سوال:سرپر نقلی بال(وِگ)لگانےکے بارے میں شریعت کا کیاحکم ہے؟

جواب:اسلام دین فطرت ہے انسان جتنا فطرت کے قریب ہوتااتنا ہی زیادہ خوبصورت ہوتاہے نبی کریم نے فرمایا

 کل مولود یولدعلی الفطرۃ (بخاری1385)

کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ایک بچہ جب بغیر کریم اور مصنوعی بال لگوائےبغیر خوبصورت ہوسکتاہےتو کیا جوان ہونے پر اسے فطرت کی خوبصورتی کافی نہیں ہوتی۔ انسان اگرفطرت پراسی طرح چلےجس طرح اسے دین فطرت نے چلنےکا حکم دیا تو وہ فطری طور پر خوبصورت لگتا ہے۔لیکن جب آدمی اللہ کی دی ہوئی نعمت سےقانع نہیں ہوتا تو اسے ہمیشہ اپنی خوبصورتی بچانے کے لیے طرح طرح کی اشیاء استعمال کرنی پڑتی ہیں پھر بھی اس کی اصل خوبصورتی برقرار نہیں رہتی اسی وجہ سے اسلام ہر اس کام سے منع کرتا ہے جو فطرت کے منافی ہو، خوبصورتی کے لیے ایک غیر فطری عمل جو فطری طور پر اچھا تصور نہیں کیا جاتاوہ ہے مصنوعی بال لگانا ۔

حدیث میں آتاہے :

عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَعَنَ اللہُ الوَاصِلَةَ وَالمُسْتَوْصِلَةَ وَالوَاشِمَةَ وَالمُسْتَوْشِمَةَ (سنن الترمذي أبواب اللباس باب ما جاء في مواصلة الشعر الحدیث:1759)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے بال میں جوڑے لگانے والی، بال میں جوڑے لگوانے والی، گدناگوندنے والی اورگدناگوندوانے والی پرلعنت بھیجی ہے۔

دوسری روایت میں ہے :

عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللہُ عَنْهَا: أَنَّ جَارِيَةً مِنَ الأَنْصَارِ تَزَوَّجَتْ، وَأَنَّهَا مَرِضَتْ فَتَمَعَّطَ شَعَرُهَا، فَأَرَادُوا أَنْ يَصِلُوهَا، فَسَأَلُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لَعَنَ اللہُ الوَاصِلَةَ وَالمُسْتَوْصِلَةَ (صحیح البخاری کتاب اللباس باب الوصل فی الشعر الحدیث : 5934 )

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انصار کی ایک لڑکی نے شادی کی ۔ اس کے بعد وہ بیمار ہوگئی اور اس کے سرکے بال جھڑگئے ، اس کے گھر والوں نے چاہا کہ اس کے بالوں میں مصنوعی بال لگادیں ۔ اس لئے انہوں نے نبی کریم >سے اس کے متعلق پوچھا ۔ نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مصنوعی بال جوڑنے والی اور جڑوانے والی دونوں پر لعنت بھیجی ہے ۔

ایک اور روایت میں ہے : 

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: لَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الوَاصِلَةَ وَالمُسْتَوْصِلَةَ (صحيح البخاري کتاب اللباس باب الوصل في الشعر الحديث 5936)

سیدہ اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم نے مصنوعی بال لگانے والی اور لگوانے والی پر لعنت بھیجی ہے ۔

ہر وہ کام جس پر لعنت کا لفظ وارد ہو وہ کبیرہ گناہ میں شمار کیاجاتاہے انہی ادلہ کی روشنی میں اس فعل پر بھی لعنت کا لفظ مستعمل ہوا ہے جوکہ کبیرہ گناہ اور اسلام میں ناجائز فعل ہے۔اس لیے وِگ وغیرہ لگانا حرام ہے کیونکہ وگ لگانے پر دین میں لعنت کا لفظ وارد ہواہے امام نووی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:

وهذه الأحاديث صريحة في تحريم الوصل ولعن الواصلة والمستوصلة مطلقا وهذا هو الظاهر المختار

یہ احادیث وگ کی حرمت اور وگ لگانے اور لگوانے والی پر لعنت میں مطلق طور پر واضح ہیں اوریہی مذہب ظاہر و مختار ہے۔(14/87)

فقال مالك والطبري وكثيرون أو الأكثرون الوصل ممنوع بكل شيء سواء وصلته بشعر أو صوف أو خرق واحتجوا بحديث جابر الذى ذكره مسلم بعد هذا أن النبي صلى الله عليه وسلم زجر أن تصل المرأة برأسها شيئا (شرح مسلم للنووی 14/88)

امام مالک ،امام طبری اور دیگر بہت سے ائمہ دین رحمۃاللہ علیہم نے فرمایا۔بالوں کو کسی بھی چیز کے ساتھ جوڑنا منع ہے خواہ انہیں دیگر بالوں ،اون یا کپڑے کے ساتھ جوڑا جائے اور ان ائمہ نے جابر بن عبداللہ w کی اس حدیث سے حجت پکڑی ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے اس کے بعد ذکر کیا ہے کہ نبی کریم نے عورت کو اس بات سے ڈانٹا کہ وہ اپنے سر کے بالوں کے ساتھ کسی اور چیز کو جوڑے۔

امام نووی رحمۃاللہ اس کے بعد مزید فرماتے ہیں:اس حدیث میں یہ بات ہے کہ وگ لگانا حرام ہے خواہ وہ معذور کے لیے ہو یا دلہن کے لیے یا ان دونوں کے علاوہ کے لیے:

نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ اس کے بعدفرماتے ہیںـیہی بات برحق ہےحافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃاللہ فرماتے ہیں:

وفی  ھٰذا الحدیث حجۃ لمن قال یحرم الوصل فی الشعر والوشم۔۔۔۔ (فتح الباری10/377)

اس حدیث میں ایسے آدمی کے لیے دلیل ہے جو کہتا ہے کہ بالوں میں وگ لگانا ،جسم گود کر نیل بھرنا اور چہرے کے بال نوچنا فاعل اور مفعول دونوں پر حرام ہے اور یہ ان لوگوں پر حجت ہے جو اس ممانعت کو نہی تنز یہی پر محمول کرتے ہیں ،اس لیے کہ لعن کی دلالت حرمت پر قوی ترین دلالتوں میں سے ہے بلکہ بعض کے نزدیک کبیرہ گناہوں کی علامت میں سےہے ۔

مندرجہ بالا صحیح احادیث اور ائمہ محدثین کی تشریحات سے واضح ہوا کہ مصنوعی بال کا لگانا ممنوع اور حرام ہے اور یہود کی عادات میں سے ہے،مرد و زن اس حکم میں برابر ہیں ۔ گنجے پن کو ختم کرنے کے کیے صحیح علاج کرایا جا سکتا ہے ۔ اللہ تعالی نے ہر بیماری کے لیے دوا و علاج رکھا ہے۔

سوال : سالگرہ منانے کے بارے میں شرعیت کیا کہتی ہے؟

جواب:فرمان رسول ہے :

مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ (سنن ابي داؤد کتاب اللباس باب في لبس الشھرۃ الحديث 4031)

’’جس شخص نے جس قوم کی بھی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے۔‘‘

اس حدیث سے بخوبی معلوم ہوا کہ وضع وقطع میں غیر مسلموں کی مخالف کرنی ہےچونکہ سالگرہ مناناعیسائیوں ، ہندوؤںاوردیگر غیر مسلموں کا طریقہ ہے اسی لیے ان کے اس عمل میں اگر کوئی شریک ہوگا تو گویا اس نے غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کی جوکہ مذکورہ حدیث کی روشنی میں جائز نہیں۔سالگرہ منانے والوں کی تین اقسام ہیں :

1۔ سالگرہ کو اسلام سمجھ کر منانا یہ بدعت ہے فرمان نبوی ہے :

مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ (صحيح مسلم كتاب الاقضية باب نقض الاحكام الباطلة الحديث : 1718)

’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا عمل نہیں تو نامقبول ہے۔‘‘

اس حدیث سےواضح ہوا کہ جو شخص کوئی ایسا کام کرتا ہے جس کو نبی کریم  نے نہیں کیا تو اس کی حیثیت اسلام میں ذرہ برابر بھی نہیںلہٰذا جو شخص اس کو اسلام سمجھ کر کرتاہے گویا وہ بدعت کا مرتکب ٹھہرتاہےلیکن ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔

2۔ وہ لوگ جو سالگرہ کو لہو ولعب اور خوشی سمجھ کر مناتے ہیں تو یہ شرعاً ناپسند فعل ہے کیونکہ شریعت مطہرہ نے خوشیاں منانےکیلئے عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے ایام کو مخصوص اور مقرر کیاہے۔اور اس لیے بھی منع فرمایا کہ اس میں مال کا ضیاع جیسا کہ فرمان الٰہی ہے : 

إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ

فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہیں۔‘‘(الاسراء27)

3۔ وہ گروہ جو عیسائی اور غیر مسلموں سے متاثر ہو کر مناتے ہیں تو یہ بالکل ناجائز اور حرام فعل ہے جیسا کہ فرمان رسول  ہے : 

مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ (سنن ابي داؤد کتاب اللباس باب في لبس الشھرۃ الحديث 4031)

’’جس شخص نے جس قوم کی بھی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے۔‘‘

غیر مسلموں کے رنگ میں رنگنا بھی حرام فعل ہے فرمان محمدی ہے :

لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ (صحيح البخاري کتاب احادیث الانبیاء باب ما ذكر عن بني إسرائيل الحدیث:3456)

ضرور تم اپنے سے پہلے کے لوگوں کی پیروی کرو گے ہاتھ در ہاتھ اور بالشت دربالشت (یعنی ذرا سا بھی فرق نہ ہوگا) ۔‘‘

مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں سالگرہ منانا درست نہیں لہٰذا سالگرہ منانا ناپسندیدہ اور غیر شرعی عمل ہے ۔

 واللہ اعلم بالصواب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے