پچیسواں اصول:

وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیَاتِ اِلاَّ تَخْوِیْفًا(الإسراء:59)

’’ہم نشانیوں کو صرف ڈرانے کی خاطر بھیجتے ہیں۔‘‘
معاشروں اور امتوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں اللہ تعالیٰ کے دستور کو سمجھنے میں اِس اصول سے راہنمائی لی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جو آیات بھیجتا ہے اُن سے مراد کیا ہے‘ اِس کی وضاحت میں علماء تفسیر کی عبارتیں مختلف ہیں :
ایک مفسر کی رائے ہے کہ اس سے مراد وہ موت ہے جوکسی وباء یا مرض کی وجہ سے وبائی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ دوسرے مفسر کی رائے ہے کہ اس سے مراد رسولوں کے وہ معجزے ہیں جو اللہ تعالیٰ جھٹلانے والوں کو ڈرانے کی خاطر بھیجا کرتا ہے۔ تیسرے مفسر کی رائے ہے کہ اس سے مراد وہ سزائیں ہیں جو گناہوں سے ڈرانے کے لیے آتی ہیں۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ چاند یا سورج گرہن کی احادیث پر باب باندھتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہ باب اس روایت کے بارے میں ہے جو خبر دے رہی ہے کہ چاند /سورج کا گرہن اللہ کی طرف سے بندوں کو ڈرانے کے لیے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلاَّ تَخْوِیْفًا (الإسراء:59)

’’ہم نشانیوں کو صرف ڈرانے کی خاطر بھیجتے ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا مختلف الفاظ پرمشتمل عبارتوں سے پتا چلتا ہے کہ ِان کو کسی ایک شکل میں محصور کردینا ممکن نہیں ہے۔ اور سلف صالحین رحمہم اللہ نے جو ذکر کیا ہے وہ ان آیات کی مثالیں ہیں‘ اُن کی مراد اِن آیات کو کسی ایک شکل میں محصور کرنے کی نہیں تھی ۔اس قسم کے مواقع پر جب سلف صالحین تعبیر کرتے ہیں تو ان کا یہی طریقہ ہوتا ہے ۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ یہاں پر ہر مؤمن مرد اور مؤمن عورت اس حکمت پر بہت زیادہ غور کرے جس کی خاطر یہ نشانیاں بھیجی جاتی ہیں‘ اور وہ ہے ڈرانا اور متنبہ کرنا‘ تاکہ ہر انسان ہر وقت اس ڈر اور خوف میں مبتلارہے کہ کہیں یہ سزا اُس پر نہ آجائے۔
ا س قرآنی اصول

{وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلاَّ تَخْوِیْفًا}

’’ہم نشانیوں کو صرف ڈرانے کی خاطر بھیجتے ہیں‘‘۔ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ: ’’جس نشانی کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ چاہتا ہے لوگوں کو ڈراتا ہے ‘شاید کہ وہ عبرت حاصل کر لیں یا نصیحت پکڑ لیںیاگناہوں سے باز آجائیں۔ ہمیں پتا چلا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے زمانے میںکوفہ میں زلزلہ آگیا تو آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں خبردار کر رہا
ہے‘ لہٰذا تم اُسے راضی کر لو ۔‘‘
امام ابن شیبہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’مصنف‘‘ میں روایت کیا ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس قدر شدید زلزلہ آیا کہ چارپائیاں آپس میں ٹکرا گئیں ‘ادھر سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نماز پڑھ رہے تھے اور انہیں احساس بھی نہ ہوا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور فرمایا: ’’اگر زلزلہ دوبارہ آیا تو میں تمہیں چھوڑ کر یہاں سے چلا جاؤں گا۔‘‘
اس آیت کریمہ کے معنیٰ کی تفسیر میں سلف صالحین کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ آیاتِ ربانی بھیجنے کا سب سے بڑاسبب لوگوں کو ڈرانا ہوتاہے اور ان گناہوں اور غلطیوں کے انجام سے خوف دلانا ہوتا ہے جووہ کر رہے ہیں‘ تاکہ وہ اپنے اُس رب کی طرف پلٹ آئیں جس نے ان کی طرف یہ نشانیاں اور ڈرانے کی چیزیں بھیجی ہیں۔ اگر پھر بھی وہ نہ پلٹیں تو یہ دل کی سختی کی علامت ہے۔ (اللہ کی پناہ!)
اس آیت ِ کریمہ میں بیان ہونے والا مفہوم قرآنی اصول کی خوب وضاحت کر رہا ہے اور یہ معنیٰ بہت ہی واضح ہےلیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ کچھ رسالوں میں لکھنے والے یا بعض ٹی وی چینلزپر گفتگو کرنے والے حضرات قرآنی اصولوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان واضح شرعی مفاہیم کو بے وزن سمجھتے ہیں‘ اور اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ اِن زلزلوں ‘سیلابوں ‘تیز آندھیوں اور اِس قسم کی بڑی بڑی نشانیوں کو محض مادّی اسباب سے جوڑ دیں‘ اور یہ بہت ہی بڑی غلطی ہے۔
ہم اس بات کا انکار نہیں کر سکتے کہ زمین میں زلزلہ کے بہت سارے معروف ارضیاتی (Geological) اسباب ہوا کرتے ہیں ‘ سیلاب کے بھی اسباب ہوا کرتے ہیں ‘ طوفانوں کے بھی اسباب ہیں ‘ لیکن ایک سوال خود بخود پیدا ہوتا ہے کہ کس ذات نے زمین کو حکم دیا کہ اب تو حرکت میں آجا؟ اور کس ذات نے پانی کو اجازت دی کہ تو فلاں علاقے میں عام عادت سے زیادہ برس جا؟ اور کس نے ہواؤں کو حکم دیا کہ تو اس قدر شدید ہو جاؤ ؟ کیا یہ حکم دینے والی ذات اللہ کی نہیں ہے؟ کیا جس ذات نے یہ آیات بھیجی ہیں وہ بندوں سے یہ نہیں چاہتا کہ بندے اپنے رب کے سامنے عاجزی کریں اور گڑگڑائیںاور اس کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کریں تاکہ وہ ذات ان سے ان پریشانیوں کو دور کر دے؟
ان لوگوں کو علم ہے یا نہیں ‘ وہ ارادۃً ایسا کر رہے ہیں یا بے ارادہ ہو رہا ہے‘ یہ لوگ جو اِن آیات کی حقیقت کو معمولی سمجھتے ہیں‘ جو اس قسم کی بے روح مادّی تعبیریں کر رہے ہیں‘ وہ بخاری ومسلم میں بیان ہونے والی روایات کوکیا مقام دیں گے جن میں اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب تیز آندھی چلتی تو نبی اکرم ﷺ فرماتے:

اَللّٰھُمَّ اَسْأَلُكَ خَیْرَھَا وَخَیْرَ مَا فِیْھَا وَخَیْرَ مَا اَرْسَلْتَ بِہِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّمَا فِیْھَا وَشَرِّ مَا اَرْسَلْتَ بِہِ (صحیح مسلم‘ :899)

’’اے اللہ !میں اس کی بھلائی کا سوالی ہوں اور جو خیر اس میں ہے اس کا بھی سوالی ہوں اور اس کے ساتھ جو خیر تو بھیج رہا ہے اس کا بھی سوالی ہوں‘ اور اس کے شر سے میں تیری پناہ میں آتا ہوں‘ اور جو شر اس کے اندر ہے اس سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں اور اس کے ساتھ جو شرتو بھیج رہا ہے اس سے بھی تیری پناہ میں آتا ہوں۔‘‘
اور جب آسمان ابر آلود ہو جاتا‘ اس میں بادل ہوتے‘ بجلی کی گرج چمک ہوتی‘ یہ گمان ہوتا کہ بارش ہونے والی ہے‘ تو آپ ﷺ کے چہرۂ انور کا رنگ بدل جاتا‘ آپﷺ بار بار گھر میں آتے جاتے‘ اِدھر اُدھر گھومتے۔ جب بارش شروع ہو جاتی تو آپﷺ کا چہرہ کھل اُٹھتا۔ آپؐ کے چہرۂ انورپر یہ کیفیت بہت واضح ہوتی‘ تو میں پہچان جاتی۔ سیدہ عائشہرضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں‘ میں نے آپ ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا توآپ ﷺنے فرمایا: ’’اے عائشہ ! یہ صورت (عذاب کی) بھی ہو سکتی ہے جیسے قومِ عاد نے کہا تھا:

فَلَمَّا رَاَوْہُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِھِمْ قَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا (الاحقاف:24)

’’پھر جب انہوں نے عذاب کو بصورتِ بادل دیکھا اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے تو کہنے لگے یہ ابر ہمارے اوپر برسنے والاہے۔‘‘
قوم ِ نوح کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے حوالے سے یہ لوگ کیا جواب دیںگے ؟

مِمَّا خَطِیْٓئٰتِہِمْ اُغْرِقُوا فَاُدْخِلُوْا نَارًا فَلَمْ یَجِدُوْا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْصَارًا (نوح25)

’’یہ لوگ بہ سبب اپنے گناہوں کے ڈبو دیے گئے اور جہنم میں پہنچا دیے گئے اور اللہ کے سوا اپنا کوئی مدد گار انہوں نے نہ پایا۔‘‘
بعض لوگوں کی طرف سے اعتراض:
کچھ ملکوں میں اُن ملکوں سے زیادہ گناہ ہوتے ہیں جن میں زلزلہ آیا ‘ اور کچھ ملکوں میں ان ملکوں سے زیادہ فسق وفجور کے کام ہوتے ہیں جن میں طوفان آئے (پھر ایسا کیوں ہے؟) اصلاً تو اس قسم کے اعتراضات کرنا ہی صحیح نہیں ہے ‘کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ‘ اس کے کاموں‘ اُس کے فیصلوں اور اُس کی تقدیر پر اعتراض کرنے والی بات ہے۔ اس لیے کہ ہمارا رب جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے اور جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے‘ اور اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ بر حق ہوتا ہے اور جو کچھ وہ کرتا ہے اس کے بارے میں کسی کو اختیار نہیں کہ وہ پوچھے۔ اس کے ہر کام میں اُس کی عظیم حکمت ہوتی ہے اور اُس کا علم بھی انتہائی کامل ہے ‘اور ان آزمائشوں کے پیچھے حکمتیں اور اسرار ہوتے ہیں۔ ہماری عقلیں تو ان کوسمجھ ہی نہیں سکتیںکجا یہ کہ ان کی حقیقت تک پہنچ سکیں۔
۔۔۔جاری ہے۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے