وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَۃِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَۃً  (البقرہ:۳۰)

’’اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں نائب بنانے والا ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے اور اسے زمین میں خلیفہ بنانے سے پہلے کسی موجود شدہ  نمونے کے بغیر زمین و آسمان کو پیدا فرمایا جو پہلے آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ زمین و آسمانوں کو اس لیے پہلے پیدا فرمایا تاکہ مکین سے پہلے مکان اور حاکم سے پہلے اسکی ریاست کی تخلیق اور تزئین کر دی جائے ۔

ہُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَائِ فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیمٌ (البقرہ:۲۹)

’’ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا پھر آسمان کا ارادہ فرمایا تو ان کو سات آسمان بنایا اور وہ ہر چیز کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔
استواء کا معنٰی آسمانوں پر متمکن ہونا ہے۔سورہ ھود آیت ۷ میں وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پہلے پانی پر تھا۔{ وَ کَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآ ءِ}’’اور اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘ پھر وہ اپنی شان کے مطابق عرش پر مستوی ہوا۔ اس آیت کے آخر میں واضح فرمایا:اے انسان! اللہ تعالیٰ کا آسمانوں پر مستوی ہونے کا یہ معنی نہیں کہ وہ زمین اور اس کے ما فیہا سے بے خبر اور لاتعلق ہو گیا ہے۔ کان کھول کر سنو! اللہ تعالیٰ پل پل کی خبر اور ہر چیز کا علم رکھنے اور انکے درمیان ہر کام کے بارے میں حکم صادر فرمانے والا ہے ۔

 إِنَّ اللہَ لَا یَخْفَی عَلَیْہِ شَیْئٌ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَائِ (آل عمران:۵)

’’یقینا اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں‘‘

 اَللہُ الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَّمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَہُنَّ یَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَیْنَہُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللہَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ وَأَنَّ اللہَ قَدْ أَحَاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا  (الطلاق:۱۲)

’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان اور سات زمینیں بنائی ہیں وہ ان کے درمیان حکم صادر کرتاہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے اور اللہ کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں بڑی تفصیل کے ساتھ سات آسمانوں کا ذکر کیا ہے۔ عربی زبان میںـ” الارض ” کا لفظ واحداورجمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے اس مقام پر وضاحت فرما دی کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان پیدا کیے اوران کی مثل سات زمینیں بنائیں۔ وہ ان کے درمیان اپنے احکام نازل کرتاہے تاکہ تم انہیں جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرو کہ یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اوروہ اپنے علم، اقتدار اور اختیارات کے حوالے سے ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور تمام معاملات اس کے حضور پیش کیے جاتے ہیںوہی ان کا فیصلہ فرماتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کی طرح سات زمینیں بنائیں ہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اب تک معلوم نہیں ہو سکا کہ سات زمینیں اوپر نیچے ہیں یا جس زمین پر ہم بستے ہیں یہ سات قطعات اور طبقات پر مشتمل ہے۔

وَلِلہِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَإِلَی اللہِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (آل عمران:۱۰۹)

’’اور اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں اورزمین میں ہے اور اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جائیں گے۔‘‘
قُلْ أَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُونَ بِالَّذِی خَلَقَ الْأَرْضَ فِی یَوْمَیْنِ وَ تَجْعَلُونَ لَہُ أَنْدَادًا ذَلِکَ رَبُّ الْعَالَمِینَ (حٰم السجدہ:۹)
’’اے نبی ان سے فرمائیں: کیا تم اُس ذات کا انکار کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہمسربناتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں پیدا کیا، وہی پوری کائنات کا رب ہے۔‘‘
قرآن مجید نے یہ بات بھی بار ہا دفعہ بتلائی اور سمجھائی ہے کہ زمین و آسمانوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے نہیں بنایا اور نہ ہی ان کے بنانے میں اس کا کوئی شریک تھا ۔اس لیے یہاں کفار سے استفسار کیا ہے کہ کیاتم اس ذاتِ کبریاء کا انکار کرتے ہو؟ کہ جس نے زمین کو دودنوں میں پیدا فرمایا لیکن اس کے باوجود تم بتوں ،بزرگوں اور دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو۔ حالانکہ تمام جہانوں کا پیداکرنے والا صرف ’’ اللہ ‘‘ ہے اور وہی عبادت کے لائق اور تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ۔ سورۃ حٰم السجدۃ میں یہ بات قدرے تفصیل سے بیان فرمائی:

وَجَعَلَ فِیہَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِہَا وَبَارَکَ فِیہَا وَقَدَّرَ فِیہَا أَقْوَاتَہَا فِی أَرْبَعَۃِ أَیَّامٍ سَوَائً لِلسَّائِلِینَ ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَائِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْ کَرْہًا قَالَتَا أَتَیْنَا طَائِعِینَ فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَوْمَیْنِ وَأَوْحَی فِی کُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَہَا وَزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیحَ وَحِفْظًا ذَلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ (حم السجدہ: ۱۰تا ۱۲)

اُس نے زمین بنانے کے بعد اُس پر پہاڑ جما دیے، اس میں برکتیں رکھ دیں اور زمین میںسب طلب گاروں کے لیے ان کی ضرورت کے مطابق ٹھیک اندازے کے مطابق اُنکے خورد و نوش کا انتظام فرما دیا، یہ سب کام چار دن میں ہو گئے۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا، اُس نے آسمان اور زمین سے فرمایا چاہو یا نہ چاہو ہر حال وجود میں آجاؤ، دونوں نے کہا ہم فرمانبردار ہو کر حاضر ہوگئے۔ تب اُس نے دو دن میں سات آسمان بنائے اور ہر آسمان میں اس کا قانون جاری کر دیا، آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے خوبصورت بنا یا اور اسے محفوظ کر دیا یہ سب کچھ ایک زبردست جاننے والی ہستی کا بنایا ہوا ہے ۔‘‘

وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاہَا وَأَلْقَیْنَا فِیہَا رَوَاسِیَ وَأَنْبَتْنَا فِیہَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَوْزُونٍ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیہَا مَعَایِشَ وَمَنْ لَسْتُمْ لَہُ بِرَازِقِینَ وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُہُ وَمَا نُنَزِّلُہُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ (الحجر:19-21)

’’اور ہم نے زمین کو پھیلا یا ،ا س میں پہاڑ گاڑ دیئے اور ہم نے اس میںہر چیز مناسب مقدار میں اُگائی اور ہم نے اس میں تمہارے لیے کئی قسم کے اسباب پیدا کئے ہیں او ران کیلئے بھی جنہیں تم کھلانے پلانے والے نہیں ہو ۔ کوئی ایسی چیز نہیں مگر ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں اور ہم اسے اپنی حکمت کے مطابق اُتارتے رہتے ہیں ۔‘‘
یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے زمین کو پھیلا کر اس میں پہاڑوںکا ایک وسیع سلسلہ جما دیا اور ہر چیز کو زمین میں مقررہ مقدار اور معیار کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے اور اس میں لوگوں کی معیشت کا بندوبست فرمایا اور ان کے رزق کا بھی بندو بست کیا، جن کا رزق تمہارے ذمہ نہیں ہے یعنی چرند ،پرند، درند اور حشرات الارض وغیرہ۔
ان آیات میں دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ ہر چیز کو نہایت متناسب اور موزوں انداز میں پیدا کیا گیا ہے۔ جس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ ہر چیز اپنے تخلیقی معیار کو پہنچ کر خود بخود ایک مقام پر جا کر کے ٹھہر جاتی ہے۔
پھول کی رنگت، اس کا بناؤ سنگھار اور اس کی مہک اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ اب مجھے کسی کے گلے کا ہار یا کسی گلدستے کی زینت بننا چاہیے ۔ اسی طرح ایک پودا ، بیل اور بڑے سے بڑا درخت مقررہ معیار اور مدّت سے آگے نہیں بڑھتا ۔
جنس انسانی کے اعتبار سے اگر دنیا میں ہمیشہ مرد یا عورتوں کی بہتات رہتی تو سلسلۂ تخلیق کس طرح متناسب اور متوازن رہ سکتا تھا۔ یہی صورتِ حال نباتات کی ہے۔ ایک علاقے میں ایک جنس کی پیداوار زیادہ ہے تو دوسرے علاقے میں کسی اور چیز کی پیداوار وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ تاکہ لوگ رسد و نقل کے ذریعے ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کرتے رہیں اور ایک دوسرے سے تعلق قائم کریں۔ گویا کہ زمین کو صرف فرش کے طور پر ہی نہیں بچھایا اور پھیلایا گیا بلکہ اس میں ہر جاندار بالخصوص لوگوں کی معیشت اور رزق کا نہایت مناسب نظام قائم کر دیا گیا ہے۔ انسان اپنی روزی خود کمانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن زمین اور اس کے اندر یہاں تک کہ فضاؤںمیں رہنے والی مخلوق کو صرف اللہ تعالیٰ رزق مہیا کرتاہے۔ ہر کسی کی روزی اس کی ضرورت کے مطابق اُسے پہنچائی جا رہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے پاس ہر چیز کے لا محدود خزانے ہیں جسے وہ ہر وقت اور ہر دور میں مناسب اور اپنے ہاں مقررہ مقدار کے مطابق نکالتا اور نازل کرتا ہے۔
ایک صدی پہلے کسے پتہ تھا کہ زمین سے تیل، پٹرول اور گیسیں نکلیں گے اور اسی پر دنیا کی ترقی کا انحصار ہو گا ، کیا معلوم! زمین میں کون کون سے خزانے موجود ہیں اور انہیں کس کس دور کے لوگ نکالیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ حمید میں زمین کے کئی اوصاف اور فائدے بیان فرمائے جن کا اختصار اس طرح ہے:۔

 وَاللہُ جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا (نوح:۱۹)

’’اور اللہ نے زمین کو تمہارے لیے فرش بنایاہے ۔‘‘

 وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِکَ دَحَاہَا (النٰزعٰت:۳۰ )

’’ اس کے بعد اس نے زمین کو بچھایا۔‘‘

 أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِہَادًا  (النبا:۶)

’’کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم نے زمین کو فرش بنایاہے۔‘‘

أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ کِفَاتًا(المرسلات:۲۵)

’’کیا ہم نے زمین کو سمیٹنے والی نہیں بنایا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ زندہ ، مردہ اور ہرچیز کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔زمین میں بے شمار خصوصیات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کی ترجمان ہیں مثلاً:
٭  مٹی صدیوں تک چیز کو محفوظ رکھتی ہے اور خود ختم نہیں ہوتی۔
٭   زمین میں اپنانیت ہے اورہر جاندار اس پر قیام کرتاہے اور اس کی ان گنت ضروریات زمین سے وابستہ ہیں ۔
٭    زمین میں ٹھہرائو اور برداشت ہے ۔
٭   زمین میں پانی ہے اور اس سے ہر جاندار کی حیات وابستہ ہے۔
زمین کی خصوصیت بیان فرماکر یہ ثابت کیا ہے کہ جس زمین میں مدّتوں پڑے ہوئے بیج اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُگ آتے ہیں کیا قیامت کے دن خالق کے حکم سے دوبارہ مردے پیدا نہیں ہوسکتے ؟

وَالْأَرْضَ فَرَشْنَاہَا فَنِعْمَ الْمَاہِدُونَ

’’اور ہم نے زمین کو بچھایا ہے اور ہم بہت اچھا بچھانے والے ہیں۔‘‘ (الذاریات: 48)
جہاں تک اس فرمان کا عام آدمی کی سمجھ میں آنے والی بات ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دن بدن نہ صرف انسانوں کی تعداد میں اضافہ کررہاہے بلکہ ان کے وسائل میں بھی اضافہ کیے جارہا ہے۔غور فرمائیں ! آج سے سوسال پہلے کا انسان موجودہ وسائل بالخصوص ذرائع مواصلات کے بارے میںسوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ نہ معلوم آنے والے وقت میں انسان کو کیاکیا نعمتیں میسر ہوں گی ۔خوردونوش کی اشیاء کا اندازہ فرمائیں کہ آج سے پچاس سال پہلے گندم کی فی ایکڑ پیداوار پندرہ بیس مَن سے زیادہ نہ تھی اورآج درمیانے درجے کے کھیت سے فی ایکڑ پچاس ساٹھ مَن گندم حاصل کی جارہی ہے ۔ اسی طرح دوسری اشیائے خوردنی کاحال ہے کہ ان کی پیدوار اور مقدار میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے،گویا کہ جس طرح کھانے والے بڑھ رہے ہیں اسی حساب سے ان کے دسترخوان کو وسعت دی جا رہی ہے۔

فَتَبَارَکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ (المؤمنون:14)

’’بڑا ہی بابرکت ہے اللہ سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔‘‘

فَلْیَنْظُرِ الْإِنْسَانُ إِلَی طَعَامِہِ أَنَّا صَبَبْنَا الْمَائَ صَبًّا ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا فَأَنْبَتْنَا فِیہَا حَبًّا وَعِنَبًا وَ قَضْبًا وَزَیْتُونًا وَنَخْلًا وَحَدَائِقَ غُلْبًاوَفَاکِہَۃً وَأَبًّا مَتَاعًا لَکُمْ وَلِأَنْعَامِکُمْ (عبس:24تا 32)

’’ انسان اپنی خوراک پر غور کرے۔ ہم نے خوب پانی برسایا، پھر زمین کو پھاڑا پھر اس سے اناج اُگائے اور انگور اور ترکاریاں اور زیتون اور کھجوریں اور باغات اور طرح طرح کے پھل اور چارے تمہارے اور تمہارے مویشیوںکے فائدے کے لیے پیدا کیے۔‘‘
اس مقام پر انسان کو اس کی خوراک کے حوالے سے سمجھایا گیا ہے کہ اے انسان! تجھے اپنے کھانے پینے پر غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تیری خوراک کا کس طرح بندوبست کرتاہے ؟ ارشاد ہوا کہ یقینا ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور ہم نے زمین کو پھاڑا ،پھر ہم نے اس میں اناج اُگایا، اناج میں انگور، سبزیاں، زیتون، کھجوریں، گھنے، گنجان اور لہلاتے ہوئے باغ ہیں جو تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لیے ہیں۔
انسان کو اس کی خور اک اورچوپاؤں کے چارے کا حوالہ دے کر یہ بات سمجھائی ہے کہ قیامت کا انکار کرنے والو! دیکھو اورغور کرو!کہ زمین میں پڑے ہوئے دانے کو کون اُگاتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے سوا اس دانے کو کوئی نکالنے اور اُگانے والا نہیں ہے۔وہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے، اس کے سوا کوئی بارش نازل نہیں کر سکتا۔ بارش کی وجہ سے زمین میں نَم پیدا ہوتا ہے اوراس نَم کی وجہ سے زمین میں پڑا ہوا بیج پھول پڑتا ہے اورہر دانہ اپنی اصلیت کی بنیاد پر شگوفے یا تنے کی شکل میں نکل پڑتا ہے۔ ان میں انگور ، سبزیاں ،زیتون ، کھجوریں اور مختلف قسم کے باغات ہیں۔ کچھ درخت اور پودے پھل دار ہوتے ہیں اور کچھ چارے اور دیگر ضروریات کے کام آتے ہیں۔
’’اور زمین کے ایک دوسرے سے ملے ہوئے مختلف قطعات ہیں اور انگوروں کے باغ اور کھیتیاں اور کھجور کے درخت ہیں۔بہت سے تنوں والے اور ایک تنے والے بھی۔ جنہیں ایک ہی پانی سے سیرا ب کیا جاتا ہے او ر ہم پھلوں کو ایک دوسرے پر فوقیت دیتے ہیں ۔ یقینا اس میں ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیا ں ہیں جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔‘‘ (الرعد:۴)
اگر انسان ان نعمتوں اور نباتاتی نظام پر غور کرے تو نہ اپنے رب کی نافرمانی کرے اور نہ اسکے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے۔

قُلْ أَغَیْرَ اللہِ أَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَہُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ قُلْ إِنِّی أُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَلَا تَکُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِینَ  (الانعام:14)

’’پوچھیں کیا میں اللہ کے سواجو آسمانوں اورزمین کو پیدا کرنے والا ہے کسی اور کو اپنامددگار بنائوں ؟ وہ سب کو کھلاتا ہے اور اسے کھلایانہیں جاتا،فرما دیں کہ بیشک مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے اپنے رب کی فرماں برداری کروں اورآپ شرک کرنے والوں سے ہرگز نہیں ہیں۔‘‘
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجید نے پہلی دفعہ لوگوں کے سامنے یہ بات پیش کی کہ جس طرح جاندار چیزوں کے جوڑے ہیں اسی طرح ہی پودوں، درختوں اور پوری نباتات کے جوڑے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان کے پھولوں کے بھی جوڑے بنائے ۔ ایک ہی قسم کا پھل ہونے کے باوجو د کوئی میٹھا ہے ، کوئی کڑوا ، کوئی ترش اور کوئی پھیکا ہے۔ ایک ناقص ہے اور دوسرا اعلیٰ قسم کا اور نہایت قیمتی اور لذّت دار ہے۔ پہلے وقتوں میں انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جاندار کی طرح پودوں میں بھی نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ اب جدید نباتات کا علم بتاتا ہے کہ ہر پودے میں نر اور مادہ ہوتے ہیں ۔ حتی کہ وہ پودے جو یک صنفی (Unisexual) ہوتے ہیں ان میں بھی نر اور مادہ کے امتیازی اجزا پائے جاتے ہیں ۔
اعلیٰ درجہ کے پودوں (Superior Plants)میں نسل خیزی کی آخری پیداوار اُن کے پھل (Fruits)ہوتے ہیں۔ پھل سے پہلے پھول نکلتاہے جس میں نر اور مادہ اعضا (Organs)یعنی اسٹیمنز(Stamens)اور اوویولز(Ovules)ہوتے ہیں۔ جب کوئی زردانہ (Pollen) پھول تک پہنچتا ہے ، تو وہ ’’بار آور‘‘ ہو کر پھل کی صورت اختیار کرنے کے قابل ہوتا ہے ۔ پک جاتا ہے تو اس کے بیج اس کی افزائش کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا تمام پھل اس حقیقت کا پتا دیتے ہیں کہ پودوں میں بھی نر اور مادہ کے اجزاء ہوتے ہیں ۔ یہ ایسی سچائی ہے جسے قرآن پاک بہت پہلے بیان فرما چکا ہے ۔

وَّأَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآءً فَأَخْرَجْنَا بِہٖٓ أَزْوَاجًا مِّنْ نَبَاتٍ شَتَّی  [طٰہٰ:۵۳]

’’اور اوپر سے پانی برسایا اور پھر اس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار جوڑا جوڑا نکالی ۔ ‘‘
’’اسی نے ہر طرح کے پھلوں میں جوڑے پیدا کیے ہیں۔ ‘‘ [ الرعد: ۳]
’’پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود انسان کی اپنی جنس میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو وہ نہیں جانتے ۔ ‘‘ [یٰس:۳۶]
’’ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں شاید کہ تم اس سے سبق سیکھو۔ ‘‘ [الذاریات: ۴۹]
ان آیاتِ مبارکہ میں ’’ہر چیز ‘‘ کے جوڑا جوڑا ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہر چیز جوڑوں کی شکل میں پیدا کی گئی ہے ، جن میں وہ چیزیں بھی شامل ہیں جنہیں آج کا انسان نہیں جانتا اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے کل میں انسان انہیں دریافت کر لے ۔  پودوں اور پھلوں کے بارے میں غور فرمائیں مثال کے طور پر ہم کھجور کو دیکھیں کس طرح نر اور مادہ درختوں کے ذریعہ سے اس کی بے شمار قسمیں وجود میں آرہی ہیں ۔
یوں تو تمام پودے اور پھل خالقِ ارض و سماء کے پیدا کیے ہوئے ہیں لیکن جن پودوں کا تذکرہ ذاتِ الٰہی نے اپنے کلام میں کیا ہے ، اس سے ان کا نام ابد الآباد تک محفوظ ہو گیا اور کلامِ الٰہی میں ان کا ذکر آنے سے ان کی خصوصیتوں کا سمجھنا ایک علمی و دینی ضرورت بن چکا ہے۔ قرآن مجید نے اس کے تین نام لیے ہیں :
انگلش میں :  Date  اردو ، پنجابی اور ہندی میں: کھجور
فارسی میں: خرما
قرآن مجید میں انگور ، انجیر ، انار اور زیتون کا تذکرہ کئی بار آیا ہے لیکن جس پھل اور درخت کا حوالہ سب سے زیادہ دیا گیا ہے، وہ کھجور ہے۔ نخل، النخیل اور نخلۃ کے ناموں کا ذکر قرآن کریم میں بیس مرتبہ آیا ہے ۔یہاں تک کہ کھجور کی گٹھلیوں کا ذکر بھی قرآن پاک میں الگ الگ ناموں سے ہوا ہے ۔ مختلف ناموں کے حوالے سے کھجور کا ذکر قرآن حکیم میں اٹھائیس دفعہ آیا ہے ۔ زرعی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کھجور کی کاشت آٹھ ہزار سال قبل جنوبی عراق میں شروع ہوئی تھی۔ قارئین اور سامعین کی دلچسپی کے لئے کھجور کے بارے میں چند مزید معلومات پیش خدمت ہیں۔
عربوں میں ایک پرانی کہاوت ہے کہ سال میں جتنے دن ہوتے ہیں اتنے ہی کھجور کے استعمال کے فائدے ہیں۔کھجور کی غذائیت کا اندازہ اس کے کیمیاوی اجزاء سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں وٹامن اے ، وٹامن بی ، وٹامن بی ٹو اور وٹامن سی بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ سوڈیم، کیلشیم ، سلفر ، کلورین ، فاسفورس اور آئرن ، سے بھرپور نر اور مادہ درخت ہوتے ہیں۔اس کا استعمال ایک مکمل غذا بھی ہے اور اچھی صحت کے لیے ایک لاجواب ٹانک بھی بشرطیکہ کھانے والے کو کوئی شوگر وغیرہ نہ ہو ۔ طب نبوی میں کھجور کی بڑی افادیت بیان کی گئی ہے۔
کھجور کی عالمی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ۱۹۸۲ء؁ میں کھجور کی عالمی پیداوار چھبیس لاکھ ٹن تھی جس کا ۵۶ فیصد حصہ عراق ، سعودی عرب ، مصر اور ایران میں پیدا ہوتا ہے۔ صرف عراق میں ۴۴۵ اقسام کی کھجوریں پائی جاتی ہیں، اب تک کھجور کے حوالے سے عراق پوری دنیا میں سرفہرست ہے ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ  قرآن مجید میں کھجور کا کئی بار ذکر ہوا ہے عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ انسان زمین اور ان پودوں پر غور کرے، اپنے رب پر ایمان لائے اور اس کے ساتھ دوسروں کو شریک نہ ٹھہرائے۔
کھجور کے ذکر سے پہلے زمین کی خصوصیت اور اس کے فوائد کی بات ہو رہی تھی ۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

 لِتَسْلُکُوا مِنْہَا سُبُلًا فِجَاجًا  (نوح:۲۰)

’’ تاکہ تم زمین کے کشادہ راستوں پر چلو۔‘‘

ہُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِی مَنَاکِبِہَا وَکُلُوا مِنْ رِزْقِہِ وَإِلَیْہِ النُّشُورُ (الملک:۱۵)

’’وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو نرم رکھا ہے تاکہ اس کے راستوں پر چلو اور اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ،اسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس قابل بنایا ہے تاکہ تم اس کے راستوں پر چلو اور اپنے رازق کارزق کھائو اوریاد رکھو! کہ تم نے اسی کے حضور پیش ہونا ہے۔ یہاں زمین کے لیے ’’لِتَسْلُکُوْا‘‘  اور ’’ذَلُوْلًا‘‘کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ’’لِتَسْلُکُوا‘‘  کا معنیٰ چلنا اور’’ذلولاً ‘‘  کا معنٰی نرم ہے۔ بے شک زمین میں پہاڑ اور چٹانیں بھی پائی جاتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہر دور کے انسان کو فہم اور وسائل عطا فرمائے ہیں کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق زمین میں راستے بنائے اور انہیں ہموار کرے تاکہ وہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچ سکے۔
اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیت کے سبب انسان نے زمین پر شاہرائیں بنائیں اورپہاڑوں کے سینے چیر کر راستے ہموار کیے۔ یہاں تک کہ سمندر میں بھی راستے بنا لیے ہیں۔ جیسا کہ سعودیہ اور بحرین کے درمیان سمندرپر ایک پُل بنایا گیا ہے۔ جس سے مختلف ممالک کی اشیاء اور اناج بآسانی دوسرے ملکوں میں پہنچ رہا ہے۔ اس سے لوگوں کے وسائل اور رزق میں کشادگی پیدا ہوئی اور لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں آسانی میسر آئی۔ اگر اللہ تعالیٰ زمین پر راستے نہ بناتا اور انسان کو مواصلات کے ذرائع بنانے کی صلاحیت نہ دیتا تو لوگ اپنے اپنے علاقے میں قیدی بن کررہ جاتے۔ نہ ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اٹھاسکتے اور نہ ہی دنیا اس قدر ترقی کر پاتی۔
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے