مزارات پر حاضری دینے والوں کاگمان ہے کہ زندگی میں
اس کی صحبت سے جس طرح فیض حاصل کر تے رہے اسی طرح مرنے کے بعد بھی انکی قبر سے برکت حاصل ہوسکتی ہےانکا یہ بھی نظریہ بن چکا ہے کہ جس طرح ہم ان کی حیا ت میں حاضر ہو کر دعا کی درخواست کرتے تھے اسی طرح وہ قبر میں بھی ہماری پکارسن لیتے ہیں اور وہ سفارش کرکے رب سے مشکل حل کرالیتے ہیں ۔اہل قبور سے استمداد کے حق میں کتابچہ نظر سے گزرا جس میں تحریر ہے ۔
مزارات کو سجدہ حرام ۔ان سے فیض اللہ کا انعام۔
چنانچہ چند غور طلب امور ہیں۔
اگر ولی اللہ اگر اپنی حیا ت کی طرح موت کے بعد بھی راہنمائی کرسکتا ہے تو نبی کیوںنہیں کرسکتے ؟
جب ہر نبی فوت ہونے کے بعد فیض رسائی پر قادر ہوتو یکہ بعد دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا کیا مقصد ؟
اگر ولی اللہ کی ولایت موت تک ہے تو فوت شدہ اولیاء کومشکل کے وقت پکارنے کا کیا مقصد ؟
بصورت دیگر اگر انکی ولایت موت کے بعد بھی دائمی ہے تو ان کی ولایت کا نسل در نسل نیک وبد اولاد میں منتقل ہونا چہ معنی وارد؟
ولی زندگی میں مشکل کشا اور موت کے بعد بھی تو سوچنے کا مقام ہے کہ انکی زندگی اور موت میں کیا فرق ؟
اگر فرق نہیں تو موت طاری ہونے کا کیا مقصد ؟
قابل احترام بھائیوں اگر آپ معقول جواب نہیں دے سکتے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ولی جب فوت ہوجاتا ہے تو اس کا دنیا عالم سے رشتہ کٹ جاتا ہے جس طرح اہل دنیا کا عالم ارواح سے تعلق منقطع ہوچکا ہے ۔
در حقیقت ولی کی وفات کے بعد بھی کائنات میں کئ اولیا ء ٔٔٔٔٔٔاور رحانی معالج موجود ہوتے ہیں جن سے روحانی برکت اور فیض حاصل کیا جاسکتا ہے اور دعا کی درخواست کی    جا سکتی ہے آپ ان سے رجوع کریںسب سے بڑھ کر یہ کہ جب اللہ تعالی کادر ہر وقت کھلارہتاہے وہ حی اور قیوم ہے اسے موت نہیں آتی اسکا اعلان ہے کہ ہر حالت میں مجھے پکارو میں تمہاری فریادیں سنتاہوں اور تمہاری مصیبتوں کو صرف میں ہی ٹالنے والا ہوں تو ہم اس کی طرف رجوع کیوں نہیں کرتے ۔ہمارا اپنے رب کی قدرت کنـ پر ایمان اتنا کمزور کیوں ہے ؟خدانخواستہ آپ زندہ بزرگوں کی بجائے فوت شدہ بزرگوں سے فیض ،برکت اور مدد طلب کرنے موقف پر قائم ہوں تودردمندانہ التماس ہے آپ سورہ نوح کی تفسیر بالحدیث پڑھ کرذرا اس پر غور فرمائیں کہ بت پرستی کاآغاز کس طرح ہوا؟
وہ علماءجوقبور سے استمداد کے قائل ہیں انہوںنے قبر پر جاکر استمداد کے تین طریقے بیان کیے ہیں ۔
1۔ وہاں جاکر سلام کیا ہے اور پھر فاتحہ شریف پڑھی اور دعا رب سے کی اور کہا کہ یہ مقبول بندے ہیں جنکے پاس آیا ہوں تو انکے صدقے سے میری مشکل آسان کردے
2۔سلام کرنے کےبعد فاتحہ خوانی کی اور کہا کہ تم اللہ تعالی کے پسندیدہ ہو تم اللہ کے دربار میں سفارش کردو انہیںمعبود بنائے بغیر سفارشی بنانا جائز ہے۔
3۔اے اللہ تعالیٰ کےولی میں تیرے پاس آیا ہوں مجھے اللہ تعالیٰ سے بات کرنے کا سلیقہ نہیں آتا مجھے اللہ تعالیٰ سے لیکر دے۔
یہ حقیقت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل اہل سنت کے لئے مشعل راہ ہے۔ زندگی کا کونسا غمی وخوشی کا موقع ہے جہاں رحمت کائنات محمد ﷺ نے دعا نہیں سکھائی۔ آ پﷺ نے سونے جاگنے، کھانے پینے کے وقت، مسجد میں داخل اور نکلتے وقت اور اہل قبور کے حق میں جو دعائیں سکھائیں احادیث میں ان کا تذکرہ موجود ہے۔ لیکن قبر سے استمداد کے مذکورہ تین طریقوں کا ذکر ہوا ہے۔ قائلین کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ احادیث کے ذخیرہ میں سے اس امر کی نشاندہی کریں جہاں مخبر صادق محمد ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مزارات پر جاکر مذکورہ طریقوں کے مطابق حاجت طلب کرنے کی دعائیں سکھائی ہوں؟
اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی عبادت کے لائق ہے تو وہی مشکل کشائی کا حق دار ہے۔
دنیا وآخرت میں ہمارے رہبر وراہنما محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں جن کے بعد وحی کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے منقطع ہوگیا اب ان کے علاوہ کوئی رہبر اکمل ومرشد کامل کوئی نہیں۔
عابد،زاہد،مجاہد اور شہید کی جنازہ میں شریک افراد میت کی مغفرت ودرجات کی بلندی کے لیے دعا کرتے ہیں جب وہ قبر میں دفن ہوجاتے ہیں تو اُن کو حاجت روائی کا وسیلہ تسلیم کرنا حقیقت کے منافی عمل ہے۔
معبود ما ، مسجود ما
اللہ احد جل جلالہ
حاجت روا مشکل کشا
اللہ واحدہ اللہ واحدہ
کامل مرشد وراہ نما
محمد مصطفی، مصطفیٰ
شافع محشر
احمد مصطفی
اولیاء کی صحبت سے فیض وبرکات کا حصول
ایمان میں تروتازگی اہل حق کا معمول
اہل قبور کے لیے مغفرت ودرجات طلب کرنا جائز
مگر ان کے وسیلہ سے حاجت ومدد مانگنا حرام
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے