احمد: سیدنا ابوہریرہ  کو ابو ہریرہ کیوں کہتے ہیں؟
محمد: جی ہاں ،عبد اللہ بن رافع رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ  سے کہا:

لِمَ كُنِّيتَ أَبَا هُرَيْرَةَ؟ قَالَ أَمَا تَفْرَقُ مِنِّي؟ قُلْتُ: بَلَى وَاللَّهِ إِنِّي لأَهَابُكَ. قَالَ: كُنْتُ أَرْعَى غَنَمَ أَهْلِي، فَكَانَتْ لِي هُرَيْرَةٌ صَغِيرَةٌ فَكُنْتُ أَضَعُهَا بِاللَّيْلِ فِي شَجَرَةٍ، فَإِذَا كَانَ النَّهَارُ ذَهَبْتُ بِهَا مَعِي فَلَعِبْتُ بِهَا فَكَنَّوْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ.(ترمذی3840)

آپ کی کنیت ابو ہریرہ کیوں پڑی ؟تو انہوں نے کہا کیا تم مجھ سے ڈرتے نہیں ہو میں نے کہا دکیوں نہیں ،اللہ کی قسم میں میں آپ سےڈرتاہوں پھر انہوں نے کہا میں اپنے گھر والوں کی بکریا ں چراتا تھا میری ایک چھوٹی سی بلی تھی میںاس کو رات کو راستے میں بٹھا دیتا تھا اور دن میں اسے اپنے پاس لے جاتا اور اس سے کھیلتا،تو لوگوں نے میری کنیت ابو ہریرہ رکھ دی ۔
احمد:کیاسیدنا ابو ہریرہ  نے بکریاں بھی چرائیں؟
محمد :جی ہاں سیدنا ابو ہریرہ  نے بکریاں بھی چرائیں ہیں جیسا کہ انہوں نے خودفرمایا كُنْتُ أَرْعَى غَنَمَ أَهْلِي میں اپنے گھر والوں کی بکریاں چراتا تھا ۔
احمد: کیا سیدنا ابو ہریرہ  سے زیادہ کوئی حافظ حدیث تھے؟
محمد:جی ہاں جیسا کہ انہوں نے خود فرمایا:

مَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَلاَ أَكْتُب(البخاری113)

رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں عبد اللہ بن عمرو کے علاوہ مجھ سے زیادہ کوئی حدیث بیان کرنے والا نہیں تھا،مگر وہ لکھ لیاکرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا ۔
احمد: کیا سیدناابو ہریرہ t احادیث نہیں لکھتے تھے؟
محمد:زمانہ نبوی ﷺ میں وہ احادیث نہیں لکھتے تھے جیسا کہ انہوں نے خود فرمایا :

مَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَلاَ أَكْتُب(البخاری113)

رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں عبد اللہ بن عمرو کے علاوہ مجھ سے زیادہ کوئی حدیث بیان کرنے والا نہیں تھا،مگر وہ لکھ لیاکرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا ۔
احمد: کیا زمانہ نبوی کے بعد سیدنا ابو ہریرہ  نے اپنی حفظ شدہ احادیث کو تحریری شکل دی؟
محمد:جی ہاں جیسا کہ فضل بن حسن بن عمروبن امیہ الضمری کی اپنی والدسے روایت الکفایہ اور تہذیب وغیرہ میں مروی ہے کہ میں نےسیدنا ابو ہریرہ t کے سامنے ایک حدیث بیان کی آپ نے اس کا رد کیا میںنے عرض کیا آپ سے ہی میں نے سنی ہے کہنے لگے کہ اگر تم نے مجھ سے سنی تو میرے پاس لکھی ہوگی وہ میرا ہاتھ تھام کر اپنے گھر لے گئے اور احادیث کی متعدد کتابیں مجھے دکھائیں اور وہ حدیث بھی اس میں تھی ۔اور اسکے علاوہ ھمام بن منبہ بھی حال میںدریافت ہواہے یہ انکی تالیف ہے مگر کتابت کی وجہ سے کاتب کی طرف منسوب ہے ۔
احمد: سیدنا ابو ہریرہ رات کیسے گزارتے تھے؟
محمد:سیدنا ابو ہریرہ  رات کو تین حصوں میں تقسیم کیاکرتے تھے جیسا کہ انہوں نے خود فرمایا :

إِنِّي لَأُجَزِّئُ اللَّيْلَ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ: فَثُلُثٌ أَنَامُ، وَثُلُثٌ أَقُومُ، وَثُلُثٌ أَتَذَكَّرُ أَحَادِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلَّمَ (سنن الدارمی272)

میں رات کو تین حصوں میںتقسیم کرتا ہوں ایک حصے میں آرام کرتا ہوں ،ایک حصے میں قیا م کرتا ہوں اور ایک حصے میں رسول اکرم ﷺ کی احادیث یاد کرتاہوں ۔
احمد: کیا سیدنا ابو ہریرہ t رات کو بھی احادیث یاد کرتے تھے ؟
محمد: جی ہاں جیسا کہ انہوں نے خود فرمایا (عربی عبارت) میں رات کو تین حصوں میںتقسیم کرتا ہوں ایک حصے میں آرام کرتا ہوں ،ایک حصے میں قیا م کرتا ہوں اور ایک حصے میں رسول اکرم ﷺ کی احادیث یاد کرتاہوں۔
احمد: سیدناابو ہریرہ  سے زیادہ احادیث مروی ہیں،اسکا سبب کیا ہے ؟جبکہ انہوں نے اسلا م میں رسول ﷺکے ہاں بہت کم وقت گزارا ـہے؟
محمد:جی ہاں اس کے دو سبب ہیں جو انہوں نے خود بیان فرمائے جو لوگ کہتے ہیں ابو ہریرہ t احادیث زیادہ بیان کرتے ہے

وَلَوْلاَ آيَتَانِ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا حَدَّثْتُ حَدِيثًا، ثُمَّ يَتْلُو

میں کہتا ہوں کہ قرآن میں اگر دو آیتیں نہ ہوتی تو میں کوئی حدیث بیان نہ کرتااور پھر یہ آیت پڑھی

اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ اُولٰۗىِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُوْا فَاُولٰۗىِٕكَ اَتُوْبُ عَلَيْهِمْ ۚوَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ (البقرہ 159-160)

یقیناً وہ لوگ جو چھپاتے ہیں اس شے کو جو ہم نے نازل کی بیناتّ میں سے اور ہدایت میں سے بعد اس کے کہ ہم نے اس کو واضح کردیا ہے لوگوں کے لیے کتاب میں تو وہی لوگ ہیں کہ جن پرلعنت کرتا ہے اللہ اور لعنت کرتے ہیں تمام لعنت کرنے والے،سوائے ان کے جو توبہ کریں اور اصلاح کرلیں اور (جو کچھ چھپاتے تھے اسے) واضح طور پر بیان کرنے لگیں تو ان کی توبہ میں قبول کروں گا اور میں تو ہوں ہی توبہ کا قبول کرنے والا ‘ رحم فرمانے والا
اور سیدنا ابو ہریرہ  نے کہا :

إِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ المُهَاجِرِينَ كَانَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالأَسْوَاقِ، وَإِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ الأَنْصَارِ كَانَ يَشْغَلُهُمُ العَمَلُ فِي أَمْوَالِهِمْ، وَإِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِبَعِ بَطْنِهِ، وَيَحْضُرُ مَا لاَ يَحْضُرُونَ، وَيَحْفَظُ مَا لاَ يَحْفَظُونَ “البخاری 118)

ہمارے مہاجرین بھائی تو بازار کی خرید و فروخت میں لگے رہتے ہیں اور انصار بھائی اپنی جائیداد وں میںمصروف رہتےہیں اور ابو ہریرہ  رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جی بھر کے رہتے تھے تاکہ آپ کی رفاقت میں شکم پروری سے سے بھی بے فکر رہے اور ان مجلسوں میںحاضر رہتا ہوں جن مجلسوں میـں دوسرے حاضر نہ ہوتے اور وہ باتیں محفوظ رکھتا جو دوسرے محفوظ نہیں رکھ سکتےتھے۔
احمد: سیدنا ابو ہریرہ دن کیسے اور کہاں گزاراکرتے تھے ؟
محمد:سیدنا ابو ہریرہ دن کو اللہ کے رسول ﷺ کی مجالس میں بیٹھا کرتے تھے جیسا کہ وہ بیا ن فرماتے ہیں :

إِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ المُهَاجِرِينَ كَانَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالأَسْوَاقِ، وَإِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ الأَنْصَارِ كَانَ يَشْغَلُهُمُ العَمَلُ فِي أَمْوَالِهِمْ، وَإِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِبَعِ بَطْنِهِ، وَيَحْضُرُ مَا لاَ يَحْضُرُونَ، وَيَحْفَظُ مَا لاَ يَحْفَظُونَ “البخاری 118)

ہمارے مہاجرین بھائی تو بازار کی خرید و فروخت میں لگے رہتے ہیں اور انصار بھائی اپنی جائیداد وں میںمصروف رہتےہیں اور ابو ہریرہ  رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جی بھر کے رہتے تھے تاکہ آپ کی رفاقت میں شکم پروری سے سے بھی بے فکر رہے اور ان مجلسوں میںحاضر رہتا ہوں جن مجلسوں میـں دوسرے حاضر نہ ہوتے اور وہ باتیں محفوظ رکھتا جو دوسرے محفوظ نہیں رکھ سکتےتھے۔
احمد : کیا سیدنا ابو ہریرہ t احادیث کا زیادہ حرص رکھتے تھے ؟
محمد :جی ہاں جیسا کہ انکا کہنا ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ سے کہا:

مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ يَوْمَ القِيَامَةِ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَنْ لاَ يَسْأَلُنِي عَنْ هَذَا الحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الحَدِيثِ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ، مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ، أَوْ نَفْسِهِ (البخاری 99)

قیامت کے دن آپ ﷺ کیشفاعت سےسب سے زیادہ سعادت کسے ملی گی ؟تو فرمایا اے ابو ہریرہ مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی مجھ سے اسکے بارے میں دریافت نہیں کرے گا کیوں کہ میں حدیث کے متعلق تمہاری حرص دیکھ لی تھی سنو:قیامت میں سب سے زیادہ فیض یاب میری شفاعت کا وہ شخص ہوگا جو سچے دل سے لاإِلَهَ إِلَّا اللَّهکہے گا ۔
احمد: کیا سیدنا ابو ہریرہ t احادیث بھول جاتے تھے ؟
محمد : ہاں شروع میں احادیث بھول بھی جاتے تھے جیسا کہ انکا کہنا ہے پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اورکہنے لگے اے اللہ کے رسول ﷺ :

إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنْسَاهُ قَالَ:ابْسُطْ رِدَاءَكَ فَبَسَطْتُهُ، قَالَ: فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ،ثُمَّ قَالَ:ضُمَّهُ فَضَمَمْتُهُ، فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا بَعْدَهُ (البخاری 119)

میں آپ سے بہت اباتیں سنتا ہوں اور انکو بھول جاتا ہوںآپﷺ نے فرمایا اپنی چادر بچھاؤمیں نے بچھائی آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ سے ایک لپ لیکر اس میں ڈال دیا پھر فرمایا اسکو لپیٹ لو(یا اپنے سینے سے لگا لیں )میں نے لپیٹ لیا (یا سینے سے لگالیا )اسکے بعد میں کوئی چیز نہیں بھولا۔
احمد: کیا سیدنا ابو ہریرہ  کی والدہ غیرمسلمہ تھیں؟
محمد: جی ہاں :جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ کا فرمان ہے:

كُنْتُ أَدْعُو أُمِّي إِلَى الْإِسْلَامِ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ، فَدَعَوْتُهَا يَوْمًا فَأَسْمَعَتْنِي فِي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَكْرَهُ (صحیح مسلم 2491)

میں اس کو اسلام کی دعوت دیا کرتا تھااور ایک دن میں نے انکو دعوت دی تو انہوں نے رسول اکرم ﷺ کے متعلق وہ باتیں کہیں جو ناگوارہ تھیں۔
احمد : کیا پھر انہوں نے اسلام قبول کیا ؟
محمد : جی ہاں

فَخَرَجْتُ مُسْتَبْشِرًا بِدَعْوَةِ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (صحیح مسلم 2491)

انہوں نے رسول اکر مﷺ کی دعا سے اسلام قبول کیا تھا۔
احمد : کیا آپ یہ واقعہ ہمیں سنا سکتے ہیں کہ وہ کیسے مسلمان ہوئی تھیں ؟
محمد:جی ہاں سیدنا ابوہریرہ t بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف بلاتا تھا اور وہ مشرکہ تھیں ایک دن میں اسے مسلمان ہونے کو کہا تو اس نے مجھے اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں وہ باتیں کہیں جو مجھے ناگوار اگزری ۔میں رسول اللہ ﷺ کے پاس روتا ہو آیا اور عر ض کی کہ میں اپنی والدہ کواسلام کی طرف بلاتا ہوں وہ مانتی نہیں اور آج اس نے آپ کے حق میں وہ بات کہیں جو مجھے گوارہ نہیں تھیں تو اے اللہ کے رسول ﷺ آپ دعا کیجئے کہ اللہ تعالی ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت دے دے تو رسو ل اللہ ﷺ نے دعا کی :

اللَّهُمَّ اهْدِ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ

اے اللہ ابو ہریرہ کے کی ماں کو ہدایت عطافرما۔
میں رسول اللہ ﷺ کی دعا سے خوش ہوکرنکلاجب گھر آیا اور دروازہ پر پہنچا تو وہ بند تھا ،میری ماں نے میری پاؤں کہ آواز سنی تو کہا کے ذرا ٹھہرو ، میںنےپانی کے گرنے کی آواز سنی غرض ہی کہ میری ماں نے غسل کیااور اپنا لباس پہن کر جلدی سے اوڑھنی اوڑھی اور پھر دروازہ کھولا اور کہا کہا اے ابو ہریرہ :

إِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔سیدنا ابو ہریرہ  فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس خوشی سے دوڑتا ہو اآیا اور عرض کی کہ اے اللہ کہ رسول اللہﷺ خوش ہو جایئے اللہ تعالی نے آپ کی دعا قبول کی اور ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت دے دی تو آپ ﷺ نے اللہ کی تعریف کی اور بیشتر باتیں کہیں ۔میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ اللہ تعالی سے دعا کیجیے کہ میری ماں کی محبت مسلمانوں کے دلوں میں بھی ڈال دے او ران کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے ۔تب اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا

اللهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هَذَا – يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ – وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ، وَحَبِّبْ إِلَيْهِمِ الْمُؤْمِنِينَ

اے اللہ اپنے بندے کی یعنی ابو ہریرہ اور انکی ما ں کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور ان مومنوں کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دے ۔(صحیح مسلم 2491)
احمد:کیا اللہ کے رسول ﷺ نے سیدنا ابو ہریرہ  کو (امین سمجھ کر) چوکی پر مقرر کیا تھا ؟
محمد:جی ہاں رمضان کی زکوۃ کی حفاظت پر آپ ﷺ نے سید نا ابو ہریرہ t کو چوکی پر مقرر کیا تھا جیساکہ وہ خود فرمارتے ہیں :

وَكَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِ زَكَاةِ رَمَضَانَ(البخاری 2311)

آپ ﷺ نے مجھے رمضان کی زکوۃ کی زکوۃ پر مقر فرمایا۔
احمد : سنا ہے کہ ابو ہریرہ t کی اس چوکی کے دوران شیطان (مردود) چور بن کر آیا اور پھر جب سیدنا ابو ہریرہ t نے اس کو پکڑا تو اس نے انکو وظیفہ بتا کر جان چھڑالی یہ واقعہ کس طرح ہے ۔
محمد : یہ واقعہ خود سیدنا ابو ہریرہ tاپنی زبانی یوں بیان کررہے ہیں ۔

وَكَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِ زَكَاةِ رَمَضَانَ، فَأَتَانِي آتٍ فَجَعَلَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ، وَقُلْتُ:وَاللَّهِ لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنِّي مُحْتَاجٌ، وَعَلَيَّ عِيَالٌ وَلِي حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ، قَالَ: فَخَلَّيْتُ عَنْهُ، فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ البَارِحَةَ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَكَا حَاجَةً شَدِيدَةً، وَعِيَالًا، فَرَحِمْتُهُ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ:أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَبَكَ، وَسَيَعُودُ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ سَيَعُودُ، لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ سَيَعُودُ، فَرَصَدْتُهُ، فَجَاءَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ، فَأَخَذْتُهُ، فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: دَعْنِي فَإِنِّي مُحْتَاجٌ وَعَلَيَّ عِيَالٌ، لاَ أَعُودُ، فَرَحِمْتُهُ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ شَكَا حَاجَةً شَدِيدَةً، وَعِيَالًا، فَرَحِمْتُهُ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ: أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَبَكَ وَسَيَعُودُ، فَرَصَدْتُهُ الثَّالِثَةَ، فَجَاءَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ، فَأَخَذْتُهُ، فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ، وَهَذَا آخِرُ ثَلاَثِ مَرَّاتٍ، أَنَّكَ تَزْعُمُ لاَ تَعُودُ، ثُمَّ تَعُودُ قَالَ: دَعْنِي أُعَلِّمْكَ كَلِمَاتٍ يَنْفَعُكَ اللَّهُ بِهَا، قُلْتُ: مَا هُوَ؟ قَالَ: إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ، فَاقْرَأْ آيَةَ الكُرْسِيِّ: {اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلَّا هُوَ الحَيُّ القَيُّومُ} [البقرة: 255] ، حَتَّى تَخْتِمَ الآيَةَ، فَإِنَّكَ لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ، وَلاَ يَقْرَبَنَّكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، فَأَصْبَحْتُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ البَارِحَةَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ أَنَّهُ يُعَلِّمُنِي كَلِمَاتٍ يَنْفَعُنِي اللَّهُ بِهَا، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ: مَا هِيَ ، قُلْتُ: قَالَ لِي: إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الكُرْسِيِّ مِنْ أَوَّلِهَا حَتَّى تَخْتِمَ الآيَةَ: {اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلَّا هُوَ الحَيُّ القَيُّومُ} [البقرة: 255] ، وَقَالَ لِي: لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ، وَلاَ يَقْرَبَكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ – وَكَانُوا أَحْرَصَ شَيْءٍ عَلَى الخَيْرِ – فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ، تَعْلَمُ مَنْ تُخَاطِبُ مُنْذُ ثَلاَثِ لَيَالٍ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: لاَ، قَالَ:ذَاكَ شَيْطَانٌ(البخاری 2311)

رسول اللہ ﷺ نے مجھے رمضان کی زکوۃ کی حفاظت پر مقرر فرمایا رات میں ایک شخص اچانک میرے پاس آیا اور غلہ میں سے اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا قسم اللہ کی : میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے چلوں گا اس پراس نے کہا کہ اللہ کی قسم میں بہت محتاج ہوں میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں ابو ہریرہ t نے فرمایا (اس کے اظہار معذرت پر) میں نے چھوڑ دیا ۔صبح ہوئی تو رسول اللہ ؑﷺ نے مجھ سے پوچھا اے ابو ہریرہ گزشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا ؟میں نے عرض کی کہ یارسول اللہﷺ اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا اس لیے مجھے اس پر رحم آگیااور میں نےاسے چھوڑدیا ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا ،رسول اللہﷺ کےا س فرمان کی وجہ سے مجھ کو یقین تھا کہ وہ پھر آئے گااس لیے میں اسکی تاک میں لگا رہتا جوں ہی وہ دوسری رات آیا پھر غلہ آٹھانے لگاتو میں نےا سے پھر پکڑااور کہا کہ میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے جاؤں گا لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دے میں محتاج ہوںبال بچوں کا بوجھ میرے سر پرہے اب میں کبھی نہیںآؤں گا مجھے اس پر رحم آیا اور میں نےاسے پھر چھوڑ دیا ۔صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابو ہریرہ تمہارے قیدی نےکیا کیا؟میں نے عرض کی کہ وہ پھر سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا جس پر مجھے رحم آگیا آپ ﷺ نے اسی مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر چلا گیا ہے اور وہ پھرآئے گا ۔تیسری مرتبہ میں پھر اسکی انتظار میں تھا کہ اس نے تیسری پھر تیسری رات آکر غلہ اٹھانہ شروع کیا تو میں اسے پکڑا اور کہاکہ میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچانہ اب ضروری ہوگیا ہے یہ تیسرا موقع ہے ہر مرتبہ تم یقین دلاتےرہے کہ پھر نہیں آونگا لیکن تم بازنہیں آئے اس نے کہا اس مرتبہ مجھے چھوڑ دے تو میں تمہیں ایسے کلمات سکھا دوں گاجس سے اللہ تعالی تمہیں فائدہ پہنچائے گا میں نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیںاس نے کہا جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی پوری پڑھ لیا کرو ،ایک نگران فرشتہ اللہ تعالی کی طرف سے برابر تمہاری حفاظت کر تا رہے گااور صبح تک شیطان تمہارے پاس نہیںآسکے گا اس مرتبہ بھی میں نے اسے چھوڑدیا۔
آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں ؟ میں نے عرض کیاکہ اسے نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی مکمل پڑھ لو اور اس نے مجھ سے کہا کہ اللہ کی طرف سے تم پر اسکے پڑھنے سے ایک نگران فرشتہ مقرر رہے گا اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آسکےگا۔
صحابہ کرام خیر کو سب سے آگے بڑھ کے لینے والے تھے۔نبی کریم ﷺ نے ان کی بات سن کر فرمایاکہ اگرچہ وہ جھوٹا تھا لیکن تم سے یہ بات سچ کہ گیا اے ابو ہریرہ تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا معاملہ کس سے تھا؟انہوں نےکہا نہیں،نبی کریم ﷺ نےفرمایا کہ وہ شیطان تھا ۔
احمد : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مرض الموت میں کیوں رو رہے تھے ؟
محمد: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ مرض الموت میں رونے لگے تو لوگوں نے پوچھاآپ کیوں رو رہے ہیں؟ فرمانے لگے ؛
’’سفر بہت لمبا ہے اور زاد ِراہ بہت تھوڑا ہے آگے دو ہی منزلیں ہیں جنت یا جہنم میں نہیں جانتا کہ میری منزل کونسی ہے ‘‘۔
—–

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے