پہلا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، وہ قوت والا اور مضبوط ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں ، اور اس کا کوئی شریک نہیں، وہ بہت بڑا انتقام لینے والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد  اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
مسلمانو! میں تمہیں اور اپنے آپ کو تقوی الہی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں، یہی اللہ تعالی کی گزشتہ اور پیوستہ سب لوگوں کیلئے تاکیدی نصیحت ہے۔
مسلمانوں کو جن مشکلات کا سامنا ہے، جو تکلیفیں انہیں پہنچ رہی ہیں، عذاب کی جتنی بھی صورتیں ان کے آنگن میں رونما ہیں، یہ تمام امور ان سے محاسبہ نفس کرنے کا تقاضا کرتے ہیں، حالات انہیں مقامِ استفسار پر لا کھڑا کر رہے ہیں کہ پروردگار کے ساتھ ان کا تعلق کیسا ہے؟ وہ اپنے دین پر اور نبی کریمﷺ کی سیرت پر کس قدر عمل پیرا ہیں؟
کوئی بھی انسان ان حالات کا خاتمہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس لیے ان حالات کا تقاضا ہے کہ مسلمان اپنی سمت اور منہج کو سمجھیں، خوابِ غفلت سے بیدار ہوں اور شریعتِ الہی و سنتِ نبوی پر عمل پیرا ہونے میں کی جانے والی کوتاہی کا خاتمہ کریں۔
مسلمانوں پر اجتماعی ،انفرادی ، علاقائی اور عالمی مصیبتیں آن پڑی ہیں، جن سے ایسے اسباب کی تلاش مزید دو چند ہو گئی ہے جو انہیں مشکلات سے نکالیں اور نقصانات سے بچائیں، ان تمام اسباب کی جڑ اور بنیاد جو کہ بہت سے لوگوں کے ذہنوں سے اوجھل ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی کامل بندگی کریں، ہم اللہ تعالی کی شریعت پر عمل پیرا ہوں اور دکھ سکھ، خلوت و جلوت ہر حالت میں اللہ تعالی کو اپنا نگران و نگہبان سمجھیں، پروردگار کا فرمان ہے:

وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا[الطلاق: 2]

اور جو اللہ سے ڈرے اللہ تعالی اس کیلئے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے۔
سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: یعنی:اللہ تعالی اسے دنیا و آخرت کی تمام مشکلات سے نجات دیتا ہے۔
چنانچہ جس وقت بھی مسلمان اس بنیادی نکتے پر انفرادی اور اجتماعی عمل کریں گے تو ان کیلئے تمام تنگیوں سے نکلنے کا راستہ بن جائے گا، جس وقت بھی مسلم معاشرے  اپنی زندگی کے تمام گوشوں میں اسی طرح عمل پیرا نہیں ہو جاتے جیسے کہ ہمارےنبی کریم ﷺ اور اس امت کے سلف صالحین رحمہم اللہ عمل پیرا تھے، وہ جب بھی اسے عملی جامہ پہنا دے گیں تو ان کے حالات سدھر جائیں گے، زندگی خوشحال ہو جائے گی، ان کے امور سنور جائیں گے، اور امن و امان قائم ہو گا، بلکہ ان کا دشمن بھی شکست خوردہ ہو جائے گا۔
جب بھی مسلمانوں کا کوئی حکمران یا ذمہ دار شخص تقوی الہی اپنائے تو اس کی عزت، رفعت اور سلطنت میں اضافہ ہوتا ہے اور زندگی میں اس کی شان بلند ہوتی ہے اور اس کا انجام بھی بہت اچھا ہوتا ہے:

أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ [يونس: 62]

 خبردار! بیشک اللہ کے اولیاء پر نہ خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔
انہیں جتنی بھی تکلیفیں آن پہنچیں اللہ تعالی کی خصوصی معیت اور حمایت ان کے ساتھ ہوتی ہے جو ان کی حفاظت فرماتی ہے اور ان کا خیال رکھتی ہے۔
جب یہ قطعی اصول معلوم ہو گیا تو مسلمانوں کو آج  اپنے دین، جان، مال، عزت آبرو، معیشت اور روزی روٹی کیلئے مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا ہے، ان کی وجہ سے زندگی اچھی نہیں گزر رہی ، انہیں خوشحالی میسر نہیں ہے، ان کے راستے پر امن نہیں ہیں، حالات میں استحکام مفقود ہے، تو مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوں، عقل کے ناخن لیں، ان کٹھن حالات سے سبق سیکھ کر اپنے پروردگار سے رجوع کریں، اور یہ یقین رکھیں کہ حالات جتنے بھی سنگین ہو جائیں تب بھی اللہ کے دین اور شریعت سے رو گردانی اسی طرح گناہوں اور ممنوعہ کام کرنےپر ملنے والی اخروی سزاؤں سے یہ حالات کہیں کم تر ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَى وَهُمْ لَا يُنْصَرُونَ

اور آخرت کا عذاب زیادہ رسوا کن ہے اور ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔[فصلت: 16]
اسی طرح فرمایا:

وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ  [السجدة: 21]

 ہم انھیں بڑے عذاب سے پہلے ہلکے عذاب کا مزا بھی ضرور چکھائیں گے تا کہ وہ باز آ جائیں۔
مسلم اقوام!اللہ تعالی نے فضل و کرم اور سخاوت و رحمت فرماتے ہوئے ہمارے ذہنوں سے اوجھل ہمیں ایک حقیقت سے بہرہ ور فرمایا حالانکہ دنیاوی نقطۂ نظر کو سامنے رکھ کر سیاسی تجزیے بہت کیے جاتے ہیں لیکن یہ حقیقت بے اعتنائی کا شکار ہی رہتی ہے ، اس کے بارے میں ہمارا پروردگار فرماتا ہے:

وَبَلَوْنَاهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

اور ہم انہیں اچھے اور برے حالات سے آزماتے رہے تاکہ وہ [اللہ کی طرف] پلٹ آئیں۔[الأعراف: 168]
اسی طرح فرمایا:

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

بر وبحرمیں فساد پھیل گیا ہے جس کی وجہ لوگوں کے اپنے کمائے  ہوئے اعمال ہیں تا کہ اللہ تعالی لوگوں کو ان کے کچھ اعمال کا مزا چکھا دے؛ امید ہے کہ وہ ایسے کاموں سے باز آ جائیں ۔[الروم: 41]
مسلمانوں کو مختلف انواع و اقسام کی مصیبتوں اور آزمائشوں کا سامنا ہے ، اس صورت میں ان کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ مسلمان اپنے رب سے رجوع کریں، اسی کے سامنے گڑ گڑائیں، تمام گناہوں اور ہلاک کرنے والے اعمال سے سچی اور پکی توبہ مانگیں، ہر قسم کے گناہوں اور برائیوں سے پہلو تہی کا اللہ تعالی سے معاہدہ کر کے اسی کی جانب متوجہ ہوں، انفرادی اور اجتماعی ہر اعتبار سے بدی اور مہلک گناہوں کے راستے چھوڑ دیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ

آپ سے پہلے ہم بہت سی قوموں کی طرف رسول بھیج چکے ہیں۔ پھر ہم نے انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کر دیا تاکہ وہ عاجزی سے دعا کریں ۔[الانعام: 42]
اسلامی بھائیو!ان مصیبتوں کو اللہ کے سوا کوئی دور نہیں کر سکتا، اللہ کی طرف ہی دوڑو، اےامت مسلمہ! گناہوں کی وجہ سے جو خرابیاںپیدا ہوئیں ہیں انہیں نیکی سے درست کرو، تمہاری زندگی میں معصیت اور مہلک گناہوں کا اندھیراہے اسے تقوی کے نور اور آسمان و زمین کے پروردگار کی بندگی سے بدل دو اور افضل المخلوقات ﷺ کی سنت پر کار بند ہو جاؤ، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَتُوبُوا إِلَى اللهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [النور: 31]

اور سب کے سب اللہ کی طرف توبہ کرو اے مومنو، تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

فَإِنْ يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَهُمْ

اگر وہ توبہ کریں تو ان کیلئے بہتر ہو گا۔[التوبة: 74]
اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ

کیا یونس کی قوم کے سوا کوئی ایسی مثال ہے کہ کوئی قوم (عذاب دیکھ کر) ایمان لائے تو اس کا ایمان اسے فائدہ دے ؟ جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں ان سے رسوائی کا عذاب دور کر دیا اور ایک مدت تک انہیں سامان زیست سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔ [يونس: 98]
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:جس وقت یونس علیہ السلام کی قوم نے عذاب کے اسباب دیکھے جن سے یونس علیہ السلام ڈراتے تھے تو سب کے سب اللہ تعالی سے پناہ اور مدد مانگنے کیلئے نکل کھڑے ہوئے، وہ سب کے سب اپنے بال بچوں، ڈھور ڈنگروں کے ساتھ باہر نکل آئے اور اللہ تعالی سے عذاب ٹالنے کی التجا کرنے لگے تو اللہ تعالی نے ان پر رحم فرمایا اور ان سے عذاب ٹال دیا انہوں نے اپنی زبان سے مانگا اور زبانِ حال سے اپنی بات کی تصدیق بھی پیش کی۔
اور اے امتِ سید الانبیاء و افضل المرسلین! تم سب سے بہترین امت ہو، اللہ تعالی نے تم سے یقینی وعدے فرمائے ہیں، اللہ تعالی کا فضل کبھی مؤخر نہیں ہو گا بشرطیکہ تم مصیبت کے وقت اپنے رب کی جانب رجوع کرو، مشکل کے وقت تم اسی سے تعلق بناؤ، تم پر آنے والی مصیبت باقی نہیں رہے گی، اور آئندہ تم پر عذاب نازل نہیں ہوں گے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ

اور اللہ تعالی انہیں استغفار کرنے کی حالت میں عذاب دینے والا نہیں ۔[الأنفال: 33]
نبوی درسگاہ کے تربیت یافتہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:تم اپنی کثرتِ تعداد کی وجہ سے غالب نہیں آتے، بلکہ تمہاری فتح آسمان سے آتی ہے۔
حدودِ الہی کی پاسداری کرو، تمہیں اللہ تعالی کی جانب سے رحمت ملے گی جس سے تمہاری زندگی سنور جائے گی، بد حالی ختم ہو جائے گی اور تمہارا دشمن پیٹھ پھیر کر بھاگے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:

لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

تم اللہ تعالی سے استغفار کیوں نہیں کرتے تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔[النمل: 46]
مسلم حکمرانو!امت مسلمہ کے علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے کسی سے مخفی نہیں ہے، پوری امت کو خطرات اور خوف و ہراس نے اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے یہ اللہ کی رحمت کے بغیر ختم ہونے والے نہیں ہیں، یہ حالات تمہیں اللہ تعالی کے سامنے ایک فریضہ اور واجب ادا کرنے کیلئے کھڑا کرتے ہیں کہ تم اپنا محاسبہ کرو، تم امت کے حالات کو شریعت کے ترازو میں تولو، تم سنجیدگی ، اخلاص اور سچے دل کے ساتھ بہتری کیلئے کوششیں کرو اور صرف وہی اقدامات کرو جن سے اللہ تعالی راضی ہو، یہ امت امانت ہے ، یہ امت تمہاری گردنوں پر امانت ہے اللہ تعالی کے سامنے اس دن تم سے پوچھا جائے گا جب مال اور اولاد کچھ بھی فائدہ نہیں دیں گے، جب الجبار عزوجل فرمائے گا: آج بادشاہی کس کیلئے ہے ؟ اور پھر خود ہی فرمائے گا: صرف زبردست اور تنہا اللہ کیلئے !
سیاست صرف شریعت الہی کے مطابق کرو، ان کی رہنمائی رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق کرو، اپنے معاشروں میں شریعتِ الہی کا نفاذ کرو، شریعت کا نفاذ ساری مخلوق پر واجب ہے، تمہارے معاشروں میں جو کچھ بھی رضائے الہی کے منافی امور ہیں ان کا مقابلہ کرو اور ایسے بن جاؤ جیسے کہ اللہ تعالی نے تمہیں حکم دیا ہے:

الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ [الحج: 41]

اگر ہم انہیں زمین کا اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں، بھلے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں اور سب کاموں کا انجام تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
خلیفہ سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: “بیشک اللہ تعالی حکمران کے ذریعے ان چیزوں کا بھی سد باب فرما دیتا ہے جن کا سد باب قرآن سے نہیں ہوتا۔
تمہارے ذریعے ہی اللہ تعالی امت کے حالات درست فرمائے گا بشرطیکہ تم امت کو مرادِ الہی کے مطابق ڈھال دو، لہذا اپنے اپنے ممالک کے امور اسلام کے مطابق سدھارو، اس طرح امت شر سے محفوظ ہو جائے گی اور تمام خدشات اور خطرات سے نجات پا جائے گی، امت کو حقارت، رسوائی اور عار سے خلاصی ملے گی، ساری امت کے دستور کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کا بتلایا ہوا اصول ہو: تم اللہ کے حقوق کی حفاظت کرو، اللہ تمہاری حفاظت کرے گا اور تم اللہ کو اپنے سامنے پاؤ گے۔
اس لیے مسلم حکمرانو! مسلم معاشروں کے متعلق اللہ تعالی سے ڈرو ، دین اسلام کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو اور یہ جان لو کہ تم پر سب سے بڑی ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ لوگوں کی دینی اور دنیاوی ضرورتوں کو تحفظ دو، نیکی کا حکم دو برائی سے روکو، کھلے عام گناہ کرنے والوں اور ہلڑ بازی کرنے والوں کو پکڑو، تمام مسلم معاشروں میں ہر صاحب منصب کی یہ ذمہ داری ہے، اللہ تعالی کے سامنے کھڑا ہونے سے پہلے ذرا رسول اللہ ﷺ کا فرمان کان کھول کر سنو:کسی بھی بندے کو اللہ تعالی رعایا پر حکمران بنائے اور اسے جب موت آئے تو وہ اپنی رعایا کو دھوکا دینے والا ہو تو اللہ تعالی اس پر جنت حرام کر دیتا ہے۔( متفق علیہ)
سب سے بڑا ظلم لوگوں کو ان کے دین سے پھیرنا اور پھر اس کے بعد ان کے ذریعہ معاش کو تباہ کرنا سب سے بڑا ظلم ہے۔اسلام کو تحفظ دو، مسلم حکمرانو! تمام دشمنوں کے سامنے ایک صف میں کھڑے ہو جاؤ، دشمن تمہارے بارے میں کسی قرابت اور معاہدے کا پاس نہیں رکھتے، خطرات موڑنے کیلئے سب متحد ہو جاؤ، شریر لوگوں کے شر کی روک تھام کیلئے اٹھ کھڑے ہوں، کینہ رکھنے والے دشمنوں کی چالوں اور لالچی حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کیلئے تیاری کرو،اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ

 اور اپنی استطاعت کے مطابق ان کے مقابلے کیلئے قوت تیار رکھو۔[الأنفال: 60]
اور قوت میں توبہ اور شریعتِ الہی کے مطابق اپنے امور سنوارنا بھی شامل ہے۔میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور اللہ تعالی سے اپنے اور تمام سامعین کے گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہوں ، آپ بھی اسی سے بخشش طلب کریں، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں صرف ایک اللہ کیلئے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کےعلاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمدﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر رحمتیں ، برکتیں اور سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

لوگو!تقوی الہی اپناؤ، اللہ تعالی تمہارے لیے ہر قسم کی تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا دے گا اور ہر پریشانی سے تمہیں نکال دے گا اور تمہیں وہاں سے روزی عطا فرمائے گا جہاں سے تمہیں وہم و گمان بھی نہیں ہو گا۔
امت اسلامیہ!تمام مسلمانوں کو حلب اور موصل میں رونما ہونے والے سفاکانہ قتل عام نے انتہائی رنجیدہ کر دیا ہے، اس ستم گری اور خون ریزی میں سفاکیت کی انتہا کر دی گئی ہے، لیکن اگر مصیبتیں بڑھتی جائیں تو ہمیں چاہیے کہ غالب اور عطا کرنے والے سے گڑگڑا کر مانگیں، امید اور خوف دونوں کے ساتھ اسی کو پکاریں، اسی کی بندگی اخلاص کے ساتھ کریں۔سلف صالحین میں سے کسی نے کہا ہے: ” مجھے چار لوگوں کے بارے میں تعجب ہے کہ وہ چار آیتوں سے کیسے غافل ہو جاتے ہیں: جسے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اس آیت سے کس طرح غافل ہو جاتا ہے:

وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِنْ ضُرٍّ [الأنبياء: 83، 84]

 اور ہم نے ایوب کو بھی نوازا جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا: ” مجھے بیماری لگ گئی  ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہےچنانچہ ہم نے ان کی دعا قبول کی اور جو بیماری انہیں لگی تھی اسے دور کر دیا۔اور جس شخص کو دکھ اور غم ہو تو وہ کس طرح اللہ تعالی کے یونس علیہ السلام کے بارے میں فرمان سے غافل ہو جاتا ہے:

أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ [الأنبياء: 87، 88]

تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو پاک ہے میں ہی قصور وار تھا تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کیا اور انہیں اس غم سے نجات دی اور ہم اسی طرح ایمان رکھنے والوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔
جس شخص کے بارے میں لوگ مکاریاں کر رہے ہوں تو وہ کیسے  اللہ تعالی کے اس فرمان سے غافل ہو جاتا ہے:

وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللهِ إِنَّ اللهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ فَوَقَاهُ اللهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا [غافر: 44، 45]

 اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ بلاشبہ اللہ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔ تو ان لوگوں نے جو چالیں اس کے خلاف چلی تھیں اللہ نے ان سے اسے بچا لیا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے