پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، وہ غیب جاننے والا اور دلوں کو پھیرنے والا ہے، وہی گناہوں کو بخشتا ہے، میں اپنے پروردگار کی نعمتوں پر اسی کی حمد و ثنا بجا لاتا ہوں ، اس کی نعمتوں کا صحیح شمار بھی وہی کر سکتا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، تعریف اسی کی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ بشیر و نذیر ہیں، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ﷺانکی آل اور صحابہ کرام پر سلامتی، برکتیں ، اور رحمتیں نازل فرما جنہیں اللہ تعالی نے اپنا ولی بنایا، اللہ تعالی بہترین مولا اور بہترین مدد گار ہے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

خلوت و جلوت میں تقوی الہی اختیار کرو؛ تا کہ اللہ تعالی تمہارے امور سنوار دے اور حالات بہتر کر دے۔ تقوی ہی نیک اور کامیاب لوگوں کا طریقہ کار ہے، اور تقوی سے محرومی واضح خسارہ ہے۔
اللہ کے بندو!ان لوگوں میں شامل ہو جاؤ جو اہل بصیرت اور ایمان ہیں، عقلمندوں اور نیک لوگوں کی راہ پر چلو۔
عقلِ سلیم اور سلیم الفطرت لوگ ہی عقلمند ہیں، یہی لوگ وحی سے مستفید ہوتے ہیں اس کا معنی و مفہوم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مراد کے مطابق سمجھتے ہیں، یہ کلام الہی پر عمل اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں اللہ تعالی سے ثواب کی امید ہوتی ہے نیز اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرتے ہوئے احکامات کی تعمیل کرتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللهِ لَهُمُ الْبُشْرَى فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللهُ وَأُولَئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ [الزمر: 17۔18]

اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے پرہیز کیا اور اللہ تعالی کی طرف متوجہ رہے وہ خوشخبری کے مستحق ہیں، میرے بندوں کو خوشخبری سنا دیجیے جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں پھر جو بہترین بات ہو اس پر عمل کرتے ہیں یہی ہیں جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت دی اور یہی عقلمند بھی ہیں۔
عبرت حاصل کرنا اور سبق آموزی روشن ذہنوں کا خاصہ ہے، عبرت حاصل کرنا؛ تجربہ کاری اور بصیرت کی علامت ہوتی ہے، دوسروں سے سبق حاصل کرنے کا عمل انسان کو کامیابیوں سے ہمکنار کرتا ہے اور تباہی سے نجات دلاتا ہےاس کی وجہ سے عبرت پکڑنے والا شخص مثبت اقدامات کرنے میں کامیاب ہوتا ہے نیز اس سے انسان کو نیک اور با صلاحیت لوگوں کے راستے پر چلنے کی رہنمائی ملتی ہے اور اس کے لیے نتائج مثبت برآمد ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اگر کسی شخص کو سبق حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا تو اس کو سمجھانا بھی سود مند ثابت نہیں ہوتا، آخر کار وہ تباہی سے دوچار ہو جاتا ہے اور ہوس پرست بن جاتا ہے، ایسا شخص منفی سوچ کے حاملین کے پیچھے چلتا ہے اور اپنے آپ کو پشیمان ہونے والوں میں شامل کر لیتا ہے۔عبرت حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ:
٭ حالیہ یا ماضی کی اندوہناک صورتحال کو دیکھ کر ، اِن کے اسباب سے بچتے ہوئے بہتری کی جانب بڑھنا، یا پھر:
٭ صالحین کی سیرت اور اللہ تعالی کی طرف سے انہیں ملنے والے انعامات دیکھ کر ان کے طور طریقے کو اپنی عملی زندگی میں

جگہ دینے کا نام عبرت حاصل کرنا ہے۔ یا پھر:

٭ مخلوقات کی ماہیت، پر اسرار رازوں اور صفات کو معلوم کر کے انہیں ایک خالق کی بندگی پر کار بند کرنے کی حکمت معلوم کرنا اور اسی کی اطاعت اور بندگی پر کاربند رہنے کا نام عبرت حاصل کرنا ہے۔
اللہ تعالی نے مخلوقات کو پیدا کیا اور پوری کائنات کیلئے قوانین وضع فرمائے چنانچہ اللہ تعالی نے اپنی اطاعت کو دنیا و آخرت میں ہمہ قسم کی کامیابی کا سبب قرار دیا ہے، اور اسی طرح اپنی نافرمانی کو دنیا اور آخرت میں ناکامی قرار دیا، تو کیا اب کوئی اللہ کی نافرمانی کر کے کامیاب ہو سکتا ہے؟
اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ نے انبیائے کرام، رسولوں اور اہل ایمان کے قصے بیان کیے ہیں ان میں ہمارے لیے بہت زیادہ اسباق اور بعد میں آنے والوں کیلئے عملی نمونے ہیں، ان کے باعث عذاب سے نجات مل سکتی ہے اور کامیابیاں حاصل ہو سکتی ہیں، انجام بھی اچھا ہو سکتا ہے اور درجات بھی بلند ہو سکتے ہیں، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:

لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ [يوسف: 111]

ان کے بیان میں عقل والوں کے لئے یقیناً نصیحت اور عبرت ہے، یہ قرآن جھوٹ بنائی ہوئی بات نہیں بلکہ یہ سابقہ کتابوں کی تصدیق ہےیہ ہر چیز کو کھول کر بیان کرنے والا ہے اور اہل ایمان کے لیے ہدایت اور رحمت ہے ۔
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا كَذَلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِينَ [يونس: 103]

پھر ہم اپنے پیغمبروں کو اور ایمان والوں کو بچا لیتے تھے، اسی طرح ہمارے ذمہ ہے کہ ہم ایمان والوں کو نجات دیا کریں۔
جبکہ جھٹلانے والوں کے متعلق فرمانِ باری تعالی ہے:

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةً بِمَا ظَلَمُوا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ [النمل: 51 – 53]

دیکھ! ان کے مکر کا انجام کیسا کچھ ہوا ؟ کہ ہم نے انہیں ان کی قوم سمیت سب کو غارت کر دیا یہ ہیں ان کے مکانات جو ان کے ظلم کی وجہ سے اجڑے پڑے ہیں، جو لوگ جانتے ہیں ان کے لیے اس میں بڑی نشانی ہےاور ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو ایمان لائے اور متقی تھے۔
اسی طرح اللہ تعالی نے سورۃ الشعراء میں متعدد انبیائے کرام علیہم الصلاۃ و السلام کے واقعات ذکر کئے، ان میں اپنے رسولوں اور اہل ایمان کی کامیابی کا ذکر کرنے کے بعد اختتام ان الفاظ پر فرمایا

:إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ

بیشک اس میں نشانی ہے، لیکن ان میں سے اکثر مانتے ہی نہیں تھے اور آپ کا پروردگار یقیناً سب پر غالب اور رحم کرنے والا ہے۔ [الشعراء: 190، 191]
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ فرمانِ باری تعالی :إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةًکا مطلب یہ ہے کہ: “اس واقعے میں اللہ تعالی کی حیرت انگیز مدد و نصرت کا ذکر ہے نیز یہ انتہا درجے کی حکمت بھی واضح کرتا ہے۔ اور وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ کا مطلب یہ ہے کہ: ہر چیز پر اسی کا تسلط ، قابو اور قہر ہے۔ الرَّحِيمُیعنی اپنی مخلوق پر نہایت رحم کرنے والا ، لہذا نافرمانوں کو فوری سزا نہیں دیتا، بلکہ انہیں مہلت دیتا ہے اور اصلاح کا موقع فراہم کرتا ہے، [اگر نہ سدھرے تو] غالب اور طاقتور کی طرح پکڑ لیتا ہے۔ اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: {الرَّحِيمُ} یعنی جو اللہ تعالی سے توبہ مانگے اور رجوع کرے تو اس پر نہایت رحم کرنے والا ہے”
اسی طرح لوط علیہ السلام کے قصے کے آخر میں فرمایا:

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ[الحجر: 75]

بلاشبہ نصیحت لینے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ کے متعلق قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: “یعنی: عبرت پکڑنے والوں کیلئے ۔( تفسیر بغوی)
اس لیے تاریخی واقعات اور حالات سے وہی لوگ عبرت اور سبق حاصل کرتے ہیں جو نیک لوگوں کی راہ پر گامزن ہوں اور بہتری چاہتے ہوں، نیز برائی اور برے لوگوں سے دور ہوں۔
جبکہ ایسے لوگ جو عبرت حاصل نہ کریں، نصیحت نہ پکڑیں، محاسبۂ نفس نہ کریں، اپنی آخرت سنوارنے کیلئے کوئی اقدامات نہ کریں، ان کی عقل یا ان کا دین قبیح کاموں اور گناہوں سے نہ روکے تو وہ جانوروں جیسے ہیں، اللہ تعالی نے ان کے بارے میں فرمایا:

أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا

کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں۔ وہ تو بالکل چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے۔ [الفرقان: 44]
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

وَكَأَيِّنْ مِنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ[يوسف: 105]

اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے وہ اعراض کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں ۔
اور ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: (مؤمن بیمار ہو اور پھر بیماری بڑھتی جائے یہاں تک کہ وہ فوت ہو جائے، تو یہ بیماری اس کے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے، اور اگر اللہ تعالی اسے شفا دے دے تو بیماری ماضی کے گناہوں کا کفارہ اور مستقبل کیلئے نصیحت بن جاتی ہے۔ لیکن منافق بیمار ہو اور اسے شفا مل جائے تو وہ اس اونٹ کی طرح ہوتا ہے جسے مالکان پہلے باندھ کر رکھتے تھے اب اسے کھلا چھوڑ دیتے ہیں، اور اونٹ کو یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ اسے باندھ کر کیوں رکھا جاتا تھا اور اب اسے چھوڑا کیوں گیا ہے) (نسائی)
اللہ تعالی نےانبیائے کرام اور رسولوں سمیت خاتم الانبیاء ﷺ کے حالات اسی لیے ذکر کئے ہیں کہ ہم ان کی تاریخ سے سیکھیں، ان کے طریقے پر چلیں اور ان کا اخلاق اپنائیں، اللہ تعالی نے نبی کریمﷺ کو بھی انبیائے کرام کے نقش قدم پر چلنے کا حکم دیا اور فرمایا:

أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ

یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت کی تھی۔ آپ انہی کے راستے پر چلیں۔ [الأنعام: 90]
اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے:

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ

آپ بھی اسی طرح ڈٹ جائیں جیسے اولو العزم پیغمبر ڈٹ گئے تھے۔[الأحقاف: 35]
اسی طرح اللہ تعالی نے سورہ یاسین میں مذکور مومن کی بات ذکر فرمائی:

يَاقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لَا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ[يس: 20، 21]

میری قوم! رسولوں کی اتباع کرو ان کی اتباع کرو جو تم سے اجرت نہیں مانگتے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔
ہمارے نبی خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ جن کے ذریعے اللہ تعالی نے سابقہ تمام شریعتوں کو منسوخ فرمایا، آپ کو کامل ترین شریعت اور دائمی دین کے ساتھ مبعوث فرمایا، بلکہ آپ کی شریعت پر کار بند رہنے والے کیلئے دنیا و آخرت میں خوشحال زندگی کی ضمانت بھی دی کہ اللہ تعالی اسے خیر الخلق کے ساتھ جنتوں میں داخل فرمائیں گے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا

اور جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرتا ہے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ اور ان کی رفاقت کے کیا ہی کہنے[النساء: 69]
اس سے بڑی اور کیا عزت افزائی ہو سکتی ہے؟ اتنے بڑے مقام کے مقابلے میں کوئی اور مقام ہو سکتا ہے؟
اور جس طرح اللہ تعالی نے ہمیں انبیائے کرام اور اہل ایمان کے واقعات بتلائے کہ ہم ان کے راستے پر چلیں اور نجات کا راستہ اپنائیں، ان کی سیرت سے سیکھیں اور ان کے حالات و واقعات کو اپنی نظروں کے سامنے رکھیں، تو اسی طرح اللہ تعالی نے حق جھٹلانے والوں ، ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم لوگوں کے حالات بھی بیان کئے ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی، ہوس پرستی میں مگن رہے؛ ان کا تذکرہ اس لیے کیا کہ ہم ان کو ملنے والی سزاؤں سے عبرت حاصل کریں، انہیں دنیا اور آخرت میں جو عذاب جھیلنے پڑیں گے ان سے سبق حاصل کریں، ان پر پڑنے والی پھٹکار سے بچنے کی کوشش کریں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَعَادًا وَثَمُودَ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَسَاكِنِهِمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِينَ وَقَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانُوا سَابِقِينَ فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ فَمِنْهُمْ مَنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُمْ مَنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُمْ مَنْ أَغْرَقْنَا وَمَا كَانَ اللهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

اور ہم نے عاد اور ثمود کو بھی [غارت کیا] جن کے بعض مکانات تمہارے سامنے ظاہر ہیں اور شیطان نے انہیں انکی خوبصورت بنا کر دکھائی تھیں اور انہیں راہ راست سے روک دیا تھا حالانکہ وہ صاحب بصیرت تھے قارون، فرعون اور ہامان کو بھی[غارت کیا]ان کے پاس موسی واضح معجزے لے کر آئے انہوں نے پھر بھی زمین میں تکبر کیا لیکن وہ ہم سے بچنے والے نہ تھےپھر ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کر لیا ، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا ، بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا ، بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا ، اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا اللہ تعالی ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے [العنكبوت: 38- 40]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ[ق: 14]

تمام نے رسولوں کو جھٹلایا تو میری طرف سے وعید نازل ہو گئی۔
بنو نضیر کے قصے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

فَاعْتَبِرُوا يَاأُولِي الْأَبْصَارِ [الحشر: 2]

اے بصیرت والو! عبرت پکڑو۔
منکرینِ رسالت اور مجرموں کی انبیائے کرام علیہم الصلاۃ و السلام کے ساتھ کارستانیاں لوگوں میں مشہور و معروف ہیں، یہ یہ کارستانیاں لوگ نسل در نسل ایک دوسرے کو بتلاتے آئے ہیں چنانچہ تمام واقعات اللہ تعالی کی احقاقِ حق اور اہل حق کی تائید کیلئے بڑی دلیلیں ہیں، ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی پہچان اور دعوتِ توحید کیلئے ، اسی طرح موحدین اور ان کے بہترین انجام کیلئے اللہ تعالی نے کس کس طرح سے مدد نازل فرمائی؛ کہ باطل اور شرکیہ امور کی بیخ کنی ہو سکے اور لوگوں کا ان سے بچنا ممکن ہو۔
مخلوقات کی فطرت سے سبق حاصل کرنا، ان کی صفات اور رنگ ڈھنگ سے نصیحت لینا، ان کی بے مثال تخلیق پر غور و فکر کرنا، ان تمام امور کا مقصد اور ہدف یہ ہے کہ اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار مزید پختہ ہو، عبادت اور اطاعت صرف اللہ تعالی کی ہو؛ کیونکہ جو پیدا کرتے وقت اکیلا تھا وہی تنہا معبودِ برحق بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهِ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِلشَّارِبِينَ [النحل: 66]

تمہارے لیے تو چوپایوں میں بھی بڑی عبرت ہے کہ ہم تمہیں ان کے پیٹ میں موجود گوبر اور لہو کے درمیان سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کیلئے سہتا پچتا ہے ۔
اسی طرح فرمایا:

يُقَلِّبُ اللهُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ [النور: 44]

اللہ تعالی ہی دن اور رات کو رد و بدل کرتا رہتا ہے آنکھوں والوں کے لیے تو اس میں یقیناً بڑی بڑی عبرتیں ہیں۔
اسی طرح فرمایا:

قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ

آپ کہیں: تم غور کرو کہ کیا کیا چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں ۔اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو نشانیاں اور دھمکیاں کچھ فائدہ نہیں پہنچاتیں۔ [يونس: 101]
مسلمان کی جانب سے مخلوقات کے بارے غور و فکر عبادت کا درجہ رکھتا ہے، اور ان مخلوقات سے عبرت حاصل کرنے پر مسلمان کو ایمان و یقین کی دولت حاصل ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِلْمُؤْمِنِينَ

بیشک آسمانوں اور زمین میں ایمان والوں کیلئے نشانیاں ہیں۔[الجاثية: 3]
غور و فکر اور عبرت حاصل کرنے سے متردد دل بھی ثابت قدم ہو جاتا ہے اور دل کو جِلا ملتی ہے، بصر و بصیرت منور ہو جاتی ہیں، نیز رہن سہن صحیح ہو جاتا ہے۔
جبکہ غور و فکر اور عبرت حاصل کرنے سے رو گردانی پر دل سخت ہوتے ہیں، غفلت پیدا ہوتی ہے، انسان پشیمانی کی جانب گھسٹتا چلا جاتا ہے اور گناہ سر زد ہوتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غفلت شیطانی راہ ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اسراء اور معراج کے واقعہ کے متعلق فرمایا: جب میں آسمان دنیا تک نیچے آ گیا تو میں نے اپنے سے نیچے دیکھا: مجھے تیز ہوا ، دھواں اور چیخ و پکار سنائی دی: تو میں نے کہا: جبریل یہ کیا ہے ؟ تو فرمایا : یہ شیاطین ہیں جو ایسے بنی نوعِ آدم کی آنکھیں داغ رہے ہیں جو آسمان و زمین پر غور و فکر نہیں کرتے تھے، اگر ایسا نہ کرتے تو انہیں حیرت انگیز معلومات ملتیں۔(احمد)
فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ وَإِخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لَا يُقْصِرُونَ

بلاشبہ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں انہیں جب کوئی شیطانی وسوسہ چھو بھی جاتا ہے تو چونک پڑتے ہیں اور فوراً صحیح صورت حال دیکھنے لگتے ہیںاور ان (شیطانوں) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے چلے جاتے ہیں اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ [الأعراف: 201، 202]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین ﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں اسی نے اپنے ولیوں کے دل قرآن سے منور فرمائے، ان کی بصیرت کو ایمان سے جِلا بخشی، اور ان کی نیکیوں میں “احسان” پیدا فرمایا، میں اپنے رب کی عظیم نعمتوں پر اسی کی حمد خوانی کرتا ہوں، ان نعمتوں کو اس کے علاوہ کوئی شمار ہی نہیں کر سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اسکے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور تنہا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے، تعریفیں بھی اسی کی ہیں وہی نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سربراہ اور نبی جناب محمد اسکے چنیدہ بندے اور رسول ہیں آپ کو خصوصی جوامع الکلم اور قوتِ گویائی عطا کی گئی، یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمد ، انکی آل ، صحابہ کرام اور ان کی اقتدا کرنے والوں پر اپنی رحمتیں، برکتیں اور سلامتی نازل فرما ۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی اختیار کرو تو اللہ تعالی تمہارے لیے زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی بھلائیاں جمع فرما دے گا۔
اللہ کے بندو!اس سے پہلے کہ تمہارا حساب کیا جائے خود ہی اپنا محاسبہ کر لو، ہر ایک اپنے انجام کار اور موت کو مد نظر رکھے۔ جس قدر دوسروں سے سیکھو گے تمہاری غلطیاں اتنی ہی کم ہو جائیں گی۔ گناہوں اور نافرمانیوں سے بچ کر رہنے والا سلامتی والی زندگی گزارے گا، اس کا خاتمہ بالخیر ہو گا۔
دوسروں کو دیکھ کر نصیحت پکڑنے والا سعادت مند اور جس کی حالت سے لوگ عبرت پکڑیں وہ دھوکا زدہ ہے، اللہ تعالی نے حالات و واقعات سے نصیحت نہ پکڑنے والے ہوس پرست لوگوں کی مذمت فرمائی اور کہا:

وَكَذَّبُوا وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ وَكُلُّ أَمْرٍ مُسْتَقِرٌّ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنَ الْأَنْبَاءِ مَا فِيهِ مُزْدَجَرٌ

انہوں نے اسے جھٹلا دیا اور اپنی خواہشات ہی کی پیروی کی حالانکہ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہےان لوگوں کو [پہلی قوموں کی] خبریں مل چکی ہیں جن میں کافی وافی تنبیہ ہے۔ [القمر: 3، 4]
البتہ کسی کو سزا یا جزا دینے کیلئے اللہ تعالی کے کچھ قوانین ہیں، چنانچہ جس کے خلاف قانونِ الہی ہو جائے تو وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے، وہ انحطاط اور ذلت کا شکار بن جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

سُنَّةَ اللهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلًا [الأحزاب: 62]

گزشتہ لوگوں میں اللہ کا یہی طریقہ جاری رہا ہے اور آپ اللہ کے اس طریقہ میں کوئی تبدیلی نہ پائیں گے۔
اور ایک حدیث میں ہے: (لذتوں کو پاش پاش کردینے والی [موت] کو کثرت سے یاد کیا کرو) اس لیے موت کو یاد کرنے والے کی مثبت کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ موت کو بھول جانے والے سے منفی امور سر زد ہوتے ہیں۔
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے