عصرِ حاضر میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہونے والی تیز رفتار ترقی کے باعث جہاں ہمیں اس ٹیکنالوجی کی افادیت اور نقصانات کا جائزہ لینے کی حاجت محسوس ہوتی ہے وہیں اس ٹیکنالوجی کے استعمال کرنے والے افراد کےلئے جدید تربیتی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے کہ جن میں سوشل میڈیا کے استعمال کرنے کے آداب اور قواعد وضوابط کی معرفت کا حصول وقت کی اہم ضرورت ہے، اسی اہمیت کے پیش نظر پہلے  آداب کا مختصرا ذکر کیا جانا انتہائی ضروری سمجھتا ہوں تاکہ بوقت استعمال سوشل میڈیا کے ان آداب کو ملحوظ خاطر رکھا جاسکے.

1۔ مقصد کا تعین کیجئے.

ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم سوشل میڈیا کے استعمال سے قبل اپنے ارادے اور مقاصد کا تعین کریں، اور یہی سمجھ دار قوموں کا شیوہ ہے کہ وہ کسی شے کے استعمال سے قبل مقاصد کا تعین کرتی ہیں، مقاصد اور ترجیحات میں بحیثیت مسلمان دین اسلام اولین ترجیح ہونی چاہئے بصورت دیگر سوشل میڈیا کا غیرضروری اور غیر مؤثر استعمال بڑھ جاتا ہے اور بڑھ رہا ہے اور یوں مثبت نتائج کے بجائے منفی نتائج بھگتنے پڑتے ہیں اور نتیجتاً ہم راہ راست سے ہٹ جاتے ہیں لہذا سوشل میڈیا کے استعمال کرنے سے قبل مقصد کا تعین کیجئے اور اپنے مقصد میں دین کو ضرور شامل رکھیں!

2۔قرآن مجید کی آیت/ ترجمہ تصدیق کیے بغیر آگے نہ بھیجیں.

فرمان باری تعالی ہے:وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِهٖ  اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ۰۰۲۱ ( الانعام: 21)

’’اس سے زیادہ اورظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ تعالی پر بہتان باندھے اور اس کی آیات کی تکذیب کرے،یقینا ان ظالمین کے لئے نجات نہیں ہے۔‘‘

3۔حدیث شیئر کرنے سے قبل تصدیق کرلیں.

کسی بھی حدیث کو شیئر کرنے سے قبل اس بات کی یقین دہانی کرلیں کہ یہ حدیث ثابت بھی ہے کہ نہیں چونکہ آپ علیہ السلام کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا گویا جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنانے کے مترادف ہے.

فرمان نبویﷺ ہے:   مَنْ يَقُلْ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ( بخاری: 109)

’’جو شخص میرے نام سے وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔ ‘‘

4۔شرعی مسائل علماء سے پوچھیں.

شرعی مسائل کے حل کےلئے بجائے نام نہاداسلامی گروپ کی طرف رجوع کرنے سے بہتر ہے کہ کسی معتبر عالم دین یا مفتی سے رابطہ کریں کہ جو آپ کو قرآن وسنت کی روشنی میں مسئلے کا حل بتائے، نیز فیس بکی اور سوشل میڈیا کے نام نہاد خودساختہ مفتیوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں، چونکہ ہمیں یہی حکم باری تعالی ہے.

فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ۰۰۴۳ (سورة النحل 43)

’’پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کرلو۔‘‘

5۔افواہوں پر یقین نہ کریں.

 افواہوں پر کان دھرنے اور انہیں آگے پھیلانے سے قطعا اجتناب کیجئے نیز من گھڑت اقوال و بیانات شیئر کرنے سے گریز کریں. فرمان نبوی ﷺ ہے:

‏ كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ.

’’آدمی کے جھوٹے ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کرے۔‘‘

6۔فحش مواد سے بچیں.

فحش مواد دیکھنا اور اسے شیئر کرنا قطعا حرام ہے، اس پر سخت وعید بیان کی گئی ہے، فرمان باری تعالی ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ  وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۰۰۱۹(سورة النور 19)

’’جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔‘‘

لہذا اس حرام کام سے اپنے آپ کو بچائیں.

7۔خیر کو پھیلائیں اور شر کو پھیلانے سے اجتناب کریں

یہ بات بھی خوب اچھی طرح یاد رکھیں کہ جس طرح صدقہ جاریہ ہوتا ہے اسی طرح گناہ جاریہ بھی ہوتا ہے، لہذا احتیاط کیجئے.

8۔ کمنٹس میں گالیاں نہ دیں.

کمنٹس میں بداخلاقی سے پیش آنے اور گالیاں وغیرہ دینے سے اجتناب کریں:

فرمان نبویﷺ ہے: سِبابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ  (صحیح البخاری : 48)

’’مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اس کو قتل کرنا کفر ہے۔‘‘

9۔ ریاکاری (دکھلاوے) سے بچیں:

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں «نیکی کر فیس بک پہ ڈال» کا رواج عام ہوگیا ہے، اپنی ہر ہر نیکی سے لوگوں کو باخبر کرنے کیلئے نیکیوں کی خوب تشہیر کی جاتی ہے،نماز پڑھنے جارہا ہوں یا پھر بیت اللہ کا طواف کر رہا ہوں، کسی ضرورت مند کی مدد کر رہا ہوں یا پھر اعتکاف  بیٹھ رہا ہوں، الغرض اپنی تمام  نیکیوں سے لوگوں کو آگاہی فراہم کرنے کےلئے سوشل میڈیا پر اعلانات لگانا یا بوقت ادائیگی عبادت آن لائن ہوجانا یہ معمول بن گیا ہے، جب کہ قوی امکان ہے کہ اس عمل کی وجہ سےآپ ریاکاری جو کہ شرک اصغر ہےمیں مبتلا ہوجائیں (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 4204) اور یوں آپ کی تمام نیکیاں برباد ہوجائیں.

فرمان باری تعالی ہے: فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًاؒ۰۰۱۱۰ ( سورة الکھف 110)

’’پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اسے چاہیے کہ وہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔‘‘

 آیت مذکورہ میں ہر قسم کے شرک کی ممانعت ہے اور ریاکاری بھی شرک کی اقسام میں سے ایک قسم ہے نیز احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ریا کاری والا عمل اللہ تعالی کے ہاں مقبول نہیں بلکہ وہ عمل کرنے والے کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے۔(صحیح مسلم حدیث نمبر 2985)

10۔اپنے گناہوں کی نمائش نہ کریں:

 گناہ کرنے والوں کی دو قسمیں ہیں،  پہلی قسم ان لوگوں کی  ہے کہ جن سے اگر گناہ ہوجائے تو وہ ندامت کا اظہار کرتے ہوئے فورا اللہ تعالی کے حضور معافی مانگتے ہیں، یہ قابل ستائش ہیں۔جب کہ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے کہ جو گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتے بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر اعلانیہ گناہ کرتے ہیں جس کی ایک شکل سوشل میڈیا پر اس صورت میں دیکھنے کو ملتی ہے کہ بندہ گناہ کرتے ہوئے لوگوں کو بتا رہا ہوتا ہے کہ میں فلاں گناہ والا عمل اس وقت سر انجام دے رہا ہوں. مثلا اگر وہ گانا سن رہا ہو یا پھر کوئی ڈرامہ،فلم وغیرہ دیکھ رہا ہو تو وہ سٹیٹس کے ذریعے لوگوں کو بھی اپنے اس گناہ سے آگاہ کر رہا ہوتا ہے جبکہ گناہ خود ایک مذموم عمل ہے اور پھر اعلانیہ گناہ ہو تو اس کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے۔

حدیث میں آتا ہے: كُلُّ أَمَّتِى مُعَافًى إِلاَّ الْمُجَاهِرِينَ

’’میری ساری امت سے درگزر کر دیا گیا ہے سوائے اعلانیہ اور ظاہرکرکے (گناہ) کرنے والوں کے۔‘‘(بخاری 6069)

لہذا گناہ سے ہر ممکن طور بچیں ، بصورتِ ارتکاب گناہ کے فورا توبہ کریں اور گناہ کی تشہیر قطعا نہ کریں۔

11۔عیوب کی پردہ پوشی کیجئے:

لوگوں کے عیوب ٹٹولنا شریعت کی نگاہ میں ایک مذموم فعل ہے جس کا شمار کبیرہ گناہوں میں ہوتاہے۔

 ارشاد باری تعالی ہے:   وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۙ۰۰۱ (سورة الھمزة 1)

’’بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کےلے جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو ۔ ‘‘

نیز آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: لَا تُؤْذُوا الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُعَيِّرُوهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللہُ عَوْرَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ تَتَبَّعَ اللہُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحْلِهِ  (جامع ترمذی2023)

’’مسلمانوں کو تکلیف مت دو، ان کو عار مت دلاؤ اور ان کے عیب نہ تلاش کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا عیب ڈھونڈتا ہے، اور اللہ تعالیٰ جس کے عیب ڈھونڈتا ہے، اسے رسوا و ذلیل کر دیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو۔‘‘

مزید فرمایا:  وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

’’اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کے عیب چھپائے گا۔ ‘‘(بخاری 2442)

لہذا لوگوں کے عیوب ٹٹولنے یا ان کی کسی بھی صورت تشہیر کرنے سے باز رہیں چونکہ عیوب آپ کے اندر بھی پائیں جاتے ہیں اس لئے لوگوں کے عیوب کی پردہ پوشی کرنا سیکھیں نتیجے میں اللہ تعالی آپ کے عیوب کی پردہ پوشی فرمائے گا بصورت دیگر سخت وعید وارد ہوئی ہے جیسا کہ پچھلی حدیث سے واضح ہے.

12۔اپنی جنس مت بدلیں:

سوشل میڈیا کی دنیا میں عموما لڑکے اپنے مختلف مقاصد کے حصول کےلئے لڑکیوں کے نام سے جعلی اکاؤنٹ بنا کر لوگوں کو بےوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں، چنانچہ بہت سے لڑکیوں کے نام کی آئی ڈیز فضول فارغ لڑکے چلا رہے ہوتے ہیں، ان کے اپنے اغراض و مقاصد ہوتے ہیں اسی طرح بہت سے لڑکوں کے نام کی آئی ڈیز کو لڑکیاں چلا رہی ہوتی ہیں جب کہ یہ طریقہ شرعا عقلا ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے. بلکہ شرعی رو سے اس عمل پر سخت وعید وارد ہوئی ہے، حدیث میں آتا ہے: لَعَنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ ، وَالْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ (بخاری 5885)

’’رسول اللہ ﷺنے ان مردوں پر لعنت بھیجی جو عورتوں جیسا چال چلن اختیار کریں اور ان عورتوں پر لعنت بھیجی جو مردوں جیسا چال چلن اختیار کریں۔ ‘‘

اس حدیث سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب ایک دوسرے سے مشابہت اختیار کرنے والوں پر لعنت برستی ہے تو جو لوگ اپنی شناخت کو ہی تبدیل کرلیں تو وہ کس قدر لعنت کے مستحق ہوں گے!

13۔اپنے قیمتی اوقات کی حفاظت کیجئے.

وقت اللہ تعالی کی طرف سے  ایک عظیم نعمت ہے اور یہ نعمت تقاضا کرتی ہے کہ اسے ضائع نہ کیا جائے. آج ہماری زندگی میں سوشل میڈیا کی بڑی اہمیت ہے اور اس کی افادیت سے انکار بھی نہیں لیکن جہاں اس کے صحیح استعمال سے بہت سے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں وہیں اس کا غیر ضروری استعمال بہت سا قیمتی وقت ضائع کرنے کا سبب بھی بنتا ہے لہذا اسے ضرورت کی حد تک ہی استعمال کیا جائے.  ارشاد نبوی ہے: مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ (ترمذی 1489)

’’ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کو چھوڑ دے۔‘‘

اس حدیث کے لطیف پیرایہ میں اضاعت اوقات کی ممانعت اورحفاظت اوقات کے اہتمام کی طرف اشارہ ہے کہ آدمی ہر ایسے قول وعمل اور فعل و حرکت سے احتراز کرے جس سے دینی یا دنیاوی فائدہ حاصل  نہ ہو رہا ہو۔

یہ تھے سوشل میڈیا کے استعمال کرنے کے چند آداب اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ کیا سوشل میڈیا ہمارے لئے باعث رحمت ہے یا زحمت؟

 اس حوالے سے ہمارے معاشرے میں دونوں ذہن رکھنے والے افراد موجود ہیں، بعض لوگ صرف فوائد ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بعض نقصانات، جب کہ مبنی برحقیقت تو یہ ہے کہ ان دونوں پہلوؤں کی موجودگی کو تسلیم کیا جائے۔

 اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ  انسانی زندگی میں سوشل میڈیا کی اہمیت اور اس کا کثرت استعمال بڑھتا جارہا ہے. عصر حاضر میں سوشل میڈیا کی دنیا میں آزاد فضا میسر ہونے کے باعث معاشرے کی ایک بہت بڑی تعداد کہ جن میں بالخصوص نوجوان طبقہ اور بالعموم ہر عمر کے افراد شامل ہیں، سوشل میڈیا پر اپنا زیادہ تر وقت صرف کرنے کو ترجیح دے رہی ہے چونکہ یہ ان کےلئے ہر قسم کے خیالات اور نظریات کو بغیر کسی روک ٹوک کے اظہار کرنے اور ہر قسم کے لوگوں کے سامنے پیش کرنے کےلئے ایک اسٹیج کی حیثیت رکھتا ہے لہذا  اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو اپنے نظریات دوسروں تک پہنچانے اور معاشرے کے ایسے لوگوں کے نظریات سے گھر بیٹھے مستفید ہونےکا موقع ملتا ہے کہ جن تک بظاہر ان کی رسائی بھی ممکن نہ تھی، بلکہ اگر ہم ماضی قریب کا جائزہ لیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ سوشل میڈیا کے وجود سے قبل ایک عام شخص کےلئے اپنے خیالات اور نظریات کا اظہار کرنا اور اسے فروغ دینا قدرے مشکل تھا چونکہ یہ اس کےلئے پرنٹ میڈیا وغیرہ پر لمبے چوڑے اخراجات برداشت کیے بغیر ممکن نہ تھا، مگر عصر حاضر میں سوشل میڈیا نے اسے بھی ممکن بنا دیا ہے کہ جس کی وجہ سے مثبت اور منفی دونوں طرح کے نتائج ابھرکر ہمارے سامنے ظاہر ہورہے ہیں، لہذا  پہلے ہم سوشل میڈیا سے حاصل ہونے والے مثبت نتائج پر ذرا غور کرتے ہیں کہ اس کے مثبت استعمال سے کیا فوائد حاصل ہورہے ہیں یا  ہوسکتے ہیں اور بعد ازاں اس کے باعث زحمت ہونے کی وجہ اختصار کے ساتھ بیان کریں گے.

فوائد کا مختصر جائزہ:

سوشل میڈیا کا سب سے اہم اور بنیادی فائدہ تو یہ ہے کہ اس کے ذریعے اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت اور دین کی  صحیح  تبلیغ کےلئے خاصی مدد لی جاسکتی ہے،چونکہ ہم سوشل میڈیا کے توسط سے انتہائی کم وقت میں ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد تک اسلامی تعلیمات پہنچاسکتے ہیں،اگرچہ ماضی میں سوشل میڈیا  کے وجود سے قبل اسلامی تعلمیات کے فروغ میں منبر ومحراب اور کتب و رسائل کا اہم کردار رہا ہے (جوکہ تاحال برقرارہے )وہیں آج اغیار کے شکوک وشبہات کے ازالے اور ان تک اسلامی تعلیمات پہنچانے کےلئے سوشل میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو شاید بےجا نہ ہوگا کہ اس پرفتن اور ٹیکنالوجی کے دور میں کتابوں کے مطالعے کا سلسلہ مفقود ہوتا جارہا ہے اور جہاں تک منبرو محراب کا تعلق ہے تو اس کے ذریعے محدود افراد تک ہی دعوت پہنچائی جاسکتی ہے لہذا دعوت و تبلیغ کے فروغ کو اگر منبر ومحراب تک ہی محدود رکھا جائے تو بلامبالغہ  انتہائی محنت کی ضرورت ہوگی چونکہ منبر ومحراب سے دی جانے والی تعلیمات سے وہی افراد مستفید ہوتے ہیں کہ جو بوقت نصیحت موجود ہوں، غائبین کےلئے براہ راست استفادہ کی صورت ممکن نہ تھی لیکن موجودہ دور میں سوشل میڈیا نے منبر ومحراب کے دائرے کو اس قدر وسیع کردیا ہے کہ یہاں سے دی جانے والی تعلیمات کو پوری دنیا تک پہنچانا بذریعہ سوشل میڈیا ممکن ہوا، براہ راست سوشل میڈیا پر نشر کرنے سے نہ صرف حاضرین بلکہ غائبین بھی مکمل طور پر مستفید ہوئے، علاوہ ازیں سوشل میڈیا کے توسط سے لوگوں کی صحیح معنوں میں تربیت ممکن ہوئی لہذا دین دار طبقوں کا محض سوشل میڈیا کو شر قرار دے کر اس سے کنارہ کش ہوجانا یہ قطعا عقل مندی نہیں ہے چونکہ جس طرح ایک ہتھیار سے اگر کسی معصوم بے گناہ انسان کا قتل کیا جاتا ہے تو اسی ہتھیار سے ملک و قوم کا دفاع بھی کیا جاتا ہے، لہذا  آج دین کے ہر طالب علم کو علماء کی سرپرستی میں سوشل میڈیاایکٹویسٹ بننے کی ضرورت ہے، تاکہ تبلیغ کے دائرے کو مزید وسیع کیا جاسکے. مزید اس بات کو بھی خوب اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی چیز بذات خود بری نہیں ہوتی بلکہ اسے استعمال کرنے کا طریقہ اسے اچھا یا برا بنادیتا ہے، یہ بات بھی مبنی برحقیقت ہے کہ سوشل میڈیا کو آج کے اس پر فتن دور میں بہت سے لوگ خیر کے کاموں کیلئے بھی استعمال کر رہے ہیں جیساکہ ان کا بذریعہ فیس بک، واٹس اپ اور اسکائپ لوگوں کو آن لائن قرآن مجید کی تعلیم دینا، مختلف نوعیت کے کورسز کا انعقاد کرنا اور ان آلات کے ذریعے شرعی تعلیم و تعلّم کا اہتمام کرنا یہ ساری چیزیں قابل ستائش ہیں، علاوہ ازیں بہت ساری ایسی ویب سائٹس بھی بنائی جاچکی ہیں کہ جن کے ذریعے گھر بیٹھے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے، تو یہ ہم پر ہی منحصر ہے کہ ہم کسی بھی چیز کا استعمال مثبت کریں یا منفی، لہذا میری نوجوانوں کو نصیحت ہے کہ خدارا آپ اس ملک کا سرمایہ ہیں، سوشل میڈیا کے فضول استعمال سے اپنے آپ کو برباد مت کریں بلکہ اسے مثبت مقاصد کےلئے استعمال کرتے ہوئے جتنا ممکن ہوسکے فوائد حاصل کریں چونکہ آج کے اس الیکٹرونک دور میں اسلام کے فروغ کے لئے سوشل میڈیا کا بڑا اہم کردار ہے لہذا اس سے مزید فائدہ اٹھانے کی ضروت ہے اور اس اعتبار سے سوشل میڈیا انتہائی فائدہ مند آلہ ثابت ہورہا ہے کہ جس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا.

سوشل میڈیا باعث رحمت یا باعث زحمت کب؟

 ایک مشہور مقولہ ہےکہ ہر چیز کی زیاتی نقصان دہ ہوتی ہے، انسانی تخلیق کردہ ہر شے میں جہاں فوائد کا پایا جانا ایک حقیقت ہے وہیں بے جا یا غلط استعمال کرنے کے بےشمار نقصانات اور منفی نتائج کا ظہور پذیر ہونا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس سے کوئی عاقل قطعا انکار نہیں کرسکتا. آج سوشل میڈیا (بالخصوص فیس بک) پر اسلام دشمنوں کی جانب سے اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کا بازار گرم ہے بلکہ معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے متنفر کرانے کیلئے کچھ افراد نے ایسے ایسے گروپس یا ویب سائٹس وغیرہ بنا رکھے ہیں کہ جہاں وہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کر رہے ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے نوجوانوں نے ان سب گروپس، ویب سائٹس اور ایپلی کیشنز کو تفریح کا ذریعہ بنا لیا ہے اور اپنے آپ کو اسی کےلئے وقف کر رکھا ہے نتیجتاً وہ اسلام کے حوالے سے شکوک وشبہات میں مبتلا ہورہے ہیں. اس کے علاوہ  سوشل میڈیا پر بہت سے ایسے گروپس وغیرہ بھی ہیں کہ جن میں غیراخلاقی مواد کی بھرمار ہیں کہ جو نوجوانوں کو فتنوں اور گمراہ کن نظریات کی طرف دھکیل رہی ہیں کہ جس کا نتیجہ نوجوانوں میں مذہب سے نفرت اور برائیوں میں بری طرح مبتلا ہونے کی صورت میں ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے. ایسے عناصر کو اللہ تعالی سے ڈرنا چاہیے اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم جو کچھ بھی اس سوشل میڈیا کے ذریعے کر رہے ہیں  یہ سب قیامت کے دن ہمارے لیے وبال جان بن جائےگا اور یہی اعضا ءکہ جن کی مدد سے ہم سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں جوکہ اللہ تعالی کی طرف سے یقینا ً بہت بڑی نعمت ہے، قیامت کے دن ہمارے حق میں یا خلاف اللہ تعالیٰ کے حضور گواہی دیں گے۔(مزیدتفصیل کےلیے دیکھے سورہ حم السجدہ کی آیات20تا24)

لہذا ہمیں اپنے انجام سے ڈر جانا چاہئے!

  سوشل میڈیا کے نقصانات میں سے ایک اور  نقصان شخصی آزادی کے غلط استعمال کا بڑھ جانا ہے، بوجہ شخصی آزادی ہی کے آج سوشل میڈیا پر مثبت پہلؤوں کو کم جب کہ منفی پروپیگنڈوں کو زیادہ اجاگر کیا جاتا ہے، جس کا جو دل چاہتا ہے وہ سوشل میڈیا پر اس کا اظہار کردیتا ہے چاہے وہ شریعت، قوم و ملت اور ریاست کے خلاف پروپیگنڈے پر ہی مبنی کیوں نہ ہو، جہلاء اور کم علم لوگوں کی طرف سے اسلامی تعلیمات کے نام پر  خرافات کو پھیلایا جاتا ہے۔ فحاشی،عریانی اور بے حیائی کو فروغ دیا جاتا ہے، جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۰۰۱۹(سورة النور 19)

’’بےشک وہ لوگ جو پسندکرتےہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلے ان کےلیےدنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ تعالی جانتاہے تم کچھ نہیں جانتے۔‘‘

اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ فحاشی اور بے حیائی کے دلدادہ لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیامیں بھی عذاب تیارکررکھاہے، اور آخرت میں تو ان کےلئے عذاب جہنم کی صورت میں ہے ہی کہ جس سے مفر نہیں۔

دور حاضر میں مذموم مقاصد کے حصول کےلئے سوشل میڈیا کا خوب استعمال کیا جارہا ہے، سوشل میڈیا ہی کی مدد سے جھوٹ، جعلی خبروں اور افواہوں کو چند سیکنڈوں میں اس قدر وائرل کردیا جاتا ہے کہ عام لوگوں کےلئے قابل اعتماد ذرائع ابلاغ اور واضح سچائی پر یقین کرنا ناممکن ہوجاتا ہے، جھوٹ کو اس انداز کے ساتھ مزین کرکے پیش کیا جاتا ہے کہ وہ سچ لگنے لگتا ہے اور بلآخر یہی جھوٹی باتیں، افواہیں اور خبریں معاشرے میں بغاوت اور فسادات پھوٹنے کا باعث بنتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات ہمیں بغیر تحقیق و تصدیق کے کسی بھی خبر کو نشر کرنے کی قطعا اجازت نہیں دیتا تاکہ معاشرے میں امن و امان کی فضاء کو برقرار رکھا جاسکے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:  يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْۤا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ۰۰۶ )سورة الحجرات6)

’’اے ایمان والو! اگر تمہارےپاس کوئی فاسق شخص خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ کرو کہ تم کسی تم جہالت میں کسی قوم پر حملہ کر بیٹھو پھر تم بعد میں اپنے کیے پر نادم ہو جاؤ۔‘‘

نیز فرمان نبوی علیہ السلام ہے: كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ (صحيح مسلم)

کہ کسی انسان کے جھوٹا اور ایک روایت کے مطابق گناہگار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے۔‘‘

لیکن آج بدقسمتی سے سوشل میڈیا کے فتنہ نےجھوٹ کو اس قدر عام کردیا ہے کہ بسا اوقات جھوٹ بھی سچ لگنے لگتا ہے اور یوں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد  اسلامی تعلمیات کو بھلا بیٹھنے کے باعث کسی نا کسی حد تک جھوٹ کو نشر کرنے کے مرض میں مبتلا پائے جاتے ہیں بلکہ معاملہ تو یہاں تک جا پہنچا ہے کہ پیارے نبی علیہ السلام کی ذات مبارکہ کو بھی نہیں بخشا جاتا  اور آپ علیہ السلام کی طرف بھی جھوٹ منسوب کردیا جاتا ہے بلکہ یہ تو روز کا معمول بن گیا ہے جبکہ یہ معاملہ  انتہائی سنگین ہے، اس کا انجام حدیث میں یوں بیان ہوا ہے

إِنَّ كَذِبًا عَلَيَّ لَيْسَ كَكَذِبٍ عَلَى أَحَدٍ، مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ (بخاری شریف: 1209)

’’میرے اوپر جھوٹ بولنا کسی عام شخص پر جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے، جو شخص جان بوجھ کر میری جانب جھوٹی بات منسوب کرے تو اس کو چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے۔‘‘

لہذا شریعت ہمیں اس بات کی قطعا اجازت نہیں دیتی کہ ہم کسی بھی بات کو بغیر تحقیق (اور حوالے) کے خواہ وہ بات  قرآن و حدیث کا نام لے کر ہی کیوں نہ کہی گئی ہو، آگے پھیلائیں. بلکہ حکم یہ دیا گیا ہے کہ اگر ہمیں کوئی خبر ملے تو ہم اسے علماء کے سامنے پیش کر کے اس کا حکم معلوم کریں۔

ارشاد باری تعالی ہے: وَاِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ  وَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰۤى اُولِي الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْؕ  وَلَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا۰۰۸۳ (سورة النساء:83)

’’یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن لیتے ہیں اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں، حالانکہ اگر یہ اُسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آ جائے جو اِن کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں۔‘‘

تو خلاصہ یہ ہے کہ ایسی کسی بات کو بھی تسلیم نہیں کرنا چاہئے کہ جو بغیر دلیل کے کہی گئی ہو چاہے کہنے والا کوئی بھی کیوں نہ ہو، اگر اس حوالے سے تحقیق ممکن ہو تو ہر صورت تحقیق کی جائے بصورت دیگر نہ تو اس خبر پر یقین کیاجائے اور نہ ہی اسے نشر کیا جائے.

سوشل میڈیا کہ مضر اثرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آج بدقسمتی سے ایک طرف ہماری نوجوان نسل اس سوشل میڈیا کےپیچھے اپنے قیمتی اوقات کوضائع کرنے میں لگی ہوئی ہےاور وہ اس حوالے سے احساس بھی کھو بیٹھی ہیں اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے شرعی تعلیمات سیکھنا تو دور کی بات آج وہ اپنا مقصد زندگی ہی بھلا بیٹھے ہیں اور اپنے اوقات بدقسمتی سے منفی کاموں میں  صرف کرنے میں مصروف عمل ہیں جو کہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر اسلام دشمنوں کی طرف سے شرعی تعلیمات کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اور لوگوں کی غلط ذہن سازی کی جاتی ہے، نتیجے میں  لوگوں کی ایک بڑی تعداد بوجہ علماء سے دو ہونے کے اسلام کے حوالے سے شکوک وشبہات میں مبتلا ہورہی ہے اور یوں شر کے پنجے مضبوط ہوجرہے ہیں کہ جن کا مقابلہ کرنا ہر صورت علماء وطلباء کےلئے ناگزیر ہوجاتا ہے اور ان کےلئے ان سب فتنوں کا مقابلہ سوشل میڈیا کا سہارا لیے بغیر ممکن ہی نہیں ہوتا لہذا علماء کا سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی کا وقتا ًفوقتاً احساس دلاتے رہنا یہ ان لوگوں کےلئے کہ جن کا علماء سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا باعث نفع ثابت ہوتا ہے، نتیجہ میں یہ علماء سے منسلک ہوجاتے ہیں اور مختلف فتنوں میں مبتلا ہونے سے اپنے آپ کو کسی حد تک بچا لیتے ہیں. دورحاضر میں سوشل میڈیا پر ہونے والے اسلام دشمنوں کی سازشوں کا جواب اگر سوشل میڈیا کے ذریعے نہ دیا جائے تو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کیا جاسکتا ہے، لہذا خلاصہ یہی نکلتا ہے کہ سوشل میڈیا بذات خود باعث نفع یا باعث مضر نہیں ہے بلکہ اس کے فوائد اور نقصانات کا انحصار اس کے استعمال کرنے والوں پر منحصر  ہے کہ وہ ان آلات کو کن مقاصد کےلئے استعمال کرتے ہیں، اگر وہ مثبت مقاصد کےلئے استعمال کریں تو اس کے ناقابل یقین ثمرات معاشرے کو مل سکتے ہیں اور مل رہے ہیں اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو ایسی صورت میں سوشل میڈیا سے زیادہ خطرناک شے کوئی نہیں، ایسی صورت میں سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔

لہذا ضروت اس امر کی ہے کہ ہم سوشل میڈیا کے ذریعے معاشرےمیں  پھیلتی برائیوں  اور اس کے  غلط استعمال کا سدباب کریں اور مثبت مقاصد کے حصول کےلئے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کریں تاکہ ہم اس سے حقیقی معنوں میں فائدہ اٹھا سکیں۔ اللہ تعالی توفیق کی نعمت سے نوازے۔آمین –

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے