سب کہاں کچھ لالہ وگُل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا کیا صورتیں پنہاں ہوگئیں
مولانا محمد رمضان یوسف سلفی مرحوم ومغفور ایک کُھنہ مشق، سوانح نگار، درد مند دل کے مالک ،مثال مورخ ہونے کے ساتھ اہم مخلص ، محبت کرنے والے ، بےلوث اور محبوب علمی دوست بھی تھے یہ ان کا بڑا پن تھا کہ ان سے اختلاف رکھنے والے بھی ان سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے فن’’ یادرفتگان‘‘ درحقیقت ادبی نوحہ خوانی ہے جس میں بلاشبہ سلفی مرحوم نے اپنی جانی پہچانی شخصیات کے ہو بہو |||’’نقوش زندگی‘‘ ادبی رنگوں کے ساتھ اُبھار کر اپنے قارئین کرام تک پہنچائے، اس کے علاوہ سلفی صاحب نے توحید باری تعالیٰ ، سنت نبویﷺ ، سیرت رسولﷺ ، ختم نبوت، اخلاق حمیدہ، تاریخ اسلام،سفرنامے اور حالات حاضرہ پر بھی ناقابل فراموش علمی وادبی خدمات جلیلہ سرانجام دیں مگر
آں قدح بشکست وآں ساقیآنہ ھاند
اللہ تعالیٰ نے سلفی صاحب کو علم دوست اور خوبصورت خاکہ نگاری سے بڑی فیاضی سے نوازا تھا نہ صرف اتنا بلکہ آپ ایک بہترین کتب کے تبصرہ نگار بھی تھے۔ جو مصنفین کی تصانیفات لطیف پر جاندار تبصرہ نگاری میں بڑی محنت،عرق ریزی سے مطالعہ دیدہ ریزی اور دیانتداری سے کام لیتے تھے کتاب کے حسن وقبح مندرجات کا پورا جائزہ لے کر رائے دیتے تھے،خصوصاً سیرت وسوانح نگاری میں بڑی مہارت رکھتے تھے، اس لئے لوگ اُن کے خاکوں کو بڑی دلچسپی سے پڑھتے تھے۔
ورنہ کسی کے حالات زندگی کو سلیقے اور قرینے سے لکھنا کوئی آسان کام نہیں اس موضوع پر جو دسترس مولانا سلفی کو حاصل ہوئی وہ بہت کم لوگوں کو میسر آتی ہے مختصر وقت میں وہ اپنے حصہ کا بڑا کام کرگئے۔
ما و مجنوں ہم سبق بودیم در دیوان عشق
او بصحرا رفت و ما در کوچہ ہا رسوا شدیم
خوبصورت تحریر کے ساتھ آپ ایک اچھے ناصح،واعظ اور خطیب بھی تھے آپ بہت خلیق اور ملنسار آدمی تھے ان کے دوستوں اور جاننے والوں کا حلقہ بہت وسیع تھا بالخصوص پنجاب اور باب الاسلام سندھ کے علماء عظام سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے وہ جہاں کراچی میں مولانا عبید اللہ سلفی ا ور مولانا عبد العظیم حسن زئی سے باقاعدہ رابطہ رکھتے جماعت غرباء اہل حدیث کے زعماء کو یاد رکھتے وہاں پر اندرون سندھ فضیلۃ الشیخ افتخار احمد الازہری، عبد الحمید گوندل موالنا محمد خان محمد اور ناچیز راقم الحروف کو بھی ہمیشہ یاد کرتے رہتے تھے ۔
یاد نہیں ہم کو بھی رنگارنگ نرم آرائیاں
لیکن اب نقش ونگار طاق نسیاں ہوگئیں
آئے دل برصغیر کے بلند پایہ جماعتی جرائد میں ان کے رشحات قلم مستقل زینت بن گر بُوئے گُل کی طرح دولت شہرت سے ادب وصحافت کا دُبستان آباد کئے نظر آتے تھےوہ مختصر وقت میں سات سے زائد سوانحی علمی اور تاریخی کتب کے مصنف ومؤلف بن چکے تھے سیکڑوں کی تعداد میں ان کےباوقار مضامین معیاری جرائد ورسائل کی زینت بن چکے ہیں بقول ملک عبد الرشید عراقی حفظہ اللہ تعالیٰ مولانا سلفی تحریر ونگارش میں مولانا محمداسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی شخصیت سے بہت متأثر تھے اور ان کے عمل وفضل، اخلاص وللہیت ، اخلاق وکردار اور اُن کی علمی خدمات کے معترف اور اُن سے گہرے دوستانہ مراسم کئے اور مولانا بھٹی نے اپنی کتب، کاروان سلفی، حیات صوفی عبد اللہ ، قافلہ حدیث اور چمنستان حدیث میں تفصیل سے مرحوم کا تذکرہ فرمایا ہے۔
دراصل اُن کی باوقار تحریر کی خوشبو ہر سوپھیل چکی تھی چونکہ
عطر آں است کہ خود بیوید نہ کہ عطّار بگوید
نام ونسب : مولانا محمد رمضان یوسف سلفی رحمہ اللہ 4دسمبر 1967ء پیر کے روز بمقام فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں ’’پکی پنڈوری‘‘ چک نمبر RB267آلابی میں مرحوم محمد یوسف جیسے صُوفی منش، سادہ دل ، شریف النفس کے گھر میں پیدا ہوئے ان کے دادا مرحوم کا اسم گرامی ’’منشی‘‘ تھا ، مولانا سلفی چھ بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھے۔ سلفی صاحب کے آباء واجداد ماضی کے لحاظ سے مشرقی پنجاب، ضلع ہوشیار پور بھارت کے گاؤں’’میانی پٹھانوں‘‘ والی کے مکین تھے ان کے والد ماجد کا 1979ء میں ایسے وقت پر انتقال ہوا جب مولانا سلفی صرف بارہ برس کے تھے اور وہ ابتدائی پرائمری تعلیم اپنے گاؤں کے اسکول سے حاصل کرچکے تھے اب آپ کے نازک کاندھوں پر پورے گھر کی ذمہ داریاں آن پڑیں۔ اُن کے خاندان نے 1978ء کو نقل مکانی کرکے فیصل آباد میں آکر مستقل سکونت اختیار کی ، جہاں آپ نے ایم۔ سی ہائی سکول سمن آباد میں داخلہ لے کر آگے پڑھنے کی کوشش کی مگر مختصر وقت کے بعد خاندان کی ذمہ داریوں کے باعث آپ آگے تعلیم جاری نہ رکھ سکے جس کا انہیں ہمیشہ ملال رہا، آپ نے ابتدائی اسلامی تعلیمات اپنے گاؤں کے پیش امام مولانا عماد الدین سے حاصل کی جس کے بعد پھر فیصل آباد میں آکر محمدی مسجد اہل حدیث نثار کالونی کے قاری منیر احمد سعید اور قاری احمد نواز صابر سے ناظرہ قرآن عظیم پڑھاجس کے بعد اسی مسجد کے خطیب مولانا حکیم ثناء اللہ ثاقب سے قرآن عظیم کا ترجمۃ القرآن پڑھنے کی سعادت حاصل کی جس کے ساتھ آپ نے ان کے فاضلانہ دروس بخاری سے خوب استفادہ کیا اس کے ساتھ حدیث کی مشہور کتاب مشکوٰۃ المصابیح سے بھی آپ نے بے حد علمی استفادہ کیا۔

جماعت اہل حدیث سے وابستگی :

مولانا سلفی کی مسلک اہل حدیث سے وابستگی میں ان کے ماموں جان مرحوم مولوی محمد شریف(متوفی 2005ء)کی خصوصی توجہ ،انہماک، تعلیم وتربیت کا بڑا حصہ تھا اس کے علاوہ ان کے اپنے وسیع مطالعہ، مشاہدہ کے اشتیاق میں مولانا حکیم ثناء اللہ ثاقب، مولانا عبد الجبار سلفی ، مولانا عبد القادر روپڑی، مولانا ارشاد الحق اثری اور قاری احمد نواز صابر جیسے اصحاب علم وعمل کی بابرکت مجالس اورتحریروں، تقریروں نے بھی سونے پے سھاگے کا کام کیا، جس کے نتیجہ میں آپ نے باقاعدہ مسلک اہلحدیث اختیار کیا۔ ان کی کم عمری ہی میں والد محترم کا سایہ سر سے اُٹھ جانے کے باعث آپ نے معاشی لحاظ سے شدید مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے، فٹ بُلٹ بنانے کے کارخانے اور پھر اُونی مفلر بنانے کی فیکٹری میں اٹھارہ برس تک محنت ومزدوری کی غربت کا اس قدر مردانہ وار مقابلہ کیا کہ فیصل آباد میں بجلیکا میٹر تک خریدنے کی طاقت نہ ہونے کے باعث آپ نے دن کو محنت ومزدوری کے بعد رات کو لالٹین پر اپنی تعلیمی مصروفیات جاری رکھیںایسے پُر آشوب حالات میں آپ نے 1988ء میں قرآن عظیم کے ناظرہ امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل اور حسن اتفاق سے انہیں انعام میں بھی’’صلوۃ الرسول‘‘ مولانا محمد صادق سیالکوٹی رحمہ اللہ کی نادر روزگار کتاب تحفہ میں ملی جس کے مطالعہ سے ان کے ذہن میں اتباع الرسول ﷺ کی اہمیت مزید واضح ہوگئی اسی کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے آپ نے پہلا جامعہ اور جاندار مضمون بعنوان ’’فرضیت الصلوٰۃ‘‘ تحریر کیا جو ان کے پہلے مضمون کی حیثیت میں مؤقر صحیفہ اہل حدیث کراچی میں 1991ء کو شائع ہوا جس کے بعد آپ میں لکھنے پڑھنے کی دلچسپی مزید بڑھ گئی پھر ایسا وقت بھی تاکہ آپ ایک بہترین مصنف اورمؤلف ٹھہرے ان کی تحریریں تمام جماعتی جرائد کی زینت بنتی گئیں۔

تصنیفی خدمات :

آپ نے مختلف موضوعات پر سیکٹروں مضامین لکھے جو باقاعدہ مؤقر’’صحیفہ اہل حدیث کراچی۔ الاعتصام لاہور۔ ترجمان السنۃ لاہور۔ صدائے ہوش فیصل آباد۔ ترجمان الحدیث فیصل آباد۔ ہفت روزہ اہل حدیث لاہور۔تنظیم اہل حدیث لاہور ۔ الاخوۃ لاہور۔ دعوت اہل حدیث حیدرآباد سندھ۔ المنبر فیصل آباد۔ الواقعہ کراچی ۔الحرمین جہلم۔حدیبیہ کراچی۔ماہنامہ اسوئہ حسنہ کراچی۔تفہیم الاسلام احمد پور شرقیہ۔ترجمان دہلی۔ نوائے اسلام دہلی۔صراط مستقیم برمنگہم کے علاوہ روز نامہ پاکستان اور روزنامہ ایکسپریس میں بھی ان کے رشحات قلم باقاعدہ شائع ہوتے رہے۔ ان کے علاوہ ان کی حسب ذیل کتب باقاعدہ شائع ہوکر قارئین کرام سے داد تحسین حاصل کرکے مقبول عام بن گئیں۔
1۔ مولانا عبد الوہاب دہلوی اور ان کا خاندان
2۔ اللہ تعالیٰ کے چار اولیاء
3۔ مؤرخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی۔حیات وخدمات
4۔ پیکر اخلاص مولانا محمد ادریس ہاشمی رحمہ اللہ
5۔ عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ میں علماء اہل حدیث کی خدمات
6۔ منشی رام عبد الواحد کیسے بنے؟
7۔ فاتح قادیان مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری حیات وخدمات
ان کے علاوہ ان کی چند کتب ابھی اشاعت کی منتظر تھیں مزید یہ کہ ان کے متعدد مضامین ومقالات کثیر تعداد میں اپنے پیچھے یادگار چھوڑے ہیں ۔
اولاد:
آپ نے 2 اپریل 2001ء میں شادی کی مولانا محمد رمضان سلفی رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے اور دو بیٹیاں عطا فرمائیںبڑے بیٹے کا نام ابو بکر چھوٹے بیٹے کا نام عبد اللہ ہے ان کی سب سے بڑی دختر کا نام حِراء ہے اللہ تعالیٰ ان کے پس ماندگان کی حفاظت کرے اور صبرجمیل کی توفیق بخشے۔ آمین
مولانا محمد رمضان یوسف سلفی اہل علم واہل قلم کی نظر میں :
ذہبی دوران مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ (متوفی ۲۰۱۵) مولانا محمد رمضان سلفی کے متعلق تحریر فرماتے ہیں، کہ مولانا محمد رمضان یوسف سلفی میانہ قد، مناسب خدوخال ، خوش اخلاق، خوش اطوار مہمان نواز ، اہل علم کے قدر دان ہم ذوق لو گو|ں سے میل ملاقات رکھنے والے سادہ مگر صاف ستھرا پہناوا، پڑھنے لکھنے کے شائق انہوں نے مختلف عنوانات پر کم وبیش ڈیڑھ سو مضامین لکھے جن میں سیرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے چند پہلو، شان ابو بکر صدیق،جمال مصطفیٰ ﷺ،فضائل عشرہ ذی الحج، سیرت النبی ﷺ کے چند پہلو، لباس خضر میں رہزق(سفرنامہ حرمین شریفین، فتاوی علماء اہل حدیث کی تاریخ) وغیرہ شامل ہیں ان کے علاوہ ایک سو کے قریب علماء کرام کے تراجم سپرد قلم کیئے۔آگے مولانا بھٹی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ
الله تعالیٰ کے رنگ دیکھئے! ایک غریب گھرانہ سے غربت کی حالت میں محمد رمضان سلفی کی زندگی کا آغاز ہوا ایک کارخانے میں (اٹھارہ برس) تک آتش وآہن سے تعلق رہا نٹ بُلٹ بناتے رہے ہورزی میں اُونی مفلر تیار کرنے کاکام کے دوران میں رفتہ رفتہ کچھ تعلیم حاصل کی اور قلم وقرطاس سے رابطہ قائم کرلیا اور مقالہ نگار ومصنف کے طور پر شہرت پائی اللہ انہیں خوش رکھے اور دین اسلام کی زیادہ سے زیادہ خدمت کے مواقع فراہم کرے آپ کا تعلق (تنظیمی لحاظ سے) جماعت غرباء اہل حدیث سے ہے۔ ( 20اپریل 2013ء چمنستان حدیث ، ص:765)
جناب سلفی صاحب کے متعلق پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’محترم مولانا محمد رمضان یوسف سلفی حفظہ اللہ تعالیٰ ایک معروف نوجوان ، عالم دین، مقبول قلم کار، اعلیٰ اخلاق کے مجسمہ ہیں اصحاب علم وقرطاس ان سے بخوبی واقف ہیں آں محترم مختلف علمی، تحقیقی اور اصلاحی موضوعات پر خاکہ فرسائی کرتے رہتے ہیں بالخصوص بزرگ علمی شخصیات کی سیرت وسوانح لکھتے ہیں انہیں قدرت کی طرف سے ملکہ ودیعت کیاگیا ہے۔(مولانا ثناء اللہ امرتسری ص 9)
جناب پروفیسر مسعود الرحمن صاحب مزید لکھتے ہیں کہ
الحمد للہ میرے پیارے دوست ہم پیالہ وہم نوالہ مولانا محمد رمضان یوسف سلفی نے مولانا ثناء اللہ امرتسری (متوفی 15 مارچ 1948ء) کی باغ وبہار شخصیت پر قلم اٹھایا اور عقیدت کے پھول نچھاور کردیئے آج سے بہت عرصہ پہلے جب میری پہلی ملاقات (جولائی 1990ء) مولانا سلفی سے ہوئی تو وہ پہلے ہی مولانا ثناء اللہ امرتسری کی محبت وعقیدت سے سرشار تھے ۔(مولانا ثناء اللہ امرتسری ص 12)
محترم ضیاء اللہ کھوکھر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ
مولانا سلفی کے ماہنامہ ترجمان الحدیث میں مولانا ثناء اللہ امرتسری کی سیرت وخدمات پر خوبصورت مربوط، رواں تحریر شائع ہوئی بلاشبہ یہ مضمون افادیت کے لحاظ سے کتابی صورت میں منظر عام پر لانے کے لائق ہے۔
(ابتدائیہ مولانا ثناء اللہ امرتسری )
فاضل نوجوان مولانا عبد العظیم صاحب حسن زئی مدیر مؤقر صحیفہ اہل حدیث کراچی تحریر کرتے ہیں کہ
رمضان یوسف سلفی نے کم عرصہ میں جتنا تحریری اور تصنیفی کام کیا ہے یہ ہر لحاظ سے دادتحسین وتعریف کے لائق ہے(ان کے حق میں) ان کی والدہ محترمہ کی دعائیں (جو کہ کچھ عرصہ قبل انتقال فرماگئیں) مولانا عبد الرحمن سلفی مدظلہ العالی کا دست شفقت اور حوصلہ افزائی، اپنی ذات میں لگن ، محنت مطالع کے شوق نے انہیں تحریر کی ایسی صلاحیت مہیا کردی ہے کہ آج بحمد للہ جماعت اہل حدیث کے معتبر مؤلفین اور ملک کے نامور اہل قلم میں شمار ہوتے ہیں ۔ ( مولانا محمد ادریس ہاشمی ص 13)
مولانا محمد زاہد الہاشمی الازہری صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ
مولانا محمد رمضان سلفی اپنے مخصوص اسلوب نگارش کی بناء پر علمی،دینی اور تعلیمی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں آپ انتہائی مخلص ،مشفق اور محنتی انسان ہیں کام کی لگن اور دلچسپی آپ کی شخصیت کا خاصہ ہے ۔(مولانا محمد ادریس ہاشمی ص:12)
محترم عبد الرشید صاحب عراقی ختم نبوت اور علمائے اہل حدیث کی مثالی خدمات میں لکھتے ہیں کہ
مولانا محمد رمضان یوسف سلفی جماعت اہل حدیث پاکستان کے معروف قلمکار ہیں ان کے مضامین ومقالات مختلف موضوعات پر ملک کے مؤقر رسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں اُ ن مضامین ومقالات سے سلفی صاحب کے بتحر علمی، ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کا اندازہ ہوتاہے۔ محترم مولانا عراقی صاحب ، مولانا عبد الوہاب محدث دہلوی اور اُن کا خاندان کے صفحہ 15 پر مزید تحریر فرماتے ہیں کہ سلفی صاحب بڑے با ادب ، با اخلاق ، مہمان نواز، منکسر المزاج اور سادہ طبیعت کے انسان ہیں علمائے اہل حدیث سے بے پناہ عقیدت ولگاؤ رکھتے ہیں ۔ مولانا عبد الرحمن سلفی حفظہ اللہ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ
مولانا محمد رمضان یوسف سلفی ہماری جماعت کے مشہور اور معروف لکھنے والے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کو تحریر وتصنیف کی صلاحیتوں سے خوب نوازا ہے ، اُن کے علمی ، ادبی اور اصلاحی مضامین پاک وہند کے اکثر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ ( مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی ص : 16)
محترم مولانا بشیر احمد انصاری تحریر فرماتے ہیں کہ
’’ہمارے فاضل دوست مولانا محمد رمضان یوسف سلفی اہل حدیث کے ممتاز اہل قلم، سنجیدہ، فکر صحافی،صاحب مطالعہ اچھے مقالہ نویس اور معروف شخصیت نگار ہیں ایک عرصہ سے ان کے مضامین ملک وبیرون ملک مؤقر رسائل وجرائد کی زینت بن رہے ہیں ۔ ( مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی ص : 20)
مولانا محمد اسحاق بھٹی کو اُن سے اس قدر محبت، یگانگت تھی کہ جس وقت ان کو اپنی مطبوعہ کتاب قصوی خاندان بطور تحفہ عنایت کی تو مولانا بھٹی رحمہ اللہ نے ابتدائی سادہ صفحہ پر ان کو ان الفاظ سے یادفرمایا ’’عزیز القدر محمد رمضان سلفی کا شوق مطالعہ ، اسلوب نگار اور بزرگان دین سے پُر خلوص محبت ان کے اوصاف حمیدہ ہیں جو ان کے بہتر مستقبل کے آئینہ دار ہیں ہماری عاجزانہ دعا ہے کہ اللہ ان کا حامی وناصر ہو۔ ( محمد اسحاق بھٹی 6۔4۔1999)
آہ ۔۔۔
ایک ایک کرکے سب تنکے
ہوئے منتشر آشیانے کے
بلاشبہ برصغیر کے علمائے اہل حدیث کی خدمات جلیلہ کے حوالے سے ذہبی دوراں مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی خدمات اپنی مثال آپ تھیں لیکن ان کے معتمد قابل فخر تلمیذ رشید مولانا سلفی نے انہی کے اسلوب نگارش کو آگے بڑھاتے ہوئے جو خدمات جلیلہ سرانجام دیں وہ بھی ناقابل فراموش تھیں، لیکن ان کے اس قدر جلد بچھڑ جانے سے جماعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہےآپ عرصہ سے شوگر،گردہ اور دیگر امراض کے مریض تھے مگر بظاہر چہرے سے مریض نہ لگتے تھے وہ بڑی محنت اور جانفشانی سے اپنے بچوں کی روزی کماتے تھے۔ باقی جو بھی وقت ملتا تھا بالخصوص صلوٰۃ الفجر سے آٹھ بجے تک اس میں لکھنا ،پڑھنا ان کی زندگی کا جز بن گیا تھا آپ انتہائی متواضع، سلجھا ہوا ذہن رکھتے تھے ان کو ویسے تو جملہ علماء سلف مگر خصوصاً جماعت غرباء اہل حدیث کے سلفی علماء کرام، مولانا محمد اسحاق بھٹی، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولانا عبد اللہ گورداس پوری اور ان کے خانوادہ کو ہمیشہ اپنا روحانی استاد مانتے تھے۔
فکر معاش،عشق بتاں ، یادرفتگان
اتنی سی عمر میں کوئی کیا کیا کیا کرے
جب اچانک مولانا سلفی کے سانحہ ارتحال کی خبر برادم مکرم مولانا محمد خان محمدی صاحب نے فون پر دی تو آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا،احساسات وجذبات پر ایک سکتہ طاری ہوگیا دراصل گزشتہ ایام ہمارے لیے ایام الحزن کی حیثیت میں گزرے۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی، مولانا محمد ادریس سلفی، مولاناعبد المجید ازہر،مولانا عبد العزیز حنیف، مولانا بشیر احمد سیالکوٹی اور اب تازہ مولانا محمد رمضان یوسف سلفی مرحوم ومغفور کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔
درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے
میں نے سلفی صاحب کو دیرینہ اخوۃ اسلامی کے گھر سے تعلقات کے تحت ان کی بلند ظرفی،بے غرضی،وسیع القلبی، معاملہ فہمی، خودداری، نیک نیتی جیسے اوصاف کریمہ سے متصف پایا بے انتہا خوبیوں کے مالک تھے۔
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
علالت کے آخری ایام میں ان سے وقفے،وقفے سے فون پر رابطہ ہوا کرتا تھا ، ان کی گفتگو کا محور میری زیر طبع کتاب تذکرہ مشاہیر سندھ ہوا کرتی تھی جو ان کو بہت پسند تھی چونکہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ اور مولانا سلفی نے ابتداء میں اپنے تاثرات بھی تحریر فرمائے تھےلیکن افسوس یہ دونوں بزرگ یہ کتاب دیکھ نہ پائے انسان کتنا کمزور ہے
یہ زندگی زندگی نہ سمجھ کہ زندگی سے مراد ہیں
وہ عمر رفتہ کی چند گھڑیاں جو ان کی محبت میں کٹ گئیں
بلاشبہ مرحوم کی شخصیت مادی وسائل کی کمی کے باوجود،عزم ہمت،مقصد سے لگن کے جذبے سے سرشار تھی آپ خوش اخلاق، خوش گفتار ، اعلی کردار، شگفتہ مزاج اخلاص کی دولت سے مالا مال تھے بلاشبہ علمائے کرام مشاہیر عظام کی روزانہ داغ مفارقت کی خبریں سن کر بھی کوئی ہم جیسا غافل انسان عبرت نہ پکڑے اور اپنی عاقبت کا فکر نہ کرے تو ایسے عقل ودانش پر اللہ تعالیٰ ہزار بار استغفار
ہم نے دنیا کی ہر چیز کو بدلتے دیکھا
پر مقدر کے نوشتہ کو نہ ٹلتے دیکھا
بہر حال مولانا سلفی بات چیت میں انتہائی سادہ دل اور سنجیدہ ، فہمیدہ قول وعمل کے اعتبار سے دیندار، حقوق اللہ وحقوق العباد ادا کرنے میں مخلص ومستعد، زبان میں بَلا کی مٹھاس لیکن موت قدرت کا اٹل قانون ہے ۔ جہاں عقل وخرد، فہم وبصیرت کی کوئی گنجائش نہیں اس آب وگل سے ایک دن سب کی جدائی یقینی ہے مگر مرحوم سلفی صاحب کی جدائی ہم ایک مخلص ساتھی سے ہمیشہ محروم ہوگئے۔ فیصل آباد کا مکتبہ رحمانیہ امین پور مارکیٹ کی رنگینی اور رونق جاتی رہی ، دوستی،ملنساری، تواضع ومیزبانی کی روشن روایات کا باب ہمیشہ بند ہوگیا۔

وكُنَّا كَنَدْمَانَيْ جَذِيمةَ حِقْبَةً
مِنَ الدَّهْرِ حَتَّى قِيلَ لَنْ يَتَصَدَّعَا

اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو اپنی رحمت کی شبنم سے پُر بہار رکھے اور ان کی اولاد کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اس گھر پر اپنی عنایات بے پایاں کا نزول کرے تاکہ ان کی تعلیم وتربیت اعمال صالحہ میں کوئی کمی نہ آسکے آخرت کی منازل مرحوم پر آسان کرے ۔
آدمی بُلبُلا ہے پانی کا     کیا بھروسہ زندگانی کا
یہ شہر تیں ، ناموریاں،سیم وزر اسی جہاںفانی میں رہ جائے گا ساتھ جو چیز جاتی ہے وہ ہے اخلاص اور عمل صالحہ یہ زاد راہ اور توشۂ منزل ہے آؤ اس یقینی منزل کے لیے ہم بھی کچھ کرکے جائیں ۔ والعاقبۃ للمتقین
اللہ تعالیٰ مرحوم سلفی پر اپنی رحمتیں نازل کرے ان کی مغفرت کرے اور جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حاصل یہ زندگانی کا ہم کو ملا شميم
دنیا سے چل بسے غم عقبیٰ لیے ہوئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے