قرآن مجید اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کے ذریعے خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا جس کی امتیازی خاصیات میں سے اس کا شکوک و شبہات سے بالاتر ہونا اور اس کی حفاظت کاذمہ خود اللہ رب العزت نے اٹھایا۔قرآن مجید کی اصل ہدایت ہے اور یہ ہدایت قرآن مجید میں مختلف اسالیب اور پیرائے میں بیان کی گئی ہے۔ ہدایت کے اس بنیادی مصدرکو ہر دور میں علمائے کرام کی جہود میں مرکزیت حاصل رہی گوکہ توضیحات و تشریحات کے ان سلاسل میں مختلف مناھج کو اختیار کیا گیا کہیں ادبی پہلو کو مدنظر رکھا گیا تو کہیں فقہی پہلو تو کہیں عقلی  پہلو الغرض تاریخ عالم میں شاید ہی کوئی اور کتاب اہمیت کے اعتبار سے اس درجہ تک پہنچی کہ بے شمار اور ان گنت زبانوں میں تراجم، تفاسیر، علمی پہلووں کا احاطہ،  مختلف ادوار میں اس ہدایت کے انطباقی پہلو وں کی وضاحت، عقائد، فقہی مسائل و عصری مسائل میں اس کی طرف استنادان تمام علمی جہود کا احاطہ درحقیقت ناممکن ہے یہاں تک کہ صرف اردو زبان میں قرآن اور علوم قرآن پر جو کام ہوا اس کا مکمل احاطہ ناممکن ہے ۔
تفسیر قرآن پر جو کام ہوا وہ بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
اول:کلام اللہ کی تفسیر منقولات صحیحہ (قرآن مجید، فرامین رسالت، اقوال صحابہ) کی روشنی میں
دوم:کلام اللہ کی تفسیر معقولات (عقل ، لغت) کی روشنی میں
سوم:کلام اللہ کی تفسیر منقولات و معقولات کی روشنی میں
مذکورہ بالا تینوں اسالیب کے مابین اختلاف و تضاد کے موقع پر اسلوب اول کو فیصل کی حیثیت حاصل ہے اور افضلیت تو بلا شک و شبہ اسلوب اول کو ہی حاصل ہے لیکن باقی دونوں طریقے بھی فہم قرآن میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں ۔لیکن اسلوب اول کی بنیاد پر کی گئی تفسیر کو عصری تقاضوں کے مطابق  بیان کرنا یہ امر سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ محض قرآن مجید کی تفسیر بیان کرنا کے ذریعے عام طبقہ اسے تقدس کا مقام تو دینا ہے لیکن عمل کیسے کیا جائے یہ ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے اور اس کی وضاحت اس طرح بھی کی جا سکتی ہے کہ مذکورہ بالا تینوں اسالیب کو موجودہ مثالوں کے ذریعے بیان کیا جائےتاکہ فہم قرآن ، عمل بالقرآن آسان سے آسان تر ہوتا جائے۔
فہم قرآن علمی پہلو ہے تو اعمال صالحہ عملی پہلو ہے اور یہی دونوں پہلو قرآن پر عمل کے حوالے سے مفید ہیں اور اس
کی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ سورہ البقرہ کی
ابتدائی آیات پر عمل کیسے کیا جائے
سب سے پہلی آیت ’’الم ‘‘ پر عمل اس اعتبار سے کیا جائے گا کہ ہمار ا اس امر پر ایمان ہو کہ ان کلمات کے حقیقی  معانی اللہ تعالی جانتے ہیں ۔
’’ذلک الکتاب لا ریب فیہ‘‘ پر عمل اس اعتبار سے کیا جائے گا کہ یہ یقین کامل ہو کہ اس کتاب میں جو  کچھ موجود ہے اس میں کسی بھی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں یعنی قرآن مجید کے بارے میں عقیدہ درست بنیادوں پر تعمیر کیا جائے ۔
’’ھدی للمتقین‘‘ اس کتاب سے استفادہ کرنے کے لیے کچھ باتیں اپنے اندر پیدا کرنا ہوں گی وگرنہ اس سے استفادہ صرف قولی ہی ہوگا اور جن صفات کے حاملین اس کتاب سے استفادہ کر سکتے ہیں وہ درج ذیل ہیں ۔
اب ان تینوں آیات پر عمل عقیدہ کی بنیاد پر ہے لیکن اس کے بعد آیات پر عمل فعل کے ذریعے کیا جائے گا  جس کی وضاحت ان شاء اللہ باقاعدہ تفسیر ی حواشی کے موقع پر کی جائے گی ۔
ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ہم کون سا ترجمہ پڑھیں اور کون سی تفسیر پڑھیں ؟
اردو زبان میں قرآن مجید کے بے شمار تراجم موجودہیں اور ہر ترجمہ کی اپنی خوبیاں و خصائص ہیں علی الاطلاق کسی بھی ترجمہ کو سب سے بہترین ترجمہ کہنا اور کسی ترجمہ کو مکمل طور پر رد کرنا یہ ایک نامناسب رویہ ہے ۔بنیادی طور پر تراجم قرآن کو اگر ترجمانی قرآن کہا جائے تو زیادہ انسب ہے  کہ حقیقی مفہوم کو کسی اور زبان میں نقل کرنا ناممکن عمل ہے البتہ ترجمانی کی جا سکتی ہے اور اسی ترجمانی کو اصطلاحا ترجمہ کہا جاتا ہے لہذا ہم بھی اسی متداول اصطلاح کو ہی استعمال کریں گے ۔قرآن مجید کے تراجم کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
اول:لفظی ترجمہ
دوم:سلیس اور رواں دواں ترجمہ
ہر دو اقسام پر مختلف تراجم موجود ہیں اور حسب صحت و ذوق ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے راقم کے خیال میں اردو زبان کے قاری کے لیے درج ذیل تراجم پر اکتفا کرنا بہترہوگا۔
لفظی ترجمہ کے لیے چار تراجم قابل ذکر ہیں
11)حافظ صلاح الدین یوسف اور حافظ عبدالجبار سلفی مطبوعہ دار السلام
22)حافظ شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمہ اللہ
33)ڈاکٹر فرحت ہاشمی مطبوع الھدی انٹرنیشنل
44)مصباح القرآن پروفیسر عبدالرحمن طاہر
سلیس اور رواں دواں اور آسان فہم انداز میں جو تراجم کیے گئے ہیں ان میں سے درج ذیل اہم ہیں :
11)موضح القرآن شاہ عبدالقادر دہلوی رحمہ اللہ
22)ترجمہ قرآن حافظ صلاح الدین یوسف
33)ترجمہ قرآن محمد جونا گڑھی رحمہ اللہ
44)ترجمہ قرآن سید مودودی
55)ترجمہ قرآن حافظ عبدالسلام بن محمد
اول الذکر ترجمہ اردو زبان میں اس  اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ اختصار و جامعیت کے ساتھ ممکنہ مفہوم کا نقل کیا جانا اور اس وقت جب اردو زبان ارتقائی مراحل سے گزر رہی تھی اس کے باوجود ترجمہ میں فصاحت وبلاغت کا اس حد تک خیال رکھنا یہ واضح رہے کہ شاہ عبد القادرکا یہ ترجمہ لفظی نہیں ہے بلکہ اردو کے روز مرہ اور محاورے لیے ہوئے ایک وضاحتی انداز رکھتا ہے اسے اردو ہندی لغت کا ایک بڑا خزانہ بھی سمجھا جاتا ہے۔اس ترجمے نے نہ صرف قرآن کا فہم آسان کیا ہے بلکہ ساتھ ساتھ اردو ادب کو بھی ایک بڑا خزانہ دیا ہے۔
اور اس کے بالمقابل آخر الذکر ترجمہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ حافظ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ نے جتنی باریک بینی سے ترجمہ کیا اردو میں اس کی مثال پیش کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ واحد ترجمہ ہے جس میں ضمائر ، اور اقسام معرفہ تک کو مدنظر رکھ کر ترجمہ کیا گیا ہے ترجمہ قرآن میں سب سے مشکل مقامات ضمائر اور اقسام معرفہ کی ترجمانی ہے ۔
لیکن اس امر کا اگر خیال رکھا جائے کہ صرف ایک ہی ترجمہ تک خاص رہنا یہ فہم قرآن کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ ہر مترجم نے اپنی فہم کے اعتبار سے مفہوم بیان کرنے کی کوشش کی اور یہ ناممکن ہے کہ ایک فرد تمام ممکنہ مفاہیم یا پہلووں کا احاطہ کر سکے اس لیے فہم قرآن کے دو طریقوں میں سے کوئی بھی ایک طریقہ اختیار کر لیا جائے ۔
اول: ایک وقت میں ایک ہی ترجمہ سے استفادہ کیا جائے جب وہ مکمل ہو جائے تو دوسرا ترجمہ شروع کیا جائے ۔
دوم : ایک آیت کی فہم کے لیے جتنے تراجم موجود ہیں ان سب سے استفادہ کیا جائے جب وہ آیت واضح ہو جائے تو دوسری آیت شروع کی جائے اس حوالے سے آیات کو مختلف موضوعات میں تقسیم کر دیا جائے تو مزید آسانی ممکن ہو سکتی ہے۔
راقم کے خیال میں ہر مسلمان کو قرآن مجید کےدو نسخے اپنے لیے خاص کر لینا چاہیے ایک نسخہ جو صرف تلاوت کے لیے ہو اور دوم ترجمہ قرآن  اور وہ ساتھی جو لکھنے میں شغف و رغبت رکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ بیاض القرآن کا کوئی سا بھی نسخہ خرید لیں اور اسے دو اعتبارات سے پڑھیں ایک دوران مطالعہ جو استفسارات اور سوالات ذہن میں آتے ہیں ان کو ترتیب سے لکھتا جائے بے شمار سوالات تو جیسے جیسے قرآن کا ترجمہ پڑھتا جائے گا جوابات ملتے جائیں گے اور کچھ سوالات ایسے ہوں گے جو علمائے کرام سے رجوع کے محتاج ہوں گے اور دوم جو استفادات ذہن میں آئے انہیں بھی تحریر کر لے اور علمائے اکرام سے ان کی تصدیق کروا لے ۔
ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اردو زبان میں کون سی تفسیر پڑھی جائے؟
اردو زبان میں مکمل تفاسیر اور عربی تفاسیر کے تراجم کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے بسا اوقات ایک قاری کے لیے انتخاب دشوار ہو جاتا ہے کہ کس تفسیر کو پڑھے راقم کے خیال میں درج ذیل تفاسیر میں سے کسی ایک کو مطالعہ میں رکھ لیا جائے تو بہتر طریقے سے استفادہ ممکن ہو سکتا ہے ۔
11)تفسیر القرآن الکریم عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ چار جلدوں میں یہ تفسیر اپنے انداز بیان اور اسلوب کے اعتبار سے ممتاز حیثیت کی حامل ہے ۔
22)المصباح المنیراختصار تفسیر ابن کثیر مطبوع دار السلام۔ تمام ضعیف روایات کو نکال دیا گیا ہے اور صرف صحیح احادیث کی روشنی میں تفسیر ابن کثیر کی تلخیص کی گئی ہے جسے چھ جلدوں میں طبع کیا گیا ہے۔
33)تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف۔ تفسیر زیادہ مفصل نہ ہونے کے باوجود پر مدلل ہے اور توحید پر زور دیا گیا ہے ایک جلد میں طبع کی گئی ہے۔
فہم قرآن اور فہم سیرت کا باہمی ربط و تعلق
قرآن اور صاحب قرآن کے مابین بہت گہرا تعلق ہے فہم قرآن بغیر فہم سیرت کے ناممکن ہے یا یوں کہا جائے کہ فہم سیرت فہم قرآن کے بغیر ناممکن ہے یعنی قرآن کو صاحب قرآن کی مدد سے سمجھا جائے۔اس تعلق و ربط کو ہم اختصار کے ساتھ اس طرح

سمجھ سکتے ہیں :

41)قرآنی سورتوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا تا ہے مکی سورتیں وہ جوہجرت مدینہ سے قبل نازل ہوئی ہوں اور مدنی سورتیں وہ جو ھجرت مدینہ سے وفات تک نازل ہوئی ہوں ۔بعینہ سیرت طیبہ کو بھی دو بڑے حصوں میں تقسیم کی جا سکتی ہے مکی دور  جو قبل از ہجرت کا ہے اور مدنی دور جو بعد از ہجرت تا وفات تک کا زمانہ ہے
52)مکی سورتوں کے موضوعات درج ذیل ہیں : توحید ، رسالت ، معاد ، سابقہ اقوام کے قصص اور اخلاقی تعلیمات اور بعینہ اسی طرح سیرت کے مکی دور کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکی زندگی میں کفار و مشرکین کے ساتھ انہی موضوعات پر اختلاف تھا 13 سالہ مکی زندگی توحید، رسالت، معاد اور سابقہ اقوام کے قصص اور اخلاقی تربیت کے بیان میں گزر گئی
63)مدنی سورتوں میں احکام بیان کیے گئے ہیں جیسا کہ نماز، روزہ، حج ، زکوۃ، جہاد، نکاح ، طلاق، خلع  وغیرہ  اور بعینہ اس طرح رسول اللہ ﷺکی مدنی زندگی  فقہی احکام  پر عمل اور وضاحت  پر مشتمل نظر آتی ہے
74)مکی سورتوں میں خطاب مشرکین اور کفار کے ساتھ تھا اسی طرح حیات طیبہ کے مکی دور میں تمام تر اختلاف اور محاذ آرائی مشرکین اور کفار کے ساتھ ہی نظر آتی ہے جبکہ اس کے برخلاف مدنی سورتوں میں اہل کتاب اور منافقین کا اضافہ ہو جاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی مشرکین، کفار، اہل کتاب اور منافقین کے ساتھ محاذ آرائی کے ساتھ تعبیر ہے
لہذا اگر ہم فہم قرآن کو فہم سیرت کی روشنی میں سمجھنا چاہیں تو جو اسلوب اختیار کیا جا سکتا ہے وہ درج ذیل ہے:
سن ایک نبوت کے تمام واقعات زمانی ترتیب کے ساتھ جمع کر لییے جائیں اور اسی طرح سن ایک نبوت میں نازل ہونے والی سورتوں کو جمع کر لیا جائے اور پھر سیرت طیبہ کے واقعات اور سورتیں دونوں ایک ہی موضوع کو بیان کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ اسی طرحسن 2 نبوت کے واقعات اور سن 2 نبوت میں نازل ہونے والی سورتوں کے مضامین جمع کر لیے جائیں ۔

فیوض القرآن کتاب و سنت کی روشنی میں

ان تفسیر ی حواشی کی بنیاد چونکہ مختلف مبارک وجودوں کے فیضانات پر مشتمل ہوں گے لہذا اسے فیوض القرآن کے نام سے موسوم کیا جا رہا ہے اس میں درج ذیل منھج اختیار کیا جارہا ہے:
11)آیات کو موضوع کے اعتبار سے مختلف مجموعات میں تقسیم کیا جائے گا اور ہر مجموعہ کو آیات میں زیر بحث موضوع کی مناسبت سے نام دیا جائے گا
22)آیات کے کلمات کے معانی بیان کیے جائیں گے  بالخصوص اس وقت جب کلمات کے معانی آیت اور موضوع کی فہم کے لیے ضروری ثابت ہوئے
33)آیات میں موجود کلمات کی وضاحت اور توضیح میں ممکنہ طور پر دیگر آیات اور احادیث کا ذکر باحوالہ کیا جائے گا
44)آیات کا سیرت طیبہ کے ساتھ ممکنہ زمانی و مکانی ربط و تعلق اگر ممکن ہو ا تو بیان کیا جائے گا
55)ہر مجموعہ آیات کے آخر میں استفادات نقاط کی صورت میں رقم کیے جائیں گے
آخر میں التماس ہے اگر سطور بالا میں یا آئندہ شماروں میں بیان کیے جانے والے توضیحی کلمات میں کوئی خامی یا غلطی ہو تو ضرور از ضرور ادارہ کو مطلع کیا جائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے