شاہ ولی اللہ محدث دہلوی :

حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی (1114ھ۔1176ھ) 1142ھ میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حجاز تشریف لے گئے اور حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد علامہ شیخ ابو طاہر الکردی(م1145ھ) کے درس میں مدینہ منورہ میں شامل ہوئے اور تین سال ان کی خدمت میں رہ کر الجامع الصحیح البخاری کے درس میں شرکت کی۔ علاوہ ازیں اس کے بقیہ کتب صحاح ستہ وموطا امام مالک ومسند دارمی وکتاب الآثار کے اطراف سنا کر سند واجازت حاصل کی۔ (۱)
امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تین سال تک شیخ ابو طاہر الکردی رحمہ اللہ کی خدمت میں رہے شیخ کی وفات (1145ھ) سے کچھ ماہ قبل شاہ ولی اللہ نے واپس ہندوستان آنے کا پروگرام بنایا اور آنے سے قبل شیخ ابو طاہر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور الوداعی ملاقات کے بعد ان کے سامنے یہ شعر پڑھا

نسيت كل طريق كنت أعرفه
الا طريقا يؤدینی لربعكم

’’ میں چلنے کا راستہ بھول گیا سوائے اس راستہ کے جو آپ کے گھر تک پہنچاتا ہے۔‘‘
اور اس کے بعد فرمایا کہ
’’میں نے جو کچھ پڑھا تھا سب بھلا دیا سوائے علم حدیث کے‘‘(۲)
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی پوری زندگی اس کی تصدیق کرتی ہے کہ وہ حدیث نبوی ﷺ کی تشریح وتفہیم ، تدریس واشاعت، مدافعت ونصرت اور حمایت وتائید میں مصروف رہے۔
ہندوستان واپس آکر اپنے آبائی مدرسہ میں حدیث نبوی ﷺ کی تدریس وتعلیم واشاعت میں ہمہ تن مصروف ہوگئے اور ان کا مدرسہ برصغیر کے طول وعرض میں ایک مثالی دینی درسگاہ قرار پایا اور ہندوستان کے گوشہ گوشہ سے تشنگان علم حدیث نے پروانہ وار ہجوم کیا آپ کے تلامذہ کا شمار ممکن نہیں تاہم چند ایک نامور تلامذہ کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں ۔

آپ کے صاحبزادگان عالی مقام :

شاہ عبد العزیز دہلوی ( 1159ھ۔1239ھ)
شاہ رفیع الدین دہلوی ( 1163ھ۔1233ھ)
شاہ عبد القادر دہلوی (1167ھ۔ 1230ھ)
شاہ عبد الغنی دہلوی ( 1170ھ۔ 1227ھ)
علاوہ ازیں ان کے علامہ سید مرتضیٰ بلگرامی صاحب تاج العروس شرح قاموس (1145ھ۔1205ھ) بیہقی وقت قاضی ثناء اللہ پانی پتی صاحب تفسیر مظہری (1147ھ۔1235ھ)
حضرت شاہ ولی اللہ نے خدمت حدیث کے سلسلہ میں بذریعہ تصنیف وتالیف بھی گرانقدر خدمات انجام دیں موطا امام مالک کی دو شرحیں المسوّی (عربی) اور المصفّی (فارسی) لکھیں ۔ (۳)
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی(1999ء) فرماتے ہیں کہ
’’ شاہ صاحب رحمہ اللہ فقہ حدیث اور درس حدیث کا جو طریقہ رائج کرنا چاہتے تھے یہ دونوں کتابیں اس کا نمونہ ہیں اور ان سے شاہ صاحب کی علوم حدیث اور فقہ حدیث میں محققانہ اور مجتہدانہ شان کا اظہار ہوتاہے۔ (۴)

وفات :

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے 30 محرم الحرام 1176ھ بمطابق 1762 دہلی میں وفات پائی۔ عمر 62 سال تھی ،اپنے والد محترم شاہ عبد الرحیم دہلوی کے پہلو میں راحت فرما ہوئے۔ (۵)

انا للہ وإنا إلیہ راجعون

جانشین شاہ ولی اللہ دہلوی :

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی وفات کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (1159ھ۔1239ھ) مسند وحی الٰہی دہلوی پر پراجمان ہوئے۔ ان کی تمام زندگی قرآن وحدیث کی تدریس وتعلیم اور اشاعت میں بسر ہوئی علاوہ ازیں اس کے حضرت شاہ عبد العزیز کا دوسرا عظیم کارنامہ فتنہ رفض وتشیع کا مقابلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دفاع کرنا ہے اور ساتھ ہی جہاد فی سبیل اللہ کا احیاء ہے خدمت حدیث میں محدثین کے حالات پر فارسی زبان میں ایک کتاب ’’بستان المحدثین‘‘ تالیف فرمائی۔ اصول حدیث میں ’’عجالہ نافعہ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی اور شیعہ فرقہ کی تردید میں ایک عظیم کتاب ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ تصنیف کی ۔
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (م 1999ء) لکھتے ہیں کہ
’’ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے درس حدیث کی مدت تقریباً 24سال ہے اس مدت میں آپ نے نہ صرف صحاح ستہ کا درس دیا اور بستان المحدثین، عجالہ نافعہ جیسی مفید کتابیں تصنیف کیں جو حدیث کا صحیح ذوق، طبقات حدیث سے واقفیت اور محدثین کا مرتبہ شناس بتاتی ہیں اور اصول سے واقف کرتی ہیں جن میں سینکڑوں صفحات کا عطر آگیا ہے۔‘‘ (۶)
حضرت شاہ عبد العزیز کے تلامذہ کی فہرست بھی طویل ہے تاہم مشہور تلامذہ حسب ذیل ہیں :
مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی ( 1192ھ۔1262ھ)
مولانا شاہ محمد یعقوب دہلوی(1200ھ۔1282ھ)
مولانا مفتی صدر الدین دہلوی (1204ھ۔1285ھ)
مولانا خرم علی بلہوری (م 1260ھ)
مولانا شاہ محمد اسمعیل دہلوی ( ش 1246ھ)
مولانا سید اولاد حسن قنوجی (1210ھ۔ 1253ھ)
حضرت شاہ عبد العزیز کے دوسرے بھائیوں نے بھی خدمت دین اسلام میں گرانقدر خدمات انجام دیں شاہ ولی اللہ کے چاروں صاحبزادوں نے قرآن وحدیث کی تعلیم وتدریس میں جو کارنامے انجام دیئے وہ تاریخ اسلام کا ایک زریں باب ہے حضرت شاہ ولی اللہ کے صاحبزادگان کی ولادت ووفات کی ترتیب حسب ذیل ہے۔
شاہ عبد العزیز دہلوی
ولادت: 1159ھ/1745ء
وفات:1239ھ/1822ء
شاہ رفیع الدین دہلوی
ولادت: 1163ھ/1749ء
وفات:1233ھ/1818ء
شاہ عبد القادر دہلوی
ولادت:1167ھ/1753ء
وفات:1230ھ/1815ء
شاہ عبد الغنی دہلوی
ولادت: 1170ھ/1756ء
وفات: 1227ھ/1812ء
مگر ان بھائیوں کی وفات عجیب ترتیب سے ہوئی ۔ شاہ رفیع الدین محدث دہلوی کی وفات پر حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے فرمایا
’’ترتیب منعکہ در رحلت برادران واقع شد یعنی اول مولوی عبد الغنی کہ خورد ترین ہمہ ہا جودند بعد ازاں مولوی عبد القادر ازدشان بعد مولوی رفیع الدین کلاں سال ازدشاں ہستم باری ماست
’’الٹی ترتیب بھائیوں کی وفات میں واقع ہوئی اول مولوی عبد الغنی کہ سب سے چھوٹے تھے اس کے بعد مولوی عبد القادر اور ان کے بعد مولوی رفیع الدین سب سے بڑا میں ہوں اب میری باری ہے۔‘‘ (۷)
مولانا شاہ محمد اسمعیل شہید دہلوی :
مولانا شاہ محمد اسمعیل شہید دہلوی (1193ھ۔1246ھ) ایک جید عالم ، دینی مفکر، قاطع بدعت ، بلند پایہ مبلغ اور عظیم مجتہد تھے وہ غیر معمولی علمی وسعت کے مالک ذہین وفطین دین سے محبت کرنے والے ، متقی ، پرہیزگار ، مجاہد، مصنف، شجاع اور بے پناہ بصیرت کے مالک تھے۔
خاندان ولی اللہ دہلوی کا ہر فرد علم وعمل ،عقل وفہم،زور تقریر ، فصاحت تحریر، ورع وتقویٰ، دیانت وامانت اور مراتب ولایت میں یگانہ روزگار،فریددہر اور وحید عصر تھا ان کی اولاد بھی انہی درجات بلند پر فائز تھی یہ ایک زریں سلسلہ تھا۔ (۸)
علامہ اقبال ( م 1938ء) فرماتے ہیں کہ
ہندوستان نے ایک مولوی پیدا کیا اور وہ مولوی شاہ محمد اسمعیل کی ذات تھی۔ (۹)
شاہ اسماعیل شہید نے 24 ذی قعدہ 1246ھ / 5 مئی 1831ءامیر المؤمنین سید احمد شہید کے ہمراہ بالاکوٹ میں شہادت پائی اور وہیں دفن ہوئے۔(۱۰)
شاہ محمد اسحاق دہلوی :
حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی (1192ھ۔ 1262ھ) بن علامہ شیخ محمد افضل فاروقی سیالکوٹی (م1245ھ) حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے نواسے تھے علامہ سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ نے آپ کے درس میں بڑی برکت عطا فرمائی تمام بڑے بڑے علماء ان کے شاگرد تھے۔(۱۱)
حضرت شاہ محمد اسحاق علم وفضل میں یگانہ روزگار تھے۔ حدیث نبوی ﷺ کے تمام گوشوں پر ان کی نظر وسیع تھی بڑے عبادت گزار،متقی،پرہیزگار اور زہد وورع کے جامع تھے ان کے نانا حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی ان کو دیکھتے تو فرماتے تھے ۔

اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ

’’ اللہ تعالیٰ کی بے انتہا تعریف ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل واسحاق عطا فرمائے۔ (۱۲)
شیخ الاسلام سراج مکی نے حضرت شاہ محمد اسحاق کے جنازہ پر فرمایا تھا۔
واللہ إنہ عاش وقرأت علیہ الحدیث طول عمر ما نلت ما نالہ
’’ بخدا اگر یہ زندہ رہتے اور میں تمام عمر ان سے حدیث پڑھتا رہتا تو اس رتبے کو نہ پہنچ سکتا جس پر یہ پہنچ چکے تھے۔‘‘ (۱۳)
حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے آپ کے مشہور تلامذہ یہ ہیں :
مولانا احمد علی سہارن پوری محشی الجامع الصحیح البخاری (م 1298ھ)
نواب صدر الدین خان دہلوی
نواب قطب الدین خان دہلوی
مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی ( م 1320ھ)
مولانا سید عبد الخالق دہلوی ( م 1261ھ)
مولانا شاہ محمد یعقوب دہلوی ( 1282ھ)
حضرت شاہ محمد اسحاق نے اپنے نانا حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی زندگی میں تدریس شروع کی اور برسوں حدیث کا درس دیا۔ درس حدیث کے اس اہتمام کی وجہ سے ’’ الصدر الجید‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے حضرت شاہ محمد اسحاق نے 1258ھ میں اپنے برادر اصغر شاہ محمد یعقوب کے ہمراہ حجاز ہجرت کی وہاں بھی تدریس ہی مشغلہ تھا۔
حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی نے رجب 1262ھ / 1846 میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی اور جنت المعلیٰ میں دفن ہوئے۔ (۱۴)
مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی
مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی المعروف حضرت میاں صاحب (1220ھ۔1320ھ) جو اپنے استاد حضرت مولانا شاہ محمداسحاق دہلوی کی ہجرت کے بعد ان کی مسند تدریس پر متمکن ہوئے اور شیخ الکل کہلائے ۔
حضرت میاں صاحب صوبہ بہار کے ضلع سورج گڑھ کے قصبہ بلتھوا میں 1220مطابق1805ء میں پیدا ہوئے انکے والد محترم کا نام سید جو اد علی تھا جو فارسی زبان میں مہارت تامہ رکھتے تھے ۔میاں صاحب کا عہدطفولیت لہو ولعب میں گزرا آخر 15 سال کی عمر میں اپنے والد مرحوم کے ایک برہمن دوست کے کہنے پر تعلیم کی طرف مائل ہوئے پہلے اپنے والد ماجد سے فارسی کی چند کتابیں پڑھیں تھوڑے عرصہ بعد عربی کی ابتدائی تعلیم پڑھنا شروع کی اس وقت میاں صاحب کی عمر 17 سال ہوچکی تھی اور میاں صاحب مزید تعلیم کے حصول کے خواہاں تھے چنانچہ آپ نے اپنے ایک دوست اور ہم عمر طالب علم بشیر الدین عرف مولوی مراد علی سے مشورہ کیا کہ مزید تعلیم کے حصول کے لیے کسی دوسرے شہر جانا چاہیے چنانچہ ایک دن موقع ملا آپ اپنے دوست کے ہمراہ رات کے وقت گھر سے روانہ ہوئے۔ اور عظیم آباد(پٹنہ) جا پہنچے اور مولوی شاہ محمد حسین کے مکان میں اقامت گزیں ہوئے ( مولوی شاہ محمد حسین مولانا ولایت علی عظیم آبادی ( م 1249ھ/ 1852ء) کے خلیفہ تھے۔مولوی شاہ محمد حسین نے اپنے مکان میں ایک دینی مدرسہ قائم کیا ہوا تھا طلباء کی تعلیم اور ان کی ضروریات کا اچھا خاصا انتظام تھا میاں صاحب اور ان کا ساتھی مولوی امداد علی نے وہاں 6 ماہ قیام کیا وہاں انہوں نے اساتذہ سے قرآن مجید کا ترجمہ اور کتب حدیث میں مشکوۃ المصابیح کا درس لیا یہ واقعہ 1237ھ/1821ء کا ہے اسی دو ران امیر المؤمنین حضرت سید احمد شہید بریلوی (ش 1246ھ) حضرت مولانا شاہ محمد اسمعیل شہید دہلوی ( ش 1246ھ) کے ہمراہ اپنے تین صد جانثاروں کو لے کر عظیم آباد (پٹنہ) تشریف لائے جمعہ کی نماز ایک میدان میں ادا کی گئی مولانا شاہ محمد اسمعیل شہید نے وعظ فرمایا تھا میاں صاحب کا ارشاد ہے :
’’ ہم اس وعظ اور نماز میں شریک تھے سارا میدان لین کا آدمیوں سے بھرا ہوا تھا پہلی ملاقات سید صاحب اور مولانا شہید سے یہیں پٹنہ میں ہوئی تھی۔(۱۵)
اس ملاقات کے بعد حصرت میاں صاحب نے دہلی جانے کا قصد کیا اس وقت حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی بقیدحیات تھے چنانچہ میاں صاحب اپنے رفیق سفر مولوی مراد علی کے ہمراہ 1237ھ/ 1822ء دہلی روانہ ہوئے۔پٹنہ سے چل کر میاں صاحب غازی پور پہنچے وہاں چند روز قیام کیا اور مولوی احمد علی چڑیاکوئی ( م 1272ھ) سے ابتدائی درسی کتابیں پڑھیں۔ غازی پور سے بنارس کا عزم کیا بنارس میں کچھ مدت قیام کیا پھر بنارس سے الہ آباد تشریف لے گئے الہ آباد میں ایک مسجد میں قیام کیا وہاں آپ نے مولوی زین العابدین رحمہ اللہ سے صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔
الہ آباد سے میاں صاحب دہلی کے لیے روانہ ہوئے راستہ میں کان پوریاں چند روز قیام کیا پھر کان پور سے روانہ ہوئے اور فرخ آباد پہنچ گئے۔
فرخ آباد سے دہلی کےلیے روانہ ہوئے اور 1243ھ/ 1828ء کو دہلی پہنچ گئے ۔ 1237ھ میں وطن سے روانہ ہوئے اور 1243ھ میں دہلی پہنچ گئے اور 6 سال کی مدت بنتی ہے دہلی میں سب سے پہلے ان کا قیام مولوی محمد شجاع الدین کے مکان پر رہا حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلو ی سے میاں صاحب کی ملاقات نہ ہو سکی وہ 1239ھ میں رحلت فرما چکے تھے اور چار سال کا عرصہ بیت چکا تھا ۔
میاں صاحب مولوی شجاع الدین کے ہاں سکونت ترک کرکے مسجد اورنگ آبادی میں مولانا عبدالخالق دہلوی (م 1261ھ) کی خدمت میں حاضر ہوکر علوم اسلامیہ کی تحصیل میں مشغول ہوگئے۔(۱۶) میاں صاحب نے جن اساتذہ کرام سے علوم عالیہ وآلیہ میں استفادہ کیا اُن کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں:
nمولانا عبد الخالق دہلوی (م 1261ھ)
nمولانا اخوندشیر محمد قندہاری (م1257ھ)
nمولانا جلال الدین ہروی
nمولانا کرامت علی اسرائیلی
nمولانا سید محمد بخش عرف تربیت خان نہدس
nمولانا شیخ عبدالقادر رام پوری
nملا محمد سعید پشاوری
nمولانا حکیم نیاز احمد سہوانی ۔ ( ۱۷)
حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی کے درس میں :
جب حضرت میاں صاحب ( 1243ھ / )1828ء میں دہلی وارد ہوئے تو حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی وفات پا چکے تھے ( حضرت شاہ عبد العزیز کی تاریخ وفات 7 شوال 1239ھ ہے ) اور مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی کا فیضان علم وعمل جاری تھا مگر اس وقت میاں صاحب شامل حلقہ ہونے کی قابلیت نہ رکھتے تھے اس لیے پہلے دوسرے اساتذہ سے اکستاب کیا حضرت میاں صاحب نے علوم رسمیہ سے فراغت کے بعد حضرت شاہ محمد اسحاق نواسہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے مرکز حدیث کا رخ کیا ۔
مورخ اہلحدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی ( 2015ء) لکھتے ہیں کہ
’’ میاں صاحب نے علوم رسمیہ سے فراغت کے بعد علوم تفسیر وحدیث اور فقہ کی تحصیل کے لیے شاہ محمد اسحاق کے مرکز حدیث کا رخ کیا حضرت شاہ صاحب ممدوح سے میاں صاحب نے صحاح ستہ کی تکمیل کی نیز تفسیر جلالین، تفسیر بیضاوی ، کنز العمال اور حافظ سیوطی کی جامع صغیر کا درس لیا علاوہ ازیں 13 برس کی مدت ان کی صحبت بابرکت سے مستفیض ہوتے رہے۔(۱۸)
کیا میاں سید محمد نذیر حسین دہلوی حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی کے باقاعدہ شاگرد نہ تھے :
1258ھ میں حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی نے اپنے برادرخورد کے ساتھ حرمین شریفین ہجرت کی تو ان کے مسند تدریس کے وارث حضرت میاں سید محمد نذیر حسین دہلوی ہوئے اور مکمل 12 سال تک دہلی میں علوم اسلامیہ کا درس دیا۔
علمائے تقلید اپنے تقلیدی تعصب کی بنیاد پر یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ
مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی کے باقاعدہ شاگرد نہ تھے بلکہ تبرکاً حدیث کی سند حاصل کی تھی ، باقاعدہ شاگرد مولانا شاہ عبد الغنی مجددی( م 1296ھ) تھے ۔ ‘‘
علمائے اہلحدیث کا موقف ہے کہ
’’ مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی کے باقاعدہ شاگرد تھے اور 13 سال ان کی خدمت میں رہ کر علوم اسلامیہ کی تحصیل کی ۔
جن علمائے کرام ، مورخین اورمقالہ نگاروں نے اپنی کتابوں میں باحوالہ لکھا ہے کہ
|’’ مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمہ اللہ کے باقاعدہ شاگرد تھے :
اگر ان کی تحریریں ذیل میں درج کی جائیں تو مقالہ خاصا طویل ہوجائے گا صرف ناموں پر اکتفا کیا جاتا ہے اور کتاب کا حوالہ بھی پیش خدمت ہے ۔
مولانا شیخ محمد تھانوی (1296ھ)الحیاۃ بعد المماۃ ،  ص:34
مولانا رحمان علی بریلوی(1325ھ)تذکرہ علمائے ہند، ص:92
مولانا سید نواب صدیق حسن خان (1307ھ)حیات شبلی ، ص:46
مولانا شمس الحق ڈیانوی(1329ھ ) مقدمۃ غایۃ المقصود ، ص:11
مولانا محمد ادریسبگرامی(1330ھ)تذکرہ علمائے حال ، ص:92
حکیم سید عبد الحی الحسنی(1341ھ)نزھۃ الخواطر 8/498
مولانا عبد الرحمان مبارکپوری (1353ھ) مقدمۃ تحفۃ الاحوذی ، ص:52
مولانا عبید اللہ سندھی (1363ھ)حاشیہ المسوّی من احادیث الموطا امام مالک ، ص:11
علامہ سید سلیمان ندوی (1373ھ)حیات شبلی، ص: 41و46۔مقالات سلیمان ، 2/52،53
مولانا عبد المجید سوہدروی (1959ء )سیرت ثنائی ،  ص:97 طبع اول
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشیروی (1386ھ)تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:138۔ ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات ، ص:20
شیخ محمد اکرام (1396ھ )موج کوثر ، ص:68
مولوی بشیر احمد دہلوی (1921ء )دلی اور اصحاب دلی ،  ص:132
پروفیسر خلیق احمد نظامی (1418ھ )تاریخی مقالات ،  ص:253
مولانا نسیم احمد امروہی ۔الفرقان لکھنو فروری ،مارچ  1977ء
مولانا محمدابراہیم میر سیالکوٹی (1375ھ )تاریخ اہلحدیث ، ص416 طبع اول
پروفیسر محمد مبارک(کراچی)۔حیات شیخ سید محمد نذیر حسین دہلوی، ص:6
ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی۔ مولوی نذیر احمد دہلوی احوال وآثار ، ص:46
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (1999ء)تاریخ دعوت وعزیمت 5/359
محترمہ ڈاکٹر ثریا ڈار ۔شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور ان کی علمی خدمات ، ص:163
مولانا قاضی محمد اسلم سیف(1417ھ)تحریک اہلحدیث تاریخ کے آئینے میں ، ص:325(۱۹)
سید رئیس احمد جعفری ندوی(1968ء )بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد ، ص: 281
مولانا محمد اسحق بھٹی(2015ء)دبستان حدیث ، ص:33

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے