﴿يٰاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْوَالرُّجْزَفَاهْجُرْ وَلَاتَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ ﴾ (المدثر:۱تا۷)

’’اے کپڑا اوڑھ کر لیٹنے والے! اٹھیں، خبردار کریں اور اپنے رب کی بڑائی بیان کریں، اپنے کپڑے پاک رکھیں، گندگی سے دور رہیں، زیادہ حاصل کرنے کے لیے احسان نہ کریں اور اپنے رب کی خاطر صبرکریں۔‘‘
سورۃ العلق کی ابتدائی آیات نازل ہونے کے بعد نبی اکرم eپر کچھ عرصہ تک وحی ناز ل نہ ہوئی۔ اس مدّت کے بارے میں محدثین اورمفسرین میں اختلاف ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ پہلی وحی کے بعد ایک سال تک وحی نازل نہیں ہوئی۔ لیکن ثقہ روایات سے ثابت ہے کہ سورۃ العلق کے نزول کے کچھ دن بعد سورۃ المدّثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ جن کے بارے میں نبی کریمe کا ارشاد ہے:

وَعَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ اَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ یُحَدِّثُ عَــنْ فَــتْرَۃِ الْــوَحْیِ قَالَ فَــبَــیْــنَا اَنَا اَمْــشِیْ سَمِعْتُ صَوْتًا عَنِ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ بَصَرِیْ فَاِذَاالْمَلَکُ الَّذِیْ جَآءَ نِیْ بِحِرَاءَ قَاعِدٌ عَلٰی کُرْسِیٍّ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ فَجُئِثْتُ مِنْہُ رُعْبًاحَتّٰی ھَوَیْتُ اِلَی الْاَرْضِ فَجِئْتُ اِلٰی اَھْلِیْ فَقُلْتُ زَمِّلُوْنِیْ زَمِّلُوْنِیْ فَزَمَّلُوْنِی فَاَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی{يٰۤاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَفَاهْجُرْ } ثُمَّ حَمِیَ الْوَحْیُ وَتَتَابَعَ (رواہ مسلم: باب بَدْءِ الْوَحْیِ إِلَی رَسُولِ اللّہِﷺ)

’’سیدناجابرt بیان کرتے ہیں میں نے اللہ کے رسولe سے سنا، آپ وحی کے منقطع ہونے کے بارے فرما رہے تھے۔ فرمایا ایک مرتبہ میںچل رہا تھاکہ میں نے آسمان سے آواز سنی، نظر اٹھائی تو جو فرشتہ میرے پاس حراء میں آیا تھا، وہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر جلوہ افروز تھا۔ مجھے اس سے اتنا خوف لاحق ہوا کہ میں خوف کے مارے زمین کے ساتھ لگا جا رہا تھا۔میں اپنے گھروالوں کے پاس آیا اور انہیں کہاکہ مجھے کپڑا اوڑھا دو۔گھر والوں نے مجھے چادر اوڑھا دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیات نازل فرمائیں۔ ’’اے کپڑا اوڑھنے والے! کھڑے ہو جاؤاور لوگوں کو اپنے رب کی کبریائی سے ڈراؤ اور اپنے کپڑوں کو پاک صاف رکھو اور ہر قسم کی کثافت سے بچے رہو اس کے بعد پے در پے وحی آنے لگی۔ ‘‘
اللہ ، اللہ کتنا دلرُبا اندازہے کہ الفاظ اور انداز سے یوں لگتا ہے جیسے ہم اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہے ہوں کہ ادھر ارشاد ہوا اور ادھر محبوب ﷺپروردگار اپنے بستر سے اُٹھ رہے ہوں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ چادر اوڑھنے والے ! اللہ کے راستے میں کھڑے ہو جاؤ اور لوگوں کو ان کے بُرے اعمال کے بُرے انجام سے ڈراؤ اور لوگوں کو اپنے رب کی کبریائی سے آگاہ فرماؤ۔ اللہ کے رسول eحکم پاتے ہی اللہ کے راستے میں کھڑے ہوئے اورتیئس سال تک اس کام اور پیغام کے لیے کھڑے رہے۔ نہ پہلے کی طرح کاروبار کی طرف توجہ فرمائی اورنہ ہی اپنے آرام کا خیال رکھا۔ رات کی تاریکیوں میںبھی یہ فکر دامن گیر رہی اوردن بھی اسی کام میں گزرے۔ اس قدر محنت اور مشقت سے کام کیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے کئی بار ارشاد فرمایا:

﴿فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا ﴾ (الکھف:6)

’’شاید آپ خود کو اس فکر میں ہلاک کرنے والے ہیں ، کہ وہ اس بات پر ایمان نہیں لا رہے۔ ‘‘

﴿لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ ﴾
(الشعراء:3)

’’اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو کیا آپ ان کے لیے اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے ؟‘‘

﴿اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ وَ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِيْ اَنْقَضَ ظَهْرَكَ﴾ (الانشراح:۱تا۳)

’’اے نبی کیا ہم نے آپ کا سینہ آپ کے لیے کھول نہیں دیا؟ اور آپ سے بھاری بوجھ اُتار دیا جو آپ کی کمر توڑے جا رہا تھا۔‘‘
نبی کریم ﷺ کی کیفیت کو حضرت عائشہ ؅ نے یوں بیان فرمایا:

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: هَلْ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي وَهُوَ قَاعِدٌ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، بَعْدَ مَا حَطَمَهُ النَّاسُ(مسلم: باب فی جواز النافلۃ قائما و قاعدا)

سیدنا عبداللہ بن شقیق  بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ r سے پوچھا کہ کیا اللہ کے نبی کریمe بیٹھ کر بھی نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے جب لوگوں نے آپ کو تھکا دیا تھا۔
المدّثر کی ابتدائی آیات میں آپeکو جو بنیادی ہدایات دی گئیں یہ ہر مبلغ اورراہنما کے لیے ضروری ہیں:

1 قُمْ فَاَنْذِرْ

’’اٹھیں، خبردار کریں ‘‘
راہنما اورمبلغ کا فرض ہے کہ وہ اپنی قوم کو ہر قسم کے خطرات سے آگاہ کرے اور اُسے بچانے کی کوشش کرے،بالخصوص لوگوں کو آخر ت کے بارے میں متنبہ کرتا رہے کیونکہ فکر ِ آخرت کی بنیاد پر ہی انسان اپنے افکار اورکردار کو ٹھیک کر سکتا ہے، جوشخص آخرت کی جواب دہی سے لاپرواہ ہوجائے اس کا درست ہونا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس لیے نبی ﷺ اور تمام انبیاء کرام کی تشریف آوری کا مقصد یہی تھا۔

﴿يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًا﴾

’’اے نبی! بلاشبہ ہم نے آپ کو گواہی دینے، بشارت دینے اور ڈرانے والابنا کر بھیجا ہے۔‘‘ (الاحزاب : ۴۵)

﴿وَ مَا اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّ نَذِيْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾

’’اے نبی ہم نے آپ کو لوگوں کے لیے بشیراورنذیر بنا کر بھیجا ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ (السبا: 28)

﴿ اِنَّا اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِيْرًا وَّ نَذِيْرًا وَّ لَا تُسْـَٔلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِيْمِ﴾ (البقرۃ:119)

’’ ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر مبعوث کیا ہے اور آپ سے جہنّمیوں کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی۔‘‘
غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کرام کی پوری تعلیم اور تبلیغ کا خلاصہ یہ ہے کہ نیک لوگوں کو خوشخبری سُنائی جائے اور بُروں کو ان کے انجام سے ڈرایا جائے۔

عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ النَّبِیُّﷺ مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَسَیُکَلِّمُہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَیْسَ بَیْنَ اللّٰہِ وَبَیْنَہٗ تُرْجُمَانٌ ثُمَّ یَنْظُرُ فَلَا یَرٰی شَیْئًا قُدَّامَہُ ثُمَّ یَنْظُرُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَتَسْتَقْبِلُہُ النَّارُ فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَتَّقِیَ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ… فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ (رواہ البخاری: باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ مع الأنبیاء وغیرھم)

’’سیدناعدی بن حاتم tبیان کرتے ہیں کہ نبی کریم e نے فرمایا: ’’قیامت کے دن تم میں سے ہر کسی کے ساتھ اللہ کلام کریں گے ، اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا ، اللہ تعالیٰ دیکھے گا بندے نے کیا عمل کیے ہیں ، بندہ دیکھے گا تو اس کے سامنے آگ ہی آگ ہوگی۔ تم میں جو استطاعت رکھتا ہے وہ آگ سے بچے، چاہے اسے کھجور کا ایک ٹکڑا صدقہ کرنا پڑے جو یہ نہ پائے تو وہ اچھی بات کہے۔‘‘

یَافَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ یَاصَفِیَّۃَ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یَا بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَاأَمْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا سَلُوْنِیْ مِنْ مَّالِیْ مَا شِئْتُمْ (رواہ مسلم: باب فی قولہ وأنذر عشیرتک الأقربین)

’’ا ے محمدکی بیٹی فاطمہ اور عبدالمطلب کی بیٹی صفیہ اوراے عبدالمطلب کی اولاد۔ میں اللہ کے ہاں تمہارے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں گا البتہ میرے مال میں سے جتنا چاہو مطالبہ کرسکتے ہو۔‘‘

2 وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ

’’اپنے رب کی بڑائی بیان کریں۔‘‘
جس بات سے لوگوں کو آگاہ کرنا اورڈرانا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی ہے اگر انسان کو اپنے رب کی بڑائی اور کبریائی کا احساس ہوجائے تو وہ جان بوجھ کر اس کی نافرمانی نہ کرے۔ انسان کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ وہ اُسے جب چاہے، جس طرح چاہے اور جس وقت چاہے پکڑ سکتا ہے۔اس کی پکڑ سے کوئی کسی کو چھڑا نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے تصور سے انسان میں بیک وقت کئی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا تصور رکھنے والے کے دل میں تکبر کی بجائے عاجزی پیدا ہوتی ہے وہ اپنوں کے سامنے عاجز اور متواضع ہوتاہے اوراسلام کے دشمنوں کے سامنے شیر کی طرح دلیر اور پہاڑ کی مانند مضبوط ہوتاہے۔ وہ ربِ ذوالجلال کے سوا کسی کو سُپر پاور تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا احساس رکھنے کی وجہ سے وہ اپنے رب کے حکم کے سامنے سرفکندہ رہتا ہے۔ جس مبلغ کا ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کبریاء نہیں تو وہ دین بالخصوص اللہ کی توحید کا پرچار کرتے ہوئے کسی سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے المدثر میں آپeکو ارشاد ہوا کہ اپنے رب کی کبریائی بیان کرو۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کرنے کا اوّلین مقصد یہ ہے کہ مبلغ دلائل سے ثابت کرے کہ ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کے سوا کوئی خالق، مالک، رازق اور معبود برحق نہیں، وہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے۔ یہی وہ دعوت ہے جس کے لیے تمام انبیاء کرام مبعوث کیے گئے اور اسی کے لیے آپeکو حکم ہوا کہ لوگوں کو اپنے رب کی کبریائی سے ڈرائیں۔
اللہ تعالیٰ کے کبریا ہونے کے عقیدے کی تقویت کے لیے اذان،اقامت، پانچ وقت کی نماز اور اس کے بعد عیدین، عیدگاہ کی طرف آنے، جانے کے وقت ،چڑھائی چڑھتے ہوئے ، جانور ذبح کرتے ہوئے، یہاں تک کہ جمرات کو کنکریاں مارتے ہوئے اورحجرِ اسود کا بوسہ لیتے ہوئے بھی اللہ اکبر کہنے کا حکم ہے تاکہ مسلمان ’’اللہ ‘‘ کے سوا کسی کو سُپر پاور نہ سمجھے۔ مسلمان جب تک اللہ تعالیٰ کی کبریائی مانتے رہے اُس وقت تک سر بلند رہے اور جب سے مسلمانوں نے اسے کبریا ماننا چھوڑ دیا اسی وقت سے ذلیل ہونا شروع ہوئے ہیں۔ حالانکہ حکم یہ تھا:

﴿وَلَہُ الْکِبْرِیَآئُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ﴾ (الجاثیہ:37)

’’زمین و آسمانوں میں بڑائی اسی کے لیے ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔‘‘

﴿وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَكْبِيْرًا ﴾ (الاسراء: 111)

’’اورفرما دیجیے تمام تعریفات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس کی کوئی اولاد نہیں اور نہ ہی اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے اور نہ عاجز ہو جانے کی وجہ سے کوئی اس کا حمایتی ہے اور اس کی خوب بڑائی بیان کرتے رہو۔ ‘‘

3 وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ :

اپنے لباس کو صاف اوراُجلا رکھیں۔
دعوت دینے والے کی دعوت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو اگر وہ صاف ستھرا نہیں رہتا تو لوگ اس کی شخصیت اور دعوت سے متاثر ہونے کی بجائے اس سے نفرت کرتے ہیں اس لیے نبوت کے ابتدائی دور میں آپ ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اپنے لباس کو پاک صاف رکھیں۔
یادرہے کہ اس زمانے میں لوگ اس شخص کو پارسا سمجھتے تھے جو دنیا کے امور سے الگ تھلگ رہتااور صاف ستھرا لباس پہننے سے پرہیز کرتاتھا۔اسلام ترکِ دنیا اورگندہ رہنے کو انتہائی نا پسند سمجھتا ہے، بے شک دین میں سادگی کو بڑی اہمیّت حاصل ہے لیکن انسان کا پاک اورصاف ستھرا رہنا نہایت ضروری ہے۔ پاک صاف رہنے سے آدمی نا صرف دیکھنے میں معزز اور شائستہ نظر آتا ہے بلکہ اس کی طبیعت میں بھی خوشی اور مستعدی پیدا ہوتی ہے۔

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللهِ ﷺ زَائِرًا فِي مَنْزِلِنَا، فَرَأَى رَجُلًا شَعِثًا، فَقَالَ: أَمَا كَانَ يَجِدُ هَذَا مَا يُسَكِّنُ بِهِ رَأْسَهُ وَرَأَى رَجُلًا عَلَيْهِ ثِيَابٌ وَسِخَةٌ، فَقَالَ: أَمَا كَانَ يَجِدُ هَذَا مَا يَغْسِلُ بِهِ ثِيَابَهُ “

سیدنا جابر بن عبداللہ  بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول ہمارے ہاں تشریف لائے ۔ آپ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے ۔ آپ نے فرمایا ” کیا اسے کوئی چیز نہیں ملتی کہ اس سے اپنے بالوں کو سنوار لے؟‘‘ آپ نے ایک اور آدمی کو دیکھا جس کے کپڑے میلے کچیلے تھے اُسے فرمایا ” کیا تمہیں ایسی چیز میسر نہیں کہ اس سے اپنے کپڑے دھو لے ؟ “(سنن ابی داؤد: باب فی غسل الثوب و فی الخلقان)

عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فِي ثَوْبٍ دُونٍ، فَقَالَ: أَلَكَ مَالٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مِنْ أَيِّ الْمَالِ؟ قَالَ: قَدْ آتَانِي اللّهُ مِنَ الإِبِلِ، وَالْغَنَمِ، وَالْخَيْلِ، وَالرَّقِيقِ، قَالَ:فَإِذَا آتَاكَ اللّهُ مَالًا فَلْيُرَ أَثَرُ نِعْمَةِ اللّهِ عَلَيْكَ، وَكَرَامَتِهِ (سنن ابی داؤد: باب فی غسل الثوب و فی الخلقان)

سیدنا ابوالاحوص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نبی کریمe کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے بوسیدہ کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ آپ نے دریافت فرمایا: کیا تمہارے پاس مال ہے ؟ میں نے کہا : ہاں ۔ آپ نے فرمایا کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا: اللہ نے مجھے اونٹ ‘ بکریاں ‘ گھوڑے‘ غلام اور ہر طرح کا مال دے رکھا ہے ۔ آپ نے فرمایا: جب اللہ نے تجھے مال دیا ہے تو اس کے انعام اور احسان کا اثر تجھ پر دکھائی بھی دینا چاہیئے ۔ “
4 وَالرُّجْزَفَاهْجُرْ
’’ گندگی سے دور رہیں۔‘‘
جس طرح لباس پاک صاف رکھنے کا حکم ہے اسی طرح حکم ہے کہ انسان کو ہر قسم کی جسمانی اور اخلاقی غلاظت سے بھی پاک ہونا چاہیے۔ایک آدمی لباس کے اعتبار سے کتنا ہی صاف ستھر ا رہتاہو اگر وہ جسمانی اور اخلاقی لحاظ سے گندہ ہے تو وہ کسی اچھے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا، سب سے بڑی گندگی اعتقادکی گندگی ہے جس کا نام شرک ہے۔ اس لیے کچھ اہلِ علم نے ’’الرُّجْزَ‘‘ سے مراد شرک لیاہے کیونکہ قرآن مجید نے ایک مقام پر مشرک کو کھلے لفظوں میں گندہ قرار دیا ہے۔

﴿ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ﴾ (الحج: 30)

’’پس بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات سے پرہیز کرو۔ ‘‘

﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا﴾ (التوبۃ: 28)

’’اے لوگوجوایمان لائے ہو! حقیقت یہ ہے کہ مشرک ناپاک ہیں، پس وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آئیں‘‘

5 وَلَاتَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ:

’’زیادہ حاصل کرنے کے لیے احسان نہ کریں۔‘‘
ایک مسلمان کی دوسرے کے ساتھ سب سے بڑی خیرخواہی یہ ہے کہ وہ اس کو اللہ کی توحید سمجھائے اور صراطِ مستقیم کی دعوت دے۔ صراطِ مستقیم کی طرف لانے والا شخص حقیقت میں دوسرے کا سب سے بڑا محسن ہوتا ہے۔ نبیu رحمتِ عالم بنا کر مبعوث کیے گئے ہیں۔ آپ نے مکہ والوں کی اصلاح کے لیے دن رات ایک کیا ہوا تھا۔ آپe اہلِ مکہ اور انسانیت کے عظیم محسن تھے مگر مکہ والوں نے آپ کے احسان کا بُرا بدلا دیا جس پر رنجید ہ خاطر ہونا اور آپ کے دل میںاس سوچ کا آنا فطری بات تھی کہ میں ان کی خیرخواہی کرتا ہوں اور یہ میرے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں۔ اس سوچ کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے آپ کو ابتدا میں ہی یہ بات سمجھا دی گئی کہ آپ نے تبلیغ یاکسی کے ساتھ نیکی اس لیے نہیں کرنی کہ وہ آپ کو اس کے بدلے میں کچھ دے اور نہ ہی اپنے کام کا کسی پر احسان جتلانا ہے۔

﴿وَ مَا اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾

’’میں اس کام پر تم سے کسی اجرکاطالب نہیں ہوں ۔ میراصلہ رب العالمین کے ذمّہ ہے۔‘‘ (الشعراء:۱۰۹)

﴿قُلْ مَا اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّ مَا اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ﴾ (ص: 86)

’’ میں اپنے کام پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں۔ ‘‘

﴿ قُلْ مَا اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ يَّتَّخِذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيْلًا﴾ (الفرقان: 57)

’’ان سے فرما دیں کہ میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا میرا صلہ یہی ہے کہ جس کاجی چاہے وہ اپنے رب کاراستہ اختیار کر لے۔‘‘

6 وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ:

’’ اپنے رب کی خاطر صبرکریں۔‘‘
نبی کریم ﷺ کو جس معاشرے اورقوم میں مبعوث کیا گیا وہ معاشرہ اور قوم ہر اعتبار سے گمراہی کی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔لوگ شرک کواللہ تعالیٰ کی قربت کاذریعہ سمجھتے اور اپنی گمراہی کودینِ ابراہیم کا نام دیتے تھے۔ ایسے معاشرے میں توحید کی دعوت دینا اورلوگوں کو گمراہی سے نکالنا، اپنے آپ کو دکھوں میں ڈالنا تھا۔ اس لیے آپ کو صبر کی تلقین کی گئی۔آپ  کو یہ بات بھی سمجھا دی گئی کہ جس راستے پر آپ کو گامزن کیا گیا ہے یہ مصائب کا راستہ ہے۔ مصائب برداشت کرنے کے لیے آپ کو ہر وقت تیار رہنا ہوگا۔ جس طرح پہلے انبیاء صبر و حوصلہ سے کام لیتے رہے۔

﴿ فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ كَاَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوْعَدُوْنَ لَمْ يَلْبَثُوْا اِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَّهَارٍ﴾

’’اے نبی صبر کرو جس طرح اُولو العزم رسولوں نے صبر کیا اور ان کے معاملہ میں جلدی نہ کرو، جس دن یہ لوگ اُس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے تو انہیں یوں معلوم ہو گا کہ دنیا میں دن کی ایک گھڑی سے زیادہ نہیں ٹھہرے۔ ‘‘ (الاحقاف:35)

﴿وَاصْبِرْ وَ مَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللّٰهِ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَ لَا تَكُ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ﴾

’’اور صبرکیجیے آپ کا صبر تو اللہ کے لیے ہے اور نہ ان پر غم کرو اور نہ کسی تنگی میں مبتلا ہو جاؤ ، اس سے کہ جو وہ سازشیں کرتے ہیں۔‘‘ (النحل: 127)

﴿فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ لَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِيْنَ لَا يُوْقِنُوْنَ ﴾ (الروم:60)

’’پس اے نبی صبر کرو یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے اور جو لوگ یقین نہیں کرتے وہ آپ کو ہلکا نہ کر دیں۔ ‘‘

﴿وَ اصْبِرْ عَلٰى مَا يَقُوْلُوْنَ وَ اهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا﴾ (المزمل:10)

’’ اور جو کچھ وہ کہیں تو سہتا رہ اور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہ۔‘‘

﴿ اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ وَ اِلَى السَّمَآءِ كَيْفَ رُفِعَتْ وَ اِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ وَ اِلَى الْاَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ فَذَكِّرْ اِنَّمَا اَنْتَ مُذَكِّرٌ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ﴾

’’کیا یہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ اسے کس طرح تخلیق کیا گیا ہے۔ آسمان کو نہیں دیکھتے کہ اسے کیسے بلند کیا گیا ہے؟ پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ انہیں کیسے نصب کیا گیا ہے؟ اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ یہ کس طرح بچھائی گئی ہے؟‘‘ اے نبی! نصیحت کرتے رہیں آپ نصیحت کرنے والے ہیں۔ آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ ‘‘(الغاشیہ: ۷۱ تا ۲۲)
اونٹ کی خِلقت، آسمان کی بلندی اور زمین کی وسعت کا ذکر فرما کر یہ اشارہ دیا ہے کہ ایک داعی کا حوصلہ اونٹ کی طرح ہونا چاہیے جو بھوک،پیاس اورمشقت برداشت کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور اپنے مالک کی تابعداری کرتا ہے۔ آسمان کی بلندی کا ذکر فرما کر اشارہ کیا ہے کہ داعی کی سوچ اور عزم آسمان کی طرح بلند ہونی چاہیے اور اُسے دنیا کے نفع و نقصان سے بالاتر ہوکر دینِ حنیف کی خدمت اور لوگوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے لگے رہنا چاہیے۔ زمین کا ذکر فرماکر بتلایا ہے کہ داعی میں زمین کی مانند حوصلہ اوروسعت ہونی چاہیے۔ جس داعی میں اونٹ کا حوصلہ ،سوچ اور عزم میں آسمان کی بلندی اور زمین جیسی وسعت اور ظرف پایا جائے گا یقینا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہرے گا۔ اگر بظاہر اپنی دعوت میں کامیاب نہ ہوپائے تو تب بھی وہ زمین و آسمان کی وسعتوں سے زیادہ اجر پائے گا۔ جہاں تک مخالفت کرنے والوں کا تعلق ہے ان کا معاملہ ’’اللہ‘‘ کے حوالے کرنا چاہیے، وہی ان سے حساب لینے والا اور ان کو سزا دینے والاہے۔ نبی اکرمﷺ نے اس حکم پر کس طرح عمل کیا اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں بالخصوص خطیب حضرات اور دین کا کام کرنے والے ورکر غور فرمائیں:
’’سیدہ عائشہr کے بھانجے عروہ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ ؅ نے رسول اللہ eسے عرض کیا،کیا آپ پر اُحد سے بھی زیادہ سخت دن آیا ہے ، آپﷺ نے فرمایا: ہاں ۔ جب میں نے ابن عبد یا لیل بن عبدکلال کو دعوت دی۔ اس نے میری اُمید کے خلاف ردّ عمل دیا۔ میں انتہائی افسردہ ہو کر واپس پلٹا ۔ میرا غم ابھی ہلکا نہیں ہوا تھا اور میں قرن ثعا لب کے قریب تھا میں نے اپنا سر اٹھایا تو ایک بادل کو سایہ کیے ہوئے پایا۔ دیکھاتو اس میں جبرائیلu تھے۔ اس نے مجھے آواز دی اور کہا آپ کی قوم نے جو جواب دیا اللہ تعالیٰ نے سن لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے۔ آپ اسے جو حکم دینا چاہتے ہیں دے دیں۔مجھے پہاڑوں کے فرشتہ نے آواز دی۔ اس نے مجھے سلام کہتے ہوئے کہا اے محمدe! آپ ان کے متعلق جوحکم دینا چاہیں دیں اگر آپ چاہتے ہیں تو میں انہیں دو پہاڑوں کے درمیان پیس دیتاہوں ۔

فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ بَلْ أَرْجُوْ أَنْ یُخْرِجَ اللّہُ مِنْ أَصْلاَبِہِمْ مَنْ یَعْبُدُ اللہَ وَحْدَہُ لاَ یُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا (رواہ البخاری باب اذا قال أحدکم آمین والملائکۃ فی السماء)

نبی کریم منے فرمایا: ’’میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو ایک اللہ کی عبادت کرنے والے اور شرک سے بچنے والے ہوں گے۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے