہ میں ایک باغ میں عید الاضحی کی نماز پڑھانے جلدی جلدی جارہا ہوں آموں کے درختوں کے نیچے شیخ محترم کی چارپائی رکھی ہوئی ہے اور لوگوں کا ہجوم ہے، مجھے دیکھ کر لوگ پیچھے ہٹ گئے اور کہنے لگے مولانا صاحب بتلائیں گے کہ شیخ صاحب کا زندہ ہیںیا وفات پاگئےمیں نے دیکھا تو آپوفات پاچکے ہیں لیکن داڑھی مبارک آہستہ آہستہ حرکت کر رہی ہے جیسے کو ئی وظیفہ پڑھ رہے ہیں میں نے دل میں کہا کہ شیخ صاحب تو وفات پاگئے میں نے خود غسل دیا ہے لیکن زندگی بھر کتاب وسنت پڑھنے پڑھانے کی وجہ سے کرامت کے طور پر اب بھی وظائف ادا کر رہے ہیں۔ ( أو کما رأیت)
نماز جنازہ کا اہتمام گورنمنٹ ہائی اسکول ستیانہ بنگلہ کے دو متصل وسیع میدانوں میں کیا گیا تھا اور تصور یہ تھاکہ یہ جگہ کافی ہوگی لیکن جلدی دونوں میدان تنگ ہوگئے ، ستیانہ پل سے لیکر ہائی اسکول تک دونوں روڈ اس طرح کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے کہ پانچ سات منٹ کا سفر میں نے بھی 25 منٹ میں بمشکل طے کیا اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول سچ ثابت ہورہا تھا۔

الفرق بیننا وبینکم یوم الجنائز

ملک بھر کے نامور شیوخ الحدیث ،مدرسین،خطباء، مصنفین میں سے شاید ہی کوئی نہ پہنچا ہو بلکہ ہرکوئی نمازجنازہ میں شرکت اپنے لیے سعادت سمجھ رہا تھا اور تمنا کر رہا تھا کہ کاش ایسی سعادت ہمیں بھی نصیب ہوجائے۔
پھر جس رقت آمیز انداز میں مولانا عتیق اللہ سلفی حفظہ اللہ نے نماز جنازہ پڑھایا کہ ہر آنکھ صرف اشکبار ہی نہ تھی بلکہ سسکیوں کا لا متناہی سلسلہ شروع تھا اور اکثر کی سسکیاں بلند آواز سے رونے میں تبدیل ہورہی تھیں ہر خاص وعام کی زبان پر یہی تھا کہ آج تک اس طرح کا جنازہ دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوا۔ حتی کہ بعض اسکول وکالج کے اسٹوڈنٹ نے اعلان کر دیا کہ آج کے بعد ہم دینی تعلیم ہی حاصل کریں گے اور بہت سے والدین نے عزم کر لیا کہ ہم اپنی اولاد کو دینی تعلیم دلائیں گے اور بعض نے متأثر ہوکر مسلک اہلحدیث قبول کرنے کا اعلان کر دیا اور بعض نے اپنے بچوں کا نام عبد اللہ امجد رکھ دیا۔ ایک متعصب حنفی کہنے لگا کہ نماز جنازہ میں اتنی بڑی تعداد اہلحدیثوں کی نہیں ہوسکتی اتنی تعداد تو ان کی ملک میں بھی نہیں ہے اس سے پوچھا گیا پھر جنازہ میں شریک ہونے والے اتنے افراد کون ہیں ؟ تھوری دیر خاموش رہنے کے بعد وہ کہنے لگا یہ تقریباً تمام سفید لباس میں تھے اور تمام خوبصورت داڑھی والے تھے ایسے لگتا ہے جیسے فرشتے جنازہ میں آئے ہیں کیونکہ اتنی تعدادوہابیوں کی نہیں ہوسکتی۔

راقم نے1995 میں پنجاب پبلک سروس میں لیکچرار کے لیے امتحان دیا تو عربی واسلامیات دونوں میں اچھی کامیابی ملی۔ مولانا عتیق اللہ سلفی حفظہ اللہ کی ترغیب اور خود دعاؤں استخارہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ مدرسہ میں خالص کتاب وسنت کی تعلیم دینا زیادہ بہتر ہے اس لیے کالج والا ذہن ختم کر دیا کئی دوست واحباب مشورہ دیتے رہے کہ کالج کی زندگی بہتر تھی وہاں تبلیغ کے بہت زیادہ مواقع میسر ہوتے ہیں اور دنیاوی لحاظ سے بھی پریشانی نہیں ہوتی کبھی کبھی انتظامیہ کے رویہ سے پریشان ہوکر ذہن میں معمولی سا خیال آجاتا کہ کالج والا راستہ شاید بہتر تھا لیکن شیخ محترم کے جنازہ کو دیکھ کر کبھی کبھار آنے والا تصور بھی ختم ہوگیا اب میں یہی کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے بالکل صحیح فیصلہ کرایا اور اس پر ذرہ برابر بھی دل میں دوسرا خیال نہیں ہے۔
شیخ موصوف کا جس طرح جنازہ ستیانہ کی تاریخ میں منفرد تھا اس طرح ان کے آبائی گاؤں 36/گ ب میں دوسرا نماز جنازہ ہوا جسے فضیلۃ الشیخ حافظ عبد العزیز علوی حفظہ اللہ شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ نے پڑھایا اور وہ جنازہ بھی چک 36 گ ب کی تاریخ کا منفرد جنازہ تھا اس طرح علم وعرفان کے اس آفتاب کو نماز مغرب کے بعد چک 36 گ ب کے قبرستان میں فضیلۃ الشیخ عبد الشکور شاہ صاحب رحمہ اللہ کی قبر کے قریب دفنایا گیا آہ شیخ محترم کے چلے جانے سے رُت ہی بدل گئی اور زندگی کا مزہ تبدیل ہوگیا مولائے کریم سے صبح وشام دعا گوہوں کہ میرے استاد، میرے شیخ کی حسنات کو قبول فرمائے اور ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے